Al-Qurtubi - Al-Baqara : 178
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰى١ؕ اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰى١ؕ فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍ١ؕ ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ رَحْمَةٌ١ؕ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِب : فرض کیا گیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْقِصَاصُ : قصاص فِي الْقَتْلٰي : مقتولوں میں اَلْحُرُّ : آزاد بِالْحُرِّ : آزاد کے بدلے وَالْعَبْدُ : اور غلام بِالْعَبْدِ : غلام کے بدلے وَالْاُنْثٰى : اور عورت بِالْاُنْثٰى : عورت کے بدلے فَمَنْ : پس جسے عُفِيَ : معاف کیا جائے لَهٗ : اس کے لیے مِنْ : سے اَخِيْهِ : اس کا بھائی شَيْءٌ : کچھ فَاتِّبَاعٌ : تو پیروی کرنا بِالْمَعْرُوْفِ : مطابق دستور وَاَدَآءٌ : اور ادا کرنا اِلَيْهِ : اسے بِاِحْسَانٍ : اچھا طریقہ ذٰلِكَ : یہ تَخْفِيْفٌ : آسانی مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَرَحْمَةٌ : اور رحمت فَمَنِ : پس جو اعْتَدٰى : زیادتی کی بَعْدَ : بعد ذٰلِكَ : اس فَلَهٗ : تو اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
مومنو ! تم کو مقتولوں کے بارے میں قصاص (یعنی خون کے بدلے خون) کا حکم دیا جاتا ہے (اس طرح پر کہ) آزاد کے بدلے آزاد (مارا جائے) اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت۔ اور اگر قاتل کو اس کے (مقتول) بھائی (کے قصاص میں) سے کچھ معاف کردیا جائے تو (وارث مقتول کو) پسندیدہ طریق سے (قرارداد کی) پیروی (یعنی مطالبہ خون بہا کرنا) اور (قاتل کو) خوش خوئی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے یہ پروردگار کی طرف سے (تمہارے لئے) آسانی اور مہربانی ہے جو اس کے بعد زیادتی کرے اس کے لئے دکھ کا عذاب ہے۔
آیت نمبر 178 اس میں سترہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: بخاری، نسائی اور دار قطنی نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے، فرمایا : بنی اسرائیل میں صرف قصاص (بدلہ) تھا ان میں دیت نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو کہا : کتب علیکم۔۔۔۔ من اخیہ شیء، العفو سے مراد قتل عمد میں دیت کو قبول کرنا ہے۔ فاتباع بالمعروف وادآء الیہ باحسان وہ معروف طریقہ سے طلب کرے اور وہ احسان کے ساتھ ادا کرے۔ تخفیف من ربکم ورحمۃ جو تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا۔ فمن اعتدی بعد ذلک عذاب الیم جس نے دیت کی قبولیت کے بعد قتل کیا تو اس پر عذاب الیم ہے۔ یہ بخاری کے الفاظ ہیں۔ حمیدی نے ہمیں بیان کیا انہوں نے کہا : ہمیں سفیان نے بیان کیا انہوں نے کہا : ہمیں عمرو نے بیان کیا، فرمایا : میں نے مجاہد کو یہ کہتے ہوئے سنا انہوں نے کہا : میں نے حضرت ابن عباس کو یہ کہتے ہوئے سنا۔ شعبی نے الحر بالحرو العبد بالعبدو الانثی بالانثی کے تحت فرمایا : یہ عربوں کے دو قبائل کے بارے اتری جو آپس میں لڑے تھے۔ انہوں نے کہا ہم اپنے غلام کے بدلے میں فلاں بن فلاں کو قتل کریں گے اور ہم اپنی لونڈی کے بدلے میں فلانۃ بنت فلاں کو قتل کریں گے۔ اسی طرح قتادہ سے مروی ہے۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کتب علیکم القصاص، کتب کا معنی فرض اور اثبت ہے۔ اسی سے عمر بن ابی ربیعۃ کا قول ہے : کتب القتل والقتال علینا وعلی الغانیات جرالذیول ہم پر قتل اور قتال فرض کیا گیا ہے اور گانے والیوں پر دامنوں کو گھسیٹنا۔ بعض علماء نے فرمایا : کتب یہاں خبر دینا ہے اس کے متعلق جو لوح محفوظ پر رکھا گیا ہے اور جس کے متعلق فیصلہ ہوچکا ہے القصاص۔ یہ قص الاثر سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے پیچھا کرنا۔ اسی سے القاص ہے کیونکہ وہ آثار اور اخبار کی اتباع کرتا ہے۔ قص الشعر اس کے اثر کی اتباع کرنا۔ گویا قاتل قتل کے راستہ پر چلتا ہے تو اس میں اس کا پیچھا کیا جاتا ہے اور اس میں اس کے راستہ پر چلا جاتا ہے۔ اسی سے ہے : فارتدا علی اثارھما قصصا، وہ اپنے قدموں کے نشانوں پر پیچھے آئے۔ بعض علماء نے فرمایا : القص کا معنی کاٹنا ہے۔ کہا جاتا ہے : قصصت ما بینھما۔ اسی سے قصاص لینا ہے کیونکہ اسے اس کی مثل زخم لگایا جاتا ہے جو اس نے لگایا تھا یا اسے قتل کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے : اقص الحاکم فلانا من فلان وأباءہ بہ فامثلہ فامتثل بہ یعنی حاکم نے فلاں سے قصاص لیا۔ مسئلہ نمبر 3: قصاص کی صورت یہ ہے کہ قاتل پر فرض ہے کہ جب ولی قتل کا ارادہ کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کے امر کو تسلیم کرے اور قصاص شرعی کی پیروی کرے اور ولی پر فرض ہے کہ وہ قاتل کو ہی قتل کرے، اس کے ولی کو قتل نہ کرے اور غیر پر تعدی نہ کرے جیسا کہ عرب تعدی کرتے تھے وہ غیر قاتل کو قتل کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ کے ارشاد کا یہی معنی ہے کہ لوگوں میں سے اللہ کی بارگاہ میں قیامت کے روز تین شخص زیادہ نافرمان ہوں گے : ایک وہ جس نے غیر قاتل کو قتل کیا، وہ جس نے حرم میں قتل کیا، وہ جس نے جاہلیت کی دشمنی کا بدلہ لیا۔ شعبی اور قتادہ وغیرہما نے کہا : اہل جاہلیت میں برائی اور شیطان کی اطاعت تھی۔ ایک قبیلہ جس میں عزت اور قوت ہوتی تھی پھر اس کا غلام قتل کیا جاتا تھا تو اس کے مقابل والے کہتے : ہم اس کے بدلے میں آزاد کو قتل کریں گے۔ جب ان کی عورت قتل ہوتی تو کہتے : ہم اس کے بدلے میں مرد کو قتل کریں گے جب ان کا کوئی کم مرتبہ شخص قتل ہوتا تو وہ کہتے : ہم اس کے بدلے میں شریف کو قتل کریں گے اور کہتے : قتل، قتل سے بچانے والا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حد سے تجاوز کرنے سے منع کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کتب علیکم القصاص۔۔۔۔ والعبد بالعبد۔ اور فرمایا : ولکم فی القصاص حیوۃ فصاحت و بلاغت میں ان دونوں کے کلاموں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ مسئلہ نمبر 4: اس میں کوئی اختلاف نہیں قتل کا فیصلہ اولیٰ الامر حاکم کرے گا۔ ان پر قصاص کا قائم کرنا اور حدود کا قائم کرنا فرض کیا گیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام مومنین کو قصاص کے ساتھ خطاب فرمایا۔ پھر تمام مسلمان تو قصاص پر جمع نہیں ہو سکتے تو انہوں نے سب کے قائم مقام سلطان کو کیا کہ وہ قصاص اور حدود کو قائم کرے۔ القصاص لازم نہیں ہے بلکہ لازم یہ ہے کہ قصاص اور دوسری حدود زیادتی تک تجاوز نہ کریں۔ جب قصاص کے بدلے میں ویت یا معافی کے ساتھ مقتول کے اولیاء راضی ہوجائیں تو یہ مصباح ہے۔ جیسا کہ آگے آئے گا۔ اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کتب علیکم کا معنی ہے : تم پر فرض کیا گیا اور لازم کیا گیا ہے تو پھر قصاص کیسے واجب ہوگا ؟ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے جب تم ارادہ کرو جان لو کہ قصاص جھگڑے کے وقت غایت ہے۔ القتلی، قتیل کی جمع ہے اور مونث کا لفظ، جماعت کی تانیث ہے یہ ان افعال میں سے ہیں جو لوگوں پر کرھا (ناپسندیدگی) داخل ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس بنا پر یہ الفاظ آئے ہیں جیسے جرحی، زمنی، حمقی، صرعی، غرقی، اور اس کے مشابہ الفاظ۔ مسئلہ نمبر 5: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الحر بالحر والعبد بالعبد والانثی بالانثی اس کی تاویل میں علماء کا اختلاف ہے۔ ایک طائفہ نے کہا یہ آیت نوع کے حکم کو بیان کر رہی ہے جب کوئی اپنی نوع کو قتل کرے۔ اس آیت سے آزاد کا حکم بیان کیا جب وہ آزاد کو قتل کرے، غلام جب غلام کو قتل کرے، عورت جب عورت کو قتل کرے، ایک نوع جب دوسری نوع کو قتل کر دے تو اس سے تعرض نہیں کیا۔ یہ آیت محکم ہے اور اس میں اجمال ہے جس کو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بیان کر رہا ہے : وکتبنا علیھم فیھا ان النفس بالنفس الخ۔ (المائدہ : 45) اور نبی کریم ﷺ نے اپنی سنت سے بیان فرمایا جب ایک یہودی نے ایک عورت کو قتل کردیا تھا۔ یہ مجاہد کا قول ہے۔ یہ ابو عبید نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ اور حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے یہ آیت سورة مائدہ کی آیت سے منسوخ ہے۔ یہ اہل عراق کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر 6: کو فیوں اور ثوری نے کہا : آزاد کو غلام کے بدلے، مسلم کو ذی کے بدلے قتل کیا جائے گا اور انہوں نے اس آیت سے استدلال کیا : یایھا الذین امنوا کتب علیکم القصاص فی القتلی۔ یہ حکم عام ہے اور اس آیت سے بھی استدلال کیا ہے وکتبنا علیھم فیھا ان النفس بالنفس (المائدہ : 45) وہ فرماتے ہیں : حرمت میں مسلمان اور ذمی برابر ہیں۔ جس میں قصاص ہوتا ہے وہ ہے خون کی حرمت جو ہمیشہ کے لئے ثابت ہے۔ ذمی بھی ہمیشہ محفوظ الدم ہوتا ہے اور اسی طرح مسلمان بھی۔ دونوں دار الاسلام کے اہل سے ہوگئے اور اس چیز کو یہ امر بھی ثابت کرتا ہے کہ ذمی کا مال مسلمان کے مال کے برابر ہے۔ پس خون کی مساوات کی یہ دلیل ہے کیونکہ مال کی حرمت، مالک کی حرمت کے ساتھ ہوتی ہے، امام ابوحنیفہ اور ان کے ساتھی، ثوری، ابن ابی لیلیٰ کا اتفاق ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلے قتل کیا جائے گا جس طرح غلام کے بدلے غلام کو قتل کیا جاتا ہے۔ یہ داؤد کا قول ہے اور یہ حضرت علی اور حضرت ابن عباس مسعود ؓ سے مروی ہے۔ سعید بن مسیب، قتادہ، ابراہیم نخعی اور حکم بن عینیۃ کا قول ہے۔ جنہور علماء غلام کے بدلے آزاد کو قتل نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں : آیت میں تنویع و تقسیم کے لئے حکم ہے۔ ابو ثور نے کہا : جب تمام علماء کا اتفاق ہے کہ نفوس سے کم میں غلاموں اور آزاد لوگوں میں قصاص نہیں ہے تو نفوس اس کے زیادہ لائق ہیں اور جنہوں نے ان کے درمیان فرق کیا ان کے کلام میں تناقض ہے۔ اس شخص کے بارے میں اجماع ہے جو غلام کو خطا قتل کر دے تو اس پر غلام کی قیمت واجب ہے۔ پس جس طرح غلام قتل خطا میں آزاد کے مشابہ نہیں ہے قتل عمد میں بھی مشابہ نہیں ہے۔ اسی طرح غلام سامانوں میں سے ایک سامان ہے اور بیچا جاتا ہے اور خریدا جاتا ہے اور اس میں مرضی سے تصرف کیا جاتا ہے۔ پس غلام اور آزاد کے درمیان کوئی مساوات نہیں ہے اور کوئی برابری نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ اجماع صحیح ہے۔ رہا پہلا قول (جب تمام علماء کا اتفاق ہے اس کی کلام میں تناقص ہے) ابن ابی لیلیٰ اور داؤد نے نفس میں اور تمام اعضاء میں آزاد اور غلام کے درمیان قصاص کا قول کیا ہے اور واو نے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے : المسلمون تتکافا دمائھم (مسلمانوں سے خون برابر ہیں) اس میں آپ ﷺ نے آزاد اور غلام کی کوئی تفریق نہیں کی۔ اس کا بیان سورة النساء میں آئے گا۔ مسئلہ نمبر 7: جمہور علماء کا نظریہ ہے کہ مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ یہ بخاری نے حضرت علی بن ابی طالب سے روایت نقل کی ہے اور اس کے مخالف جو حدیث ربعیہ سے روایت کی گئی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ اس میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے خیبر کے دن ایک مسلمان کو کافر کے بدلے قتل کیا۔ یہ حدیث اس لئے صحیح نہیں کیونکہ یہ منقطع ہے اور ابن البیلمانی کی حدیث جو حضرت ابن عمر عن النبی ﷺ سے مرفوع مروی ہے یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ ابن البیلمانی ضعیف ہے۔ دار قطنی نے کہا : ابراہیم بن ابی یحییٰ کے علاوہ کسی نے اس کو مسند نہیں بنایا اور ابراہیم متروک الحدیث ہے۔ صحیح یہ ہے کہ عن ربیعہ عن ابن البیلمانی مرسل ہے ابن البیلمانی ضعیف الحدیث ہے۔ جب وہ حدیث کو متصل بیان کرے تب بھی اس کی حدیث حجت نہیں ہوتی تو پھر اس کی مرسل کیسے حجت ہوگی۔ میں کہتا ہوں : اس باب میں بخاری کی حدیث کے علاوہ کوئی حدیث صحیح نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے عموم کی تخصیص کرتی ہے یعنی کتب علیکم القصاص فی القتلی اور النفس بالنفس کے عموم کو خاص کرتی ہے۔ مسئلہ نمبر 8: حضرت علی بن ابی طالب، حسن بن ابی حسن بصری سے روایت ہے کہ یہ آیت مذکورین کے حکم کو بیان کرتی ہے تاکہ ان کے درمیان اور ان کے درمیان جو آزاد، غلام کو قتل کر دے یا غلام، آزاد کو قتل کر دے یا مذکر، مونث کو قتل کر دے۔ مونث، مذکر کو قتل کر دے فرق پر دلالت کرے۔ ان دونوں حضرات نے فرمایا : جب کوئی مرد، عورت کو قتل کر دے اگر اس عورت کے اولیاء اس کو قتل کرنا چاہیں تو اس کے ورثاء کو نصف دیت دے دیں اور اگر اس عورت کے اولیاء اسے زندہ رکھنے کا ارادہ کریں تو اس سے نصف دیت لے لیں۔ اور اگر کوئی عورت مرد کو قتل کر دے پھر اگر اس مرد کے اولیاء اس عورت کو قتل کرنا چاہیں تو اسے قتل کردیں اور نصف دیت لے لیں۔ وگرنہ اپنے ساتھی کی دیت لے لیں اور عورت کو زندہ چھوڑ دیں۔ شعبی نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے اور یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ امام شعبی نے حضرت علی سے ملاقات نہیں کی تھی۔ حضرت حکم نے حضرت علی اور حضرت عبد اللہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : جب مرد، عورت کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا قصاص ہوگا۔ یہ روایت شعبی کی حضرت علی سے روایت کیے مخالف ہے۔ علماء کا اجماع ہے کہ کا نا اور ایک ہاتھ جس کا شل ہو جب وہ کسی سلامت اعضاء والے کو قتل کر دے تو اس کے ولی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کا نے شخص کو قتل کر دے اور نصف دیت لے لے۔ اس وجہ سے کہ اس نے دو آنکھوں والے کو قتل کیا تھا اور یہ کا نا تھا اور اس نے دو ہاتھوں والے کو قتل کیا جب کہ اس کا ایک ہاتھ ہے۔ یہ دلیل ہے کہ نفس، نفس کا مقابل ہے بچے کا نفس بڑے کے نفس کا مقابل ہے۔ اور یہ کہنے والے کو کہا جائے گا کہ آدمی، عورت کا مقابل نہیں ہوتی اور نہ وہ نبی کریم ﷺ کے ارشاد (مسلمانوں کے خون برابر ہیں) کے تحت داخل ہے۔ پھر تم نے اس عورت کے بدلے میں مرد کو کیوں قتل کردیا جبکہ وہ مرد کے برابر نہیں ہے ؟ پھر تم نصف دیت بھی دیتے ہو۔ علماء کا اجماع ہے کہ دیت قصاص کے ساتھ جمع نہیں ہوتی۔ جب دیت قبول کی جائے گی تو خون حرام ہوجائے گا اور قصاص اٹھ جائے گا۔ پس تیرا یہ قول اس کی نہ اصل ہے نہ قیاس۔ یہ ابو عمر کا قول ہے جب آزاد غلام کو قتل کرے گا تو پھر اگر غلام کا مالک چاہے تو آزاد کو قتل کرے اور آزاد کی دیت دے دے مگر غلام (مقتول) کی قیمت منہا کرلے اگر چاہے تو آزاد کو زندہ چھوڑ دے اور غلام کی قیمت لے لے۔ یہ حضرت علی اور حضرت حسن ؓ سے مروی ہے۔ اس روایت نے بھی پہلے لوگوں کا انکار کیا۔ مسئلہ نمبر 9: علماء کا اجماع ہے کہ عورت کے بدلے مرد کو اور مرد کے بدلے عورت کو قتل کیا جائے گا اور جمہور علماء کسی شے کے ساتھ رجوع کا نظریہ نہیں رکھتے۔ ایک فرقہ اضافی دیتوں کا نظریہ رکھتا ہے۔ امام مالک، امام شافعی، امام احمد، اسحاق، ثوری اور ابو ثور نے کہا : اسی طرح نفس سے کم میں بھی ان کے درمیان قصاص ہوگا۔ حماد بن ابی سلیمان اور امام ابوحنیفہ نے کہا : نفس سے کم میں مرد اور عورت کے درمیان قصاص نہیں ہے۔ قصاص نفس کے بدلے نفس کا ہے ان پر حجت اس طرح پیش کی گئی ہے کہ جب نفس کے بدلے نفس ہے تو اس سے کم میں بدلہ بدرجہ اولیٰ ہوگا جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 10: ابن عربی نے کہا : لوگوں میں جہالت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ لوگوں نے کہا : آزاد کو اپنے غلام کے بدلے قتل کیا جائے گا اور اس کے متعلق انہوں نے حسن عن سمرہ کے سلسلے سے حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم اسے قتل کریں گے۔ یہ حدیث ضعیف ہے اور ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : من قتل۔۔۔۔ فی القتل (اسراء : 33) ۔ یہاں ولی سے مراد سردار اور مالک ہے اسکے لئے اپنے نفس پر سلطان کیسے ہوگی ؟ علماء کا اتفاق ہے کہ مالک اگر خطا اپنے غلام کو قتل کر دے تو مالک سے غلام کی قیمت بیت المال کے لئے نہیں لی جائے گی۔ عمرو بن شعیب سے اپنے باپ سے انہوں نے ان کے دادا سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے جان بوجھ کر اپنے غلام کو قتل کردیا تو نبی کریم ﷺ نے اسے کوڑے لگائے اور ایک سال تک اسے جلاوطن کیا مسلمانوں سے اس کا حصہ ختم کردیا اور اس غلام کے بدلے میں اس سے قصاص نہ لیا۔ اگر کہا جائے کہ جب مرد اپنی بیوی کو قتل کر دے تو پھر تم کیوں کہتے ہو کہ خاوند سے قصاص دور کرنے میں شبہ نکاح ہے کیونکہ نکاح غلامی کی ایک قسم ہے۔ یہ لیث بن سعید نے کہا ہے۔ ہم کہتے ہیں : نکاح عورت کے لئے خاوند پر منعقد ہوتا ہے۔ جس طرح مرد کے لئے عورت پر منعقد ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ خاوند نہ تو اپنی بیوی کی بہن سے نکاح کرسکتا ہے اور نہ چار عورتوں سے زائد سے نکاح کرسکتا ہے۔ عورت خاوند سے وطی کے حق کا مطالبہ کرسکتی ہے جس طرح مرد اس سے مطالبہ کرسکتا ہے لیکن مرد کو عورت پر قوامت کی فضیلت حاصل ہے جو اللہ تعالیٰ نے مرد کے لئے بنائی ہے کیونکہ وہ اپنے مال سے اس پر خرچ کرتا ہے یعنی اس پر مہر اور نفقہ واجب ہوتا ہے اگر شبہ ہوگا تو دونوں طرف سے ہوگا۔ میں کہتا ہوں : یہ حدیث جس کو ابن عربی نے ضعیف کہا ہے وہ صحیح ہے۔ نسائی اور ابو داؤد نے اس کو نقل کیا ہے۔ اس کا مکمل متن یہ ہے : جو غلام کا ناک کاٹے گا ہم اس کا ناک کاٹیں گے اور جو اس کو خصی کرے گا ہم اسے خصی کریں گے۔ بخاری نے علی بن مدینی سے روایت کیا ہے کہ حسن کا سمرہ سے سماع صحیح ہے اور انہوں نے اس حدیث کو لیا ہے۔ بخاری نے کہا : میں اسی کی طرف جاتا ہوں (یعنی میرا مذہب یہی ہے) اگر حدیث صحیح نہ ہوتی تو یہ دونوں امام اس کو اپنا مذہب نہ بناتے۔ تیرے یہ دونوں امام کافی ہیں۔ آزاد کو اپنے غلام کے بدلے قتل کیا جائے گا۔ نخعی اور ثوری نے ایک قول میں یہی کہا۔ بعض محدثین نے کہا : حسن نے حضرت سمرہ سے نہیں سنا سوائے عقیقہ کی حدیث کے۔ واللہ اعلم۔ غلاموں کے درمیان نفس سے کم میں قصاص کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے یہ عمر بن عبد العزیز، سالم بن عبد اللہ زہری، قران، امام مالک، امام شافعی اور ابو ثور کا قول ہے شعبی، نخعی، ثوری اور امام ابوحنیفہ نے کہا : ان کے درمیان قصاص نہیں ہے۔ ابن منذر نے کہا : پہلا قول اصح ہے۔ مسئلہ نمبر 11: دار قطنی، ابو عیسیٰ ترمذی نے سراقہ بن مالک سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : باپ بیٹے سے قصاص لے گا اور بیٹا باپ سے قصاص لے گا۔ ابو عیسیٰ نے کہا : اس حدیث کو ہم سراقہ کی حدیث سے نہیں جانتے مگر اس طریق سے۔ اس کی سند صحیح نہیں ہے۔ اس کو اسماعیل بن عباس سے مثنی بن صباح سے روایت کیا ہے اور مثنی حدیث میں ضعیف ہے۔ اس حدیث کو ابو خالد احمر نے حجاج سے انہوں نے عمرو بن شعیب سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے اس کے دادا سے انہوں نے حضرت عمر سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے، یہ حدیث عمرو بن شعیب سے مرسلاً بھی مروی ہے۔ اس حدیث میں اضطراب ہے اہل علم کے نزدیک علم اس پر ہے کہ باپ جب بیٹے کو قتل کر دے گا تو اس کے بدلے میں باپ کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ جب باپ بیٹے پر تہمت لگائے گا تو اسے حد نہیں لگائی جائے گی۔ ابن منذر نے کہا : اہل علم کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو جان بوجھ کر اپنے بیٹے کو قتل کرتا ہے۔ ایک جماعت نے کہا : اس پر قصاص نہیں ہے اور اس پر دیت ہے۔ یہ امام شافعی، امام احمد، اسحاق اور اصحاب الرائے کا قول ہے۔ عطا اور مجاہد سے بھی یہی مروی ہے۔ امام مالک، ابن نافع، ابن عبد الحکم نے کہا : باپ کو بیٹے کے بدلے قتل کیا جائے گا۔ ابن منذر نے کہا : ہم کتاب و سنت کے ظاہر کی وجہ سے یہی کہتے ہیں : ظاہر کتاب یہ کتب علیکم۔۔۔۔۔ والعبد بالعبد اور رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے المومنون تتکافأ دمائھم ” مومنوں کے خون برابر ہیں “ اور ہم کوئی خبر ایسی نہیں جانتے جس میں باپ کی استثناء ثابت ہو۔ اس کے متعلق ہم نے جو اخبار روایت کی ہیں وہ ثابت نہیں ہیں۔ ال کیا طبری نے عثمان البتی سے حکایت کیا ہے کہ والد کو بیٹے کے بدلے میں قتل کیا جائے گا۔ قرآن میں قصاص کے متعلق عام حکم ہے۔ اس کی مثل امام مالک سے مروی ہے۔ شاید وہ قرآن کی عمومات کے مقابلہ میں اخبار احاد کو قبول نہیں کرتے۔ میں کہتا ہوں : امام مالک کے مذہب میں کوئی اختلاف نہیں کہ جب کوئی جان بوجھ کر اپنے بیٹے کو قتل کر دے مثلا اسے لٹائے اور ذبح کر دے یا اسے باندھ دے جبکہ اس کیلئے اس میں کوئی عذر نہ ہو اور اس کے خطا کے دعویٰ میں کوئی شبہ نہ ہو تو اس کے بدلے میں باپ کو قتل کیا جائے گا۔ یہ ایک قول ہے۔ رہا وہ شخص جو ادب سکھانے کے لئے اسے ہتھیار سے مارے یا گلا دبا کر اسے قتل کر دے تو اس میں دو قول ہیں : اس کو اس کے بدلے میں قتل کیا جائے گا۔ اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ ابن عربی نے کہا : میں نے اپنے شیخ فخر الاسلام الشاشی سے سنا وہ فرما رہے تھے : باپ کو بیٹے کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ اس کے وجود کا سبب تھا پس بیٹا اس کے عدم کا سبب کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ قول اسی سے باطل ہوجاتا ہے کہ جب کوئی اپنی بیٹی سے بدکاری کرے تو اسے رجم کیا جاتا ہے حالانکہ وہ اس بچی کے وجود کا سبب تھا اور یہ اس کے عدم کا سبب ہوئی ہے۔ پھر یہ کس فقہ کے تحت ہے، وہ اس کے عدم کا سبب کیوں نہ ہو۔ جب اس کے متعلق اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : والد سے بیٹے کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔ یہ حدیث باطل ہے۔ ان کے متعلق ہے کہ حضرت عمر نے بیٹے کے قاتل کے بارے میں دیت مغلظ کا فیصلہ فرمایا اور کسی صحابی نے ان پر انکار نہیں کیا۔ تمام فقہاء نے مطلق مسئلہ کو لیا اور کہا کہ والد کو بیٹے کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا اور امام مالک نے مسئلہ کو محکمہ مفصلہ لیا اور فرمایا : اگر اس نے اس پر تلوار سونتی تو یہ حالت قتل کے قصد کا بھی احتمال رکھتی ہے اور عدم قصد کا بھی احتمال رکھتی ہے۔ ابوہ کی شفقت ایک قائم شبہ ہے۔ قتل کے قصد کے نہ ہونے کا شاہد شبہ ہے۔ پس قصاص ساقط کیا جائے گا۔ اور جب وہ اپنے بیٹے کو لٹا دے تو اس کے قصد سے پردہ اٹھ گیا پس وہ اصل کے ساتھ لاحق ہوجائے گا۔ ابن منذر نے کہا : امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور اسحاق کہتے ہیں بیٹا باپ کو قتل کر دے تو اس کے بدلے میں بیٹے کو قتل کیا جائے گا۔ مسئلہ نمبر 12: امام احمد بن حنبل نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ ایک شخص کے بدلے میں پوری جماعت کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مساوات کی شرط رکھی ہے اور جماعت اور ایک آدمی کے درمیان کوئی مساوات نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وکتبنا علیھم۔۔۔۔ والعین بالعین (المائدہ : 45) اس کا جواب یہ ہے کہ قصاص سے مراد آیت میں جس نے کسی کو قتل کیا ہے اسے قتل کرنا ہے۔ اس میں عربوں کا رد ہے جو اس کو قتل کرنے کا ارادہ کرتے تھے جس نے قتل کیا ہوتا تھا اور ایک کے مقابلہ میں سو کو قتل کرتے تھے، اپنی جاہ و حشمت کا اظہار اور فخر کرنے کے لئے ایسا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے عدل اور مساوات کا حکم دیا کہ جو قتل کرے صرف اسے قتل کیا جائے۔ حضرت عمر ؓ نے صنعا میں ایک شخص کے بدلے میں سات شخصوں کو قتل کیا اور فرمایا : اگر اہل صنعا اس کو قتل کرنے میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کردیتا۔ حضرت علی ؓ نے حضرت عبد اللہ بن خباب کے بدلے میں خارجیوں کو قتل کیا۔ حضرت عبد اللہ بن خباب کو انہوں نے بکری کی طرح ذبح کیا تھا۔ حضرت علی ؓ کو اس کی خبر دی گئی تو آپ نے کہا : اللہ اکبر۔ آپ نے فرمایا ؛ انہیں کہو کہ حضرت عبد اللہ بن خباب کے قاتل کو ہمارے سامنے نکالو۔ انہوں نے کہا : ہم سب نے قتل کیا ہے۔ تین مرتبہ یہ کہا : حضرت علی ؓ نے اپنے اصحاب سے کہا : اس قوم کو پکڑو۔ تھوڑی ہی دیر میں حضرت علی اور ان کے ساتھیوں نے خارجیوں کو قتل کردیا۔ یہ دونوں حدیثیں دار قطنی نے اپنی سنن میں نقل کی ہیں اور ترمذی میں حضرت ابو سعید اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر سارے آسمان والے اور سارے زمین والے ایک مومن کے خون میں شریک ہوں تو اللہ تعالیٰ سب کا آگ میں اوندھا گرائے گا۔ اس حدیث کے متعلق فرمایا یہ حدیث غریب ہے اگر ایک جماعت کو معلوم ہوگا کہ جب وہ ایک شخص کو قتل کریں گے تو انہیں قتل نہیں کیا جائے گا۔ اس قاعدہ کی رعایت کرنا، الفاظ کی رعایت کرنے سے اولیٰ ہے۔ ابن منذر نے کہا : زہری، حبیب بن ابی ثابت اور ابن سیرین نے کہا : دو شخصوں کو ایک کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ ہم نے یہ حضرت معاذ بن جبل، ابن زبیر اور عبد الملک سے روایت کیا ہے۔ ابن منذر نے کہا : یہ اصح ہے۔ جس نے ایک کے بدلے میں جماعت کو قتل کرنا مباح کیا ہے اس کے پاس کوئی حجت نہیں حالانکہ حضرت ابن زبیر سے ثابت ہے جو ہم نے ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 13: ائمہ نے ابو شریع کعبی سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خبردار ! اے خزاعہ کے گروہ ! تم نے ہذیل کا یہ شخص قتل کیا ہے اور میں اس کی دیت دینے والا ہوں۔ پس میری اس گفتگو کے بعد جس کا کوئی شخص قتل کیا جائے گا اس کے ورثا کو دو چیزوں میں اختیار ہوگا یا تو وہ دیت لے لیں یا قاتل کو قتل کریں۔ یہ ابو داؤد کے لفظ ہیں۔ ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ابو شریع خزاعی سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جس کا کوئی شخص قتل ہوجائے تو اسے قتل کرنے یا معاف کرنے یا دیت لینے کا اختیار ہے۔ بعض اہل علم کا یہی نظریہ ہے اور یہ امام احمد اور اسحاق کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر 14: جان بوجھ کر قتل کرنے والے کے بارے میں دیت لینے میں علماء کا اختلاف ہے۔ ایک طائفہ نے کہا : مقتول کے ولی کو اختیار ہے اگر چاہے تو قصاص لے لے اگر چاہے تو دیت لے لے۔ اگرچہ قاتل راضی نہ بھی ہو۔ یہ سعید بن مسیب، عطاء، حسن سے مروی ہے اس کو اشہب نے مالک سے روایت کیا ہے۔ لیث، امام اوزاعی، امام شافعی، امام احمد، اسحاق اور ابو ثور نے بھی یہی فرمایا ہے۔ ان کی حجت ابو شریح کی حدیث ہے اور جو اس کے ہم معنی احادیث ہیں یہ اختلاف کی جگہ میں نص ہے۔ نیز نظر کے طریق سے اس کی رضا کے بغیر اس پر دیت لازم ہے کیونکہ اس پر فرض، نفس کا احیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ولا تقتلوا انفسکم (النساء : 29) نہ قتل کرو اپنے نفسوں کو اور ارشاد ہے : فمن عفی لہ من اخیہ شیء۔ یعنی جو اپنا خون ترک کر دے۔ (یہ تاویل کے مطابق) اور اس سے دیت لینے میں راضی ہو۔ فاتباع بالمعروف یعنی جس نے دیت لینی ہے وہ معروف طریقہ سے مطالبہ کرے اور قاتل پر ضروری ہے کہ وہ عمدہ طریقہ سے ادا کرے۔ ٹال مٹول نہ کرے اور ادائیگی کے وقت سے تاخیر نہ کرے۔ ذلک تخفیف من ربکم ورحمۃ ہم سے پہلے لوگوں پر قصاص کے علاوہ کچھ فرض نہ تھا اس امت پر دیت کے ساتھ فضل فرمایا جبکہ مقتول کا وارث راضی ہو۔ اس کا بیان آگے آئے گا۔ دوسرے علماء نے فرمایا : مقتول کے ولی کے لئے صرف قصاص ہے وہ دیت نہیں لے گا مگر جب قاتل راضی ہو۔ ابن القاسم نے مالک سے یہ روایت کیا ہے۔ ان کا مشہور قول یہی ہے۔ ثوری اور کو فیوں نے یہی کہا ہے۔ اور انہوں نے حضرت انس کی حدیث سے حجت پکڑی ہے جو بیع کے واقعہ کے متعلق ہے جب اس نے ایک عورت کا دانت توڑ دیا تھا۔ اس حدیث کو ائمہ نے روایت کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے قصاص کا فیصلہ فرمایا اور فرمایا : کتاب اللہ کا فیصلہ قصاص ہے، کتاب اللہ کا فیصلہ قصاص ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس شخص کو اختیار نہیں دیا جس پر جنایت کی گئی تھی کہ وہ قصاص لے یا دیت لے۔ اس سے ثابت ہوا کہ کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی سنت سے عمد (جان بوجھ کر جنایت کرنے) میں قصاص ہے۔ پہلا قول زیادہ صحیح ہے ابو شریح کی مذکور حدیث کی وجہ سے۔ ربیع نے امام شافعی سے روایت کیا ہے، فرمایا : مجھے ابوحنیفہ بن سماک بن فضل شہبابی نے بتایا، فرمایا : اور مجھے ابن ابی ذئب سے کہا۔ اے ابو الحارث ! تو اس پر عمل کرتا ہے۔ اس نے میرے سینہ پر ہاتھ مارا اور بلند آواز سے مجھے کہا : میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تو کہتا ہے : تو اس پر عمل کرتا ہے۔ ہاں میں اس پر عمل کرتا ہوں۔ یہ مجھ پر اور سننے والے پر فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو لوگوں سے منتخب فرمایا اور آپ کے ذریعے ہدایت دی اور آپ کے ہاتھوں پر ہدایت دی اور لوگوں کے لئے وہ پسند کیا جو آپ ﷺ کے لئے پسند کیا اور آپ کی زبان پر پسند کیا۔ مخلوق پر لازم ہے کہ وہ آپ ﷺ کی خوشی سے یا ذلیل ہو کر اطاعت کریں۔ مسلمان کے لئے اس سے خروج کا کوئی ذریعہ نہیں۔ ابوحنیفہ نے کہا : ابن ابی وئب مجھ سے خاموش نہ ہوئے حتی کہ میں نے خواہش کی کہ وہ خاموش ہوجائیں۔ مسئلہ نمبر 15: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فمن عفی۔۔۔۔۔ باحسان، من اور عفی کی تاویلات میں پانچ اقوال ہیں : (1) من سے مراد قاتل ہے اور عفی، عافیا کو اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہے اور وہ مقتول کا ولی ہے۔ لاخ سے مراد مقتول ہے اور شئ سے مراد وہ خون ہے جو اس کو معاف کیا گیا ہے اور دیت لینے کی طرف رجوع کیا گیا ہے۔ یہ حضرت ابن عباس، قتادہ، مجاہد اور علماء کی ایک جماعت کا قول ہے اور العفو اس قول میں اپنے معنی پر ہے اور وہ ہے : ترک کرنا۔ معنی یہ ہے کہ قاتل کو جب مقتول کا ولی خون معاف کر دے اور قصاص ساقط کر دے تو وہ دیت لے، وہ معروف طریقہ سے مطالبہ کرے اور قاتل اچھے طریقہ سے دیت ادا کرے۔ (2) یہ امام مالک کا قول ہے۔ من سے مراد ولی ہے اور عفی کا معنی آسانی کرنا ہے یہ العفو کے معنی میں نہیں ہے اور الاخ سے مراد قاتل ہے اور شئ سے مراد دیت ہے یعنی ولی جب قصاص معاف کرکے دیت لینے کی طرف مائل ہو تو قاتل کو اختیار ہے کہ وہ اسے دیت دے یا اپنا آپ حوالے کر دے۔ ایک مرتبہ اس پر آسانی کی گئی ہے اور ایک مرتبہ آسانی نہیں کی گئی۔ امام مالک کے علاوہ علماء فرماتے ہیں : جب اولیاء دیت پر راضی ہوں تو قاتل کو کوئی اختیار نہیں بلکہ اس پر دیت لازم ہے۔ امام مالک سے یہ قول بھی مروی ہے ان کے اصحاب میں سے اکثر نے اس کو ترجیح دی ہے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : عفی کا معنی بذل ہے، خرچ کیا گیا اور العفو کا لغوی معنی الذل ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : خذ العفوا وہ لو جو آسان ہو۔ ابو الاسود الدؤلی نے کہا : خذی العفو منی تستدیمی مودتی تو مجھ سے جو آسان ہے وہ لے تو میری محبت کو ہمیشہ پائے گی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : نماز کا پہلا وقت اللہ کی رضا ہے اور اس کا آخری وقت اللہ کی معافی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر گواہی دی۔ گویا فرمایا : دیت میں سے جو خرچ کیا گیا ہو وہ اسے قبول کرے اور معروف طریقہ سے مطالبہ کرے اور ایک قوم نے کہا : قاتل اسے اچھے طریقہ سے ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ نے مال لینے کو کہا جب قاتل کی جہت سے یہ آسان ہو اور بتایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے جیسا کہ سورة مائدہ میں قصاص کے ذکر کے بعد فرمایا فمن صدق بہ فھو کفارۃ لہ (المائدہ : 45) پس عفو اور صدقہ کی رحمت کی طرف بلایا۔ اسی طرح اس آیت میں دیت کے قبول کرنے کی طرف راہنمائی فرمائی جبکہ مجرم دیت ادا کرے۔ پھر ولی کو عمدہ طریقہ سے مطالبہ کرنے اور قاتل کو اچھے طریقہ سے ادا کرنے کا حکم دیا۔ ایک قوم نے کہا : یہ الفاظ ان کے بارے میں ہیں جن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور جن کے درمیان برابری ہے ان کے درمیان دیتوں کو ساقط کردیا۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ ان دیات میں سے کسی اعتبار سے دونوں طائفوں میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت ہو۔ اس صورت میں عفی بمعنی فضل (فضیلت دیا گیا) ہوگا۔ سفیان بن حسین بن شوعہ نے شعبی سے روایت کیا ہے، فرمایا : عربوں کے دو قبیلوں کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔ ایک قبیلہ سے کچھ لوگ قتل ہوئے اور دوسرے قبیلہ سے بھی کچھ لوگ قتل ہوئے۔ ایک قبیلہ والوں نے کہا : ہم راضی نہ ہوں گے حتیٰ کہ عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جائے گا اور مرد کے بدلے عورت کو قتل کیا جائے گا۔ پس وہ اپنا معاملہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : سب مقتول برابر ہیں۔ پس انہوں نے دیات پر صلح کی۔ ایک قبیلہ کو دوسرے قبیلہ پر زیادتی دی گئی۔ کتب سے فمن فعی لہ من اخیہ شیء تک یہی مراد ہے یعنی جس کی اپنے بھائی پر دیت زائد ہو تو وہ اسے معروف طریقہ سے ادا کرے۔ شعبی نے آیت کے نزول کے سبب کے بارے میں بتایا اور سفیان نے یہاں عفو کا معنی زیادہ ذکر کیا ہے اور لفظ اس معنی کا احتمال رکھتا ہے۔ پانچویں تاویل۔ یہ حضرت علی ؓ اور حسن کا قول ہے۔ مرد اور عورت کی دیت اور آزاد اور غلام کی دیت میں فرق ہے یعنی جس کے لئے دیت زیادہ ہو وہ معروف طریقہ سے طلب کرے۔ اس قول میں بھی عفی بمعنی فضل ہے۔ مسئلہ نمبر 16: اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیت کا مطالبہ کرنے والے کو حسن تقاضا پر ابھارا ہے اور ادا کرنے والے کو بھی عمدہ طریقہ سے ادا کرنے پر ابھارا ہے۔ کیا یہ وجوب پر ہے یا استحباب پر ؟ رفع کی قراءت وجوب پر دلالت کرتی ہے کیونکہ معنی ہے فعلیہ اتباع المعروف یعنی اس پر واجب ہے کہ وہ عمدہ طریقہ سے مطالبہ کرے۔ نحاس نے کہا فمن عفی لہ شرط ہے اور فاتباع جزا ہے اس کو مبتدا کی حیثیت سے رفع دیا گیا ہے۔ تقدیر اس طرح ہے فعلیہ اتباع بالمعروف اور غیر قرآن میں فاتباعا واداء بھی جائز ہے یعنی دونوں کو مصدر بنایا جائے۔ ابن عطیہ نے کہا : ابراہیم بن ابی عبلہ نے فاتباعا نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ رفع، واجبات کے لئے ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فامساک بمعروف۔ رہا مندوب تو وہ منصوب آتا ہے جیسے فضرب الرقاب۔ مسئلہ نمبر 17: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ذلک تخفیف من ربکم ورحمۃ اہل تورات کے لئے صرف قتل کرنا تھا ان کے لئے اور کوئی صورت نہ تھی اور اہل انجیل کے لئے عفو تھا ان کے لئے قصاص اور دیت نہ تھی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لئے تخفیف فرمائی پس جو چاہے قتل کرے اور جو چاہے دیت لے لے اور جو چاہے معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فمن اعتدی بعد ذلک فلہ یہ شرط اور جواب ہے یعنی دیت لینے کے بعد اور خون معاف کرنے کے بعد زیادتی کی تو اس کے لئے دردناک عذاب ہے۔ حسن نے کہا : زمانہ جاہلیت میں جب کوئی شخص کسی کو قتل کرتا تو وہ اپنی قوم کی طرف بھاگ جاتا پھر اس کی قوم دیت کے ساتھ صلح کرتی اور مقتول کا ولی کہتا میں دیت قبول کرتا ہوں حتیٰ کہ قاتل امن میں ہوجاتا اور وہ باہر نکلتا تو اسے قتل کردیتا اور پھر دیت انہیں واپس کردی جاتی۔ علماء کا اختلاف ہے کہ جس نے دیت لینے کے بعد قاتل کو قتل کیا۔ ایک جماعت نے کہا جن میں امام مالک اور امام شافعی بھی ہیں : وہ ابتداء قتل کرنے والے کی طرح ہے۔ اگر اس کا ولی چاہے تو اسے قتل کر دے اگر چاہے تو معاف کر دے اور آخرت میں اس کے لئے عذاب ہوگا۔ حضرات قتادہ، عکرمہ اور سدی نے کہا : اس کا عذاب یہ ہے کہ اسے یقیناً قتل کیا جائے گا۔ حاکم ولی کو معاف کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ ابو داؤد نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے جس سے دیت لینے کے بعد قتل کیا اس کا مال زیادہ نہ ہو۔ حسن نے کہا : اس کا عذاب یہ ہے کہ صرف دیت لوٹائی جائے گی اور قتل کا گناہ آخرت کے عذاب تک اس پر رہے گا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے کہا : اس کا معاملہ امام کے سپرد ہے جو دیکھے وہ کرے۔ سنن دار قطنی میں ابو شریح خزاعی سے مروی ہے، فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جس کو خون کی مصیبت پہنچائی گئی یا لنگڑا کردیا گیا تو اسے تین باتوں میں اختیار ہے اگر وہ چوتھی کا ارادہ کرے تو اس کے ہاتھوں کو پکڑ لو۔ وہ قصاص لے۔ یا معاف کر دے یا دیت لے۔ اگر ان چیزوں میں سے جو قبول کرلی پھر اس کے بعد اس نے تجاوز کیا تو اس کے لئے دوزخ کا عذاب ہے وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔
Top