Al-Qurtubi - Al-Baqara : 179
وَ لَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے فِي : میں الْقِصَاصِ : قصاص حَيٰوةٌ : زندگی يّٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجاؤ
اور اے اہل عقل ! (حکم) قصاص میں (تمہاری) زندگانی ہے کہ تم (قتل و خونریزی سے) بچو۔
آیت نمبر 179 اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولکم فی القصاص حیوۃ یہ بلیغ مگر مختصر کلام ہے۔ اس کا معنی ہے : بعض بعض کو قتل نہ کریں۔ یہ سفیان نے سدی سے انہوں نے ابو مالک سے روایت کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قصاص جب قائم کیا جائے گا اور حکم قاتل میں ثابت ہوجائے گا تو وہ دوسرے کے قتل کے ارادہ سے باز رہے گا اس خوف سے کہ اس سے قصاص لیا جائے گا۔ پس اس سے وہ دونوں زندہ رہیں گے۔ عرب میں یہ رواج تھا کہ جب کوئی شخص دوسرے کو قتل کرتا تھا تو دونوں کے قبیلے گرم ہوجاتے اور آپس میں جنگ کرتے اور یہ چیز بہت زیادہ لوگوں کے قتل کا باعث بنتی جب اللہ تعالیٰ نے قصاص مشروع فرمایا تو تمام اس پر قناعت کرنے والے ہوگئے اور جنگ ترک کردی، پس ان کے لئے اس میں زندگی ہے۔ مسئلہ نمبر 2 : ائمہ فتویٰ ہے کہ کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ سلطان کے بغیر خود اپنے حق میں قصاص لے۔ لوگوں کے لئے ایک دوسرے سے قصاص لینا جائز نہیں۔ یہ کام سلطان کے سپرد ہے یا اس کے سپرد ہے جس کو سطان مقرر کرے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے سلطان بنایا تاکہ وہ لوگوں کے ہاتھوں کو روکے۔ مسئلہ نمبر 3 : علماء کا اجماع ہے کہ سلطان سے بھی قصاص لیا جائے گا اگر وہ اپنی رعیت میں سے کسی پر تعدی کرے گا۔ کیونکہ سلطان بھی ان میں سے ایک ہے، اسے لوگوں کی دیکھ بھال کی فضیلت ہے جیسے وصی اور وکیل ہوتا ہے۔ یہ چیز قصاص سے مانع نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام میں حاکم اور عام لوگوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کتب علیکم القصاص فی القتلیٰ (البقرہ :178) حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے ثابت ہے کہ آپ نے اس شخص سے کہا جس نے خدری سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ کوئی چیز تقسیم فرما رہے تھے۔ ایک شخص آپ کے اوپر جھکا تو رسول اللہ ﷺ ۔ نے کھجور کی اس چھڑی سے چوک دی جو آپ کے پاس تھی، وہ شخص چیخنا، رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا : ادھر آ اور اپنا بدلہ لے لے۔ اس شخص نے کہا : یا رسول اللہ : میں نے معاف کیا۔ ابو داود طیالسی نے ابو فراس سے روایت کیا ہے، فرمایا : حضرت عمر بن خطاب نے خطبہ دیا اور کہا : خبردار : امیر جس پر ظلم کرے وہ اپنا مقدمہ میرے پاس لے آئے تو میں اس کا اس امیر سے قصاص لوں گا۔ حضرت عمروبن عاص کھڑے ہوئے اور کہا : اے امیر المومنین : اگر ہم میں سے کوئی اپنی رعیت میں سے کسی کو تادیب کرے تو آپ اس سے قصاص لیں گے ؟ حضرت عمر نے کہا : میں اس سے قصاص کیسے نہیں لوں گا ؟ میں نے رسول اللہ ﷺ ۔ کو دیکھا آپ اپنے نفس سے لوگوں کو قصاص لیتے دیتے۔ ابو داود و سجستانی کے لفظ یہ ہیں، فرمایا : ہمیں حضرت عمر بن خطاب نے خطاب فرمایا اور فرمایا : میں نے اپنے عمال اس لئے نہیں بھیجے کہ وہ تمہارے چمڑوں پر ضربیں لگائیں اور نہ اس لئے بھیجے کہ وہ تم سے تمہارے اموال لیں۔ جو کسی کے ساتھ ایسا کرے وہ اپنا مقدمہ میرے پاس لے آئے میں اس سے قصاص لوں گا اس کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔ مسئلہ نمبر 4 : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لعلکم تتقون اس کا معنی پہلے گزر چکا ہے۔ یہاں مراد ہے تم قتل سے بچ جاو اور قصاص سے سلامت رہو پھر یہ تقویٰ کی دوسری اقسام کی طرف داعی ہوگا۔ اللہ اطاعت کے ساتھ ثواب دیتا ہے۔ ابو الجوزا٫ اوس بن عبد اللہ الربعی نے ولکم فی القصاص حیاۃ پڑھا ہے۔ نحاس نے کہا : ابو الجوزاء کی قراءت شاذہ ہے۔ دوسرے علماء نے کہا : یہ بھی احتمال ہے کہ یہ قصاص کی طرح مصدر ہو۔ بعض نے فرمایا : لقصص سے مراد قرآن ہے یعنی تمہارے لئے کتاب اللہ میں حیات ہے جس میں قصص کو بیان کیا گیا ہے۔ حیاۃ سے مراد نجات ہے۔
Top