Al-Qurtubi - Al-Baqara : 185
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِ١ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ١ؕ وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ١ؕ یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ١٘ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
شَهْرُ : مہینہ رَمَضَانَ : رمضان الَّذِيْٓ : جس اُنْزِلَ : نازل کیا گیا فِيْهِ : اس میں الْقُرْاٰنُ : قرآن ھُدًى : ہدایت لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَ بَيِّنٰتٍ : اور روشن دلیلیں مِّنَ : سے الْهُدٰى : ہدایت وَالْفُرْقَانِ : اور فرقان فَمَنْ : پس جو شَهِدَ : پائے مِنْكُمُ : تم میں سے الشَّهْرَ : مہینہ فَلْيَصُمْهُ : چاہیے کہ روزے رکھے وَمَنْ : اور جو كَانَ : ہو مَرِيْضًا : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر سَفَرٍ : سفر فَعِدَّةٌ : تو گنتی پوری کرے مِّنْ : سے اَيَّامٍ اُخَرَ : بعد کے دن يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ بِكُمُ : تمہارے لیے الْيُسْرَ : آسانی وَلَا يُرِيْدُ : اور نہیں چاہتا بِكُمُ : تمہارے لیے الْعُسْرَ : تنگی وَلِتُكْمِلُوا : اور تاکہ تم پوری کرو الْعِدَّةَ : گنتی وَلِتُكَبِّرُوا : اور اگر تم بڑائی کرو اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا ھَدٰىكُمْ : جو تمہیں ہدایت دی وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر کرو
(روزوں کا مہینہ) رمضان کا مہینہ (ہے) جس میں قرآن (اول اول) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور جو (حق وباطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو چاہئے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (رکھ کر) ان کا شمار پورا کرلے۔ خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا۔ اور (یہ آسانی کا حکم) اس لیے (دیا گیا ہے) کہ تم روزوں کا شمار پورا کرلو اور اس احسان کے بدلے کہ خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کرو اور اس کا شکر کرو
آیت نمبر 185 اس میں اکیس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : شھر رمضان اہل تاریخ نے کہا : سب سے پہلے رمضان کا روزہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے رکھا جب وہ کشتی سے باہر نکلے تھے۔ مجاہد کا قول پہلے گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر امت پر رمضان فرض کیا تھا اور یہ معلوم ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے پہلے بھی امتیں تھیں۔ واللہ اعلم۔ الشھریہ الاشھار سے مشتق ہے کیونکہ یہ مشہور ہوتا ہے کسی پر اس کا علم مشکل نہیں ہوتا جو اس کا علم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اسی سے کہا جاتا ہے : شھرت السیف (جب کوئی تلوار سونت لے) رمضان رمض الصائم یرمض سے مشتق ہے۔ جس کا معنی ہے : شدت پیاس کی وجہ سے روزہ دار کا پیٹ گرم ہوگیا۔ الرمضاء (ممدودۃ) سخت گرمی کہتے ہیں۔ اس سے حدیث ہے : صلاۃ الاوبین اذا رمضت الفصال۔ اوابین کی نماز اس وقت ہے جب گرمی سے پاؤں جلنے لگے جائیں۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ رمض الفصال کا مطلب ہے : گرمی اونٹوں کے پاؤں جلادے اور وہ گرمی کی وجہ سے بیٹھ جائیں۔ رمضان گرمی واقع ہوا۔ یہ رمضاء سے ماخوذ ہے جو ہری نے کہا : شھر رمضان اس کی جمع رمضانات اور ارمضاء آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لوگوں نے مہینوں کے اسماء لغت قدیمہ سے نقل کئے ہیں اور انہوں نے ان کے نام اس زمانہ کے ساتھ رکھے جس میں وہ مہینہ واقع ہوا۔ یہ مہینہ شدید گرمی میں واقع ہوا تو اس وجہ سے اس کا نام رمضان رکھا گیا۔ بعض علماء نے فرمایا : رمضان کو رمضان اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔ یعنی اعمال صالحہ کے ساتھ گناہوں کو جلا دیتا ہے یہ الارماض سے ہے جس کا معنی جلانا ہے۔ اس سے رمضت قدمہ ہے۔ یہ الرمضاء سے ہے یعنی اس کا پاؤں جل گیا۔ ارمضتنی الرمضاء یعنی گرمی نے مجھے جلا دیا۔ اسی سے کہا جاتا ہے ارمضنی الامر۔ معاملہ نے مجھے جلا دیا۔ بعض علماء نے فرمایا : اس مہینہ میں دل موعظت اور آخرت کے امر میں فکر کی حرارت حاصل کرتے ہیں جس طرح ریت اور پتھر سورج کی گرمی حاصل کرتے ہیں۔ الرمضاء۔ گرم پتھر۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ رمضت النصل ارمضہ وارمضہ رمضا سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے دو پتھروں کے درمیان تیر کے بھالے کو کوٹنا تاکہ باریک ہوجائے۔ اسی سے نصل رمیض ومرموض ہے۔ یہ ابن السکیت سے مروی ہے۔ رمضان کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ رمضان میں اپنے ہتھیاروں کو تیز کرتے تھے تاکہ ان کے ساتھ حرمت والے مہینوں کے داخل ہونے سے پہلے شوال میں جنگ کریں۔ ماوردی نے حکایت کیا ہے کہ اس کا نام زمانہ جاہلیت میں ناتق تھا۔ وفی ناتق اجلت لدی حومۃ الوغی وولت علی الاربار فرسان خثعما اس شعر میں ناتق رمضان کے مہینہ کے لئے استعمال ہوا ہے۔ شھر رفع ابتدا کی بنا پر ہے اور خبر الذی انزل فیہ القران ہے یا یہ مبتدا کے ضمار کے ساتھ ہے۔ اس کا معنی ہے : المفروض علیکم صومہ شھر رمضان، تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے۔ رمضان کے مہینہ کا روزہ یا یہ معنی کہ تم پر رمضان کا مہینہ فرض کیا گیا اور یہ بھی جائز ہے کہ شھر مبتدا ہو اور الذی انزل فیہ القران صفت ہو اور خبر فمن شھد منکم الشھر ہو۔ الشھر کا ذکر تعظیما لوٹایا گیا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الحاقۃ۔ مالحاقۃ۔ (الحاقہ) اور جائز ہے کہ جزا کا معنی اس میں داخل ہو کیونکہ شہر رمضان اگرچہ معرفہ ہے لیکن بعینہ معرفہ ہے لیکن بعینہ معرفہ نہیں کیونکہ ہر آنے والے مہینہ میں عام ہے۔ یہ ابو علی کا قول ہے۔ مجاہد اور شہر بن حوشب سے شہر کا نصب بھی مروی ہے۔ اس کو ہارون اعور نے حضرت ابو عمرو سے روایت کیا ہے۔ اس کا معنی ہے : الزموا شھر رمضان یا صوموا، اور الذی انزل فیہ القرآن اس کی نعت ہے اور تصوموا کے ساتھ اس کو نصب دینا جائز نہیں تاکہ صلہ اور موصول کے درمیان ان کی خبر کے ساتھ فاصلہ نہ ہوجائے اور وہ خیرلکم ہے۔ رمانی نے کہا اس پر ایاما معدودات کے قول سے بدل کے اعتبار سے نصب بھی جائز ہے۔ مسئلہ نمبر 2: اس میں اختلاف ہے کہ کیا شھر کے بغیر رمضان کہا جائے یا نہیں۔ مجاہد نے اس کو ناپسند کیا ہے اس نے کہا : اسی طرح کہا جائے جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا شھر رمضان اور حدیث میں ہے : رمضان نہ کہو کیونکہ اس کو منسوب کرو جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے منسوب کیا اور فرمایا شھر رمضان فرماتے تھے : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے وہ اس معنی کی وجہ سے اس کے لفظ کی جمع بنانا ناپسند کرتے تھے اور اس روایت سے حجت پکڑتے تھے۔ رمضان اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ ابو معشر نجیح کی حدیث سے ہے اور یہ ضعیف ہے۔ بغیر اضافت کے رمضان کہنا بھی صحیح ہے جیسا کہ صحاح میں ثابت ہے۔ مسلم نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب رمضان آتا ہے تو رحمت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کئے جاتے ہیں اور شیطان جکڑے جاتے ہیں۔ البستی کی صحیح میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب رمضان ہوتا تو اس کے لئے رحمت کے دروازے کھولے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کئے جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں میں جکڑے جاتے ہیں۔ ابن شہاب عن انس بن ابی انس کے سلسلہ سے مروی ہے کہ ان کے والد نے انہیں بتایا کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ کو یہ فرماتے سنا۔۔۔ پھر یہ حدیث بیان کی۔ البستی نے کہا : انس بن ابی انس یہ مالک بن انس کا والد ہے۔ ابو انس کا نام مالک بن ابی عامر ہے یہ مدینہ طیبہ کے ثقہ لوگوں سے ہے ان کا سلسلہ نسب یہ ہے مالک بن ابی عامر بن عمرو بن حارث بن عثمان بن جثیل بن عمرو یمن کے قبائل میں سے ذی اصبح سے تھا نسائی نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمہارے پاس رمضان آیا ہے، مبارک مہینہ ہے اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کئے ہیں اس میں آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور اس میں دوزخ کے دروازے بند کئے جاتے ہیں اور اس میں سرکش شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے اس میں اللہ کی ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو اس کی خیر سے محروم رہا وہ محروم ہوگیا۔ ابو حاتم البستی نے بھی اس کو روایت کیا ہے اور فرمایا : سرکش شیطانوں کا جو ذکر آیا ہے پہلے جو مطلق احادیث میں ہے کہ شیطان کو باندھ دیا جاتا ہے اس کے لئے یہ تقیید ہے۔ نسائی نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے ایک انصاری عورت کو فرمایا : اذا کان رمضان فاعتمری فان عمرۃ فیہ تعدل حجۃ۔ جب رمضان آئے تو عمرہ کر کیونکہ اس میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے۔ نسائی نے حضرت عبد الرحمن بن عوف سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تم پر رمضان کے روزے فرض کئے ہیں اور اس کا قیام تمہارے لئے سنت بنایا ہے۔ جو اس کا روزہ رکھے گا اور اس کا قیام کرے گا ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل جائے گا جیسے جس دن بچے کا ماں جہنم دیتی ہے (اور اس پر گناہ نہیں ہوتا) اس کے متعلق آثار کثیر ہیں۔ ان تمام احادیث میں رمضان کے ساتھ شھر کا لفظ نہیں ہے۔ عرب اکثر رمضان سے شھر کا ذکر ساقط کردیتے ہیں۔ شاعر نے کہا : جاریۃ فی درعھا الفغفاض ابیض من اخت بنی اباض جاریۃ فی رمضان الماضی تقطع الحدیث بالایماض کھلی قمیص میں لڑکی تھی بنی اباض کی بہن سے سفید تھی۔ گزشتہ رمضان میں لڑکی تھی چمک کی وجہ سے بات کاٹتی تھی۔ رمضان کی فضیلت عظیم ہے اور ثواب بڑا ہے۔ اشتقاق کا معنی اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ گناہوں کو جلانے والا ہے اور اس کے علاوہ احادیث جو ہم نے ذکر کی ہیں وہ اس کی فضیلت پر دلیل ہیں۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کئے یعنی رمضان کے چاند کی مدت کی وجہ سے اس کو شہر بھی کہا جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے : فان غمی علیکم الشھر اگر تم پر چاند ابر آلود ہوجائے۔ شاعر نے کہا : اخوان من نجد علی ثقۃ والشھر مثل قلامۃ الظفر حتی تکامل فی استدارتہ فی اربع زادت علی عشر نجد سے بھائی پر اعتماد تھے چاند ناخن کے تراشے کی طرح تھا۔ حتیٰ کہ وہ گولائی میں مکمل ہوا چودھویں کی رات کو بڑھا۔ چاند ابرآلود ہو تو شعبان کے تیس دنوں کو مکمل کرنا فرض ہے اور رمضان کے تیس دن مکمل کرنا فرض ہے تاکہ ہم عبادت میں یقین سے داخل ہوں اور یقین سے خارج ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا : وانزلنا الیک۔۔۔۔ الھیم (النحل : 44) (اور ہم نے نازل کیا آپ کی طرف یہ ذکر (قرآن) تاکہ آپ کھول کر بیان کریں لوگوں کے لئے جو نازل کیا گیا اس کی طرف) ۔ ائمۃ کرام نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے، فرمایا : چاند کو دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند کو دیکھ کر افطار کرو۔ اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو تعداد کو مکمل کرو۔ ایک روایت میں ہے، اگر تم پر مہینہ ابر آلود ہوجائے تو تیس دن شمار کرو۔ مطرف بن عبد اللہ بن شخیر جو کبار تابعین میں سے تھے اور ابن قتیبہ جو لغت کے علماء میں سے تھے ان دونوں حضرات نے کہا : رمضان کے روزہ میں بادل کے وقت منازل کی تقدیر منازل کے حساب سے حساب لگایا جائے گا حتیٰ کہ اگر مطلع ساف ہوتا تو دیکھا جاتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو تم اس کی منازل سے استدلال کرو اور مہینہ کی تکمیل کا اندازہ اس کے حساب سے لگاؤ۔ جمہور نے کہا : فاقدروا کا معنی ہے : مقدار کو مکمل کرو۔ حضرت ابوہریرہ کی حدیث اس کی تفسیر بیان کرتی ہے : فاکملوا العدۃ۔ داؤدی نے کہا ہے کہ فاقدروالہ کے معنی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ منازل کا اندازہ کرو۔ ہم کسی کو نہیں جانتے جس نے یہ معنی کیا ہو۔ مگر بعض اصحاب شوافع نجومیوں کے قول کا اعتبار کرتے ہیں۔ اس پر اجماع حجت ہے۔ ابن نافع نے امام مالک سے ” الامام “ میں رویت کیا ہے چاند کی رؤیت سے نہ روزہ رکھنے نہ افطار کرے بلکہ حساب پر روزہ رکھے اور افطار کرے۔ اس قول کی نہ اقتداء کی جاتی ہے نہ اتباع۔ ابن عربی نے کہا : بعض اصحاب شافعی سے لغزش ہوئی ہے انہوں نے امام شافعی سے حکایت کیا ہے کہ انہوں نے حساب پر اعتماد کیا ہے یہ لغزش ہے۔ اللہ تعالیٰ ٹھوکر سے محفوظ رکھے۔ مسئلہ نمبر 4: امام مالک، امام شافعی کا اختلاف ہے کہ ایک شخص کی شہادت سے رمضان کا چاند ثابت ہوگا یا دو گواہوں سے ثابت ہوگا۔ امام مالک نے فرمایا : اس میں ایک شخص کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی کیونکہ یہ چاند پر گواہی ہے اور اس میں دو سے کم افراد کی گواہی قبول نہیں ہوتی۔ اس کی اصل شوال اور ذی الحجہ کے چاند پر شہادت ہے۔ امام شافعی اور امام ابوحنیفہ نے کہا : ایک شخص کی خبر قبول کی جائے گی کیونکہ ابو داؤد نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے، فرمایا : لوگوں نے چاند دیکھا تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا کہ میں نے چاند دیکھا ہے۔ پس آپ ﷺ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ دار قطنی نے اس کو نقل کیا ہے اور فرمایا : اس میں مروان بن محمد نے ابن وہب سے روایت کیا ہے اور وہ ثقہ ہے۔ دار قطنی نے روایت کیا ہے ایک شخص نے حضرت علی ؓ کے پاس رمضان کا چاند دیکھنے کی گواہی دی تو آپ نے روزہ رکھا۔ میرا خیال ہے آپ نے فرمایا : لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا اور حضرت علی نے فرمایا : شعبان کا میں ایک دن روزہ رکھوں۔ یہ میرے نزدیک رمضان کا ایک روزہ چھوڑنے سے زیادہ محبوب ہے۔ امام شافعی نے کہا : اگر عام لوگوں نے رمضان کا چاند نہ دیکھا ہو اور ایک عادل شخص نے دیکھا ہو تو میرا خیال ہے کہ اسے اثر اور احتیاط کی وجہ سے قبول کرلوں گا۔ امام شافعی نے اس کے بعد کہا : رمضان پر شہادت دینے کے لئے بھی دو گواہ ہیں۔ امام شافعی نے فرمایا : ہمارے بعض اصحاب نے کہا : میں اس پر دو گواہ ہی قبول کروں گا۔ یہ ہر مغیب پر قیاس ہے۔ مسئلہ نمبر 5: علماء کا اختلاف ہے اس شخص کے بارے میں جس نے صرف رمضان کا چاند دیکھا ہو یا صرف شوال کا چاند دیکھا ہو ربیع نے امام شافعی سے روایت کیا ہے : جس نے تنہا رمضان کا چاند دیکھا وہ روزہ رکھے اور جس نے تنہا شوال کا چاند دیکھا وہ افطار کرے اور اس کو پوشیدہ رکھے۔ ابن وہب نے مالک سے اس شخص کے بارے روایت کیا ہے جس نے تنہا رمضان کا چاند دیکھا وہ روزہ رکھے کیونکہ اس کے لئے افطار کرنا مناسب نہیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ دن رمضان کے مہینہ سے ہے اور جس نے تنہا شوال کا چاند دیکھا وہ افطار نہ کرے کیونکہ لوگ تہمت لگائیں گے کہ اس نے افطار کیا جو مامون نہیں پھر جب یہ لوگ غالب آجائیں گے تو کہیں گے ہم نے چاند دیکھا۔ ابن منذر نے کہا : یہی قول لیث بن سعد، امام احمد بن حنبل کا ہے۔ عطا اور اسحاق نے کہا : نہ وہ روزہ رکھے اور نہ افطار کرے۔ ابن منذر نے کہا : وہ روزہ رکھے اور افطار کرے۔ مسئلہ نمبر 6: اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ جب کوئی شخص کسی شہر میں چاند نظر آنے کی خبر دے پھر وہ شہر قریب ہوگا یا دور ہوگا اگر وہ شہر قریب ہے تو اس کا حکم ایک ہے اور اگر وہ شہر دور ہے تو ہر شہر والوں کے لئے اپنی رؤیت کا اعتبار ہے۔ یہ عکرمہ، قاسم اور سالم سے مروی ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے اور اسحاق نے بھی یہی کہا ہے۔ اس کی طرف بخاری نے اشارہ کیا ہے جہاں اس نے باب باندھا ہے کہ ہر شہر والوں کے لئے اپنی رؤیت کا اعتبار ہے اور دوسرے علماء نے کہا جب لوگوں کے نزدیک ثابت ہوجائے کہ فلاں شہر والوں نے چاند دیکھا تھا تو ان پر اس روزے کی قضا لازم ہے جو انہوں نے چھوڑا تھا۔ اسی طرح لیث بن سعد اور امام شافعی نے کہا : ابن منذر نے کہا : میں یہ نہیں جانتا مگر مزنی اور کوفی کا قول ہے۔ میں کہتا ہوں : ال کیا طبری نے اپنی کتاب ” احکام القرآن “ میں ذکر کیا ہے : امام ابوحنیفہ کے اصحاب نے اس پر اجماع کیا ہے کہ جب کسی شہر والوں نے چاند دیکھ کر تیس دن روزے رکھے ہوں اور دوسرے شہر والوں نے انتیس روزے رکھے ہوں تو جنہوں نے انتیس روزے رکھے ہوں گے وہ ایک دن کی قضاء کریں گے۔ اصحاب شافعی کا یہ نظریہ نہیں ہے۔ کیونکہ شہروں کے مطالع کا مختلف ہونا جائز ہے۔ احناف کی دلیل یہ ارشاد ہے : ولتکئلوا العدۃ۔ ایک شہر والوں کی رؤیت سے ثابت ہوا کہ تعداد تیس ہے، پس ان پر ان کا مکمل کرنا واجب تھا اور ان کے مخالف حضور ﷺ کے قول سے حجت پکڑتے ہیں کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو (الحدیث) اور یہ ہر قوم کی ان کے شہر میں عادت کے اعتبار کو ثابت کرتی ہے۔ ابو عمرو نے اجماع حکایت کیا ہے کہ دور والے شہروں کی رؤیت کی رعایت نہیں کی جائے گی۔ جیسے اندلس، خراسان سے دور ہے اور فرمایا : ہر شہر والوں کی اپنی رؤیت کا اعتبار ہے مگر جو بڑا شہر ہو اس کے قطر مسلمانوں کے دوسرے شہروں کے قریب ہوں تو پھر سب کے لئے ایک ہی رویت کافی ہوگی۔ مسلم نے کریب سے روایت کیا ہے کہ حضرت ام فضل بنت حارث نے حضرت امیر معاویہ کی طرف انہیں شام کی طرف بھیجا۔ کریب نے کہا : میں شام میں آیا اور اپنی ضرورت کو پورا کیا مجھ پر وہاں رمضان کا چاند طلوع ہوگیا جبکہ میں ابھی شام میں ہی تھا میں نے جمعہ کی رات چاند دیکھا تھا پھر میں مہینہ کے آخر میں مدینہ آیا تو مجھ سے حضرت عبد اللہ ابن عباس نے پوچھا پھر چاند کا ذکر ہوا تو پوچھا : تم نے چاند کب دیکھا، میں نے کہا : ہم نے جمعہ کی رات چاند دیکھا تھا۔ حضرت عبد اللہ نے پوچھا تو نے خود چاند دیکھا تھا ؟ میں نے کہا : ہاں لوگوں نے چاند دیکھا، لوگوں نے روزہ رکھا اور حضرت معاویہ نے بھی روزہ رکھا۔ حضرت عبد اللہ نے کہا ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا تھا۔ ہم روزہ رکھتے رہیں گے حتیٰ کہ ہم تیس دن مکمل کریں گے یا ہم خود چاند دیکھ لیں گے۔ میں نے کہا : تمہارے لئے حضرت معاویہ کی رویت اور اس کا روزہ کافی نہیں ؟ حضرت عبد اللہ بن عباس نے کہا : نہیں۔ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح حکم دیا ہے۔ ہمارے علماء نے فرمایا : حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح حکم دیا ہے، یہ نبی کریم ﷺ کے حکم کی تصریح ہے۔ یہ حجت ہے کہ شہر جب دور ہوں جیسے شام، حجاز سے دور ہے تو ہر شہر والوں پر اپنی رؤیت پر عمل کرنا واجب ہے۔ دوسروں کی رؤیت کا اعتبار نہیں۔ اگرچہ امام اعظم کے نزدیک ثابت ہو جبکہ وہ لوگوں کو اس پر مجبور نہ کرے، اگر وہ لوگوں کو مجبور کرے تو اس کی مخالفت جائز نہیں۔ ال کیا طبری نے کہا : حضرت ابن عباس کا قول کہ ” ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے “۔ یہ احتمال ہے کہ اس میں انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد صوموا الرؤیتہ وافطر والرویتہ کی تاویل کی ہو۔ ابن عربی نے کہا : حضرت ابن عباس کے اس قول کی توایل میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : انہوں نے اس کو رد کیا کیونکہ یہ خبر واحد تھی۔ بعض نے فرمایا : اس لئے رد کیا کیونکہ مطالع میں قطر مختلف تھے۔ یہ صحیح ہے کیونکہ قریب نے گواہی نہیں دی تھی۔ انہوں نے اس حکم کے متعلق بتایا تھا جو شہادت کے ساتھ ثابت تھا اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حکم ثابت میں خبر واحد بھی جائز ہیں اس کی مثال یہ ہے کہ اغمات میں چاند کو دیکھنا جمعہ کی رات ثابت ہو اور اشبیلیہ میں ہفتہ کی رات کو نظر آئے تو ہر شہر والوں کی اپنی رؤیت کا اعتبار ہوگا کیونکہ سہل ستارہ اغمات میں نظر آتا ہے اور اشبیلیہ میں نظر نہیں آتا یہ اختلاف مطالع کی دلیل ہے۔ میں کہتا ہوں : امام مالک کا مذہب اس مسئلہ میں یہ ہے کہ ابن وہب اور ابن قاسم نے امام مالک سے ” المجموعہ “ میں روایت کیا ہے کہ جب اہل بصرہ رمضان کا چاند دیکھیں پھر کوفہ، مدینہ، یمن والوں کو یہ خبر پہنچے تو ان پر روزہ یا قضاء لازم ہے اگر ادا فوت ہوجائے۔ قاضی ابو اسحاق نے ابن ماجشون سے روایت کیا ہے کہ اگر ایک عام امر کے ساتھ بصرہ میں چاند ثابت ہوجائے جو شہادت اور تعدیل سے مستغنی ہو تو دوسرے شہر والوں پر بھی لازم ہوگی۔ اگر چاند کا ثبوت حاکم کے پاس دو آدمیوں کی شہادت سے ہو تو پھر ان شہروں پر روزہ رکھنا لازم ہوگا جو اس حاکم کی ولایت میں ہیں اور اگر چاند امیر المومنین کے پاس ثابت ہو تو تمام مسلمانوں پر قضا لازم ہے۔ فرمایا : یہ امام مالک کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر 7: جمہور لوگوں نے شھر کو رفع کے ساتھ پڑھا ہے کیونکہ یہ مضمر مبتدا کی خبر ہے یعنی ذلکم شھر المفترض علیکم صیامہ شھر رمضان۔ یا الصوم شھر یا الایام شھر۔ اس کی تقدیر ہے۔ بعض علماء نے فرمایا کتب کا نائب فاعل ہونے کی حیثیت سے مرفوع ہے یعنی کتب علیکم شھر رمضان۔ اور رمضان غیر منصرف ہے کیونکہ اس میں نون زائدہ ہے اور مبتدا کی حیثیت سے مرفوع ہونا بھی جائز ہے اور اس کی خبر الذی انزل فیہ القران ہے۔ بعض نے فرمایا : اس کی خبر فمن شھد ہے الذی انزل اس کی صفت ہے بعض نے فرمایا الصیام سے بدل کی حیثیت سے مرفوع ہے۔ جس نے کہا کتب علیکم الصیام میں الصیام سے مراد تین روزے اور عاشورا کا روزہ ہے اس نے مبتدا ہونے کا قول کیا ہے اور جنہوں نے کہا الصیام سے مراد رمضان ہے تو انہوں نے ابتدایا الصیام سے بدل کی حیثیت سے مرفوع کہا ہے یعنی کتب علیکم شھد رمضان۔ مجاہد، اشہر بن حوشب نے شہر کو نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ کسائی نے کہا۔ کتب علیکم الصیام کا معنی وان تصوموا شھر رمضان ہے۔ فراء نے کہا کتب علیکم الصیام یعنی ان تصوموا شھر رمضان۔ نحاس نے کہا : شھر رمضان کو تصوموا کے ساتھ نصب دینا جائز نہیں کیونکہ یہ صلہ میں داخل ہوگا پھر صلہ اور موصول کے درمیان تفریق کرے گا۔ اسی طرح صیام کے ساتھ نصب دینی بھی جائز نہیں لیکن اغراء کی بنا پر نصب دینا جائز ہے۔ ای الزموا شھر رمضان، و صوموا شھر رمضان۔ یہ قول بھی بعید ہے کیونکہ شھر کا ذکر پہلے نہیں ہوا تاکہ اس پر اغرا (ابھارنا) کیا جائے میں کہتا ہوں : کتب علیکم الصیام۔ یہ شھر پر دلالت کرتا ہے پس اغرا جائز ہے۔ یہ ابو عبید کا اختیار ہے۔ اخفش نے کہا : ظرف کی بنا پر منصوب ہے۔ حسن اور ابو عمرو سے راء کا راء میں ادغام حکایت کیا ہے یہ جائز نہیں تاکہ دو ساکن جمع نہ ہوں اور را کی حرکت کو ہا پر بدلنا جائز ہے ہا کو ضمہ دیا جائے گا پھر ادغام کیا جائے گا یہ کو فیوں کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر 8: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الذی انزل فیہ القران یہ نص ہے کہ قرآن رمضان میں نازل ہوا۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس کو بیان کرتا ہے : حم۔ والکتب المبین۔ انا انزلنہ فی لیلۃ مبرکۃ (دخان) حم ٓ حق کو واضح کرنے والی کتاب کی قسم ہم نے اتارا ہے اسے ایک بابرکت رات میں اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انا انزلنہ فی لیلۃ القدر۔ (القدر) ہم نے نازل کیا اسے قدر والی رات میں۔ یہ دلیل ہے کہ لیلۃ القدر رمضان میں ہے کسی اور مہینہ میں نہیں ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ قرآن لوح محفوظ سے لیلۃ القدر میں اکٹھا نازل ہوا۔ پھر آسمان دنیا میں بیت العزۃ میں رکھا گیا۔ پھر جبریل اوامر، نواہی اور اسباب کے مطابق تھوڑا تھوڑا اتارتے رہے۔ یہ بیس سال میں اترا۔ حضرت ابن عباس نے کہا : قرآن لوح محفوظ سے یکبارگی آسمان دنیا میں فرشتوں کی طرف اتارا گیا پھر جبریل اسے مختلف اوقات میں اکیس سال میں اتارتے رہے۔ مقاتل نے شھر رمضان الذی انزل فیہ القران کے بارے میں فرمایا : لوح محفوظ سے ہر سال لیلۃ القدر میں آسمان دنیا کی طرف اتارا گیا پھر بیس مہینوں میں ملائکہ کی طرف اتارا گیا۔ جبریل بیس سال میں اس کو لے کر آیا۔ میں کہتا ہوں : مقاتل کا یہ قول اجماع کے خلاف ہے قرآن اکٹھا نازل ہوا تھا۔ واللہ اعلم۔ حضرت واثلہ بن اسقع نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے، فرمایا : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صحیفے یکم رمضان کو نازل کئے گئے تھے تو رات چھ رمضان کو، انجیل تیرہ رمضان کو اور قرآن چوبیس رمضان کو نازل ہوا۔ میں کہتا ہوں : اس حدیث میں حسن کے قول کی دلیل ہے کہ لیلۃ القدر چوبیس رمضان کو ہوتی ہے۔ اس کا بیان انشاء اللہ آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر 9: اللہ تعالیٰ کا ارشاد : القران یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کا اسم ہے اور یہ بمعنی المقروء (پڑھا گیا) ہے جیسے مشروب کو شراب کہا جاتا ہے، المکتوب کو کتاب کہا جاتا ہے اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ یہ قرء یقرء قراءۃ ورانا کا مصدر ہے قراءت اور قرآن کا معنی ایک ہے۔ شاعر نے کہا : ضحوا باشمط عنوان السجود بہ یقطع اللیل تسبیحا وقرآنا اس شعر میں قرآنا بمعنی قراءت ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ سمندر میں شیطان بندھے ہوئے ہیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ان کو باندھا ہے قریب ہے وہ نکلیں اور لوگوں پر قراءت کریں، قرآن حکیم میں ہے : وقران الفجر، ان قران الفجر کان مشھودا (الاسراء) یعنی فجر کی قراءت مقرؤ کو قراءۃ کہا جاتا ہے۔ مفعول کو مصدر کا نام دینا عربوں کی عادت ہے جس طرح وہ معلوم کو علم، مضروب کو ضرب اور مشروب کو شرب کا نام دیتے ہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے پھر اس میں استعمال مشہور ہوا اور اس کے ساتھ عرف شرعی متصل ہوگیا۔ پس قرآن اللہ کا اسم بن گیا حتیٰ کہ جب کہا گیا القرآن غیر مخلوق تو اس سے مراد المقرؤ لیا گیا ہے نہ کہ اس کی قراءت اور وہ مصحف جس میں اللہ کا کلام لکھا جاتا ہے اس کو قرآن کہا جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : دشمن کی زمین کی طرف قرآن کے ساتھ سفر نہ کرو۔ یہاں قرآن سے مراد مصحف ہے۔ یہ قرأت الشیء سے مشتق ہے جس کا معنی ہے : جمع کرنا۔ بعض علماء نے کہا : یہ اللہ کی کتاب کا علم ہے۔ یہ غیر مشتق ہے جیسے تورات اور انجیل یہ امام شافعی سے حکایت کیا اور صحیح یہ ہے کہ تمام میں اشتقاق ہے۔ مزید بیان آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر 10: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ھدی للناس، ھدی قرآن سے حال ہونے کی بنا پر محل نصب میں ہے، یعنی لوگوں کے لئے ہدایت دینے والا ہے وبینت، ھدی پر معطوف ہے۔ الھدی کا مطلب الارشاد اور البیان ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ یعنی لوگوں کے لئے بیان اور ارشاد ہے، اس سے مراد پورا قرآن ہے۔ محکم، متشابہ، ناسخ و منسوخ ذکر اور تخصیص سے شرف بخشا البینات سے مراد حلال، حرام، مواعظ اور احکام ہیں۔ بینات، بینہ کی جمع ہے یہ بان الشیء یمین سے مشتق ہے کسی چیز کا واضح ہونا۔ الفرقان جو حق اور باطل کے درمیان فرق کرے۔ یہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 11: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ لام کی جزم کے ساتھ عام قراء کی قراءت ہے۔ حسن اور اعرج نے لام کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے یہ لام امر ہے اور اس کا حق کسرہ ہے جب علیحدہ ہو جب یہ کسی چیز کے ساتھ ملایا گیا ہو تو اس میں دو صورتیں ہوتی ہیں : جزم اور کسرہ۔ اور تین حروف کے ساتھ یہ ملایا جاتا ہے۔ فاء جیسے ارشاد ہے : فلیعمہ، فلیعبدو اواو جیسے ولیوفوا اور ثم، جیسے : ثم لیقضوا۔ شھد کا معنی حضر ہے۔ اس میں اضمار ہے یعنی من شھر منکم المصر فی الشھر عاقلا بالغا صحیحا مقیما فلیعمہ۔ جو تم میں سے رمضان کے مہینہ میں شہر میں موجود ہو جبکہ وہ عاقل، بالغ، صحیح، مقیم ہو تو وہ روزے رکھے۔ کہا جاتا ہے : یہ عام ہے اس کی تخصیص اس قول سے ہے فمن کان منکم مریضا او علی سفر، الشھر مفعول بہ نہیں بلکہ ظرف زمان ہے اس کی تاویل میں علماء کا اختلاف ہے حضرت علی بن ابی طالب، حضرت ابن عباس، حضرت سوید بن غفلہ اور حضرت عائشہ ؓ اور ابو مجلز لاحق بن حمید اور عبیدہ السلمانی نے کہا : جو رمضان کے مہینہ کے آغاز میں اپنے شہر میں اور اپنے گھر والوں میں موجود ہوا سے اپنے روزوں کو مکمل کرنا چاہئے۔ اس کے بعد وہ سفر کرے یا مقیم ہو اور سفر میں افطار کرے جس پر رمضان داخل ہو جبکہ وہ سفر میں ہو۔ ان علماء کے نزدیک معنی یہ ہے کہ جس نے رمضان کو سفر کی حالت میں پایا وہ افطار کرے اور اس پر دوسرے دنوں سے تعداد پوری کرنا لازم ہے اور مقیم حالت قیام میں رمضان کو پائے تو اسے روزہ رکھنا چاہئے۔ جمہور امت نے کہا : جو رمضان کے مہینہ میں آغاز اور آخر میں مقیم ہو جب تک وہ مقیم رہے تو روزہ رکھے۔ اگر سفر کرے تو افطار کرے۔ یہ قول صحیح ہے۔ اس پر اخبار ثابتہ دلالت کرتی ہیں۔ امام بخاری نے پہلے کا رد کرتے ہوئے یہ باب باندھا۔ باب اذا صام ایاما من رمضان ثم سافر۔ امام بخاری نے اس باب کے تحت اپنی سند سے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں مکہ کی طرف نکلے آپ نے روزہ رکھا حتیٰ کہ آپ کدید کے مقام پر پہنچے تو روزہ رکھنا چھوڑ دیا۔ پس لوگوں نے بھی روزہ رکھنا چھوڑ دیا حضرت ابو عبید اللہ نے کہا الکدیہ، عسفان اور قدید کے درمیان ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ احتمال ہے کہ حضرت علی ؓ اور ان کے موافقین کے قول کو سفر مندوب پر محمول کیا جائے جیسے فضلاء اور صالحین کا بھائیوں کی زیارت کرنے کے لئے سفر کرنا یا سفر مباح پر محمول ہو جیسے کفایت پر زائد رزق کی طلب کے لئے سفر کرنا۔ رہا ضروری خوراک کیلئے واجب سفر کرنا یا کسی شہر کو فتح کرنے کیلئے سفر کرنا جبکہ اس کی فتح یقینی ہو۔ یا دشمن کو دور کرنے کا سفر ہو تو اس صورت میں اسے اختیار ہے اسے روزہ رکھنا واجب نہیں بلکہ قوت کے لئے اس میں افطار افضل ہے اگرچہ وہ رمضان کے مہینہ میں اپنے شہر میں موجود بھی ہو اور اس میں بعض روزے رکھ بھی لئے ہوں۔ اس کی دلیل حضرت ابن عباس وغیرہ کی حدیث ہے، اس میں انشاء اللہ کوئی اختلاف نہ ہوگا۔ واللہ اعلم۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے ساتھیوں نے کہا : مکلف ہونے کی شرط کے ساتھ جو رمضان کے مہینہ میں موجود ہو مجنون اور بیہوش بھی نہ ہو تو اسے روزہ رکھنا چاہئے اور جس پر رمضان آئے جبکہ وہ مجنون ہو اور اس کا جنون پورا مہینہ طاری رہے تو اس پر قضا نہیں ہے کیونکہ اس نے رمضان کے مہینہ کو اس صفت پر نہیں پایا جس کے ساتھ روزے واجب ہوتے ہیں اور جس کو مہینہ کی ابتدا میں اور آخر میں جنون لاحق ہو تو وہ جنون کے دونوں کی قضا کرے۔ اس تاویل پر شھر کو نصب شھد کے مفعول بہ کی حیثیت سے صریح ہے۔ مسئلہ نمبر 12: یہ ثابت شدہ امر ہے کہ روزے کی فرضیت اسلام، بلوغ اور رمضان کے مہینہ کے علم کے ساتھ ثابت ہوتی ہے۔ جب فجر سے پہلے کوئی کافر مسلمان ہو یا بچہ بالغ ہو تو ان پر اس دن کا روزہ لازم ہوگا اور اگر فجر کے بعد بالغ ہو یا مسلمان ہو تو دونوں کے لئے کھانے پینے وغیرہ سے رکا رہنا مستحب ہے اور ان پر رمضان کے گزشتہ دنوں کی اور اس دن کی جس میں بچہ بالغ ہو اور کافر مسلمان ہو، قضا لازم نہیں ہے اور علماء کا اس کافر کے بارے میں اختلاف ہے جو رمضان کے آخری دن میں مسلمان ہوگیا اس پر سارے رمضان کی قضا لازم ہے یا نہیں ؟ کیا اس پر اس دن کی قضا لازم ہے جس میں وہ مسلمان ہوا ؟ امام مالک اور جمہور علماء نے کہا : اس پر گزشتہ دنوں کی قضا نہیں ہے کیونکہ اس نے اپنے اسلام کے وقت رمضان کا مہینہ پایا۔ امام مالک نے فرمایا : میرے نزدیک اس دن کی قضا کرنا محبوب ہے جس دن وہ مسلمان ہوا عطا اور حسن نے کہا : وہ باقی دنوں کے روزے رکھے اور گزشتہ دنوں کی قضا کرے عبد الملک بن ماجشون نے کہا : اس دن کھانے سے رکا رہے اور اس کی قضا کرے۔ امام احمد اور اسحاق نے اس کی مثل کہا ہے ابن منذر نے کہا : اس پر مہینہ کے گزشتہ دنوں کی اور اس دن کی قضا لازم نہیں ہے۔ الباجی نے کہا : ہمارے علماء میں سے جنہوں نے کہا کفار شرائع الاسلام کے مخاطب ہیں۔ یہی امام امالک اور ان کے اصحاب کے قول کا مقتضا ہے۔ انہوں نے اس پر بقیہ دن کھانے پینے سے رکا رہنے کو واجب کہا ہے۔ ابن نافع نے امام مالک سے ” المدونہ “ میں اس کو روایت کیا ہے یہی شیخ ابو القاسم کا قول ہے اور ہمارے علماء میں سے جنہوں نے کہا کہ کفار مخاطب نہیں ہیں، انہوں نے کہا : بقیہ دن رکا رہنا لازم نہیں ہے۔ یہ اشہب، عبد الملک بن ماجثون کے قول کا مقتضا ہے۔ یہ ابن القاسم کا قول ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ قول صحیح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یایھا الذین امنوا۔ اس میں صرف مومنین کو خطاب فرمایا کسی اور کو خطاب نہیں فرمایا یہ واضح ہے پس بقیہ دن اس پر رکا رہنا واجب نہیں اور گزشتہ دنوں کی قضا بھی نہیں۔ پہلے ومن کان مریضا او علیٰ سفر فعدۃ من ایام اخر کے تحت کلام گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر 13: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یرید اللہ بکم الیسر، الیسر یہ جماعت کی قرأت ہے الیسر (سین کے ضمہ کے ساتھ) یہ دونوں لغتیں ہیں اسی طرح العسر میں دونوں لغتیں ہیں۔ مجاہد اور ضحاک نے کہا : الیسر سے مراد سفر میں افطار اور العسر سے مراد سفر میں روزہ ہے۔ لفظ کا عموم تمام امور دینیہ کو شامل ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وما جعل علیکم فی الدین من حرج (الحج : 78) نبی کریم ﷺ سے مروی ہے دین اللہ یسر (اللہ کا دین) آسان ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یسر وا ولا تعسروا۔ آسانی کرو، تنگی نہ کرو۔ الیسر، سہولت سے ہے اور اسی سے غناء کے لئے یسار استعمال ہوتا ہے، بائیں ہاتھ کو الید والیسریٰ کہا جاتا ہے یا تو فال پکڑنے کے لئے یا اس لئے کہ دائیں ہاتھ کی یہ معاونت کرتا ہے تو معاملہ آسان ہوجاتا ہے۔ اور ولا یریدبکم العسر کا معنی یرید اللہ بکم الیسر ہے۔ تاکید کے لئے تکرار فرمایا۔ مسئلہ نمبر 14: یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے قدیم، ازلی ذات پر زائد ارادہ کے ساتھ ارادہ فرمانے والا ہے۔ یہ اہل سنت کا مذہب ہے جس طرح وہ علم کے ساتھ عالم ہے، اپنی قدرت کے ساتھ قادر ہے، حیات کے ساتھ زندہ ہے، سمع کے ساتھ سمیع ہے، بصر کے ساتھ بصیر ہے، کلام کے ساتھ متکلم ہے۔ یہ تمام معانی موجود، ازلی ذات پر زائد ہیں۔ فلاسفہ اور شیعہ اس کی نفی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ زائغین کے قول اور مبطلین کے ابطال سے بلند وبالا ہے اور جو بات ان اہل تعطیل کی جز کاٹتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے صاحب ارادہ ہونے کی تصدیق نہ کی جائے تو صادق آئے گا کہ وہ صاحب ارادہ نہیں ہے اور اگر یہ صحیح ہو تو ہر وہ ذات جو صاحب ارادہ نہ ہو وہ اس کی نسبت ناقص ہوگی جو صاحب ارادہ ہوگی۔ بیشک جس کی صفات ارادہ یہ ہوں اس کے لئے جائز ہوتا ہے کہ کسی شے کو خاص کرے اور اس کے لئے یہ بھی جائز ہوتا ہے کہ اسے کا ص نہ کرے۔ پس عقل سلیم تقاضا کرتی ہے کہ ارادہ کمال ہوتا ہے نہ کہ نقص حتیٰ کہ اگر وہم کے ساتھ اندازہ کیا گیا ہو اور اس سے یہ امر سلب کیا گیا ہو تو اس کا پہلا حال دوسرے حال کی نسبت اکمل ہوگا۔ پس یہی باقی رہ جائے گا کہ جو ارادہ سے متصف نہیں وہ ناقص ہے اس سے جو ارادہ سے متصف ہے اور اس میں جو محال ہے وہ مخفی نہیں، یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ مخلوق خالق سے اکمل ہو اور خالق اس سے کم مرتبہ ہو ؟ ہدایت اس کا رد اور ابطال کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود اپنا وصف بیان کیا ہے کہ وہ مرید ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فعال لما یرید۔ (البروج) کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے۔ یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر۔ ارادہ فرماتا ہے اللہ تم سے آسانی کا اور نہیں ارادہ فرماتا تم سے تنگی کا یرید اللہ یخفف عنکم (النساء : 28) اللہ تعالیٰ ارادہ فرماتا ہے تم سے تخفیف کرنے کا اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون۔ (یٰس : 82) جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو صرف اتنا ہی ہے کہ وہ فرماتا ہے اس کو : ہوجا، پس وہ ہوجاتی ہے پھر یہ عالم حکمت، پختگی، انتظام اور احکام پر مبنی ہے، اس کے باوجود اس کا ہونا اور اس کا نہ ہونا جائز ہے اور وہ ذات جس نے وجود کے ساتھ اس کو خاص کیا اس کے لئے اس کا ارادہ کرنے والا ہونا، اس پر قادر ہونا اور اس کا عالم ہونا واجب ہے اگر وہ عالم، قادر نہ ہو تو اس سے کسی شے کا صدور صحیح نہیں اور جو عالم نہ ہو اگرچہ قادر ہو اس سے حکمت و اتقان پر اشیاء کا صدور ممکن نہیں اور جو مرید نہ ہو بعض جائزات کی بعض احوال اور اوقات کے ساتھ تخصیص اولیٰ نہ ہو۔ کیونکہ ان کی نسبت ان کی طرف ایک نسبت ہے۔ علماء فرماتے ہیں : جو اس کا قادر، مرید ہونا ثابت ہوا تو اس کا زندہ ہونا بھی ثابت ہوا کیونکہ زندہ ہونا ان صفات کی شرط ہے۔ زندہ ہونے سے لازم آتا ہے کہ وہ سمیع، بصیر اور متکلم بھی ہو اگر اس کے لئے یہ صفات ثابت نہ ہوں تو لا محالہ ان صفات کی اضداد سے متصف ہوگا جیسے اندھا، بہرہ اور گونگا ہونا جیسا کہ اس عالم شہادت میں معروف ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے ان تمام صفات سے جو اس کی ذات میں نقص کا موجب ہوں۔ مسئلہ نمبر 15: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولتکملوا العدۃ اس میں دو تاویلیں ہیں : جس نے سفر یا مرض میں روزے چھوڑے ان کی تعداد پوری کرنا چاند کی تعداد پوری کرنا خواہ وہ انتیس دونوں کا ہو یا تیس دنوں کا ہو۔ حضرت جابر بن عبد اللہ نے کہا : نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مہینہ انتیس دنوں کا ہوتا ہے اس میں اس شخص کی تاویل کا رد ہے جس نے نبی کریم ﷺ کے ارشاد شھرا عید لا ینقصان رمضان و ذوالحجۃ کی تاویل کی کہ تیس دنوں سے یہ دو مہینے کم نہیں ہوتے۔ ابو داؤد نے اس کو نقل کیا ہے اور جمہور علماء نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ یہ وہ مہینے اجر اور خطاؤں کی تکفیر میں کم نہیں ہوتے خواہ انتیس دنوں کے ہوں یا تیس دونوں کے ہوں۔ مسئلہ نمبر 16: تیس رمضان کو دن کے وقت چاند نظر آئے تو وہ شوال کا نہیں ہوگا بلکہ وہ آئندہ رات کا ہوگا یہ صحیح قول ہے۔ حضرت عمر سے اس مسئلہ کو روایت کرنے والے مختلف ہیں، دار قطنی نے شقیق سے روایت کیا ہے، فرمایا : ہمارے پاس حضرت عمر کا خط آیا جبکہ ہم خانقین میں تھے۔ حضرت عمر نے اپنے خط میں فرمایا : چاند بعض، بعض سے بڑے ہوتے ہیں۔ جب تم ان کے وقت چاند کو دیکھو تو افطار نہ کرو حتیٰ کہ دو گواہ گواہی دیں کہ انہوں نے کل چاند دیکھا تھا۔ ابو عمر نے عبد الزراق عن معمر عن الاعمش عن ابی وائل کی سند سے روایت کیا ہے، ابو وائل نے کہا : حضرت عمر نے ہماری طرف لکھا۔ آگے سابقہ کلام ذکر کیا۔ حضرت ابو عمر نے کہا : حضرت علی ؓ سے اسی طرح مروی ہے جو عبد الرزاق نے ذکر کیا ہے۔ یہی قول حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عمر اور حضرت انس بن مالک کا ہے اور یہی قول امام مالک، امام شافعی، امام ابو حنیفہ، امام محمد بن حسن، لیث اور اوازعی کا ہے اور یہی قول امام احمد اور اسحاق کا ہے۔ سفیان ثوری اور امام ابو یوسف نے کہا : اگر زوال کے بعد چاند دیکھا گیا تو وہ آئندہ رات کا ہوگا اگر زوال سے پہلے چاند دیکھا گیا تو وہ گزشتہ رات کا ہوگا۔ حضرت عمر سے اس کی مثل قول مروی ہے۔ عبد الرزاق نے ثوری سے انہوں نے مغیرہ سے انہوں نے شباک سے انہوں نے ابراہیم سے یہ روایت ذکر کی ہے، فرمایا : حضرت عمر نے عتبہ بن فرقد کو لکھا کہ جب تم دن کے وقت سورج کے زوال سے پہلے چاند کو دیکھو تو تیس دن مکمل ہونے کی وجہ سے تم افطار کر دو اور جب تم سورج کے زوال کے بعد چاند دیکھو تو افطار نہ کرو حتیٰ کہ شام ہوجائے۔ حضرت علی ؓ سے اسی طرح مروی ہے اور حضرت علی ؓ سے اسناد کی جہت سے اس مسئلہ میں کوئی چیز صحیح مروی نہیں ہے۔ سلیمان بن ربیعہ سے ثوری کے قول کی مثل مروی ہے۔ عبد الملک بن حبیب کا بھی یہی خیال ہے وہ قرطبہ میں اسی کے ساتھ فتویٰ دیتے تھے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز سے اس مسئلہ میں مختلف اقوال مروی ہیں۔ ابو عمر نے کہا : حضرت عمر سے جو حدیث مروی ہے جس کے مطابق امام مالک، امام شافعی، امام ابو حنفیہ کا قول ہے وہ متصل ہے اور وہ حدیث جو ثوری کے مذہب کے مطابق مروی ہے وہ منقطع ہے۔ پس متصل کی طرف رجوع کرنا اولیٰ ہے۔ جن علماء نے ثوری کا مذہب اختیار کیا انہوں نے اس قول سے حجت پکڑی ہے مگر حضرت اعمش کی حدیث مجمل ہے اس میں زوال سے پہلے اور بعد کی کوئی تخصیص نہیں ہے اور حضرت ابراہیم کی حدیث مفسر ہے پس اس کے ساتھ قول کرنا اولیٰ ہے۔ میں کہتا ہوں : جو حضرت عمر سے متصلا موقوفا مروی ہے اسی معنی میں مرفوع بھی مروی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے اس کو روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ تیس رمضان کی صبح روزے سے تھے آپ نے دن کے وقت شوال کا چاند دیکھا تو افطار نہ کیا حتیٰ کہ شام ہوگئی اس کو واقدی کی حدیث سے دار قطنی نے نقل کیا ہے۔ فرمایا : واقدی نے کہا ہمیں معاذ بن محمد نصاریٰ نے بیان کیا، فرمایا : میں نے زہری سے شوال کے چاند کے مطابق پوچھا جب وہ جلدی دیکھا جائے۔ انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت سعید بن مسیب کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اگر شوال کا چاند فجر کے طلوع ہونے سے لے کر عصر تک یا سورج کے غروب ہونے کے درمیان تک دیکھا جائے تو وہ آنے والی رات کا ہوگا۔ ابو عبد اللہ نے کہا اس پر اجماع ہے۔ مسئلہ نمبر 17: دار قطنی نے حضرت ربعی بن خراش سے انہوں نے نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی سے روایت کیا ہے، فرمایا : لوگوں کا رمضان کے آخری دن کے بارے میں اختلاف ہوا۔ دو دیہاتی آئے انہوں نے نبی کریم ﷺ کے پاس گزشتہ شام چاند دیکھنے کی گواہی دی۔ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو روزہ افطار کرنے کا حکم دیا اور صبح عید گاہ کی طرف جانے کا حکم دیا۔ دار قطنی نے کہا : یہ اسناد حسن سے ثابت ہے۔ ابو عمر نے کہا : امام مالک اور اصحاب مالک سے کوئی اختلاف مروی نہیں۔ عید کی نماز عید کے علاوہ کسی دن نہیں پڑھی جائے گی اور نہ عید کے دن زوال کے بعد پڑھی جائے گی۔ امام ابوحنیفہ سے یہی قول حکایت کیا گیا ہے۔ امام شافعی کا قول اس مسئلہ میں مختلف ہے کبھی امام مالک کے قول کے مطابق فرمایا اس کو مزنی نے اختیار کیا ہے اور فرمایا : جب عید کے دن زوال کے بعد عید کی نماز پڑھنی جائز نہیں تو دوسرا دن عید کے وقت سے زوال سے بھی زیادہ دور ہے اس لئے دوسرے دن بدرجہ اولیٰ نہیں پڑھی جائے گی اور امام شافعی سے دوسری روایت مروی ہے کہ دوسرے دن چاشت کے وقت عید کی نماز پڑھی جائے گی۔ بویطی نے کہا : عید کی نماز نہیں پڑھی جائے گی مگر جب اس کے بارے میں کوئی حدیث ثابت ہو۔ ابو عمر نے کہا : اگر نماز عید وقت کے بعد ادا کی جائے گی تو یہ فرائض کے مشابہ ہوجائے گی اور علماء کا سنن کے بارے میں اجماع ہے کہ ان کی قضا نہیں کی جاتی۔ اور یہ نماز عید سنن کی مثل ہے۔ امام ثوری، امام اوزاعی اور امام احمد بن حنبل نے کہا : دوسرے دن وہ نکلیں گے۔ امام ابو یوسف نے ” الاملاء “ میں اسی طرح فرمایا۔ حسن بن صالح بن حیی نے فرمایا : عید الفطر میں نہیں نکلیں گے، عید الاضحیٰ میں (دوسرے دن) نکلیں گے۔ امام ابو یوسف نے فرمایا : عید الاضحیٰ میں امام تیسرے دن نماز عید پڑھائے گا (اگر پہلے دو دنوں میں کسی وجہ سے نہ پڑھ سکے ہوں) ابو عمر نے کہا : اضحیٰ ایام عید ہیں اور یہ نماز عید ہے۔ اور فطر کی عید صرف ایک دن ہے جب پہلے دن عید الفطر نہیں پڑھی ہوگی تو دوسرے دن قضا نہیں کی جائے گی کیونکہ وہ فرض نہیں ہے کہ اسے قضا کیا جائے۔ لیث بن سعد نے کہا : دوسرے دن عید الفطر اور عید الاضحیٰ پڑھی جائے گی۔ (اگر وہ پہلے دن نہیں پڑھ سکے ہوں گے) میں کہتا ہوں : انشاء اللہ دوسرے دن پڑھنے کا قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ اس کے متعلق سنت ثابت ہے اور شارع (علیہ السلام) سنن میں سے جس کو چاہیں مستثنیٰ کردیں اور اس کے وقت کے نکلنے کے بعد اس کی قضا کا حکم دے دیں، اس میں کوئی مانع نہیں امام ترمذی نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے فجر کی دو رکعتیں (سنتیں) ادا نہیں کیں وہ انہیں سورج طلوع ہونے کے بعد ادا کرے۔ ابو محمد نے اس کو صحیح کہا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : بعض اہل علم کے نزدیک اس پر عمل ہے اور اس کے مطابق سفیان ثوری، امام شافعی، امام احمد، اسحاق اور حضرت ابن المبارک کا قول ہے اور حضرت عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ میں کہتا ہوں : ہمارے علماء نے فرمایا : جس پر وقت تنگ ہو اور وہ صبح کی نماز (فرض) پڑھ لے اور فجر کی دو رکعتیں (سنتیں) چھوڑ دے تو وہ اگر چاہے تو سورج طلوع ہونے کے بعد ادا کرے۔ بعض علماء نے فرمایا : وہ اس وقت ادا نہ کرے۔ بعض علماء نے فرمایا : وہ اس وقت ادا نہ کرے پھر جب ہم نے کہا کہ وہ انہیں سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھے تو کیا وہ یہ قضا پڑھے گا یا ان دو رکعتوں کا ثواب، فجر کی سنتوں کے ثواب کے قائم ہوجائے ؟ شیخ ابوبکر نے کہا : یہ اصل مذہب پر جاری ہے اور قضا کا ذکر مجازا ہے۔ میں کہتا ہوں : کوئی بعید نہیں کہ دوسرے دن نماز عید الفطر کا حکم اسی اصل پر ہو خصوصاً جبکہ یہ نماز سال میں ایک مرتبہ ہوتی ہے نیز سنت سے بھی ثابت ہے۔ نسائی نے روایت کیا ہے، فرمایا : مجھے عمرو بن علی نے بتایا انہوں نے فرمایا : ہمیں یحییٰ نے بتایا انہوں نے فرمایا : ہمیں شعبۃ نے بتایا فرمایا : مجھے ابو بشر نے بتایا انہوں نے ابو عمیر بن انس سے روایت کیا، انہوں نے اپنے چچوں سے روایت کیا کہ ایک قوم نے چاند دیکھا اور وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے۔ آپ ﷺ نے انہیں سورج بلند ہونے کے بعد افطار کرنے کا حکم دیا اور حکم دیا کہ دوسرے دن عید کے لئے نکلیں ایک روایت میں ہے، وہ عید گاہ کی طرف دوسرے دن نکلیں۔ مسئلہ نمبر 18: ابوبکر نے عاصم سے اور ابو عمرو نے (بعض روایات میں جو ان سے مروی ہیں اور قتادہ، حسن اور اعرج نے والتکملوا العدۃ پڑھا ہے یعنی میم کی شد کے ساتھ پڑھا ہے اور باقی قراء نے تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ کسائی نے تخفیف کو پسند کیا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الیوم اکملت لکم دینکم (المائدہ : 3) نحاس نے کہا : یہ دونوں لغتیں ہم معنی ہیں) اور ولتکملوا کو لام کے سکون کے ساتھ پڑھنا جائز نہیں اور اس کے اور اس سے پہلے والے لام میں فرق ہے اسی طرح کثیر ابو صخر کا قول ہے : ارید لا نسی ذکرھا میں اس کا ذکر بھولنا چاہتا ہوں۔ یہ اصل میں لان انسی ہے۔ یہ لام مفعول پر داخل ہوتا ہے جیسے تیرے اس قول میں ہے ضربت لزید۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ تعداد کے مکمل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے العدۃ رخص لکم ھذہ الرخصۃ۔ یہ کو فیوں کا قول ہے نحاس نے یہ قول فراء سے روایت کیا ہے۔ نحاس نے کہا : یہ حسن قول ہے۔ وکذالک نری ابراہیم ملکوت السموات والارض ولیکون من الموقنین، ای ولیکون من الموقنین فعلنا ذالک۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ واو سحفحمہ ہے، بعض نے فرمایا : یہ بھی احتمال ہے کہ لام، لام امر ہو اور واو عاطفہ ہو جملہ کلام کا جملہ کلام پر عطف ہو۔ ابو اسحاق ابراہیم ابن السری نے کہا : یہ معنی پر محمول ہے۔ تقدیر اس طرح ہے : فعل اللہ ذالک یسھل علیکم ولتکملوا العدۃ۔ ابو اسحاق نے کہا : سیبویہ نے اس کی مثل یہ شعر کہے ہیں : بادت غیر آیھن مع البلی الا رواکد جمرھن ھباء ومشجج اما سواء قذالہ فبدا وغیب سارہ المعزاء اس کا معنی ہے : بادت الارواکدبھا رواکد۔ گویا یوں فرمایا : وبھا مشجج او ثم مشجح۔ یعنی شہر ہلاک ہوگئے بوسیدگی کے ساتھ ان کے نشان تبدیل ہوگئے سوائے چولہوں کے نشانات کے، ان کے انگارے غبار ہیں پھر خیموں کے کیل ان کے درمیان برابر ہیں۔ پس وہ ظاہر ہوا اور پتھر یلی زمین نے اس کا چلنا غائب کردیا۔ مسئلہ نمبر 19: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولتکبروا اللہ۔ اس کا ولتکملوا پر عطف ہے اس کا مطلب جمہور علماء کے قول کے مطابق رمضان کے آخر میں تکبیر پر برانگیختہ کرنا ہے اس کی حد کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام شافعی نے فرمایا سعید بن مسیب، عروہ، ابو سلمہ سے مروی ہے کہ یہ لوگ عید الفطر کی رات تکبیریں کہتے اور اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے۔ اور فرمایا : یہ لیلۃ النحر (قربانی والی رات) کے مشابہ ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : مسلمانوں پر حق ہے کہ جب شوال کا چاند دیکھیں تو تکبیریں کہیں اور حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ انسان چاند دیکھنے سے لے کر خطبہ کے ختم ہونے تک تکبیریں کہے اور امام کے ظاہر ہونے کے وقت رک جائے اور اس کی تکبیر کے ساتھ تکبیر کہے۔ ایک قول نے کہا : چاند دیکھنے سے لے کر امام کے نماز کے لئے ظاہر ہونے تک تکبیریں کہے۔ سفیان نے کہا : یہ فطر والے دن کی تکبیر ہے۔ حضرت زید بن اسلم نے کہا : لوگ جب عید گاہ کی طرف نکلتے تو تکبیریں کہتے جب نماز ختم ہوجاتی ہے تو عید ختم ہوجاتی ہے۔ یہ امام مالک کا مذہب ہے۔ امام مالک نے فرمایا : یہ تکبریں گھر سے نکلنے سے لے کر امام کے نکلنے تک ہیں۔ ابن قاسم اور علی بن زیاد نے روایت کیا ہے کہ اگر سورج طولع ہونے سے پہلے گھر سے نکلے تو راستہ میں تکبیریں نہ کہے اور بیٹھے ہوئے تکبیر کہے حتیٰ کہ سورج طلوع ہوجائے اگر سورج طلوع ہونے کے بعد گھر سے جائے تو راستہ میں عید گار کی طرف جاتے ہوئے تکبیر کہے اور جب بیٹھ جائے تب بھی تکبیریں پڑھتا رہے حتیٰ کہ امام نقل کرے۔ امام مالک کے نزدیک اس مسئلہ میں عید الفطر اور عید الاضحیٰ برابر ہیں۔ امام شافعی کا بھی یہی قول ہے اور امام ابوحنیفہ نے فرمایا : عید الاضحیٰ میں تکبیریں کہے اور عید الفطر میں تکبریں نہ کہے اس پر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ولتکبروا اللہ کیونکہ یہ عید کا دن ہے اور سال میں اس کا تکرار نہیں ہوتا۔ پس اس کی طرف نکلنے میں تکبیر سنت ہے جس طرح عید الاضحیٰ میں جاتے ہوئے تکبیر کہنا سنت ہے۔ دار قطنی نے ابو عبد الرحمن سے روایت کیا ہے فرمایا : لوگ عید الفطر میں تکبیریں، عید الاضحیٰ سے بھی زیادہ شدت سے کہتے تھے۔ حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ عید الفطر کے دن اپنے گھر سے نکلنے کے وقت تکبیر کہتے حتیٰ کہ عید گاہ پہنچ جاتے اور حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ جب وہ عید الاضحیٰ اور عید الفطر کی طرف جاتے تو بلند آواز سے تکبیریں کہتے حتیٰ کہ عید گاہ میں پہنچ جاتے۔ پھر آپ تکبیر کہتے رہتے حتیٰ کہ امام آجاتا۔ نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے اکثر اہل علم عید الفطر میں تکبیریں کہنے کا نظریہ رکھتے تھے۔ یہ ابن منذر نے نقل کیا ہے، فرمایا : یہ امام اوزاعی نے الیاس سے ذکر کیا ہے۔ امام شافعی فرماتے تھے : جب کسی کو شوال کا چاند نظر آجائے تو میں پسند کرتا ہوں کہ لوگ اکٹھی اور علیحدہ علیحدہ تکبیریں کہیں۔ وہ متواتر تکبیریں کو ظاہر کریں حتیٰ کہ جنازہ گاہ کو چلے جائیں اور جب امام نکل آئے تو تکبیریں کہنا بند کردیں۔ اسی طرح جس نے حج نہیں کیا اس کے لئے تکبیریں کہنا پسند ہے۔ عیدوں کی نماز کا حکم اور ان میں تکبیر کا حکم سبح اسم ربک الاعلی (الاعلی) اور سورة الکوثر میں آئے گا۔ مسئلہ نمبر 20: امام مالک اور علماء کی ایک جماعت کے نزدیک تکبیر کے الفاظ یہ ہیں : اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر تین مرتبہ کہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے، بعض علماء فرماتے ہیں : تکبیروں کے درمیان میں لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ بھی کہے۔ بعض فرماتے ہیں : یہ الفاظ کہے : اللہ اکبر کبیرا، الحمد للہ کثیرا وسبحان اللہ بکرۃ واصیلا۔ حضرت ابن مبارک جب عید الفطر کے لئے نکلتے تھے تو یہ کہتے تھے : اللہ اکبر اللہ لا الہ الا اللہ واللہ اکبر وللہ الحمد اللہ اکبر علی ما ھدانا۔ ابن منذر نے کہا : امام مالک نے اس کی کوئی حد متعین نہیں فرمائی۔ امام احمد نے فرمایا : اس میں وسعت ہے۔ ابن عربی نے فرمایا : ہمارے علماء نے مطلق تکبیر کو اختیار کیا یہی ظاہر قرآن ہے اور میرا میلان بھی اسی طرف ہے۔ مسئلہ نمبر 21: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : علیٰ ما ھدکم بعض علماء نے فرمایا : اپنے روزے میں تبدیلی کرکے نصاریٰ اس میں بھٹک گئے۔ بعض نے فرمایا : جو وہ زمانہ جاہلیت میں اپنے آباء پر فخر کرتے تھے اور اپنے حسب ظاہر کرتے تھے اور اپنے مناقب شمار کرتے تھے اس کے بدلے میں جو ہدایت دی۔ بعض علماء نے فرمایا : اس نے تمہاری شرائع کی طرف جو رہنمائی فرمائی ہے اس پر تم اس کی عظمت بیان کرو۔ یہ عام ہے اور لعلکم تشکرون کا معنی پہلے گزر چکا ہے۔
Top