Al-Qurtubi - Al-Baqara : 180
كُتِبَ عَلَیْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَیْرَا١ۖۚ اِ۟لْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَؕ
كُتِبَ عَلَيْكُمْ : فرض کیا گیا تم پر اِذَا : جب حَضَرَ : آئے اَحَدَكُمُ : تمہارا کوئی الْمَوْتُ : موت اِنْ : اگر تَرَكَ : چھوڑا خَيْرَۨا : مال الْوَصِيَّةُ : وصیت لِلْوَالِدَيْنِ : ماں باپ کے لیے وَالْاَقْرَبِيْنَ : اور رشتہ دار بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق حَقًّا : لازم عَلَي : پر الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار
تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے تو اگر وہ کچھ مال چھوڑ جانے والا ہو تو ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے دستور کے مطابق وصیت کر جائے (خدا سے) ڈرنے والوں پر یہ ایک حق ہے
آیت نمبر 180 اس میں اکیس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کتب علیکم آیت وصیت ہے۔ قرآن میں اور وصیت کا کہیں ذکر نہیں ہے مگر اس آیت میں اور سورة النساء میں من بعد وصیۃ اور سورة مائدہ میں حین الوصیۃ اور جو سورة بقرہ میں ہے وہ اتم اور اکمل ہے یہ فرائض اور مواریث کے نزول سے پہلے نازل ہوئی۔ جیسا کہ آگے بیان آئے گا۔ کلام میں واو عطف کی تقدیر ہے۔ یعنی وکتب علیکم۔ جب کلام طویل ہوگئی تو واو ساقط کردی گئی اور اس کی مثل بعض اقوال میں ہے : لایصلھا الا الاشقی۔ الذی کذب وتولی۔ (اللیل) ۔ یعنی والذی۔ یہاں بھی واو کو حذف کیا گیا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : جب ذکر کیا کہ مقتول کے ولی کے لئے قصاص لینا ہے پس جس سے قصاص لیا جانا ہے وہ قصاص اس کی موت کس سبب ہے گویا موت اس پر حاضر ہے اور یہ وصیت کا وقت ہے اس آیت کا تعلق ماقبل آیت سے ہے اسی وجہ سے واو عطف ساقط ہوگئی ہے۔ کتب کا معنی فرض اور اثبت ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ حضور الموت سے مراد موت کے اسباب کا آنا ہے اور جب سبب موجود ہو تو عرب اسے مسبب سے تعبیر کردیتے ہیں۔ شاعر نے کہا : یایھا الراکب المزجی مطیتہ سائل بنی اسد ما ھذہ الصوت وقل لھم بادروا بالعذر والتمسوا قولا یبرئکم انی انا الموت اے سوار : جو اپنی سواری کو آہستہ آہستہ چلانے والا ہے بنی اسد سے پوچھ یہ آواز کیسی ہے۔ اور انہیں کہو کہ عذر پیش کرنے میں جلدی کرو اور کوئی ایسی بات تلاش کرو جو تمہیں بری کر دے کہ میں (تمہارے لئے) موت بنوں۔ عشرہ نے کہا : وان الموت طوع یدی اذا ما وصلت بنانھا بالھندوان موت میرے ہاتھوں کی خوشی ہے جب ان کے پورے ہندوان تک پہنچ جائیں۔ جریر نے فرزدق کی ہجو میں کہا انا الموت الذی حدثت عنہ فلیس لھارب منی نجاء وہ موت جس کے متعلق میں نے بتایا، مجھ سے بھاگنے والے کے لئے نجات نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر 2 : اگر کہا جائے کہ کتب فرمایا، اور۔ کتبت نہیں فرمایا، حالانکہ وصیت مونث ہے۔ کہا جائے گا کہ یہاں وصیت سے مراد الایصاء ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : فعل اور فاعل کے درمیان فاصلہ ہے اور فاصل تاء تانیث کے عوض کی طرح ہے۔ عرب کہتے ہیں : حضر القاضی الیوم امراۃ یہاں بھی فاصلہ کی وجہ سے فعل مذکر اور فاعل مونث ہے۔ سیبویہ نے حکایت کیا ہے : قام امراۃ۔ لیکن اس ” کتب “ فعل کے مذکر لانے کا حسن، حائل کے طول کے ساتھ ہے۔ مسئلہ نمبر 3 : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان ترک خیرا، ان شرط ہے اس کے جواب میں ابو الحسن اور اخفش کے دو قول ہیں : اخفش نے کہا : تقدیر فالوصیۃ ہے پھر فاء کو حذف کیا گیا۔ جیسے شاعر نے کہا : من یفعل الحسنات اللہ یشکرھا والشر بالشر عنداللہ مثلان جو نیکیاں کرتا ہے، اللہ تعالیِ اس کی قدروانی فرماتا ہے اور اللہ کے نزدیک شر کے بدلے شر برابر ہے۔ دوسرا جواب : ماضی کا جواب اس سے پہلے اور اس کے بعد ہونا جائز ہے۔ تقدیر عبارت اس طرح ہوگی : الوصیۃ للوالدین والاقربین ان ترک خیرا۔ اگر تو فاء کو مقدر مانے گا تو الوصیۃ کو رفع ابتدا کی وجہ سے ہوگا۔ اگر فاء کو مقدر نہیں مانے گا تو اس کو ابتداء کی وجہ سے رفع دینا جائز ہے اور نائب الفاعل کی حیثیت سے رفع دینا بھی جائز ہے۔ یعنی کتب علیکم الوصیۃ۔ جمہور نھویوں کے نزدیک الوصیۃ کا اذا میں عمل کرنا جائز نہیں اور یہ جائز ہے کہ اذا میں عامل کتب ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایجاب کا تمہاری طرف متوجہ ہونا اور کتاب کے مقتضی کا متوجہ ہونا ہے جب موت حاضر ہو۔ ایجاب کی توجہ کو کتب سے تعبیر فرمایا تاکہ اس معنی کی طرف منظم ہوجائے کہ یہ حکم ازل میں لکھا گیا ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ اذا میں عامل الایصاء مقدر ہو جو وصیت پر دلالت کر رہا ہو۔ معنی ہوگا : کتب علیکم الایصاء اذا۔ مسئلہ نمبر 4 : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : خیرا اس آیت میں خیر سے مراد مال ہے اور اس کی مقدار میں اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا : اس سے مراد مال کثیر ہے۔ یہ حضرت علی، حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ انہوں نے سات سو دینار میں بھی فرمایا کہ یہ قلیل ہے۔ قتادہ نے حسن سے روایت کیا ہے الخیر سے مراد ہزار دینار اور اس سے زائد مال ہے۔ شعبی نے کہا : پانچ سو دینار سے ہزار تک ہے۔ الوصیۃ ہر اس چیز سے عبارت ہے جس کے کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اور زندگی میں اور موت کے بعد اس کا خیال کیا جاتا ہے۔ عرف نے اس کو اس کے ساتھ خاص کردیا ہے جس کے کرنے کا عہد کیا جاتا ہے اور مرنے کے بعد اس کو نافذ کیا جاتا ہے۔ وصیۃ کی جمع وصایا ہے جیسے قضیۃ کی جمع قضایا ہے۔ الوصی وصیت کرنے والا ہے اور جس کو وصیت کی جاتی ہے اس کی اصل وصیٰ سے ہے۔ تواصی النبت تواصیا، جب کھیتی متصل ہو۔ ارض واصیۃ، جس کی کھیتی متصل ہو۔ اوصیت لہ بشئ واوصیت الیہ، جب تو کسی کو اپنا وصی مقرر کرے۔ اس کا اسم الوصایۃ اور الوصایۃ ہے یعنی واو کے کسرہ اور فتحہ کے ساتھ۔ اوصیتہ و وصیتہ توصیۃ ہم معنی ہیں، اسم، الوصاۃ ہے۔ تراصی القوم اوصی بعضھم بعضا۔ بعض نے بعض کو وصیت کی۔ حدیث پاک میں ہے : استوصوا بالنساء خیرا فانھن عوان عندکم۔ عورتوں کے متعلق خیر کی وصیت قبول کرو وہ تمہارے پاس قیدی ہیں۔ ووصیت الشئ بکذا جب تو کسی چیز کو دوسری چیز سے ملا دے۔ مسئلہ نمبر 5 : علماء کا وصیت کے وجوب میں اختلاف ہے جو مال چھوڑ جائے اور اس پر اجماع ہے کہ جس پر ودیعتیں ہوں اور جس پر قرض ہو اس کا وصیت کرنا واجب ہے۔ اکثر علماء فرماتے ہیں : وصیت اس پر واجب نہیں ہے جس پر ودیعت اور قرض وغیرہ نہ ہوں، یہ امام مالک، امام شافعی اور ثوری کا قول ہے خواہ وصیت کرنے والا امیر ہو یا فقیر ہو۔ ایک طائفہ نے کہا : ظاہر قرآن کے مطابق وصیت واجب ہے، یہ زہری اور ابو مجلز کا قول ہے مال تھوڑا ہو یا زیادہ ہو۔ ابو ثور نے کہا : وصیت واجب نہیں ہے مگر اس پر جس پر قرض ہو یا اس کے پاس کسی قوم کا مال ہو۔ اس پر واجب ہے کہ وہ اپنی وصیت کو لکھے اور جو کچھ اس پر کسی کا حق ہے اس کے متعلق بتائے۔ رہا وہ جس پر نہ قرض ہے اور نہ ودیعت ہے، اس پر وصیت کرنا واجب نہیں مگر وہ چاہے تو۔ ابن منذر نے کہا : یہ بہتر ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے امانات کی ادائیگی فرض کی ہے اور جس پر کوئی حق نہیں ہے اور کوئی امانت نہیں ہے اس پر وصیت کرنا واجب نہیں ہے۔ پہلے نظریہ کے حاملین نے اس حدیث سے حجت پکڑی ہے جو ائمہ نے حضرت ابن عمر سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا : کسی مسلمان کا حق نہیں کہ اس کے لئے کوئی چیز ہو جس کے متعلق وہ وصیت کرنا چاہتا ہو وہ دوراتیں گزارے مگر اس کی وصیت لکھی ہو۔ ایک روایت میں ہے، وہ تین راتیں گزارے۔ اس کے متعلق حضرت عبد اللہ بن عمر نے فرمایا : جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے مجھ پر ایک رات بھی نہیں گزری مگر میرے پاس میری وصیت (لکھی ہوئی) ہے اور جن علماء نے وصیت کو واجب نہیں کیا انہوں نے اس سے حجت پکڑی ہے کہ اگر وصیت واجب ہوتی تو اس کو وصیت کرنے والے کے ارادہ پر نہ چھوڑا جاتا، اس پر ہر حال میں وصیت کرنا لازم ہوتا۔ پھر اگر تسلیم کیا جائے کہ اس کا ظاہر وجوب ہے تو وجوب کا قول اسے رد کرتا ہے۔ یہ اس کے متعلق ہے جس پر لوگوں کے حقوق ہو ان کے ضیاع کا خوف ہوگا جیسا کہ ابو ثور نے کہا۔ اسی طرح جس کے لئے لوگوں کے پاس حقوق ہوں گے ورثۃ پر اس کے تلف ہونے کا خوف ہوگا، اس صورت میں اس پر وصیت کرنا واجب ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کتب علیکم، کتب بمعنی فرض ہے تو یہ وصیت کے وجوب کی دلیل ہے۔ اس کے متعلق جواب پہلے گزر چکا ہے۔ اس کا معنی ہے : جب تم وصیت کا ارادہ کرو۔ نخعی نے کہا : رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوا اور وصیت نہیں کی اور حضرت ابوبکر نے وصیت کی۔ اگر وصیت کرے تو یہ اچھا ہے اگر وصیت نہ کرے تو اس پر کچھ نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر 6 : اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جس مال سے وصیت کرنی ہے اس کی مقدار بیان نہیں کی۔ فرمایا : ان ترک خیرا، الخیر سے مراد مال ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما تنفقوا من خیر (البقرہ : 272) وانہ لحب الخیر (العادیات : 8) ان آیات میں خیر سے مراد مال ہے۔ اس کی مقدار میں علماء کا اختلاف ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے پانچویں حصہ کی وصیت کی حضرت علی ؓ نے فرمایا مسلمانوں کے مال غنیمت سے خمس (پانچویں حصہ) ہے۔ معمر نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر نے چوتھائی کی وصیت کی، یہ بخاری نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے اور حضرت علی ؓ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا : میرے نزدیک خمس کی وصیت کرنا چوتھائی وصیت کرنے سے زیادہ محبوب ہے اور چوتھائی وصیت کرنا ثلث وصیت کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ علماء کی ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ جس کا مال تھوڑا ہو اور اس کے ورثاء ہوں تو اس کے لئے وصیت نہ کرنا بہتر ہے۔ یہ حضرت علی، حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے۔ ابن ابی شیبہ نے ابن ابی ملیکہ عن عائشہ ؓ کے سلسلہ سے روایت کیا ہے کہ ابن ابی ملیکہ نے حضرت عائشہ سے کہا : میں وصیت کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت عائشہ نے کہا : تمہارا کتنا مال ہے ؟ اس نے کہا : تین ہزار۔ حضرت عائشہ نے پوچھا : تمہارے عیال کتنے ہیں ؟ اس نے کہا : چار۔ حضرت عائشہ نے کہا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ان ترک خیرا اور یہ تمہارا مال تھوڑا ہے۔ یہ اپنے عیال کے لئے چھوڑ دے کیونکہ تیرے لئے یہی افضل ہے۔ مسئلہ نمبر 7 : جمہور علماء کا خیال ہے کہ کسی کے لئے ثلث سے زیادہ کی وصیت کرنا جائز نہیں مگر امام ابوحنیفہ اور اس کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ موصی اگر ورثاء نہ چھوڑے تو اس کے لئے پورے مال کی وصیت کرنا جائز ہے۔ احناف فرماتے ہیں : وصیت میں ثلث پر اکتفا اس لئے ہے کہ ورثاء کو اغنیاء چھوڑے کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے تیرا اپنے ورثاء کو غنی چھوڑنا ان کو فقیر چھوڑنے سے بہتر ہے کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔ اس حدیث کو ائمۃ نے روایت کیا ہے۔ اور جس کا وارث نہ ہو وہ اس حدیث میں مراد نہیں ہے۔ یہ قول حضرت ابن عباس سے بھی مروی ہے۔ ابو عبیدہ اور مسروق کا بھی یہی قول ہے۔ اسحاق اور امام مالک کا بھی ایک قول یہی ہے۔ حضرت علی ؓ سے یہی مروی ہے۔ اختلاف کا سبب ہم نے پہلے ذکر کردیا ہے۔ بیت المال میں اختلاف ہے کہ کیا وہ وارث ہے یا حافظ ہے اس مال کا جو اس میں رکھا جائے۔ اس میں دو قول ہیں۔ مسئلہ نمبر 8 : علماء کا اجماع ہے کہ جو فوت ہوجائے اور اس کے ورثاء ہوں تو اس کے لئے تمام مال کی وصیت کرنا جائز نہیں۔ حضرت عمرو بن عاص ؓ سے مروی ہے، انہوں نے اپنے بیٹے عبد اللہ کو فرمایا : جب ان کی موت کا وقت قریب آیا کہ میں وصیت کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت عبد اللہ نے کہا : آپ وصیت فرمائیں، آپ کا مال میرے مال میں ہے۔ حضرت عمرو نے کاتب کو بلایا اور اسے وصیت لکھوائی۔ حضرت عبد اللہ نے کہا میں نے انہیں کہا میں نہیں دیکھتا ہوں مگر یہ کہ آپ نے میرے اور اپنے مال کی وصیت کردی ہے اگر میں اپنے بھائیوں کو بلاوں تو ان سے یہ حلال کر والوں۔ مسئلہ نمبر 9 : علماء کا اجماع ہے کہ انسان کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی وصیت میں تبدیلی کرے اور اس میں سے جتنا چاہے رجوع کرے مگر مدبر غلام کے بارے میں اختلاف ہے۔ امام مالک نے فرمایا : ہمارے نزدیک اس پر اجماع ہے کہ وصیت کرنے والا حالت صحت میں یا حالت مرض میں ایسی وصیت کرے جس میں غلاموں میں سے کسی غلام کو آزاد کرنا ہو یا اس کے علاوہ کوئی امر ہو تو جو چاہے اس میں تبدیلی کرے اور جو چاہے اس میں عمل کرے حتیٰ کہ وہ فوت ہوجائے۔ اگر وہ اس وصیت کو ختم کرنا چاہے تو ایسا کرسکتا ہے مگر یہ کہ اس کے غلام کو مدبر بنایا جائے اگر غلام کو مدبر بنائے تو اس میں اس کو تبدیلی کا کوئی اختیار نہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی مسلمان کا حق نہیں کہ اس کے لئے کوئی چیز ہو جس میں وہ وصیت کرنا چاہتا ہو تو وہ دوراتیں گزارے مگر یہ کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہو۔ ابو الفرج مالکی نے کہا : قیاس میں مدبر بھی ایک مہینہ تک آزاد کئے جانے والے غلام کی طرح ہے موت لامحالہ آنے والی ہے اور علماء کا اجماع ہے کہ مدت تک آزاد کرنے اور عتق کی قسم جو ایک مدت تک اس نے اٹھائی ہے اس میں رجوع نہیں کرسکتا اسی طرح مدبر بحی ہے۔ امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے امام شافعی، احمد اور اسحاق نے کہا : یہ وصیت ہے اور یہ بھی ثلث میں ہوگا جس طرح دوسرے وصایا کا حکم ہے اور مدبرہ (لونڈی) سے ان کا وطی کی اجازت دینا ان کے مدبر کو ایک مدت تک عتق پر قیاس کرنے کو توڑنا ہے۔ حالانکہ یہ ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مدبر غلام کو فروخت کیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے اپنی لونڈی کو مدبرہ بنایا پھر اسے فروخت کیا یہ تابعین کی ایک جماعت کا قول ہے۔ ایک طائفہ نے کہا : انسان اپنی وصیت میں جو چاہے تبدیلی کرسکتا ہے مگر آزادی میں تبدیلی نہیں کرسکتا۔ اسی طرح شعبی، ابن سیرین، ابن شبرمہ اور نخعی نے کہا ہے۔ یہ سفیان ثوری کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر 10 : اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ جو اپنے غلام کو کہتا ہے : تو میرے مرنے کے بعد آزاد ہے اور وصیت کا ارادہ کیا تو امام مالک کے نزدیک اس کو رجوع کا حق ہے اور اگر کہا : فلاں میری موت کے بعد مدبر ہے تو اس میں اس کے رجوع کا حق نہیں ہے اور اگر پہلے قول سے تدبر کا ارادہ کیا ہوگا تو اسے اکثر اصحاب مالک کے نزدیک وجوع کا حق نہ ہوگا۔ امام شافعی، احمد، اسحاق کے نزدیک یہ وصیت ہے کیونکہ یہ ثلث میں ہے اور جو ثلث میں ہو وہ وصیت ہے مگر امام شافعی نے کہا : مدبر میں رجوع نہیں مگر یہ کہ اسے فروخت کرے یا ہبہ کے ساتھ اپنی ملکیت سے نکال دے۔ اور صرف یہ کہنا (میں نے رجوع کیا) رجوع نہیں ہے اور اگر مدبر کو اپنی ملکیت سے نہ نکالا حتیٰ کہ وہ فوت ہوگیا تو اس کے مرنے کے ساتھ غلام آزاد ہوجائے گا۔ امام شافعی کا پہلا قول یہ ہے کہ وہ مدبر میں اسی رجوع کرسکتا ہے جس طرح وصیت میں رجوع کرسکتا ہے۔ مزنی نے اس کو اختیار فرمایا۔ انہوں نے علماء کی اس بات کے اجماع پر قیاس کیا ہے کہ جو عتق کی وصیت کرے وہ رجوع کرسکتا ہے۔ ابو ثور نے کہا : اگر اس نے کہا : میں نے اپنے مدبر میں رجوع کیا تو اس کی تدبیر باطل ہوگئی اگر وہ مرگیا تو غلام آزاد نہ ہوگا۔ ابن القاسم اور اشہب نے اس شخص کے بارے میں کہا جس نے کہا : میرا غلام میرے مرنے کے بعد آزاد ہے اور اس نے اس قول سے وصیت اور تدبیر کا ارادہ نہیں کیا۔ ابن القاسم نے کہا : یہ وصیت ہے، اشہب نے کہا : وہ مدبر ہے اگرچہ اس نے وصیت کا ارادہ نہ کیا ہو۔ مسئلہ نمبر 11 : علماء کا اس آیت کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ منسوخ ہے یا محکم ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ محکم ہے اس کا ظاہر عموم ہے اور اس کا معنی ان والدین کے بارے میں خاص ہے جو وارث نہیں ہوتے جیسے والدین کافر ہوں اور غلام ہوں اور ان رشتہ داروں کے بارے میں خاص ہے جو وارث نہ ہوں۔ یہ ضحاک، طاوس اور حسن کا قول ہے۔ طبری نے اس کو اختیار کیا ہے۔ زہری سے مروی ہے کہ وصیت زیادہ اور کم ہر مال میں واجب ہے۔ ابن منذر نے کہا : اہل علم کا اجماع ہے کہ ان والدین کے لئے وصیت ہے جو وارث نہیں ہوتے اور ان قریبی رشتہ داروں کے لئے جو وارث نہیں ہوتے۔ حضرت ابن عباس، حسن اور قتادہ کا قول عامۃ ہے اس کا حکم ایک تھوڑے سے عرصہ کے لئے ثابت رہا پھر جو رشتہ دار آیت فرائض کے ذریعے وارث ہوا ان میں سے ہر ایک منسوخ ہوگیا۔ بعض علماء نے فرمایا : آیت الفرائض نے اس کو مستقل منسوخ نہیں کیا بلکہ ایک دوسرے ضمیمہ کے ساتھ منسوخ ہوئی اور یہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : ” اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق عطا فرمایا، وارث کے لئے وصیت نہیں “۔ اس حدیث کو حضرت ابو امامہ نے روایت کیا ہے اور اسے امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ آیت کا نسخ سنت ثابتہ سے ہے نہ کہ ارث سے۔ علماء کے اقوال میں سے صحیح قول کے مطابق اگر یہ حدیث نہ ہوتی تو ان دونوں آیتوں کو اس طرح جمع کرنا ممکن ہوتا کہ میت سے وصیت کے ذریعے مال حاصل کریں اور اگر وصیت نہ کی ہو تو میراث کے ذریعے حاصل کریں یا جو وصیت کے بعد باقی بچے لیکن اس سے مانع یہ حدیث اور اجماع ہے۔ امام شافعی اور ابو الفرج اگرچہ کتاب کا سنت کے ساتھ نسخ تسلیم نہیں کرتے، لیکن صحیح اس کا جواز ہے اس دلیل کی وجہ سے کہ ہر ایک اللہ کا حکم ہے اور اسی کی طرف سے ہے اگرچہ اسماء میں اختلاف ہے۔ یہ معنی پہلے گزر چکا ہے۔ ہم کہتے ہیں : اگرچہ یہ خبر ہمیں احاداً پہنچی ہے لیکن اس کے ساتھ مسلمانوں کا اجماع مل گیا ہے کہ وارث کے لئے وصیت جائز نہیں۔ پس ظاہر ہوا کہ قریبی وارثوں کے لئے وصیت کا وجوب سنت کے ساتھ منسوخ ہے اور علمائ کے اجماع سے اس کو تائید حاصل ہے۔ حضرت ابن عباس اور حسن نے کہا : والدین کے لئے وصیت اس فرض کے ساتھ منسوخ ہے جو سورة النساء میں ہے اور ان قریبی رشتہ داروں کے لئے وصیت ثابت ہے جو وارث نہیں ہوتے۔ یہ امام شافعی اور اکثر مالکیوں اور اہل علم کا مذہب ہے۔ بخاری میں حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے، فرمایا : مال بچے کے لئے تھا اور وصیت والدین کے لئے تھی۔ پس اس نے جو پسند کیا اسے منسوخ کردیا۔ پھر دو عورتوں کے حصہ کی مثل ایک مذکر کے لئے حصہ مقرر کیا اور والدین میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ مقرر کیا اور عورت کے لئے آٹھواں اور چوتھا حصہ مقرر کیا، خاوند کے لئے نصف اور چوتھا حصہ مقرر کیا۔ حضرت ابن عمر، حضرت ابن عباس اور حضرت ابن زید نے کہا : یہ ساری آیت منسوخ ہے اور وصیت ندبا باقی ہے۔ امام مالک کا قول اسی طرح ہے۔ نحاس نے یہ شعبی اور نخعی سے ذکر کیا ہے۔ ربیع بن خثیم نے کہا : وصیت نہیں ہے، عروہ بن ثابت نے کہا : میں نے ربیع بن خثیم سے کہا مجھے اپنے مصحف کی وصیت کیجئے۔ ربیع نے اپنی اولاد کی طرف دیکھا اور یہ آیت پڑھی والوا الارحام ﷺ ۔ کتب اللہ (انفال : 75) حضرت ابن عمر نے اسی طرح کیا تھا۔ مسئلہ نمبر 12 : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : والاقربین یہ اقرب کی جمع ہے ایک قوم نے کہا : اقربین کے لئے وصیت کرنا، اجنبیوں کے لئے وصیت کرنے سے اولیٰ ہے کیونکہ ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے نص قائم فرمائی ہے۔ حتیٰ کہ ضحاک نے کہا : اگر کسی نے اپنے قرابتداروں کے علاوہ کے لئے وصیت کی تو معصیت کی وجہ سے اس کا عمل ختم ہوگیا۔ حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنی ام ولد لونڈیوں کے لئے وصیت کی، ہر ایک کے لئے چار ہزار کی وصیت کی۔ روایت ہے کہ حضرت عائشہ نے اپنی لونڈی کے لئے گھر کے سامان کی وصیت کی۔ حضرت سالم بن عبد اللہ سے اس کی مثل مروی ہے۔ حسن نے کہا : اگر قرابتداروں کے علاوہ کے لئے وصیت کی تو وصیت اقربین کے لئے پھیری جائے گی۔ اگر اجنبی کے لئے وصیت ہوگی تو وہ ان کے ساتھ ہوگا۔ قریبی رشتہ داروں کو چھوڑ کر غیروں کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں۔ جب ابو العالیہ فوت ہوئے تو لوگوں نے کہا : اس کے لئے تعجب ہے اس کو ریاح قبیلہ کی ایک عورت نے آزاد کیا تھا اور اس نے اپنے مال کی بنی ہاشم کے لئے وصیت کی۔ شعبی نے کہا : یہ اس کے لئے جائز نہیں تھا اور نہ کرامت تھی۔ طاوس نے کہا : اگر قرابتداروں کے علاوہ کے لئے وصیت کی ہوگی تو اسے قرابتداروں کی طرف پھیرا جائے گا اور اس کا فعل توڑ دیا جائے گا۔ یہ حضرت جابر بن زید کا قول ہے اس کی مثل حسن سے مروی ہے۔ اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک، امام شافعی، امام ابوحنیفہ اور اس کے اصحاب، امام اوزاعی، امام احمد بن حنبل نے فرمایا : جس نے قرابتداروں کے علاوہ کے لئے وصیت کی اور اپنے قرابتداروں کو ترک کردیا تو اس نے برا کیا اور اس کا فعل جائز ہوگا اور جس کے لئے اس نے وصیت کی ہوگی غنی، فقیر، قریب، بعید، مسلمان، کافر سب کے لئے نافذ ہوگی۔ یہی معنی حضرت ابن عمر اور حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے۔ یہی حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ میں کہتا ہوں : پہلا قول احسن ہے، رہا ابو العالیہ کا فعل، شاید اس نے دیکحا کہ بنی ہاشم اس کے آزاد کرنے والوں سے زیادہ مستحق ہیں، حضرت ابن عباس کی صحبت کی وجہ سے اور حضرت ابن عباس کے تعلیم دینے کی وجہ سے اور اسے دنیا و آخرت میں علماء کے درجہ پر فائز کرنے کی وجہ سے۔ یہ ابرۃ اگرچہ معنوی ہے حقیقت میں یہی حقیقی ہے۔ اور اس کی آزاد کرنے والی نے دنیا میں اسے احرار کے ساتھ لاحق کیا تحا۔ پس اس نے اپنے عشق سے ثواب کی نیت کی تھی اس کے لئے اس کا ثواب کافی ہے۔ مسئلہ نمبر 13 : جمہور علماء کا نظریہ ہے کہ مریض پر اس کے مال میں حجر کیا جائے گا اور اہل ظاہر نے اس پر سختی کی اور کہا : اس پر حجر نہیں کیا جائے گا اور یہ صحیح کی طرح ہے۔ حدیث اور معنی جمہور کا رد کرتا ہے۔ حضرت سعد نے فرمایا : حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے میری اس تکلیف میں بیمار پرسی کی جس میں موت کے قریب پہنچ چکا تحا۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ : مجحے وہ تکلیف پہنچ چکی ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں اور میں مالدار آدمی ہوں اور وارث صرف ایک بیٹی ہے۔ کیا میں اپنے مال کا دو ثلث صدقہ کر دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں۔ میں نے عرض کی : نصف صدقہ کر دوں ؟ فرمایا : نہیں۔ تیسرا حصہ صدقہ کرو اور تیسرا حصہ زیادہ ہے اگر تم اپنے ورثاء کو غنی چھوڑ جاو تو یہ ان کے غریب چھوڑنے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اہل ظاہر نے ثلث سے زیادہ وصیت کرنے سے منع کیا ہے اگرچہ ورثاء جائز بھی قرار دیں اور باقی تمام علماء نے اس کو جائز قرار دیا جب ورثاء جاء ز قرار دیں۔ یہ صحیح ہے کیونکہ مریض تو ثلث سے زیادہ وصیت کرنے سے، وارث کے حق کی وجہ سے منع کیا گیا ہے جب ورثاء نے اپنا حق خود ساقط کردیا تو یہ جائز اور صحیح اور یہ ان کی طرف سے ہبہ کی طرح ہے۔ دار قطنی نے ابن عباس سے روایت کیا ہے، فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی وارث کے لئے وصیت جائز نہیں ہے مگر یہ کہ ورثاء چاہیں۔ حضرت عمر وبن خارجہ سے مروی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وارث کے لئے وصیت نہیں مگر یہ کہ ورثاء اجازت دیں۔ مسئلہ نمبر 14 : موصی کی زندگی میں وارث کے لئے وصیت کو جائز کرنے والے کے اس کے مرنے کے بعد رجوع میں اختلاف ہے۔ ایک طائفہ نے کہا : یہ ان پر جائز ہے، اس میں ان کے لئے رجوع جائز نہیں۔ یہ عطاء بن ابی رباح، طاوس، حسن، ابن سیرین، ابن ابی لیلیٰ ، زہری، ربیعہ اور اوزاعی کا قول ہے۔ ایک طائفہ نے کہا : اگر وہ چاہیں تو رجوع کرسکتے ہیں۔ یہ حضرت ابن مسعود، شریح، حکم، طاوس، ثوری، حسن بن صالح، امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد اور ابو ثور کا قول ہے، ابن منذر نے اس کو پسند کیا ہے۔ امام مالک نے فرق کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا : جب وہ حالت صحت میں اجازت دیں تو ان کے لئے رجوع کرنا جائز ہے اگر وہ اس کی حالت مرض میں اجازت دیں جب اسے مال میں تصرف سے روکا جاتا ہے تو یہ ان کے لئے جائز ہے۔ یہ اسحاق کا قول ہے پہلے مقالہ والوں نے حجت پیش کی ہے کہ منع ورثاء کی وجہ سے تھا، جب وہ جائز قرار دیں تو جائز ہے، علماء کا اتفاق ہے کہ جو وہ ثلث سے زیادہ اجنبی کے لئے وصیت کرے تو ورثاء کی اجازت سے جائز ہے اسی طرح یہاں ہے۔ اور دوسرے قول والوں نے یہ حجت پیش کی ہے کہ انہوں نے اس کی اجازت دی جبکہ اس وقت وہ مالک نہیں تھے۔ اس کی وفات کے بعد وہ مالک ہوں گے۔ کبھی وارث جو پہلے اجازت دینے والا تھا وہ فوت ہوجاتا ہے اور وہ وارث نہیں ہوتا ہے کبھی کوئی اور وارث ہوجاتا ہے کبھی وہ اجازت دیتا ہے جس کا اس مال میں کوئی حق نہیں ہوتا تو اس سے کوئی چیز لازم نہیں ہوتی۔ امام مالک نے اس قول سے حجت پیش کی ہے کہ ایک شخص جب صحیح ہوتا ہے تو وہ اپنے مال کا زیادہ حقدار ہوتا ہے جو چاہے اس میں تصرف کرے۔ جب انہوں نے اس کو اس کی حالت صحت میں اجازت دی تو انہوں نے ایسی چیز کو چھوڑا جو ان کے لئے واجب نہ تھی۔ اور جب انہوں نے اس کی حالت مرض میں اجازت دی تو انہوں نے ایسی چیز کو ترک کیا جو ان کے لئے ثابت تھی۔ پس ان کے لئے اس میں رجوع نہیں جب وہ کرچکا ہے کیونکہ وہ فوت ہوچکا ہے۔ مسئلہ نمبر 15 : اگر مریض اس کو نافذ نہ کرے تو وارث کے لئے اس میں رجوع ہے کیونکہ تنفیذ کے ساتھ فوت نہ ہوا۔ یہ ابہری کا قول ہے۔ ابن منذر نے اسحاق بن راہویہ سے روایت کیا ہے کہ اس مسئلہ میں امام مالک کا قول سنت کے زیادہ مشابہ ہے۔ ابن منذر نے کہا : امام مالک، ثوری، کو فیوں، امام شافعی اور ابو ثور کا قول متفق ہے کہ جب اس کی وفات کے بعد جائز قرار دیں تو انہیں لازم ہوجائے گا۔ مسئلہ نمبر 16 : علماء کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو بعض کے لئے مال کی وصیت کرے اور اپنی وصیت میں کہے : اگر ورثاء نے اجازت دی تو یہ اس کے لئے ہوگا اگر وہ اجازت نہیں دیں گے تو وہ اللہ کے راستہ میں خرچ کیا جائے گا۔ پس ورثاء نے اجازت نہ دی۔ امام مالک نے فرمایا : اگر ورثاء اس کی اجازت نہ دیں تو ورثاء کی طرف لوٹ آئے گا۔ امام شافعی، امام ابوحنیفہ اور معمر (صاحب عبد الرزاق) کے قول میں اللہ کے راستہ میں خرچ ہوگا۔ مسئلہ نمبر 17 : بالغ، عاقل غیر محجور علیہ کی وصیت میں کوئی اختلاف نہیں اور دوسروں میں اختلاف ہے۔ امام مالک نے فرمایا : ہمارے نزدیک اس پر اجماع ہے کہ جس کی عقل میں ضعف ہو، سفیہ اور وہ شخص جو کبھی دماغی تکلیف میں افاقہ پاتا ہو ان کے وصایا جائز ہیں جب کہ وہ اتنی عقل رکھتے ہوں کہ جو وہ وصیت کر رہے ہوں انہیں جانتے ہوں۔ اسی طرح چھوٹا بچہ جب اس چیز کو سمجھتا ہو جس کی وصیت کر رہا ہے اور کوئی غلط نہ کرے تو اس کی وصیت جائز اور نافذ ہے۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے ساتھیوں نے کہا : بچے کی وصیت جائز نہیں۔ مزنی نے کہا : یہ امام شافعی کے قول کا قیاس ہے۔ میں نے امام شافعی کی اس کے متعلق کوئی چیز نہیں پائی جو انہوں نے ذکر کی ہو اور اس پر نص قائم ہو۔ شوافع کے اصحاب کے دو قول ہیں : ایک امام مالک کے قول کی طرح ہے اور دوسرا امام ابوحنیفہ کے قول کی طرح ہے اور ان کی حجت یہ ہے کہ اس کی طلاق اور غلام آزاد کرنا جائز نہیں ہے اور نہ جنایت میں اس سے قصاص لیا جاتا ہے اور نہ قذف میں اسے حد لگائی جاتی ہے۔ وہ بالغ محجور علیہ کی طرح نہیں ہے، اسی طرح اس کی وصیت جائز ہے اور یہ معلوم شدہ ہے کہ بچوں میں سے جو اپنی وصیت کو سمجھتا ہے اس کا حال اس کے مال میں محجور علیہ کے حال کی طرح ہے اور حجر کی علت مال میں اسراف اور اسے تلف (ضائع) کرنا ہے۔ یہ علت اس سے موت کے ساتھ اٹھ گئی ہے اور محجور علیہ اپنے مال میں اس مجنون کے مشابہ ہے جو عقل نہیں رکھتا۔ پس اس امر کے ساتھ اس کی وصیت واجب ہے جس کے متعلق حضرت عمر سے روایت مروی ہے۔ امام مالک نے فرمایا : ہمارے نزدیک مدینہ طیبہ میں اس پر اجماع ہے۔ محمد بن شریح نے کہا : جس نے وصیت کی بڑا ہو یا چھوٹا ہو اس نے حق کو پالیا اللہ تعالیٰ نے اس کی زبان پر فیصلہ فرمایا اور حق کو کوئی دور کرنے والا نہیں۔ مسئلہ نمبر 18 : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بالمعروف یعنی عدل کے ساتھ، نہ اس میں کمی ہو نہ اس میں زیادتی ہو۔ یہ میت کے اجتہاد اور موصی کی نظر پر منحصر ہے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان پر اس کی تقدیر بیان فرمائی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : تہائی اور تہائی بھی زیادہ ہے۔ اس کے متعلق علماء کے اقوال پہلے گزر چکے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہاری وفات کے وقت اموال کے ثلث کو صدقہ کیا ہے یہ تمہاری نیکیوں میں زیادتی ہے تاکہ اس کو تمہارے لئے زکوٰۃ بنا دے۔ اس حدیث کو دار قطنی نے حضرت ابو امامہ سے روایت کیا ہے انہوں نے حضرت معاذ بن جبل سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ حسن نے کہا : وصیت جائز نہیں مگر تہائی میں۔ بخاری کا نظریہ بھی یہی ہے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں حجت پکڑی ہے۔ وان احکم بینھم بما انزل اللہ (المائدہ : 49) (اور تم فیصلہ کرو ان کے درمیان اس کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا) ۔ اور نبی کریم ﷺ کا حکم ہے۔ کہ ثلث (تہائی) کثیر ہے یہ وہ حکم ہے جو اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے اور جس نے اس حد سے تجاوز کیا جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائی اور تہائی سے زائد وصیت کی تو اس نے وہ کام کیا جس سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ کے حکم کو وہ جاننے والا ہو تو وہ اس فعل میں گنہگار ہوگا۔ امام شافعی نے فرمایا : نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے الثلث کثیر اس سے آپ نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ یہ قلیل نہیں ہے مسئلہ نمبر 19 : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : حقا اس سے مراد ثبوت ہے لیکن فرض اور وجوب کا ثبوت مراد نہیں ہے کیونکہ آگے ارشاد فرمایا علی المتقین یہ دلیل ہے کہ اس کا ہونا بطور استحباب ہے اگر یہ فرض ہوتا تو تمام مسلمانوں پر ہوتا جب اللہ تعالیٰ نے متقی کو خاص فرمایا یعنی جو کوتاہی اور گناہ کا خوف کرتا ہے۔ یہ دلیل ہے کہ یہ لازم نہیں ہے مگر اس صورت میں جس میں اسے تلف ہونے کی توقع ہو۔ اگر فوت ہوجائے اس صورت میں اس پر بطور قرض لازم ہوگا وہ لکھنے اور وصیت میں جلدی کرے کیونکہ اگر وہ خاموش رہے گا تو وہ ضائع کرنے والا اور کوتاہی کرنے والا ہوگا۔ اس کا معنی پہلے گزر چکا ہے۔ حقا، مصدر موکد کی بنا پر منصوب ہے اور غیر قرآن میں حق بھی جائز ہے یعنی ذالک حق۔ مسئلہ نمبر 20 : علماء نے فرمایا : وصیت کو جلدی لکھنا یہ آیت سے ماخوذ نہیں ہے۔ یہ حضرت ابن عمر کی حدیث سے ہے۔ اس کا فائدہ یقین کی زیادتی میں بالغہ کرنا ہے اور اس کا لکھا ہوا ہونا اس کی گواہی دی گئی ہے اور اس وصیت پر عمل کرنے میں اتفاق ہے۔ اگر عادل آدمیوں کو گواہ بنا لے اور گواہ اس شہادت کو لفظاً قائم کریں تو اس کے مطابق عمل کیا جائے گا اگرچہ لکھی نہ گئی ہو۔ اگر وہ اپنے ہاتھ سے لکھے اور گواہ نہ بنائے تو امام مالک کا قول مختلف نہیں ہے۔ اس پر عمل نہیں کیا جائے گا مگر ایسی صورت میں جس میں اس شخص کے لئے حق کا اقرار ہو جس کے بارے میں اس پر تہمت نہ ہو تو اس کا نفاذ لازم ہوگا۔ مسئلہ نمبر 22 : دارقطنی نے حضرت انس بن مالک سے روایت کیا ہے، فرمایا : لوگ اپنے وصایا کے آغاز میں یہ لکھتے تھے : ھذا ما اوصی بہ فلان بن فلاں انہ یشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، وان محمداً عبدہ ورسولہ، وان الساعۃ آتیۃ لا ریب فیھا، وان اللہ یبعث من فی القبور، واوصی من ترک بعدہ من اھلہ بتقویٰ اللہ حق تقاتہ وان یصلحوا ذات بینھم، ویطیعوا اللہ ورسولہ ان کانوا مومنین واوصاھم بما وصی بہ ابراھیم بنیہ ویعقوب یا بنی ان اللہ اصطفی لکم الدین فلا تموتن الا وانتم مسلمون۔ ترجمہ : میں فلاں بن فلاں کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد ﷺ اس کے (برگزیدہ) بندے اور رسول ہیں (اور گواہی دے کہ) قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں اور اللہ تعالیٰ اٹھائے گا انہیں جو قبور میں ہیں اور میں اسے بھی وصیت کرتا ہوں، جو وہ اپنے گھر والوں میں سے چھوڑے، اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کی جس طرح اس کے تقویٰ کا حق ہے اور میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ لوگوں کے درمیان صلح کرائیں، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اطاعت کریں اگر وہ مومن ہیں اور میں انہیں اس کے ساتھ وصیت کرتا ہوں جو ابراہیم (علیہ السلام) نے اور یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی۔ (اے میرے بچو : بیشک اللہ نے پسند فرمایا ہے تمہارے لئے یہی دین سو ہر گز نہ مرنا مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو) ۔
Top