Al-Qurtubi - Al-Baqara : 173
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ١ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِنَّمَا : در حقیقت حَرَّمَ : حرام کیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَيْتَةَ : مردار وَالدَّمَ : اور خون وَلَحْمَ : اور گوشت الْخِنْزِيْرِ : سور وَمَآ : اور جو اُهِلَّ : پکارا گیا بِهٖ : اس پر لِغَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا فَمَنِ : پس جو اضْطُرَّ : لاچار ہوجائے غَيْرَ بَاغٍ : نہ سرکشی کرنے والا وَّلَا : اور نہ عَادٍ : حد سے بڑھنے والا فَلَا : تو نہیں اِثْمَ : گناہ عَلَيْهِ : اس پر اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا ہے
اس نے تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کردیا ہے، ہاں جو ناچار ہوئے (بشرطیکہ) خدا کی نافرمانی نہ کرے اور حد (ضرورت) سے باہر نہ نکل جائے اس پر کچھ گناہ نہیں بیشک خدا بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے
آیت نمبر 173 اس میں چونتیس مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انما حرم علیکم المیتۃ، انما کا کلمہ حصر کے لئے وضع کیا گیا ہے نفی اور اثبات کو متضمن ہے، خطاب جس کو شامل ہوتا ہے اسے ثابت کرتا ہے اور ماعدا کی نفی کرتا ہے یہاں تحریم کی حصر کی گئی ہے خصوصاً تحلیل کے بعد آئی ہے۔ پہلے فرمایا : یایھا الذین۔۔۔۔ ما رزقنکم۔ اس میں مطلقاً اباحت ہے پھر حرام کا ذکر انما کے کلمہ کے ساتھ کیا۔ پس یہ دونوں قسموں کے ایجاب کا تقاضا ہے۔ پس کوئی حرام اس آیت سے خارج نہیں۔ یہ آیت مدنی ہے، اس کو دوسری آیت کے ساتھ مؤکد کیا۔ روایت ہے کہ یہ عرفہ میں نازل ہوئی۔ قل لا اجد۔۔۔۔ طاعم یطعمہ۔۔ الآیۃ (انعام :45) آپ فرمائیے میں نہیں پاتا اس (کتاب) میں جو وحی کی گئی ہے میری طرف کوئی چیز حرام کھانے والے پر جو کھاتا ہے اسے۔ پس اول و آخر بیان مکمل ہوا۔ یہ ابن عربی کا قول ہے اس پر مزید کلام سورة الانعام میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر 2: المیتۃ اس کو حرم کی وجہ سے نصب دی گئی ہے اور ما کافہ ہے اور اسے الذی کے معنی میں کرنا بھی جائز ہے جو لکھنے میں جدا ہوتا ہے اور ان کی خبر کی حیثیت سے المیتۃ، الدم اور لحم الخنزیر کو رفع دیا جائے گا۔ یہ ابن ابی عبلہ کی قراءت ہے اور حرم میں ضمیر الذی کی طرف لوٹے گی۔ اور اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : انما صنعوا کید سحر (طہ : 69) ابو جعفر نے حرم حاء کے ضمہ اور راء کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے اور بعد والے اسماء کو رفع دیا گیا ہے یا نائب فاعل کی حیثیت سے یا ان کی خبر کی حیثیت سے۔ ابو جعفر بن قعقاع نے المیتۃ تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔ طبری نے کہا ہے : لغوی علماء کی جماعت نے کہا : میت اور میت، تشدید اور تخفیف دونوں لغتیں ہیں۔ ابو حاتم وغیرہ نے کہا : جو فوت ہوچکا ہو اس میں میت اور میت کہا جاتا ہے اور جو ابھی تک فوت نہ ہوا ہو اس کیلئے میت تخفیف کے ساتھ نہیں بولا جاتا اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : میت وانھم میتون (زمر : 30) ۔ شاعر نے کہا : لیس من مات فاستراح بمیت انما المیت میت الاحیاء جو فوت ہوگیا اور راحت پا گیا وہ میت نہیں میت تو زندوں کا میت ہے۔ جب تک فوت نہ ہوا ہو اس کے لئے کسی نے تخفیف کے ساتھ نہیں پڑھا، مگر جو بزی نے ابن کثیر سے روایت کیا ہے وما ھو بمیت اس سے مشہور تشقیل ہے۔ رہا شاعر کا قول : اذا ما مات میت من تمیم فسرک ان یعیش فجئ بزاد جب تمیم میں سے کوئی میت مرتا ہے تو تجھے خوش کرتا ہے کہ وہ زندہ رہے اور زادراہ لایا جائے۔ میں مکمل ہجو نہیں کرسکتا کیونکہ اس نے حقیقتاً میت کا ارادہ کیا اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے شارف الموت (قریب الموت) کا ارادہ کیا ہے۔ پہلا معنی اشہر ہے۔ مسئلہ نمبر 3: المیتۃ جو چیز ذبح کی جاتی ہے اگر ذبح کے بغیر اس کی روح نکل جائے تو اسے المیتۃ کہتے ہیں اور جو چیز کھائی نہیں جاتی اس کی ذبح اس کی موت کی طرح ہے جس طرح درندے وغیرہ ہیں۔ اس کا بیان آگے آئے گا اور سورة انعام میں بھی آئے گا۔ مسئلہ نمبر 4: یہ آیت عام ہے حضور ﷺ کے ارشاد کے ساتھ تخصیص داخل ہوئی ہے۔ ہمارے لیے دو مردے حلال کئے گئے ہیں : مچھلی اور مکڑی اور دو خون حلال کئے گئے ہیں : جگر اور تلی۔ اس حدیث کو دار قطنی نے نقل کیا ہے۔ اسی طرح عنبر (مچھلی) کے بارے میں حضرت جابر کی حدیث ہے۔ قرآن کا عموم اس کی سند کی صحت کی وجہ سے خاص کیا گیا ہے۔ بخاری اور مسلم نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد احل لکم صید البحر (المائدہ : 96) کے ساتھ اس حدیث کو روایت کیا ہے اس کا بیان انشاء اللہ آئندہ آئے گا۔ اکثر اہل علم سمندر کے تمام جانور زندہ اور مردے کھانے کے جواز کے قائل ہیں یہ امام مالک کا مذہب ہے اور پانی کے خنزیر کے بارے میں جواب دینے سے توقف کیا ہے اور فرمایا : تم کہتے ہو : خنزیر۔ ابن القاسم نے کہا : میں اس سے بچتا ہوں اور میں اسے حرام خیال نہیں کرتا۔ مسئلہ نمبر 5: علماء کا کتاب کی تخصیص سنت (حدیث) سے کرنے میں اختلاف ہے۔ اس اختلاف کے باوجود اس پر اتفاق ہے کہ ضعیف حدیث کے ساتھ قرآن کی تخصیص جائز نہیں۔ یہ ابن عربی کا قول ہے۔ کبھی اس آیت کا تخصیص پر صحیح مسلم کی روایت سے استدلال کیا جاتا ہے جو حضرت عبد اللہ بن ابی اولیٰ سے مروی ہے، فرمایا : ہم نے رسول اللہ ﷺ کی معیت میں سات غزوات میں شرکت کی، ہم آپ ﷺ کے ساتھ مکڑی کھاتے تھے۔ اس کا ظاہر معنی یہ ہے کہ اسے کھایا جائے جیسے بھی وہ مرے پکڑنے سے یا خود بخود ابن نافع، ابن عبد الحکم اور اکثر علماء کا یہی قول ہے۔ امام شافعی اور امام ابوحنیفہ (ا) وغیرہما کا یہی مسلک ہے۔ امام مالک اور ان کے اصحاب میں سے اکثر نے اس دریائی جانور کو کھانے سے منع کیا ہے جو طبعی موت مر جائے کیونکہ وہ خشکی کے شکار سے ہے، کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ محرم جب اسے قتل کرے گا تو اس کی جزا دے گا۔ پس وہ ہرن کے مشابہ ہے۔ اشہب نے کہا : اگر وہ پاؤں یا پر کے کاٹنے کی وجہ سے مر جائے تو اسے نہیں کھایا جائے گا کیونکہ یہ ایسی حالت تھی جس کے ساتھ وہ زندہ رہ سکتا تھا اور اس کی نسل جاری ہو سکتی تھی۔ مکڑی کے حکم کا مزید بیان سورة اعراف میں اس کے ذکر کے وقت آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر 6: علماء کا اختلاف ہے کیا میت سے نفع حاصل کرنا اور نجاسات میں سے کوئی فائدہ اٹھانا جائز ہے یا نہیں۔ امام مالک کے اس مسئلہ میں مختلف اقوال ہیں۔ کبھی فرمایا : ان سے نفع اٹھانا جائز ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ حضرت میمونہ کی (مردہ) بکری کے پاس سے گزرے تو فرمایا تم نے اس کی کھال کیوں حاصل نہیں کی (الحدیث) اور کبھی فرمایا : مردہ چیز ساری کی ساری حرام ہے، کسی اعتبار سے بھی اس سے نفع اٹھانا جائز نہیں اور نہ نجاستوں میں سے کسی نجاست سے نفع اٹھانا جائز ہے۔ حتیٰ کہ ناپاک پانی سے کھیتی کو سیراب کرنا اور کسی حیوان کو پلانا جائز نہیں اور جانوروں کو بجاستوں کا چارہ نہیں کھلایا جائے گا، مردار کتوں اور درندوں کو بھی نہیں کھلایا جائے گا۔ اگر حیوان ناپاک چیز کھائیں تو انہیں منع کیا جائے گا۔ اس قول کی وجہ کو خاص نہیں فرمایا۔ یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ یہ خطاب مجمل ہے، کیونکہ مجمل وہ ہوتا ہے جس کے ظاہر سے مراد سمجھی نہیں جاتی۔ عربوں نے اس فرمان حرمت علیکم المیتۃ (مائدہ : 3) کا مراد سمجھا اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا مردار کی کسی چیز سے نفع نہ اٹھاؤ۔ حضرت عبد اللہ بن علیم کی حدیث میں ہے ” مردار کی کھال اور پٹھوں سے نفع نہ اٹھاؤ “۔ اور یہ ارشاد آپ نے وصال سے ایک ماہ قبل فرمایا تھا۔ ان اخبار کا بیان اور ان پر کلام سورة النحل میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر 7: رہی وہ اونٹنی یا گائے یا بکری جو ذبح کی گئی اور اس میں مردہ بچہ تھا تو بغیر ذبح کئے اس کا کھانا جائز ہے مگر یہ کہ وہ زندہ نکلے تو اسے ذبح کیا جائے گا۔ اس کے لئے اس کے نفس کا حکم ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مردہ بچہ جب ذبح کے بعد مردہ نکلا تو وہ اس جانور کے اعضاء میں سے ایک عضو کے قائم مقام ہے۔ اور اس کی وضاحت اس سے بھی ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص بکری بیچے اور اس کے پیٹ کی چیز کا استثناء کرے تو جائز نہیں ہے جس طرح اگر کوئی جانور کے کسی عضو کی استثناء کرے تو جائز نہیں ہوتا۔ جو کچھ جانور کے پیٹ میں ہوتا ہے وہ دوسرے تمام اعضاء کی طرح اس کا تابع ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی لونڈی کو آزاد کرے جبکہ اس کے پیٹ والی چیز پر آزادی کو واقع نہ کرے تو بھی وہ آزاد ہوجائے گا لیکن اگر بچہ ماں سے جدا ہو تو وہ بیع، عتق (آزادی) میں تابع نہ ہوگا۔ حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے گائے اور بکری کے بارے پوچھا گیا جنہیں ذبح کیا جاتا ہے اور اونٹنی جسے نحر کیا جاتا ہے اور اس کے پیٹ میں مردہ بچہ ہوتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو اس مردہ بچے کو کھاؤ کیونکہ اس کا ذبح اس کی ماں کا ذبح ہے۔ ابو داؤد نے اس کا معنی حضرت ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے، یہ نص ہے جو احتمال نہیں رکھتی ہے اس کا مزید بیان سورة المائدہ میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر 8: امام مالک سے مردار کی کھال کے متعلق روایات مختلف ہیں، کیا اس کو دباغت کے ساتھ پاک کیا جائے گا یا نہیں ؟ امام مالک سے ایک روایت یہ ہے کہ اسے پاک نہیں کیا جائے گا یہ ان کا ظاہر مذہب ہے۔ اور ایک روایت یہ ہے کہ اسے پاک کیا جائے گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کھال کی دباغت کی جائے گی وہ پاک ہوجائے گی۔ اور پاک نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ مردار کا جز ہے اگر بحالت حیات اس کی کھال اتاری جاتی تو وہ نجس ہوتی۔ پس واجب ہے کہ دباغت بھی اسے پاک نہ کرے جس طرح گوشت دباغت سے پاک نہیں ہوتا اور جو اخبار طہارت کے متعلق ہیں انہیں اس پر محمول کیا جائے گا کہ جلد سے دباغت میل کچیل کو زائل کردیتی ہے حتیٰ کہ اس سے خشک چیزوں میں اور اس پر بیٹھنے کا نفع اٹھایا جاسکتا ہے اور مشکیزہ بنا کر پانی میں بھی اس سے نفع اٹھایا جاسکتا ہے کیونکہ پانی طہارت کی اصل پر ہے جب تک اس کو وصف نہ بدلے۔ اس کا حکم سورة فرقان میں آئے گا۔ طہارت لغت میں میل کچیل کو دور کرنے کی طرف متوجہ ہوتی ہے جس طرح طہارت شرعیہ کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ مسئلہ نمبر 9: مردار کے بال اور اس کی اون پاک ہے، کیونکہ حضرت ام سلمہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مردار کی کھال میں کوئی حرج نہیں جب اس کی دباغت کی جائے اور اس کی صوف اور بالوں میں کوئی حرج نہیں جب وہ دھوئے جائیں کیونکہ وہ ظاہر تھے اگر وہ زندہ حالت میں جانور سے لئے جاتے پس واجب ہے کہ موت کے بعد بھی اسی طرح ہوں مگر گوشت جب حالت حیات میں نجس تھا تو موت کے بعد بھی اسی طرح ہوگا۔ پس اون کا حکم موت کی حالت میں گوشت کے خلاف ہوگا جیسا کہ حالت حیات میں اس کا حکم گوشت سے مختلف تھا۔ یہ استدلال بالعکس کے اعتبار سے ہے۔ اس پر دودھ اور مردہ مرغی سے نکلنے والے انڈے کا حرام ہونا لازم نہیں آتا کیونکہ ہمارے نزدیک موت کے بعد بھی دودھ پاک ہے اسی طرح انڈا بھی پاک ہے لیکن وہ ناپاک برتن سے حاصل ہوئے تو برتن کی مجاورت کی وجہ سے ناپاک ہوگئے نہ کہ وہ موت سے نجس ہوئے۔ مزید تفصیل اس مسئلہ کی اور اس سے پہلے والے مسئلہ کی اور علماء کا اختلاف انشاء اللہ سورة النحل میں آئے گا۔ مسئلہ نمبر 10: وہ چیز جس میں چوہا گر جائے اس کو دو حالتیں ہیں۔ ایک حالت یہ کہ وہ چیز مائع ہوگی تو وہ ساری ناپاک ہوجائے گی۔ ایک حالت یہ کہ وہ چیز جامد ہوگی تو جو حصہ اس چوہے کے ساتھ متصل ہوگا وہ ناپاک ہوگا پس جو اس کے قریب ہوگا اسے پھینک دیا جائے گا اور مابقی سے نفع اٹھایا جائے گا وہ پاک ہوگا۔ روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے چوہے کے متعلق پوچھا گیا جو گھی میں گر کر مر جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” اگر وہ گھی جامد ہو تو اسے اور اس کے اردگرد کے گھی کو پھینک دو اور اگر وہ مائع ہو تو اسے بہادو “۔ اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ جب اسے دھویا جائے ؟ بعض علماء نے فرمایا : وہ دھونے سے پاک نہ ہوگا کیونکہ نجس مائع ہے وہ خون، شراب، پیشاب اور دوسری نجاستوں کے مشابہ ہے۔ ابن قاسم نے فرمایا : دھونے کے ساتھ پاک ہوجائے گا کیونکہ وہ جسم تھا جو نجاست کی مجاورت کی وجہ سے ناپاک ہوگیا۔ پس وہ کپڑے کے مشابہ ہے، اس سے خون کا پاک ہونا لازم نہیں آتا کیونکہ وہ نجس عین ہے اور شراب اور پیشاب، ان کو دھونا ان کو ہلاک کردیتا ہے انہیں دھویا نہیں جاسکتا۔ مسئلہ نمبر 11: جب ہم غسل کے ساتھ طہارت کا حکم کریں گے تو وہ طہارت میں اور تمام وجوہ انتفاع میں پہلی حالت کی طرف لوٹ آئے گا اسے بیچے گا نہیں حتیٰ کہ اسے بیان کرے کیونکہ یہ لوگوں کے نزدیک عیب ہے اور نفوس اس سے نفرت کرتے ہیں۔ اور بعض علماء اس کی تحریم اور نجاست کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ اس کا بیچنا جائز نہیں حتیٰ کہ عیب کو بیان کرے جس طرح کہ دوسری معیوب اشیاء ہیں اور غسل سے پہلے اس کا بیچنا کسی حال میں جائز نہیں کیونکہ ان کے نزدیک بجاسات کا بیچنا جائز نہیں۔ نیز یہ نجس مائع ہے یہ شراب کے مشابہ ہے۔ نیز نبی کریم ﷺ سے شراب کی قیمت کے بارے پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ یہود پر لعنت کرے ان پر چربی حرام کی گئی تھی پھر انہوں نے اسے پگھلایا اور اسے بیچا اور اس کی اثمان کو کھایا “۔ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کو حرام کرتا ہے تو اس کی ثمن کو حرام کرتا ہے۔ یہ مائع نجاست کی وجہ سے حرام کی گئی تھی پس اس کی ثمن کا ظاہر حکم کی وجہ سے حرام کرنا واجب ہے۔ مسئلہ نمبر 12: جب ہانڈی میں کوئی حیوان پرندہ وغیرہ گر جائے اور مر جائے تو ابن وہب نے امام مالک سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : ہانڈی میں جو کچھ تھا اسے نہیں کھایا جائے گا۔ مردار کی مخالطت سے وہ ناپاک ہوچکا ہے۔ ابن قاسم نے مالک سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : گوشت کو دھویا جائے گا اور شور بہ انڈیل دیا جائے گا۔ حضرت ابن عباس سے اس مسئلہ کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : گوشت کو دھویا جائے گا اور اسے کھایا جائے گا اور شوربے کے متعلق ان کے شاگردوں میں سے کوئی مخالف نہیں یعنی اسے انڈیل دیا جائے گا۔ یہ ابن خویز مندراد نے ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 13: رہا مردار کے معدہ کا پنیر اور مردار کا دودھ، تو امام شافعی نے فرمایا یہ نجس ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے حرمت علیکم المیتۃ (المائدہ :3) عام ہے۔ امام ابوحنیفہ نے ان دونوں چیزوں کی طہارت کا کہا ہے۔ انہوں نے فرمایا۔ خلقت کی جگہ کا اس چیز کے پلید کرنے میں کوئی اثر نہیں جس میں خلقت کا عمل ہوا ہے اسی وجہ سے وہ گوشت کھایا جاتا ہے جس میں رگیں ہوتی ہیں حالانکہ ان رگوں میں خون داخل ہوتا ہے اور نہ اس کو دھویا جاتا ہے اور نہ اس کی تطہیر کی جاتی ہے۔ امام مالک کا قول بھی امام ابوحنیفہ کے قول کی طرح ہے۔ یہ موت کے ساتھ ناپاک نہیں ہوتا بلکہ باپاک برتن کی مجاورت کی وجہ سے ناپاک ہوتا ہے اور ان چیزوں میں سے ہے جس کو دھویا نہیں جاسکتا۔ اسی طرح مرغی سے جو انڈا اس کے مرنے کے بعد نکلتا ہے اس کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ انڈا مرغی سے نکلنے سے پہلے مائع کے حکم میں ہوتا ہے یہ ہوا کے ساتھ سخت ہوجاتا ہے۔ ابن خویز منداد نے کہا : اگر کہا جائے کہ تمہارا قول اجماع کے خلاف تک پہنچاتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے بعد مسلمان پنیر کھاتے تھے جو ان کے پاس عجمیوں کی زمین سے لایا جاتا تھا اور یہ معلوم ہے کہ عجمی مجوسی تھے ان کا ذبیحہ مردار ہے۔ صحابہ کرام یہ خیال نہیں کرتے تھے کہ یہ مردار جانور کے معدہ کا پنیر ہے یا ذبح کیا گیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے : خشک دودھ میں جو پنیر کی مقدار واقع ہوتی تھی وہ تھوڑی ہوتی تھی اور تھوڑی نجاست معاف ہے جبکہ وہ کثیر مائع میں مل جائے۔ یہ ایک روایت کے مطابق جواب ہے اور دوسری روایت پر یہ جواب ہے کہ یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا اور یہ کسی کے لئے نقل کرنا ممکن نہیں کہ صحابہ کرام نے عجمیوں کی زمین سے لایا گیا پنیر کھایا تھا بلکہ پنیر عربوں کے طعام سے نہیں تھا جب مسلمان عجم کی زمین میں فتوحات کے ذریعے پھیل گئے تو ذبائح ان کے لئے ہوگئے پھر ہمارے لئے کہاں سے ہے کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ نے پنیر کھایا تھا چہ جائیکہ وہ عجم کی زمین سے لایا گیا ہو اور وہ ان کے ذبائح کے معدہ سے بنایا گیا ہو۔ ابو عمر نے کہا : بت پرستوں، مجوسیوں کے کھانے کو کھانے میں کوئی حرج نہیں اور باقی تمام کفار کے کھانے میں کوئی حرج نہیں جبکہ وہ کھانا ان کے ذبائح سے نہ ہو اور نہ اسے ذبح کی احتیاج ہو مگر وہ پنیر جس میں مردار کے معدہ کا پنیر ہو۔ سنن ابن ماجہ میں ہے : پنیر اور گھی۔ حضرت سلمان فارسی سے مروی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ سے گھی، پنیر اور فراء (ایسی پوستین جس کا اندرونی حصہ لومذی بلی وغیرہ کی کھال سے تیار کیا جاتا ہے) کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : حلال وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس سے سکوت اختیار کیا گیا وہ معاف ہے۔ مسئلہ نمبر 14: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الدم علماء کا اتفاق ہے کہ خون حرام نجس ہے نہ اسے کھایا جائے گا اور نہ اس سے نفع اٹھایا جائے گا، ابن خویز مندراد نے کہا : خون حرام ہے جب تک اس میں عموم بلویٰ نہ ہو اور عوم بلویٰ معاف ہے اور عموم بلویٰ کی وجہ سے جو خون معاف ہوتا ہے اس سے مراد وہ خون ہے جو گوشت اور رگوں میں ہوتا ہے یہ بدن میں اور کپڑے میں تھوڑا ہو اس میں نماز پڑھی جاتی ہے۔ ہم نے یہ اس وجہ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : حرمت علیکم المیتۃ والدم (المائدہ :3) ۔ دوسری جگہ فرمایا : قل لا اجد فی۔۔۔۔۔۔ اودما مسفوحا (انعام : 145) (آپ فرمائیے میں نہیں پاتا اس کتاب میں جو وحی کی گئی ہے میری طرف کوئی چیز حرام کھانے والے پر جو کھاتا ہے اسے مگر یہ کہ مردار ہو یا رگوں کا بہتا ہوا خون) ۔ پس بہنے والا خون حرام ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے فرموی ہے۔ فرمایا : ہم رسول اللہ ﷺ کا عہد میں ہانڈی پکاتے تھے خون کی وجہ سے زردی بلند ہوتی تھی ہم کھاتے تھے اور ہم اسے ناپسند نہیں کرتے تھے۔ اس سے بچنا بوجھ ہے اور اس میں مشقت ہے اور دین میں بوجھ اور مشقت اٹھالی گئی ہے۔ یہ شروع میں اصل ہے۔ جب عمارات کی ادائیگی میں امت کو حرج لاحق ہو اور اس پر بوجھ ہوا تو عبادت ساقط کردی۔ آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ مضطر مردار کھاتا ہے، مریض افطار کرتا ہے اور مرض میں تیمم کرتا ہے۔ میں کہتا ہوں : اللہ تعالیٰ نے یہاں مطلقا ً خون کا ذکر کیا اور سورة الانعام میں مسفوحا کے ساتھ مقید فرمایا : علماء نے یہاں مطلق کو مقید پر محمول فرمایا ہے یہاں خون سے مراد بہنے والا خون ہے کیونکہ جو گوشت کے ساتھ متصل ہوتا ہے وہ بالاجماع حرام نہیں ہے اسی طرح جگر اور تلی کی حلت پر بھی اجماع ہے اور مچھلی کے خون میں اختلاف ہے۔ قاسمی سے مرای ہے کہ یہ آپ کے ہے۔ اس کی طہارت سے لازم آتا ہے کہ یہ حرام نہیں ہے۔ یہ ابن عربی کا اختیار ہے۔ فرمایا : اگر مچھلی کا خون نجس ہوتا تو اس کی زکاۃ (ذبح کرنا) مشروع ہوتی۔ میں کہتا ہوں : یہ مچھلی کے خون کے بارے میں امام ابوحنیفہ کا مذہب ہے۔ میں نے بعض حنفیوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ اس کے پاک ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جب اس کا خون خشک ہوتا ہے تو سفید ہوجاتا ہے بخلاف دوسرے خونوں کے، وہ سیاہ ہوجاتے ہیں یہ نکتہ شوافع پر احناف کی طرف سے حجت ہے۔ مسئلہ نمبر 15: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولحم الخنزیر اللہ تعالیٰ نے خنزیر کے گوشت کا ذکر کیا تاکہ اس کے عین کی تحریم پر دلالت کرے خواہ ذبخ کیا گیا ہو یا ذبح نہ کیا گیا ہو، تاکہ چربی اور دوسری بھر بھری ہڈیوں وغیرہ کو شامل ہوجائے۔ مسئلہ نمبر 16: خنزیر کی چربی کی تحریم پر امت کا اجماع ہے۔ امام مالک اور ان کے اصحاب نے استدلال کیا ہے کہ جس نے چربی نہ کھانے کی قسم اٹھائی پھر اس نے گوشت کھایا تو وہ گوشت کھانے کی وجہ سے حانث نہ ہوگا۔ اگر کوئی قسم اٹھائے کہ وہ گوشت نہیں کھائے گا پھر اس نے چربی کھائی تو حانث ہوگا کیونکہ چربی کے ساتھ گوشت ہوت و اس پر گوشت کے اسم کا اطلاق ہوت ا ہے۔ گوشت کے اسم میں چربی داخل ہے اور گوشت، چربی کے اسم میں داخل نہیں اللہ تعالیٰ نے خنزیر کے گوشت کو حرام کیا اور گوشت کا ذکر کیا اور چربی کا ذکر نہ کیا کیونکہ یہ گوشت کے تحت داخل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر چربی کو حرام کیا اپنے اس ارشاد کے ساتھ حرمنا علیھم شحومھما (الانعام : 146) اس سے ان پر گوشت کی حرمت واقع نہیں ہوئی اور چربی کے اسم میں گوشت داخل نہیں۔ اسی وجہ سے امام مالک نے چربی کی قسم اٹھانے والے اور گوشت کی قسم اٹھانے والے میں فرق کیا ہے مگر یہ کہ قسم اٹھانے والے کی نیت گوشت کی ہو، چربی کی نیت نہ ہو تو وہ حانث نہ ہوگا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ امام شافعی، ابو ثور اور اصحاب الرائے کے قول میں حانث نہ ہوگا جب وہ قسم اٹھائے کہ وہ گوشت نہیں کھائے گا پھر وہ چربی کھالے۔ امام احمد نے کہا : جب قسم اٹھائے کہ وہ گوشت نہیں کھائے گا پھر اسنے چربی کھالی تو کوئی حرج نہیں مگر اس نے چربی سے اجتناب کا ارادہ کیا ہو۔ مسئلہ نمبر 17: اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ خنزیر سارا حرام ہے سوائے بالوں کے۔ اس کے بالوں کے ساتھ جوتی سینا جائز ہے۔ روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے خنزیر کے بالوں کے ساتھ جوتا سینے کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں۔ ابن خویز منداد نے اس کو ذکر کیا ہے۔ فرمایا : کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں اس کے ساتھ جوتیاں سی جاتی تھیں، اس کے بعد بھی یہ عمل موجود تھا، ہمیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعد کسی امام نے اس کا انکار کیا ہو۔ اور رسول اللہ ﷺ نے جس کو جائز قرار دیا وہ ابتداء الشرع کی طرح ہے۔ مسئلہ نمبر 18: خشکی کے خنزیر کی حرمت میں کوئی اختلاف نہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا اور پانی کے خنزیر میں اختلاف ہے۔ امام مالک نے اسکے بارے میں کچھ جواب دینے سے انکار کیا اور فرمایا : تم خنزیر کہتے ہو۔ یہ پہلے گزر چکا ہے اس کا بیان سورة مائدہ میں ہوگا مسئلہ نمبر 19: اکثر لغوی علماء کا خیال ہے کہ خنزیر کا لفظ رباعی ہے۔ ابن سیدہ نے بعض سے روایت کیا ہے کہ یہ خزرالعین سے مشتق ہے کیونکہ وہ اس طرح دیکھتا ہے، اس صورت میں لفظ ثلاثی ہوگا اور ” الصحاح “ میں ہے تخازر الرجل، اپنی پلک کو تنگ کرنا تاکہ نظر کو تیز کرے۔ الخزر، آنکھ کا تنگ ہونا اور چھوٹا ہونا۔ رجل اخزر بین الخزر۔ اور کہا جاتا ہے : گویا وہ انسان آنکھ کے آخری حصہ سے دیکھتا ہے۔ خنزیر کی جمع خنازیر ہے۔ خنازیر ایک معروف بیماری بھی ہے یہ ایک سخت زخم ہوتا ہے جو گردن میں ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر 20: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما اھل بہ لغیر اللہ۔ یعنی جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ اس سے مراد مجوسی، بت پرست اور معطل کا ذبیحہ ہے کیونکہ بت پرست بت کے لئے ذبح کرتا ہے مجوسی آگ کیلئے ذبح کرتا ہے اور معطل، وہ کسی ذات کا اعتقاد نہیں رکھتا وہ اپنے لئے ذبح کرتا ہے۔ علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے مجوسی جسے آگ کے لئے ذبح کرتا ہے، بت پرست جو اپنے بت کے لئے ذبح کرتا ہے اسے نہیں کھایا جائے گا اور ان کا ذبیحہ امام مالک، اور امام شافعی وغیرہما کے نزدیک نہیں کھایا جائے گا اگرچہ وہ آگ اور بت کے لئے نہ بھی ہو۔ ابن مسیب اور ابو ثور نے ان کا ذبیحہ جائز قرار دیا ہے جو وہ مسلمان کیلئے اس کے حکم سے ذبح کرے۔ اس کا مزید بیان سورة مائدہ میں آئے گا۔ الاھلال کا معنی آواز کو بلند کرنا ہے۔ کہا جاتا ہے : اہل بکذا یعنی اس نے آپنی آواز کو بلند کیا۔ ابن احمر، صحرا کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے : یھل بالفرقد رکبانھا کما یھل الراکب المعتمر قافلہ والے فرقد میں اس طرح آواز بلند کرتے ہیں جس طرح عمرہ کرنے والا سوار آواز نکالتا ہے۔ نابغہ نے کہا : او درۃ صدفیۃ غواصھا بھج متی یرھا یھل ویسجد یا صدف والا موتی جس کا غواص خوش ہوتا ہے جب اسے دیکھتا ہے آواز نکالتا ہے اور جھکتا ہے۔ اسی سے اھلال الصبی واستھلالہ ہے ولادت کے وقت بچے کو چیخنا۔ حضرت ابن عباس وغیرہ نے کہا : اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو بتوں اور تھانوں کیلئے ذبح کی جاتی ہیں۔ اس سے مراد وہ نہیں ہے جس پر مسیح کا نام ذکر کیا جاتا ہے اس کا بیان سورة مائدہ میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور عربوں کی عادت تھی کہ ذبیحہ سے مقصود اسم کا اعتبار کرتے ہیں اور اس استعمال میں یہ غالب ہوگیا نیت کا اعتبار ہی نہیں کیا جو تحریم کی علت ہے۔ کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ حضرت علی ؓ نے ان اونٹوں میں نیت کا اعتبار کیا جن کو غالب ابو فرزوق نے نحر کیا تھا۔ آپ نے فرمایا یہ ان جانوروں سے ہے جو غیر اللہ کے لئے ذبح کئے جاتے ہیں۔ پس لوگوں نے اس کو ترک کردیا۔ ابن عطیہ نے کہا، میں نے حسن بن ابی حسن کی اخبار میں دیکھا، ان سے ایک مال دار عورت کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنی دل لگی کے لئے شادی کا اہتمام کیا اور اس نے کئی اونٹ ذبح کئے۔ حضرت حسن نے فرمایا اس کا کھانا حلال نہیں یہ بت کیلئے ذبح کئے گئے ہیں۔ میں کہتا ہوں : اس معنی میں وہ روایت ہے جو ہم نے یحییٰ بن یحییٰ تمیمی مسلم کے شیخ سے روایت کی ہے فرمایا : ہمیں جریر نے قابوس سے روایت کرکے بتایا، کہ میرے باپ نے ایک عورت کو حضرت عائشہ ؓ کے پاس بھیجا اور اسے کہا کہ پہلے حضرت عائشہ ؓ کو اس کی طرف سے سلام کہنا اور پھر ان سے پوچھنا کہ رسول اللہ ﷺ کو کون سی نماز زیادہ پسند تھی اور کس نماز پر آپ دوام اختیار فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : نبی کریم ﷺ ظہر سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے جن میں قیام لمبا فرماتے تھے اور رکوع و سجود خوب اچھا کرتے تھے اور رہی وہ نماز جس کو آپ صحت، مرض، سفر و حضر میں کبھی نہیں چھوڑتے تھے وہ صبح کی نماز سے پہلے دو رکعتیں ہیں۔ ایک عورت نے عرض کی : اے ام المومنین ! ہمارے لئے عجمیوں میں سے کچھ مہربان ہیں ان کی ایک عید ہوتی ہے اس موقع پر وہ ہمیں تحائف بھیجتے ہیں کیا اس میں سے ہم کچھ کھا سکتے ہیں ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا : جو اس دن کے لئے ذبح کیا گیا ہے اسے نہ کھاؤ اور ان کے درختوں کے پھلوں سے کھاؤ۔ مسئلہ نمبر 21: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فمن اضطر یہ اتباع کی وجہ سے نون کے ساتھ پڑھا گیا ہے اور کسرہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور یہ کسرہ اصل ہے کیونکہ التقاء ساکنین ہوا ہے۔ اس میں اضمار ہے یعنی ان محرمات میں سے کسی چیز کی طرف کوئی مجبور ہے۔ اضطر۔ یہ ضرورۃ سے بات افتعال ہے۔ ابن محیصن نے فمن اطر ضاد کو طا میں ادغام کرکے پڑھا ہے اور ابو لسمال نے طا کے کسرہ کے ساتھ فمن اضطر پڑھا ہے اور اس کی اصل اضطرر ہے جب ادغام کیا گیا تو را کی حرکت طا کی طرف نقل کی گئی۔ مسئلہ نمبر 22: اضطرار یا تو ظالم کے مجبور کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے یا بھوک کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جمہور فقہاء اور علماء کا اس آیت میں اس معنی پر اتفاق ہے کہ وہ بھوک کی وجہ سے مجبور ہو۔ اور یہی صحیح ہے۔ بعض نے فرمایا اس کا معنی ہے جو ان محرمات کے کھانے پر مجبور کیا گیا ہو۔ مجاہد نے کہا یعنی کسی کو مجبور کیا گی اہو مثلا ایک شخص کو دشمن پکڑ لیتا ہے اور وہ اسے خنزیر وغیرہ کا گوشت کھانے پر مجبور کرتا ہے مگر یہ اکراہ مجبور کرنا اس کے کھانے کو اس وقت مباح کرے گا جب وہ اکراہ مجبور کرنا انتہا کو پہنچ جائے۔ وہ بھوک یا تو وہ دائمی ہوگی یا دائمی نہیں ہوگی۔ اگر بھوک دائمی ہو تو مردار سے بھوک مٹانے کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں مگر مردار کا کھانا اس کے لئے حلال نہیں جبکہ وہ کسی مسلمان کا مال پاتا ہو جس میں اس کو قطع ید کا خوف نہ ہو مثلا لٹکی ہوئی کھجوریں اور حریسۃ الجبل (پہاڑ کی چھوڑی گئی بکری) اور اس قسم کی چیزیں جن میں ہاتھ نہیں کاٹے جاتے اور اذیت نہیں دی جاتی، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں ہے، فرمایا : ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ہم نے اونٹنی دیکھی جس کی کھیری درخت کے کانٹوں سے باندھی گئی تھی تو ہم اس کی طرف لوٹے رسول اللہ ﷺ نے ہمیں پکارا تو ہم آپ کی طرف لوٹ آئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ اونٹ مسلمانوں کے گھر والوں کیلئے ہیں یہ ان کی خوراک ہیں اور ان کی برکت ہیں۔ کیا تمہیں اچھا لگے گا اگر تم اپنے مشکیزوں کی طرف جاؤ اور تم دیکھو کہ جو کچھ ان میں تھا وہ ختم ہوچکا ہے کیا تم اس کو عدل سمجھتے ہو۔ صحابہ نے عرض کی : نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ اسی طرح حرام ہے۔ ہم نے کہا : آپ فرمائیے اگر ہمیں کھانے پینے کی ضرورت ہو تو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم کھاؤ اور ساتھ نہ لے جاؤ، پیو اور ساتھ نہ لے جاؤ۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور فرمایا : یہ میرے نزدیک اصل ہے، ابن منذر نے اس کو ذکر کیا ہے۔ فرمایا : ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ ! جب ہم سے کوئی شخص مجبور ہوجائے تو اس کیلئے اپنے بھائی کے مال سے کیا حلال ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ کھائے اور ساتھ نہ لے جائے، پیئے اور ساتھ نہ لے جائے۔ ابن منذر نے کہا : تمام چیزیں جن میں اس کے بعد اختلاف ہوگا وہ تحریم کی طرف لوٹائی جائیں گی۔ ابو عمر نے کہا : اس کے متعلق قول یہ ہے کہ مسلمان پر جب کھانا کھلانا متعین ہوجائے تو وہ اتنی مقدار میں کھلائے جس سے اس کی روح لوٹ آئے اور اس مسلمان پر کھانا کھلانا فرض ہوگا۔ مگر یہ اس صورت میں ہے جبکہ وہاں کوئی اور نہ ہو، تو اس پر آدمی کی روح کو لوٹانے سے منع کرے، اگرچہ یہ چیز اس کے اپنے خلاف ہی چلی جائے۔ اہل علم کے نزدیک اس صورت میں ہے جب صرف ایک شخص وہاں موجود ہو اس پر فرض کا تعین ہوجائے گا۔ اگر بہت سے لوگ ہوں پھر ان پر کھانا کھلانا فرض کفایہ ہوگا اور اس میں پانی اور دوسری چیز جو مسلمان کے نفس لوٹاتی اور قائم رکھتی ہیں برابر ہیں، مگر اس شے کی قیمت کے وجوب میں اختلاف ہے، جس کے ساتھ اس کی روح لوٹ آئی ہے، بعض نے قیمت کو واجب قرار دیا ہے اور بعض نے اس کا انکار کیا ہے۔ ہمارے مذہب میں دو قول ہیں : متقدمین اور متاخرین علماء کے درمیان مسلمان کی روح لوٹانے کے وجوب میں کوئی اختلاف نہیں جب کہ اس کے تلف ہونے کا اندیشہ ہو، کسی تھوڑی سی چیز کے ساتھ جس میں اس کے مالک کا نقصان نہ ہو اور اس میں گزارہ ہو۔ مسئلہ نمبر 23: ابن ماجہ نے دو سندوں کے ساتھ حضرت عباد بن شرجیل سے روایت کیا ہے، فرمایا : ہمیں ایک سال بھوک کا سامنا کرنا پڑا تو میں مدینہ طیبہ آیا پھر میں ایک باغ میں آیا۔ میں نے ایک خوشہ پایا، میں نے اسے توڑا اور اسے کھایا اور میں نے اسے اپنی چادر میں رکھ دیا۔ باغ کا مالک آیا، اس نے مجھے مارا اور مجھ سے میرا کپڑا چھین لیا۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور سارا واقعہ عرض کیا۔ آپ ﷺ نے اس شخص کو فرمایا : تو نے اسے نہ کھلایا جب یہ بھوکا تھا اور تو نے اسے نہ علم سکھایا جب وہ جاہل تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ اسے کپڑا لوٹا دے اور اسے طعام کا ایک وسق یا نصف دے۔ میں کہتا ہوں : یہ حدیث صحیح ہے اور بخاری و مسلم اس کے رجال پر متفق ہیں مگر ابن ابی شیبہ، وہ صرف مسلم کا راوی ہے عباد بن شرحبیل الغبری یشکری بخاری اور مسلم نے اس سے کوئی چیز نقل نہیں کی، اس کے لئے نبی کریم ﷺ سے اس واقعہ کے علاوہ کوئی چیز مروی نہیں ہے۔ ابو عمر نے جو ذکر کیا ہے یہ حدیث بھوک کی حالت میں قطع ید اور تنبیہ کرنے کی نفی کرتی ہے۔ ابو داؤد نے حسن سے انہوں نے حضرت سمرہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی کسی جانور کے پاس آئے اگر اس کے پاس اس کا مالک ہو تو وہ اس سے اجازت لے پھر وہ اگر اسے اجازت دے تو وہ دودھ دوہ لے اور پی لے۔ اگر مالک نہ ہو تو تین دفعہ دودھ دوہے اور پی لے لیکن اٹھا کر ساتھ نہ لے جائے۔ ترمذینے یحییٰ بن سلیم سے انہوں نے عبید اللہ سے انہوں نے نافع سے انہوں نے حضرت ابن عمر سے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے، فرمایا : جو کسی باغ میں داخل ہو تو کھالے اور جھولی میں نہ ڈال لے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ہم اسے نہیں جانتے مگر یحییٰ بن سلیم کی حدیث سے۔ اور امام ترمذی نے عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کے سلسلہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ سے لٹکے ہوئے پھلوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : کسی ضرورت مند نے ان پھلوں میں سے کچھ لے لیا جبکہ وہ جھولی میں ڈالنے والا نہ ہو تو اس پر کچھ نہیں ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے اور حضرت عمر کی حدیث میں ہے جب تم میں سے کوئی باغ سے گزرے تو اسے ضرورت کے مطابق کھا لینا چاہئے اور کپڑے میں نہیں ڈالنا چاہئے (یعنی ساتھ نہ لے جائے) ۔ ابو عبیدہ نے کہا : ابو عمرو نے کہا ثبانا اس برتن کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز ڈالی جاتی ہے اگر تو اسے اپنے آگے اٹھائے تو وہ ثبان ہے۔ کہا جاتا ہے : قد تثبنت ثبانا، اگر تو اسے اپنی پیٹھ پر اٹھائے تو ابھی اس کا وہی ثبان نام ہے۔ اسی سے جب چادر کو لپیٹ کر اس میں کوئی چیز ڈالی جائے اور پیٹھ پر اٹھائی جائے تو ثبانا کہا جاتا ہے۔ اگر تو اسے اپنی جھولی میں ڈال لے تو اسے خبنۃ کہا جاتا ہے، اسی سے عمرو بن شعیب کی مرفوع حدیث ہے۔ ولا یتخذ خبنۃ، جھولی میں نہ ڈالے، کہا جاتا ہے : خبنت أخبن خبناً ۔ ابو عبید نے کہا : اس حدیث میں بھوکے مجبور کیلئے رخصت ہے جس کے ساتھ کچھ نہ ہو، جس کے ساتھ وہ کچھ خرید سکے اور وہ نہ اٹھائے مگر اتنی مقدار جتنی اس کے پیٹ میں طاقت ہے۔ میں کہتا ہوں : وہ اصل جس پر اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ غیر کا مال حرام ہے مگر یہ کہ غیر خوشی سے دے۔ اگر معاشرہ میں اس عمل کی عادت ہو جس طرح اسلام کے ابتدائی دور میں تھا یا اب بعض شہروں میں ہے تو یہ جائز ہے اور کبھی اسے بھوک اور ضرورت کے اوقات پر محمول کیا جاتا ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور اگر بھوک دائمی نہ ہو کسی وقت میں ہو تو اس میں علماء کے دو قول ہیں : ایک یہ کہ وہ کھائے حتیٰ کہ سیر ہوجائے اور خوب سیر ہوجائے، اور اگر آئندہ اس صحرا اور جنگل میں ضرورت کا خدشہ ہو تو ساتھ لے جائے، جب اس سے مستغنی ہوجائے تو اسے پھینک دے۔ یہی معنی امام مالک نے اپنے مؤطا میں بیان کیا اور یہی قول امام شافعی اور کثیر علماء کا ہے۔ حجت یہ ہے کہ ضرورت، حرمت کو اٹھا دیتی ہے۔ پس اباحت لوٹ آتی ہے اور ضرورت کی مقدار، خوراک نہ ہونے کی حالت میں خوراک کو موجود ہونے تک ہوتی ہے۔ العنبر (مچھلی) والی حدیث اس میں نص ہے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ کے اصحاب جب سفر سے لوٹ کر آئے تو ان کا ازادراہ ختم ہوچکا تھا۔ وہ ساحل سمندر تک چلے تو ان کیلئے ساحل سمندر پر ایک بہت بڑے ٹیلے کی طرح (مچھلی) ظاہر ہوئی۔ جب وہ اس کے پاس آئے تو وہ ایک جانور تھا جس کو عنبر کہا جاتا تھا۔ حضرت ابو عبیدہ ؓ جو لشکر کے امیر تھے، انہوں نے کہا : مردار ہے۔ پھر فرمایا : نہیں بلکہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پیغام رساں ہیں اور اللہ کے راستہ میں ہیں اور تم بھوک کی وجہ سے مجبور ہو۔ پس تم اسے کھاؤ۔ راوی فرماتے ہیں : ہم ایک مہینہ اسے کھاتے رہے اور ہم تین سو آدمی تھے حتیٰ کہ ہم موٹے ہوگئے۔ (الحدیث) صحابہ نے اسے کھایا اور سیر ہوئے ؓ اس کے باوجد کہ وہ یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ یہ مردار ہے اور وہ اس میں سے مدینہ طیبہ کی طرف بھی لے گئے۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا : وہ حلال ہے اور فرمایا : اس کے گوشت میں سے کچھ تمہارے پاس ہے تو ہمیں بھی کھلاؤ۔ صحابہ نے اس میں سے گوشت رسول اللہ ﷺ کو بھیجا تو آپ ﷺ نے اسے کھایا۔ علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ وہ اتنی مقدار کھائے کہ اس کی زندگی بچ جائے۔ ابن ماجشون اور ابن حبیب کا بھی یہی قول ہے۔ امام شافعی کے اصحاب نے مسافر اور مقیم کے درمیان فرق کیا ہے وہ فرماتے ہیں : مقیم اتنا کھائے جس سے اس کی زندگی بچ جائے اور مسافر سیر ہو کر کھائے اور ساتھ بھی لے جائے جب اس سے غنا پائے تو اسے پھینک دے، اگر کوئی مجبور پائے تو اسے دے دے اور اس سے عوض نہ لے کیونکہ مردار کو بیچنا جائز نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر 24: اگر کوئی شراب پینے پر مجبور ہو۔ اگر شراب پینے پر مجبور کیا گیا ہو تو اسمیں کوئی اختلاف نہیں وہ شراب پی لے۔ اگر بھوک یا پیاس کی وجہ سے مجبور ہو تو نہ پیئے۔ یہ امام مالک کو العتبیۃ میں قول ہے۔ فرمایا : شراب، پیاس میں اضافہ کرتی ہے۔ یہی امام شافعی کا قول ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شراب کو مطلقاً حرام فرما دیا اور مردار کو ضرورت نہ ہونے کی شرط کے ساتھ حرام کیا۔ ابہری نے کہا : اگر شراب اس کی بھوک یا پیاس کو مٹائے تو اسے پی لے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خنزیر کے بارے فرمایا : یہ ناپاک ہے پھر ضرورت کے لئے مباح کیا اور شراب کے بارے فرمایا : یہ ناپاک ہے۔ پس خنزیر اباحت میں ضرورت کی وجہ سے داخل ہوگا اس جلی معنی کی وجہ سے جو قیاس سے زیادہ قوی ہے۔ ضروری ہے کہ وہ سیر کرے گا اگرچہ ایک گھڑی کے لئے سیر کرے گا اور بھوک کو مٹائے گا اگرچہ تھوڑی سی مدت کے لئے۔ مسئلہ نمبر 25: اصبغ نے ابن القاسم سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : مجبور خون پی لے اور شراب نہ پیئے۔ مردار کھالے اور کسی کے گم شدہ اونٹوں کے قریب نہ جائے۔ یہ ابن وہب کا قول ہے۔۔۔ پیشاب لی لے اور شراب نہ پیئے، کیونکہ شراب میں حد لازم ہوتی ہے۔ معلوم ہوا یہ زیادہ سخت ہے۔ اس پر امام شافعی کے اصحاب کی نص ہے۔ مسئلہ نمبر 26: اگر کسی کو لقمہ پھنس جائے تو کیا وہ شراب کے ساتھ اسے نگلے یا نہیں، بعض علماء نے فرمایا : نہیں۔ اس خوف سے کہیں وہ عاری نہ ہوجائے۔ اور ابن حبیب نے اس کی اجازت دی ہے کیونکہ یہ ضرورت کی حالت ہے۔ ابن عربی نے کہا : جس کا لقمہ پھنس جائے اس کے اللہ تعالیٰ اور ابندے کے درمیان جو معاملہ ہے اسکے اعتبار سے جائز ہے اور رہا ہمارے درمیان کا مسئلہ تو ہم اسے دیکھیں گے اور اگر ہم پر قرأئن کی وجہ سے پھنسنے کی صورت مخفی نہیں ہوگی تو ہم اس کی تصدیق کریں گے جب یہ ظاہر ہوجائے گا اور اگر پھنسنے کی صورت ظاہر نہ ہوگی تو ہم ظاہر کی بنا پر اسے حد لگائیں گے اور اللہ کی بارگاہ میں باطنا عقبوت سے محفوظ رہے گا۔ پھر جب مجبور شخص مردار، خنزیر اور آدمی کا گوشت پائے تو وہ مردار کھالے کیونکہ وہ حلال ہے، جبکہ خنزیر اور آدمی کسی حالت میں حلال نہیں ہیں۔ بلکہ تحریم کو اختیار کرنا بہتر ہے بنسبت بھاری تحریم میں داخل ہونے کے۔ اسی طرح اگر کسی کو اپنی بہن یا کسی اجنبی عورت سے وطی کرنے پر مجبور کیا جائے تو وہ اجنبی عورت سے وطی کرلے کیونکہ بہن کسی صورت میں حلال نہیں۔ یہی ان احکام میں ضابطہ ہے۔ انسان کا گوشت نہ کھائے اگرچہ مر بھی جائے۔ یہ ہمارے علماء کا قول ہے اور یہی امام احمد اور داؤد نے کہا ہے۔ امام احمد نے نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد سے حجت پکڑی ہے کہ ” مردہ آدمی کی ہڈی توڑنا، زندہ کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے “۔ امام شافعی نے فرمایا : آدمی کا گوشت کھالے اور اس کے لئے کسی ذمی کو قتل کرنا جائز نہیں کیونکہ وہ محترم الدم ہے اور نہ کسی مسلمان اور نہ قیدی کو قتل کرے کیونکہ وہ غیر کا مال ہے۔ اگر حربی یا زانی شادی شدہ ہو تو اس کا قتل کرنا اور اس سے کھانا جائز ہے۔ ابو داؤد نے مزنی پر سخت تنقید کی ہے کیونکہ انہوں نے کہا ہے : انبیاء کرام کا گوشت کھانا مباح ہے۔ ابن شریح نے بھی اس پر سخت جرح کی ہے کہ تو انبیاء کرام کے قتل تک پہنچ گیا ہے جبکہ تو نے کافر کے کھانے سے منع کیا ہے۔ ابن عربی نے کہا : میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ وہ آدمی کا گوشت نہ کھائے مھر جب اسے یقین ہو کہ اسے مرنے سے بچا لے گا اور زندگی کا باعث بنے گا۔ مسئلہ نمبر 27: امام مالک سے پوچھا گیا کہ مجبور مردار کھا سکتا ہے جبکہ وہ غیر کا مال کھجور، کھیتی یا بکریاں پائے۔ امام مسلک نے فرمایا : اگر اسے اپنے بدن پر ضرر کا اندیشہ نہ ہو مثلاً اسے چور شمار نہیں کیا جائے گا اور اس کے قول کی تصدیق کی جائے گی تو وہ جو چیز پائے اس سے کھالے جو اس کی بھوک کو مٹائے لیکن اس میں سے ساتھ نہ لے جائے۔ میرے نزدیک مردار کھانے سے یہ کھانا بہتر ہے۔ یہ مفہوم پہلے تفصیل سے گزر چکا ہے اور اگر اسے اندیشہ ہو کہ لوگ اس کی تصدیق نہیں کریں گے اور اسے چور شمار کریں گے اگر وہ مردار کھالے تو میرے نزدیک جائز ہے۔ اس مقام پر مردار کھانے میں اس کے لئے وسعت ہے۔ مسئلہ نمبر 28: ابو داؤد نے اپنی سند سے روایت کیا ہے کہ حضرت جابر بن سمرہ سے مروی ہے، ایک شخص پتھریلے ٹیلے پر اترا اور اس کے ساتھ اس کے گھر والے اور بچے بھی تھے۔ ایک شخص نے کہا : میری اونٹنی گم ہوگئی ہے اگر تو اسے پائے تو اسے روک لینا۔ پس اسے اونٹنی مل گئی لیکن اس کا مالک اسے نہ ملا۔ وہ اونٹنی مریض ہوگئی۔ بیوی نے اسے کہا : تو اسے نحر کردے لیکن اس شخص نے انکار کیا حتیٰ کہ وہ مرگئی۔ بیوی نے کہا : اس کی کھال اتارلے تاکہ ہم اس کے گوشت اور چربی کو خشک کریں اور اسے کھائیں۔ اس شخص نے کہا : نہیں حتیٰ کہ میں رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھ لوں۔ وہ آپ ﷺ کے پاس آیا پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تیرے پاس اتنی غذا ہے جو تجھے مستغنی کر دے۔ اس نے کہا : نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : پھر تم اسے کھالو۔ فرمایا : پھر اس کا مالک آیا تو اس نے اسے پورا قصہ بتایا، اس نے کہا : تو نے اسے نحر کیوں نہیں کیا تھا ؟ اس نے کہا : مجھے تجھ سے حیا آگیا تھا۔ ابن خویز منداد نے کہا : اس حدیث میں دو دلیلیں ہیں : ایک یہ کہ مجبور، مردار میں سے کھالے اگرچہ اسے تلف (ضائع) ہونے کا اندیشہ نہ بھی ہو کیونکہ آپ ﷺ نے اس سے غنا کے متعلق پوچھا تھا، اس سے اپنے نفس پر خوف کے متعلق نہیں پوچھا تھا۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ وہ کھائے، سیر ہو کر کھائے، ذخیرہ بھی کرے اور ساتھ بھی لے جائے کیونکہ آپ ﷺ نے ادخار (ذخیرہ کرنا) کو مباح کیا اور اس پر سیر نہ ہونے کی شرط بھی نہیں لگائی۔ ابو داؤد نے اپنی سند سے قبیح عامری سے روایت کیا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور پوچھا : ہمارے لئے کون سا مردار حلال ہے ؟ فرمایا : جو تمہارا کھانا ہے۔ ہم نے کہا : نغتبق وبصطبح۔ ابو نعیم نے کہا : اس کا مطلب ہے : ہم ایک پیالہ صبح پیتے ہیں اور ایک شام کو پیتے ہیں۔ فرمایا : میرے باپ کی قسم ! یہ بھوک ہے۔ فرمایا : حضور ﷺ نے اس حالت میں مردار کو ان کے لئے حلال کیا۔ اور داؤد نے کہا : الغبوق سے مراد دن کا آخری حصہ ہے اور الصبوح سے مراد دن کا ابتدائی حصہ ہے۔ خطابی نے کہا : الغبوق سے مراد شام کا کھانا ہے اور الصبوح سے مراد صبح کا کھانا ہے یعنی صبح کے وقت ایک دودھ کا پیالہ اور شام کے وقت دودھ کا پیالہ زندگی کو باقی رکھتا ہے اور نفس کو قائم رکھتا ہے اگرچہ جس کو مکمل غذا اور تام سیرابی نہ دے، ان کے لئے اس کے ہوتے ہوئے مردار کھانے کو مباح کیا۔ یہ دلالت ہے کہ مردار کا کھانا مباح ہے یہاں تک کہ وہ نفس خوراک سے اپنی ضرورت حاصل کرلے۔ یہی امام مالک کا نظریہ ہے، یہی امام شافعی کا ایک قول ہے۔ ابن خویز منداد نے کہا : جب صبح و شام دودھ کا پیالہ پینا جائز ہے ت وسیر ہونا اور زادراہ ساتھ لے جانا بھی جائز ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول اور امام شافعی کا دوسرا قول یہ ہے کہ اس کے لئے مردار کا کھانا جائز نہیں ہے مگر جو اس کی زندگی بچا لے۔ مزنی کا بھی یہی نظریہ ہے۔ انہوں نے فرمایا : اگر ابتدا میں یہ حالت ہو تو اس سے کھانا جائز نہیں اسی طرح جب اس کو کھانے کے بعد اس حال پر پہنچ جائے اسی طرح حسن سے مروی ہے قتادہ نے فرمایا : سیر ہو کر نہ کھائے۔ مقاتل بن حبان نے کہا : تین لقموں سے زیادہ نہ کھائے، صحیح اس کے خلاف ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 29: ان چیزوں کھے ساتھ علاج کرنا، ان کے استعمال کی دو صورتیں ہیں : یا تو ان کے عین کو باقی رکھ کر انہیں استعمال کیا جائے یا جلا کر استعمال کیا جائے گا۔ اگر جلانے کے ساتھ بدل جائیں تو ابن حبیب نے کہا : ان کے ساتھ علاج کرنا اور نماز پڑھنا جائز ہے۔ ابن ماجشون نے اس کی تخفیف کی اس بنا پر کہ جلانا، صفات کی تبدیلی کے لئے تطہیر ہے۔ اور العتبیۃ میں امام مالک نے کہا : مرتک (دواء) دوا جو مردار کی ہڈیوں سے بنائی جاتی ہے جب اسے زخم پر رکھا جائے تو اس کے ساتھ نماز نہ پڑھے حتیٰ کہ اسے دھولے۔ اگر مردار قائم بعینہ ہو تو سحنون نے کہا : اس کے ساتھ اور خنزیر کے ساتھ کسی حالت میں علاج نہ کیا جائے کیونکہ ان کا بدل حلال موجود ہوتا ہے بخلاف بھوک کے۔ اگر ان کا بھوک میں بھی عوض پایا جائے تو پھر مردار کو نہیں کھایا جائے گا۔ اسی طرح شراب سے علاج نہیں کیا جائے گا۔ یہ امام مالک کا قول ہے اور امام شافعی کا ظاہر بھی یہی ہے۔ یہ ابن ابی ہریرہ جو امام شافعی کے اصحاب میں سے ہیں ان کا بھی یہی مختار ہے۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : دوا کے طور پر پینا جائز ہے، پیاس کے لئے پینا جائز نہیں۔ یہ اصحاب شافعی میں قاضی طبری کا مختار مذہب ہے اور یہی ثوری کا قول ہے۔ شوافع میں سے بعض بغدادیوں نے کہا : پیاس کے لئے پینا جائز ہے، دواء کے لئے جائز نہیں کیونکہ پیاس کا نقصان جلدی پہنچنے والا ہے بخلاف علاج کے۔ بعض علماء نے فرمایا : دونوں کیلئے پینا جائز ہے۔ بعض اصحاب شافعی نے ہر حرام چیز سے علاھ کرنے سے منع کیا ہے سوائے اونٹوں کے پیشاب کے۔ کیونکہ اس کے متعلق عرنیین والی حدیث موجود ہے۔ بعض علماء نے ہر حرام چیز سے علاج کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : اللہ تعالیٰ نے میری امت کی شفا اس چیز میں نہیں رکھی جو ان پر حرام کی گئی ہے اور نبی کریم ﷺ نے حضرت طارق بن سوید سے کہا : جب انہوں نے شراب کے متعلق پوچھا تو آپ نے اسے منع فرمایا تھا یا شراب بنانے کو ناپسند فرمایا تھا۔ اس نے کہا : میں اسے دواء کے لئے بناتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ دواء نہیں ہے بلکہ یہ بیماری ہے۔ مسلم نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ یہ احتمال ہے کہ یہ حالت اضطرار کے ساتھ مقید ہو۔ کیونکہ زہر کے ساتھ علاج کرنا جائز ہے اور اس کا پینا جائز نہیں ہے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر 30: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : غیر باغ، غیر کو نصب حال کی بنا پر ہے۔ بعض نے فرمایا : استثناء کی بنا پر ہے، جب تو غیر کو دیکھے کہ اس کی جگہ فی صحیح ہوتا ہے تو یہ حال ہوتا ہے اور جب اس کی جگہ الا رکھنا صحیح ہو تو یہ استثنا ہوتا ہے۔ اس پر قیاس کرلو۔ باغ اصل میں باغی تھا ضمہ یا پر دشوار تھا اس سے ساکن کردیا گیا پھر تنوین اور یا ساکن جمع ہوئے تو یا کو حذف کیا گیا اور۔ کسرہ یا کے حذف پر دلالت کرتا ہے۔ قتادہ، حسن، ربیع، ابن زید اور عکرمہ نے کہا غیر باغ کا معنی ہے وہ حاجت سے زیادہ کھانے والا نہ ہو ولا عاد۔ اور سدی نے کہا غیر باغ کا مطلب ہے : وہ شہوت و لذت کیلئے کھانے والا نہ ہو اور ولا عاد سی رہونے کی حد تک پورا کھانے والا نہ ہو۔ مجاہد، ابن جبیر وغیرہما نے کہا غیر باغ کا معنی ہے : مسلمانوں پر بغاوت کرنے والا نہ ہو ولا عاد اور ان پر تجاوز کرنے والا نہ ہو باغی اور عادی میں ڈاکو، سلطان پر خروج کرنے والا، وطع رحمی میں سفر کرنے والا، اور مسلمانوں پر حملہ کرنے والا داخل ہے۔ یہ صحیح ہے، کیونکہ لغت میں البغی کا معنی فساد کا قصد کرنا ہے۔ کہا جاتا ہے : بغت المرأۃ تبغی بغاء، جب عورت بدکاری کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تکرھوا فتیتکم علی البغآء (النور : 33) ۔ کبھی البغی فساد کے علاوہ کسی چیز کو طلب کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ عرب کہتے ہیں : تو کہتا ہے : خرج الرجل فی بغاء ابل لہ، وہ انٹوں کی تلاش میں نکلا۔ شاعر کا قول ہے : لا یمنعک من بغاء الخیر تعقاد الرتائم ان الأشائم کالأیا من والأیامن کالأشائم خیر کی تلاش تجھے نہ روکے۔ دھاگے باندھے جاتے ہیں۔ باتیں، دائیں کی طرح ہیں اور دائیں بائیں کی طرح ہیں۔ مسئلہ نمبر 31: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا عاد، عاد کی اصل عائد ہے اور یہ مقلوب سے ہے جیسے شاکی السلاح، ھار اور لاث۔ اصل میں شائک، ھائر، لائث یہ لثت العمامۃ سے مشتق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اضطراری حالت میں تمام محرمات کو مباح قرار دیا کیونکہ یہ تمام مباحات سے عاجز تھا۔ پس مباح چیز کا نہ ہونا حرام چیز کی اباحت کیلئے شرط ہے۔ مسئلہ نمبر 32: علماء کا اختلاف ہے جب اس کی ضرورت کے ساتھ معصیت متصل ہو مثلا ڈاکہ ڈالنے والا ہو، یا مسافروں کو خوف دلانے والا ہو۔ امام مالک اور امام شافعی نے ایک قول میں معصیت کی وجہ سے منع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو مباح کیا بطور مدد اور گنہگار کی مدد کرنا حلال نہیں۔ اگر کھانے کا ارادہ کرے تو اسے توبہ کرنا چاہئے اور کھانا چاہئے۔ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی نے دوسرے قول میں ان کیلئے بھی مباح کیا ہے۔ انہوں نے معصیت اور اطاعت کے درمیان مباحت میں برابری کی ہے۔ ابن عربی نے کہا : عجب ہے ان کیلئے جو گنہگار کے لئے بھی اس کو مباح کرتا ہے میں کسی کو یہ کہنے والا خیال نہیں کرتا۔ اگر کوئی ایسا کہے تو وہ قطعا غلطی کرنے والا ہے۔ میں کہتا ہوں : اس کا خلاف صحیح ہے کیونکہ سفر معصیت میں اپنے آپ کو ضائع کرنا اس معصیت سے زیادہ ہے جس میں وہ مبتلا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا تقتلوا انفسکم (النساء :29) یہ عام ہے۔ شاید وہ دوسری حالت میں توبہ کرے اور تو بہ اس کے گناہ کو مٹا دے۔ مسروق نے کہا : جو مردار، خون اور خنزیر کا گوشت کھانے کی طرف مجبور ہو اور وہ نہ کھائے حتیٰ کہ مر جائے تو وہ دوزخ میں داخل ہوگا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے۔ ابو الحسن طبری المعروف بال کیا نے کہا : ضرورت کے وقر مردار کھانا رخصت نہیں بلکہ عزیمت واجبۃ ہے۔ اگر کوئی مردار کے کھانے سے رک جائے گا تو وہ گنہگار ہوگا۔ مردار کا کھانا سفر کی رخصت نہیں ہے یا سفر سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ ضرورت کے نتائج سے ہے خواہ وہ سفر میں ہو یا حضر میں ہو۔ مقیم گنہگار کے افطار کی طرح ہے جب وہ مریض ہوتا ہے اور اسی طرح گنہگار مسافر کا تیمم کرنا پانی کے نہ ہونے کے وقت۔ فرمایا : ہمارے نزدیک یہ صحیح ہے۔ میں کہتا ہوں : اس کے بارے میں امام مالک سے روایت مختلف ہیں ان کا مشہور مذہب جو الباجی نے ” المنتقی “ میں ذکر کیا ہے۔ سفر معصیت میں اس کیلئے کھانا جائز ہے اور سفر معصیت میں نماز قصر کرنا اور روزہ افطار کرنا جائز نہیں۔ ابن خویز منداد نے کہا : اضطرار کی حالت میں کھانا، اس میں اطاعت شعار اور گنہگار برابر ہیں، کیونکہ سفر و حضر میں مردار کا کھانا جائز ہے۔ گناہوں کی طرف نکلنے والوں سے مقیم کا حکم اس سے ساقط نہیں ہوتا بلکہ مقیم ہونے سے بھی بری حالت میں ہوتا ہے، یہ فطر اور قصر اس طرح نہیں ہیں کیونکہ یہ دونوں رخصتیں سفر سے متعلق ہیں۔ جب سفر، سفر معصیت ہو تو اس میں قصر کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ رخصت سفر کے ساتھ مختص ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے کہا : وہ سفر معصیت میں پانی کے نہ ہونے کے وقت تیمم کرے کیونکہ تیمم سفر و حضر میں برابر ہے اس کو مردار کھانے اور تیمم کرنے سے معصیت کی وجہ سے کیسے منع کرنا جائز ہے جس معصیت کا اس نے ارتکاب کیا ہے۔ مردار کو نہ کھانے میں جان کا ضیاع ہے اور یہ سب سے بڑا گناہ ہے اور تیمم کے ترک میں نماز کو ضائع کرنا ہے کیا یہ کہنا جائز ہے ؟ تو نے ایک گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور دوسرا گناہ کر۔ کیا شراب پینے والے کو یہ کہنا جائز ہے کہ تو زنا کر، اور زانی کو کیا کہنا جائز ہے کہ تو کفر کر یا دونوں کو کہا جاسکتا ہے کہ تم دونوں نماز ضائع کرو ؟ یہ تمام مسائل انہوں نے اپنی کتاب ” احکام القرآن “ میں بیان کیا ہے کہ گنہگار اپنے سفر میں نماز کو قصر کرے اور رمضان میں افطار کرے اور یہ حکم تمام لوگوں میں برابر ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔ اسمیں کوئی اختلاف نہیں کہ کسی کو اپنی جان کو مردار کے کھانے سے رک کر تلف کرنا جائز نہیں کیونکہ اسے وجوب کے طور پر مردار کے کھانے کا حکم دیا گیا ہے اور جو معصیت کے سفر میں ہوا اس سے فرائض واجبات، روزہ، نماز ساقط نہیں ہوتے بلکہ ان کا ادا کرنا اس پر لازم ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم نے ذکر کیا ہے۔ پہلے قول کی وجہ یہ ہے کہ یہ معافی سفروں میں لوگوں کی حاجت کیلئے مباح ہیں۔ اس کیلئے ان سے گناہوں پر مدد حاصل کرنا مباح نہیں تھا اور اس کو اپنے نفس کو قتل کرنے کی حاجت نہیں۔ ابن حبیب نے کہا : وہ پہلے گناہ سے توبہ کرے پھر تو بہ کے بعد مردار کا گوشت کھائے۔ ابن حبیب نے اس مسئلہ میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے تعلق جوڑا ہے : فمن اضطر غیر باغ ولا عاد ضرورت کیلئے مردار کی اباحت میں شرط رکھی ہے کہ وہ باغی نہ ہو اور حرابۃ، ڈاکہ، قطع رحمی، گناہ کا طالب باغی اور حد سے تجاوز کرنے والا ہے۔ ان میں اباحت کی شرائط نہیں پائی جاتی ہیں۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 34: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان اللہ غفور رحیم یعنی اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔ پس جس میں رخصت دی گئی ہے اس سے مواخذہ نہ ہونا بدرجہ اولیٰ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہے کہ اس نے رخصت دی۔
Top