Al-Qurtubi - Al-Baqara : 164
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ الْفُلْكِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَ بَثَّ فِیْهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍ١۪ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ
اِنَّ : بیشک فِيْ : میں خَلْقِ : پیدائش السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَ : اور اخْتِلَافِ : بدلتے رہنا الَّيْلِ : رات وَالنَّهَارِ : اور دن وَالْفُلْكِ : اور کشتی الَّتِىْ : جو کہ تَجْرِيْ : بہتی ہے فِي : میں الْبَحْرِ : سمندر بِمَا : ساتھ جو يَنْفَعُ : نفع دیتی ہے النَّاسَ : لوگ وَمَآ : اور جو کہ اَنْزَلَ : اتارا اللّٰهُ : اللہ مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مِنْ : سے مَّآءٍ : پانی فَاَحْيَا : پھر زندہ کیا بِهِ : اس سے الْاَرْضَ : زمین بَعْدَ مَوْتِهَا : اس کے مرنے کے بعد وَبَثَّ : اور پھیلائے فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے كُلِّ : ہر قسم دَآبَّةٍ : جانور وَّتَصْرِيْفِ : اور بدلنا الرِّيٰحِ : ہوائیں وَالسَّحَابِ : اور بادل الْمُسَخَّرِ : تابع بَيْنَ : درمیان السَّمَآءِ : آسمان وَالْاَرْضِ : اور زمین لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّعْقِلُوْنَ : ( جو) عقل والے
بیشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں اور کشتیوں (اور جہازوں) میں جو دریا میں لوگوں کے فائدے کی چیزیں لیکر رواں ہیں اور مینہ میں جس کو خدا آسمان سے برساتا اور اس سے زمین کو مرنے کے بعد زندہ (یعنی خشک ہوئے پیچھے سرسبز) کردیتا ہے اور زمین پر ہر قسم کے جانور پھیلانے میں اور ہواؤں کے چلانے میں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان گھرے رہتے ہیں عقلمندوں کے لئے (خدا کی قدرت کی) نشانیاں ہیں
آیت نمبر 164 اس میں چودہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: عطا نے کہا : جب والھکم الہ واحد کا ارشاد نازل ہوا تو کفار قریش نے کہا : ایک خدا سب لوگوں کی باتیں کیسے سنتا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی ان فی خلق السموت والارض یہ سفیان نے اپنے باپ سے انہوں نے ابو الضحی سے روایت کیا ہے فرمایا : جب والھکم الہ واحد کا ارشاد نازل ہوا تو انہوں نے کہا اس پر کوئی دلیل بھی ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ان فی خلق السموت والارض، گویا انہوں نے نشانی طلب کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے توحید کی دلیل بیان فرمائی کہ یہ عالم اور اس کی عجیب تخلیق کا ضرور کوئی بانی اور صانع ہے۔ اور سموت کو جمع ذکر فرمایا کیونکہ یہ مختلف اجناس ہیں اور ہر آسمان کی جنس، دوسرے سے مختلف ہے اور زمین کو مفرد ذکر فرمایا کیونکہ تمام مٹی ہی ہیں۔ واللہ اعلم۔ آسمانوں کا نشانی ہونا اس اعتبار سے ہے کہ یہ بلند ہیں اور نہ تو ان کے نیچے کوئی ستون ہے اور نہ ان کے اوپر رسی ہے، تو یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور خرق عادت پر دلیل ہے۔ اگر ایک نبی آئے تو وہ ہوا میں ایک پہاڑ کو بغیر کسی سہارا کے ٹھہرانے کا چیلنچ کرے تو یہ معجزہ ہوگا۔ پھر آسمان میں سورج، چاند اور چلنے والے ستارے اور مشرق و مغرط میں چمکتے اور روشن ستارے اور چھپے ہوئے ستارے دوسری نشانی ہیں۔ اور زمین کا نشانی ہونا اس اعتبار سے ہے کہ اس کے دریا، اس کی نہریں، اس کی معدنیات، اس کے درخت، اس کا ہموار ہونا اور اس کے نشیبی علاقے یہ سب صانع کی قدرت کی دلیل ہیں۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واختلاف الیل والنھار بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد ایک کا آنا اور دوسرے کا جانا ہے اس حیثیت سے کہ معلوم نہیں کہاں جاتے ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : ان کا اوصاف میں مختلف ہونا ہے جیسے نور و ظلمت میں، طول و قصر میں۔ اللیل یہ لیلۃ کی جمع ہے۔ جیسے تمرۃ و تمر، نخلۃ ونخل اور لیلۃ کی جمع لیالی اور لیال بھی آتی ہے دونوں کا معنی ایک ہے۔ یہ جمع کے قیاس سے جدا ہے۔ جسے شبہ و مشابہ، حاجۃ و حوائج، ذکر و مذاکر، گویا قیاسا لیالی کی جمع لیلاۃ ہوتی۔ لیلاۃ کو شعر میں استعمال کیا گیا ہے۔ فرمایا : فی کل یوم وکل لیلاۃ ایک اور شاعر نے کہا : فی کل یوم ما وکل لیلاہ حتی یقول کل راء اذا رأہ یا ویحۃ من جمل ما اشقاہ ابن فارس نے ” المجمل “ میں کہا : کہا جاتا ہے کہ کسی پرندے کو بھی لیلا کہا جاتا ہے اور میں اسے نہیں جانتا۔ النھار کی جمع نھر و انھرۃ۔ احمد بن ثعلب نے کہا : نھر کی جمع نھر ہے اور یہ نھار کی جمع الجمع ہے۔ بعض نے فرمایا : النھار ایسا اسم مفرد ہے جس کی جمع نہیں بنائی جاتی کیونکہ یہ مصدر کے معنی میں ہے۔ جسطرح تیرا قول الضیاء ہے یہ قلیل و کثیر پر واقع ہوتا ہے۔ پہلا اکثر ہے۔ شاعر نے کہا : لولا الثریدان ھلکنا بالضمر ثرید لیل و ثرید بالنھر ابن الفارس نے کہ النھار معروف ہے اور اس کی جمع نھر اور انھار ہے اور کہا جاتا ہے النھار کی جمع نھر بنائی جاتی ہے۔ النھار سے مراد طلوع فجر اور غروب شمس کے درمیان کی روشنی ہے۔ رجل نھر، صاحب نہار کو کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : النھار، حباریٰ (چکور) پرندے کے بچے کو کہتے ہیں۔ نضر بن شمیل نے کہا : نہار کا آغاز سورج کے طلوع سے ہے اور سورج کے طلوع ہونے سے پہلے وقت کو نہار سے شمار نہیں کیا جاتا۔ ثعلب نے کہا : عربوں کے نزدیک اس کا اول سورج کا طلوع ہوتا ہے اور اس نے امیہ بن ابی الصلت کے شعر سے استشہاد کیا ہے۔ والشمس تطلع کل آخر لیلہ حمراء یصبح لونھا یتورد اور عدی بن زید کا شعر ہے : وجاعل الشمس مصرا لاخفاء بہ بین النھار و بین اللیل قد فصلا اور کسائی نے یہ شعر لکھا ہے : اذا طلعت شمس النھار فانھا أمارۃ تسلیمی علیک فسلمی اور زجاج نے ” کتاب الانواء “ میں کہا ہے : دن کا آغاز سورج کے بلند ہونے کے ساتھ ہے۔ ابن انبارئ نے زمانے کی تین اقسام بنائی ہیں : ایک کو اس نے محض رات بنایا ہے اور وہ سورج کے غروب ہونے سے لے کر فجر کے طلوع ہونے تک کا وقت ہے اور دوسری قسم کو محض دن بنایا ہے اور وہ سورج کے طلوع ہونے سے اس کے غروب ہونے تک کا وقت ہے ایک اور قسم دن اور رات کے درمیان مشترک بنائی ہے اور وہ فجر کے طلور ہونے اور سورج کے طلوع ہونے کے درمیان کا وقت ہے یہ رات کی تاریکی کا بقایا ہے اور دن کی روشنی کا آغاز ہے۔ میں کہتا ہوں : صحیح یہ ہے کہ دن فجر کے طلوع ہونے سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک کا وقت ہے، جس طرح کہ ابن فارس نے المجمل میں روایت کیا ہے اور اس پر دلیل صحیح مسلم میں حضرت عدی بن حاتم کی روایت ہے، فرمایا : جب یہ ارشاد حتی یتبین لکم۔۔۔۔ من الفجر (البقرہ : 187) نازل ہوا تو عدی نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! میں اپنے تکیہ کے نیچے دو دھاگے رکھتا ہوں ایک دھاگہ سفید اور ایک دھاگی سیا، ان کے ساتھ دن سے رات کی پہچان کرتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیشک تمہارا تکیہ بڑا چوڑا ہے اس سے مراد رات کی تاریکی اور دن کی سفیدی ہے۔ یہ حدیث تقاضا کرتی ہے کہ دن فجر کے طلوع ہونے سے سورج کے غروب ہونے تک کا وقت ہے۔ قسموں میں فقہ کا مقتضا بھی یہی ہے اور اسی پر احکام مرتب ہوتے ہیں۔ پس جو قسم اٹھائے کہ لا یکلم فلانا نھارا میں فلاں سے پورا دن کلام نہیں کروں گا تو وہ سورج کے طلوع ہونے سے پہلے بھی کلام کرے گا حانث ہوگا، اور پہلے قول کے مطابق حانث نہ ہوگا۔ اور نبی کریم ﷺ کا قول اس میں فیصل اور حکم ہے۔ اور رہا لغت کے ظاہر اور سنت کے اعتبار سے تو روشنی کے وقت کو کہتے ہیں جب دن کا وقت وسیع ہو۔ جیسا کہ شاعر نے کہا : ملکت بھا کفی فانھرت فتقھا یری قائم من دونھا ما وراءھا اور حضرت حذیفہ سے مروی حدیث بھی اسی قول پر دلالت کرتی ہے جس کو نسائی نے نقل فرمایا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ روزوں کی آیات کے ضمن میں آئے گی۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : والفلک التی تجری فی البحر، الفلک سے مراد کشتیاں ہیں۔ مفرد اور جمع کے لئے ایک ہی لفظ استعمال ہوتا ہے اور مزکر اور مونث کے لئے یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لیکن مفرد اور جمع کی حرکات ایک جیسی نہیں ہیں بلکہ ایسی ہیں کہ گویا جمع کی دوسری بنا ہے۔ اور اس پر دلیل تثنیہ کا درمیانی حرف ہے۔ عر ب کہتے ہیں : فلکان، الفلک مفرد مذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فی الفلک المشحون (یاسین) یہاں مذکر استعمال ہوا ہے اور فرمایا : والفلک التی تجری فی البحر۔ یہاں مونث ہے۔ یہ واحد اور جمع دونوں کا احتمال رکھتا ہے اور فرمایا : اذا کنتم فی الفلک وجرین بھم بریح طیبة (یونس :22) اس آیت میں جمع استعمال ہوا ہے گویا جب یہ واحد ہو اور مرکب کے معنی میں ہو تو مذکر ہوتا ہے اور سفینةکے معنی میں ہو تو مونث ہوتا ہے۔ فلک السماء۔ جس پر ستارے گردش کرتے ہیں فلکت الجاریةجت بچی کے پستان گول ہوجائیں۔ اسی سے ہے فلکةالمغزل، چرخہ کا پرتلہ۔ کشتی کو فلک کہا جاتا ہے کیونکہ وہ پانی کے ساتھ آہستہ آہستہ گھومتی ہے۔ آیت میں الفلک کو بطور قدرت کی نشانی پیش کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مسخر کردیا ہے حتیٰ کہ پانی کی سطح پر چلتی ہے اور اتنی بوجھل ہونے کے باوجود پانی کے اوپر ٹھہرتی ہے سب سے پہلے کشتی حضرت نوح (علیہ السلام) نے بنائی جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے اور جبریل امین نے انہیں کہا : پرندے کے سینہ پر بنا تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے اسے بنایا جس طرح جبریل امین نے آپ کو دکھایا جبکہ یہ عالمین میں وراثت ہے، کشتی ایک الٹا پرندہ ہے پانی اس کے نیچے ہے جس طرح ہوا اس کے اوپر ہے۔ یہ ابن عربی کا قول ہے۔ مسلئہ نمبر 4: یہ آیت اور اس کی مثل آیات سمندر پر سوار ہونے کے جواز کی دلیل ہیں خواہ سوار ہوناتجارت کے لئے ہو یا عبادت کے لئے ہو جیسے حج اور جہاد۔ حضرت ابوہریرہ کی حدیث ہے، انہوں نے کہا : ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ ہم سمندر پر سوارہوتے ہیں اور ہمارے پاس تھوڑاسا پانی ہوتا ہے۔ اور حضرت انس بن مالک کی حدیث ام حرام کے واقعہ کے متعلق ہے۔ ان دونوں احادیث کو امام مالک وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ حضرت انس کی حدیث کو ان میں سے ایک جماعت نے روایت کیا ہے اور انہوں نے سحاق بن عبداللہ بن انی طلحہ سے انہوں نے حضرت انس سے روایت کیا ہے۔ اس حدیث کو بشربن عمر نے امام مالک سے انہوں نے اسحاق سے انہوں نے حضرت انس سے انہوں نے حضرت ام حرام سے روایت کیا ہے، انہوں نے اسے مسندام حرام میں شامل کیا ہے نہ کہ حضرت انس کی مسند میں۔ اسی طرح حضرت انس سے بندار محمد بن بشارنے اس کو بیاب کیا ہے اس کو بیان کیا ہے اس میں جہاد کے لئے مردوں اور عورتوں کے لئے سمندر پر سوار ہونے کی واضح دلیل ہے۔ جب جہاد کے لئے سوار ہونا جائز ہے تو فرض حج کے لئے سوار ہونا بدرجہ اولیٰ جائز ہوگا۔ حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عمر بن عبدالعزیز سے سمندر پر سوار ہونے سے منع کرنا مروی ہے جبکہ قرآن وحد یث اس قول کا رد کرتے ہیں۔ اگر اس کا سوار ہونا مکردہ ہوتا یا جائز نہ ہوتا تو نبی کریم ﷺ ان لوگوں کو منع فرمادیتے جنہوں نے کہا تھا : ہم سمندر پر سوار ہوتے ہیں۔ یہ آیت اور اس کی مثل آیات اس غرض سے نص ہیں۔ ان کی طرح ہی رجوع کرنا ہوگا اور اس کی تاویل کی جائے گی جو حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عمر بن عبد العزیز نے کہا ہے وہ احتیاط اور طلب دنیا اور کثرت دنیا کی طلب کے لئے سوار ہونے پر محمول ہوگا، فرائض کی ادائیگی پر محمول نہیں ہوگا۔ اور معنی کی جہت سے اس کے اوپر سوار ہونے کے جواز پر دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سمندر کو زمین کے درمیان رکھا اور باقی مخلوق کو زمین کے کناروں پر رکھا۔ اور منافع کو دونوں جہتوں کے درمیان تقسیم فرمایا اور ان منافع کو حاصل نہیں کیا جاسکتا مگر سمندر عبور کرنے کے بعد۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کا راستہ کشتی کے ذریعے آسان فرمایا۔ یہ ابن عربی کا قول ہے۔ ابو عمر نے کہا : امام مالک عورت کے لئے حج کی خاطر سمندری سفر کو ناپسند کرتے تھے اور جہاد کے لئے زیادۃ مکر وہ ہوگا۔ قرآن وسنت اس قول کو رد کرتے ہیں مگر بعض اہل بصرہ نے کہا : امام مالک نے اس لئے مکروہ فرمایا کیونکہ حجاز میں کشتیاں چھوٹی تھیں، عورتیں اس میں پردہ نہیں کرسکتی تھیں کیونکہ وہ تنگ ہوتی تھیں اور لوگوں کی ان میں بھیڑ ہوتی تھی اور مدینہ سے مکہ کی طرف جانے کا خشکی کا راستہ بھی موجود تھا، اس لئے امام مالک نے اس کو ناپسند فرمایا۔ بڑی کشتیاں جیسے اہل بصرہ کی کشتیاں ہیں ان میں کوئی حرج نہیں اور فرمایا : اصل یہ ہے کہ حج آزاد، بالغ آدمیوں میں سے حج کی استطاعت رکھنے والے پر فرض ہے خواہ وہ عورتیں ہوں یا مرد ہوں، جبکہ راستہ امن والاہو۔ اس میں سمندر یا بری روستہ کی تخصیص نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں : کتاب وسنت اور معنی ان دونوں سفروں کے لئے اس پر سوار ہونے کی اباحت پر دلالت ہے خواہ وہ عبادت ہو یا تجارت ہو پس یہ حجت ہے اور ان میں نمونہ ہے مگر سمندر پر سوار ہونے میں لوگوں کے احوال مختلف ہیں، بہت سے سواروں پر اس پر سوار ہونا آسان ہوتا ہے اور ان کے لئے وشوار نہیں ہوتا، جبکہ بعض دوسروں پر اس کا عبور کرنا دشوار ہوتا ہے اور اس مسئلہ میں کمزور ہوتے ہیں جیسا کہ بعض لوگ جو سمندر پر سوار ہوتے ہیں تو ان پر غشی طاری ہوجاتی ہے اور جو ایسی حالت میں فرائض ادا کرنے پر قادر نہیں ہوتے، پس پہلے لوگوں کے لئے جائز ہے اور دوسرے لوگوں پر احرام ہے اور ممنوع ہے اور اہل علم کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ مسئلہ نمبر 5: سمندر جب طغیانی میں ہو تو کسی کے لئے بھی اس پر سوار ہونا جائز نہیں اور اس زمانہ میں بھی سوار ہونا جائز نہیں جبکہ غالب گمان عدم سلامتی کا ہو۔ ان کے نزدیک ایسے زمانہ میں سوار ہونا جائز ہے جس میں غالب گمان سلامتی کا ہو وہ لوگ جو سلامتی کی حالت میں سمندر پر سوار ہوتے ہیں اور نجات پاتے ہیں ان کو کوئی روکنے والا نہیں اور وہ کو اس میں ہلاک ہوتے ہیں وہ روکے جاتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 6: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بماینفع الناس یعنی تجارت اور دوسرے مقاصد جس کے ساتھ لوگوں کے احوال درست ہوتے ہیں وغیرہ منافع تک ساتھ چلتی ہے۔ سمندر پر سوار ہونے کے ساتھ نفع حاصل کیا جاتا ہے اور جو اس میں سامان اٹھاتا ہے وہ نفع اٹھاتا ہے اور جنہوں نے دین میں طعن کیا ہے انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ تمہاری کتاب میں فرماتا ہے ما فرطنافی الکتب من شیء (انعام :38) پس جو کھانے کی مصلحت کی چیزیں ہیں مثلاً نمک، کالی مرچ وغیرہ میں ان کا ذکر کہاں ہے تو ان کو بماینفع الناس کے ساتھ جواب دیا گیا۔ مسئلہ نمبر 7: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وماانزل اللہ من السماء من ماء یعنی بارشیں جن کے ساتھ عالم کی بڑھوتری ہے، نباتات اور خوراک کا پیدائش ہے اور اس سے کچھ جمع کیا جاتا ہے تاکہ بارشوں کے نہ ہونے کے وقت فائدہ اٹھایا جائے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فاسکنه فی الارض (المومنون :18) مسئلہ نمبر 8: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وبث فیھا من کل دآبة، بث کا معنی تفریق کرنا اور پھیلانا ہے۔ اسی سے کالفراش المبثوث (القارعتہ) ہے دآبة کا لفظ تمام حیوانوں کو جامع ہے۔ بعض نے ان سے پرندوں کو نکالا ہے وہ مردود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ومامن دآبةفی الارض الا علی اللہ رزقھا (ہود :6) پرندہ بعض حالات میں اپنے پیروں پر چلتا ہے۔ اعشی نے کہا : دبیب قطا البطحاء فی کل منھل علقمہ بن عبدہ نے کہا : صواعقھا لطیدھن دبیب مسئلہ نمبر 9: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وتصرید الریح ہواؤں کا چلنا۔ تصریف سے مراد نہیں عقیم اور بار بردار کر کے چلانا ہے اور کچھ کو مدد کرنے والی اور ہلاک کرنے والی بنا کر چلانا ہے، کچھ ٹھنڈی اور کچھ گرم بنا کر چلانا ہے، کچھ کو نرم اور کچھ کو سخت بنا کر چلانا ہے۔ بعض نے فرمایا : تصریف الریح سے مراد وہ ہوا ہے جو ان دونوں ہواؤں کے درمیان پوتی ہے۔ بعض نے فرمایا : تصریف سے مراد ان ہواؤں کا اتنی مقدار میں چلانا ہے جتنی کہ وہ کشتیاں سامان اٹھائے ہوئے ہوتی ہیں، ان کو برداشت کرلیں۔ اسی طرح چھوٹی کشتیوں کے لئے ان کے مطابق ہواؤں کو چلانا ہے اور ان سے ان ہواؤں کو روکنا ہے جو انہیں نقصان دیتی ہیں۔ ان کے بادبانوں کے بڑے اور چھوٹے ہونے کا کوئی اعتبار نہیں اگر ہوا ایک جسم بن کر آتی تو اس کے بادبانوں کو پھاڑ دیتی اور انہیں غرق کردیتی۔ الریح، یہ ریح کی جمع ہے، اس کا یہ نام اس لئے ہے کہ عام طور پر رحمت کو لاتی ہیں۔ ابو داؤد نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے، انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ الریح من روح اللہ تاتی بالرحمۃ وتاتی بالعذاب فاذا رأیتموھا فلا تسبوھا واسالوا اللہ خیرھا واستعیذوا باللہ من شرھا۔ (یعنی ہوا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہے، کبھی یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو لاتی ہے اور کبھی عذاب کو لاتی ہے، جب تم ہوا کو دیکھو تو اسے برامت کہو اور اس کی خیر کا سوال کرو اور اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو) ۔ اسی حدیث کو ابن ماجہ نے اپنی سنن میں اپنی سند سے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہوا کو برامت کہو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہے، کبھی یہ رحمت لاتی ہے اور کبھی عذاب لاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے اس کی خیر کا سوال کرو اور اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے، فرمایا : ہوا کو برامت کہو کیونکہ یہ رحمن کے نفس سے ہے۔ معنی یہ ہے : اس نے ہواؤں میں تفریج، تنفیس اور ترویض رکھی اور اضافت، فعل کے طریق سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایسا بنایا۔ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : نصرت بالصبا وأھلکت عاد بالدبور۔ (صبا کے ساتھ میری مدد کی گئی اور عاد کو دبور کے ساتھ ہلاک کیا گیا) ۔ حدیث میں جو آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے جنگ احزاب میں ہوا کے ذریعے تکلیف کو دور فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فارسلنا علیھم ریحا وجنودا لم تروھا (احزاب :9) (پس ہم نے بھیج دی ان پر آندھی اور ایسی فوجیں جنہیں تم دیکھ نہیں سکتے تھے) کہا جاتا ہے : اللہ تعالیٰ نے فلاں سے دنیا کی مصیبتوں سے ایک مصیبت کو دور فرمایا : صحیح مسلم میں ابوہریرہ کی حدیث ہے کہ جس نے کسی مسلمان سے دنیا کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت کو دور کیا اللہ تعالیٰ قیامت کی مصیبتوں میں اس کی ایک مصیبت کو دور کرے گا۔ شاعر نے کہا : کأن الصبا ریح اذا ما تنسمت علی کبد مھموم تجلت ھمومھا ابن عربی نے کہا : النسیم ہوا کے چلنے کی ابتدا کو کہتے ہیں۔ الریح کی اصل روح ہے اسی وجہ سے جمع قلت ارواح آتی ہے اریاح نہیں کہا جاتا کیونکہ یہ وادی ہے کثرت کی جہت سے اور یا کی مناسبت کی طلب کی وجہ سے ریاح کہا جاتا ہے اور حضرت حفصہ کے مصحف میں وتصریف، رواح ہے۔ مسئلہ نمبر 10: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وتصریف الریح حمزہ اور کسائی نے الریح مفرد پڑھا ہے۔ اسی طرح سورة اعراف، کہف، ابراہیم، النمل، الروم، فاطر، شوری اور جاثیہ میں پڑھا ہے ان کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور حمزہ اور کسائی کی ابن کثیر نے سورة اعراف، النمل، الروم، فاطر اور شوریٰ میں موافقت کی ہے اور حمزہ نے الریح لواقح کو مفرد پڑھا ہے۔ ابن کثیر نے ھو الذی ارسل الریح کو سورة الفرقان میں مفرد پڑھا ہے۔ باقی قراء نے تمام جگہوں پر جمع کا صیغہ پڑھا ہے سوائے ان الفاظ کے جو سورة ابراہیم اور شوریٰ میں ہیں۔ ان کو نافع کے سوا کسی نے جمع نہیں پڑھا۔ ان مواقع کے علاوہ میں ساتوں قراء کا کوئی اختلاف نہیں ہے اور جو سورة روم میں ہم نے ذکر کیا ہے وہ دوسرا مقام ہے۔ اللہ الذی یرسل الریح (روم : 48) اور الریاح مبشرات میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ ابو جعفر یزید بن القعقاع نے پورے قرآن میں الریاح کو جمع پڑھا ہے جب اس پر الف لام آیا ہے، سوائے ان مقامات کے تھوی بہ الریح۔ الریح العقیم اور اگر الف، لام اس پر نہ ہو تو مفرد پڑھا ہے۔ اور جنہوں نے الریاح کو مفرد پڑھا ہے ان کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسم جنس ہے، قلیل و کثیر پر دلالت کرتا ہے اور جنہوں نے جمع پڑھا ہے وہ اس اعتبار سے ہے کہ ہوائیں مختلف جہات سے چلتی ہیں اور بعض نے رحمت والی ہواؤں کو جمع پڑھا ہے اور عذاب والی ہوا کو واحد پڑھا ہے۔ انہوں نے اس میں قرآن کے اغلب قول کا اعتبار کیا ہے جیسے الریاح مبشرات۔ الریح العقیم۔ قرآن میں رحمت کے ساتھ جمع اور عذاب کے ساتھ مفرد کا ذکر ہے سوائے سورة یونس کے ان الفاظ کے۔ رجرین بھم بریح طیبۃ۔ روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کا معمول تھا کہ جب ہوا چلتی تو آپ یہ دعا پڑھتے : اللھم اجعلھا ریاحا وولا تجعلھا ریحا۔ (یا اللہ ! اسے رحمت بنا اور اسے ریح نہ بنا) ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عذاب کی ہوا سخت ہوتی ہے، اس کے اجزاء ملے ہوئے ہوتے ہیں گویا وہ ایک جسم ہے جبکہ رحمت کی ہوا نرم اور جدا جدا ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ان ہواؤں کو الریاح کہا جاتا ہے اور سورة یونس میں الفلک کے ساتھ مفرد آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کشتیوں کو چلانے والی ہوا یہ ایک متصل ہوا ہوتی ہے پھر طیب کے ساتھ اس کو وصف بیان کیا جاتا ہے تو ان کے درمیان اور عذاب کی ریح (ہوا) کے درمیان اشتراک زائل ہوگیا۔ مسئلہ نمبر 11: علماء نے فرمایا : الریح تو ہوا کو حرکت دیتی ہے کبھی وہ سخت ہوتی ہے اور کبھی کمزور ہوتی ہے، جب ہوا کی حرکت قبلہ کے سامنے سے ظاہر ہوتی ہے قبلہ کی سمت جاتی ہے تو اس ہوا کو صبا کہا جاتا ہے۔ جب ہوا کی حرکت قبلہ کے پیچھے سے ظاہر ہوتی ہے اور قبلہ کی سمت جاتی ہے تو اسے دبور کہا جاتا ہے۔ جب ہوا کی حرکت قبلہ کی دائیں طرف سے ظاہر ہوتی ہے اور وہ قبلہ کی بائیں جانب کو چلتی ہے تو اسے ریح الجنوب کہا جاتا ہے۔ جب ہوا کی حرکت قبلہ کی بائیں جانب سے ظاہر ہوتی ہے اور اس کے دائیں طرف کو چلتی ہے تو اسے ریح الشمال کہا جاتا ہے، ان میں سے ہر ہوا کی ایک خاص طبع ہے، اس کی منفعت اس کی طبع کے مطابق ہوتی ہے۔ صبا گرم خشک ہوتی ہے دبور ٹھنڈی تر ہوتی ہے۔ جنوب گرم تر ہوتی ہے اور شمال ٹھنڈی خشک ہوتی ہے۔ ان کی طبع کا اختلاف سال کے موسموں کے طبائع کے اختلاف کی طرح ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمانہ کے لئے چار موسم بنائے۔ ان کا مرجع ہوا کے احوال کی تبدیلی کی طرف ہے۔ موسم ربیع بنایا جو موسموں کا آغاز ہے اسے گرم تر بنایا اور اس میں نمو اور بڑھوتری ہوتی ہے، اس میں بارشیں نازل ہوتی ہیں اور زمین اپنا نکھار نکالتی ہے اور اس کا سبزہ ظاہر ہوتا ہے لوگ درخت لگاتے ہیں اور کھیتی باڑی کرتے ہیں، اس میں حیوان پیدا ہوتے ہیں اور دودھ زیادہ ہوتے ہیں۔ جب موسم ربیع ختم ہوتا ہے تو اس کے پیچھے موسم گرما ہوتا ہے یہ ایک طبع میں موسم ربیع کے مشابہ ہے اور وہ حرارت ہے اور رطوبت میں اس کے مخالف ہے کیونکہ گرمیوں میں ہوا گرم اور خشک ہوتی ہے اس میں پھل پکتے ہیں اور موسم ربیع میں کھیتوں کے دانے خشک ہوتے ہیں۔ جب موسم گرما ختم ہوتا ہے تو موسم خزاں اس کے پیچھے آتا ہے وہ ایک طبع میں موسم گرما کے مشابہ ہوتا ہے اور وہ ہے خشکی اور حرارت میں مختلف ہوتا ہے کیونکہ موسم خزاں میں ہوا ٹھنڈی اور خشک ہوتی ہے۔ اس میں پھلوں کی صلاح اپنی انتہا کو پہنچی ہے اور وہ خشک ہوتے ہیں اور سوکھ جاتے ہیں اور ذخیرہ کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں، پھل اس موسم میں توڑے جاتے ہیں اور انگور کاٹے جاتے ہیں اور تمام درختوں سے فراغت حاصل کی جاتی ہے۔ جب موسم خریف ختم ہوتا ہے تو موسم سرما پیچھے آتا ہے وہ ایک طبع یعنی برودت میں موسم خریف کے موافق ہوتا ہے اور دوسری طبع خشکی میں مخالف ہوتا ہے کیونکہ ہوا سردیوں میں ٹھنڈی اور تر ہوتی ہے۔ پس اس میں بارشیں اور اولے زیادہ ہوتے ہیں۔ زمین آرام پانے والے جسم کی طرح ہوتی ہے اور حرکت نہیں کرتی مگر یہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف موسم ربیع کی حرارت کو لوٹا دے، جب وہ رطوبت کے ساتھ جمع ہوتی ہے تو اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کے اذن سے نمو اور بڑھوتری ہوتی ہے، کبھی کبھی ہوائیں زیادہ چلتی ہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے مگر اصول یہی چار ہیں۔ ہر ہوا، دو ہواؤں کے درمیان چلتی ہے۔ پس اس کا حکم اس ہوا والا ہوتا ہے جو اس کے مکان کے قریب ہوتی ہے اس ہوا کو النکباء کہا جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر 12: السحاب المسخر بین السمآء والارض، السحاب کو یہ نام اس لئے دیا جاتا ہے کیونکہ ہوا میں یہ چلتا ہے۔ عرب کہتے ہیں : سحبت ذیلی مسحبا، تسخب فلان علی فلان جرأت کرنا۔ السحب کا مطلب زیادہ کھانا، پینا ہے۔ المسخر، مطیع۔ بادل کی تسخیر کا مطلب : اسے ایک مکان سے دوسرے مکان کی طرف چلانا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : بادل کی تسخیر کا مطلب بغیر کسی سہارا کے آسمان اور زمین کے درمیان اس کا ٹھہرنا ہے۔ پہلا معنی اظہر ہے کبھی بادل پانی کے ساتھ اور کبھی عذاب کے ساتھ ہوتا ہے۔ مسلم نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ایک شخص صحرا میں پانی زمین میں تھا۔ اس نے بادل میں ایک آواز سنی کہ فلاں کے باغ کو سیراب کر، پس وہ بادل چلا اور اپنا پانی ایک ٹیلے پر بہایا وہاں ایک نالی تھی، وہ پانی سے بھر گئی، متواتر پانی چلتا رہا وہ شخص اپنے باغ میں اپنی کسی کے ساتھ پانی ادھر ادھر پھیر رہا تھا۔ اس نے کہا : اے اللہ کے بندے ! تیرا کیا نام ہے ؟ اس نے کہا : فلاں۔ اس نے وہ نام بتایا جو اس نے بادل میں سنا تھا۔ اس نے اسے کہا : اے اللہ کے بندے ! تو نے میرا نام کیوں پوچھا ؟ اس نے کہا : میں نے اس بادل میں آواز سنی جس کا یہ پانی ہے۔ وہ کہہ رہا تھا : فلاں کے باغ کو سیراب کر تیرا نام لیا۔ تو اس باغ میں کیا کرتا ہے ؟ اسنے کہا : جب تو نے یہ کیا ہے تو میں اس کی پیداوار کا انتطار کرتا ہوں میں اس کی تہائی صدقہ کرتا ہوں اور تہائی خود اور اپنے عیال کو کھلاتا ہوں اور تہائی پھر اسی زمین میں کاشت کرتا ہوں۔ ایک روایت میں ہے : میں تہائی مساکین، سائلین اور مسافروں کے لئے رکھوں گا۔ قرآن حکیم میں ہے : واللہ الذی۔۔۔۔ بلد میت (فاطر :9) (اللہ تعالیٰ وہ ہے جو بھیجتا ہے ہواؤں کو وہ اٹھا لاتی ہیں بادل کو پھر ہم لے جاتے ہیں بادل کو مردہ شہر کی طرف) اور فرمایا حتی اذا۔۔۔۔ میت (اعراف : 57) (یہاں تک کہ جب وہ اٹھا لاتی ہیں بھاری بادل تو ہم لے جاتے ہیں اسے کسی ویران شہر کی طرف) ۔ ابن ماجہ نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ جب آفاق میں سے کسی افق میں سے بادل کو آتا ہوا دیکھتے تو اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں اگرچہ نماز میں ہی ہوتے حتیٰ کہ آپ اس کی طرف متوجہ ہو کر یہ دعا مانگتے : اے اللہ ! ہم اس شر سے پناہ مانگتے ہیں جس کے ساتھ اس (بادل) کو بھیجا گیا ہے۔ اگر بارش نازل ہوتی تو آپ یہ دعا کرتے : اللھم سیبا نافعا (نفع بخش بارش دے) دو یا تین مرتبہ کہتے اگر اللہ تعالیٰ اس بادل کو ختم کردیتا تو اس پر اللہ تعالیٰ کی حمر کرتے۔ مسلم نے اس حدیث کے ہم معنی حدیث حضرت عائشہ سے نقل کی ہے، فرماتی ہیں : رسول اللہ ﷺ جب ہوا اور بادل والا دن ہوتا تو آپ کے چہرہ سے پریشانی معلوم ہوجاتی آپ آگے پیچھے آتے جاتے۔ جب بارش ہوجاتی تو آپ خوش ہوجاتے اور آپ کی پریشانی دور ہوجاتی۔ حضرت عائشہ نے کہا : میں نے آپ سے پریشانی کی وجہ پوچھی تو آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہیں یہ عذاب نہ ہو جو میری امت پر مسلط کیا گیا ہو۔ اور جب آپ بارش کو دیکھتے تو کہتے : رحمت۔ ایک روایت میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اے عائشہ ! شاید جس طرح قوم عاد نے کہا تھا : فلما راوہ عارضا مستقبل اودیتھم قالوا ھذا عارض ممطرنا (احقاف : 24) یہ احادیث اور آیات پہلے قول کی صحت پر دلیل ہیں اور تسخیر السحاب سے مراد بادل کا زمین و آسمان کے درمیان ثبوت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کیونکہ ثبوت تو عدم انتقال پر دلالت کرتا ہے۔ اگر ثبوت سے مراد اس کا ہوا میں ہونا مراد لیا گیا ہوتا نہ کہ آسمان اور زمین میں تو یہ صحیح تھا کیونکہ بین استعمال ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ مسخرہ محمولہ ہے۔ یہ قدرت کی عظیم نشانی ہے جیسے پرندہ ہوا میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الم یروا الی۔۔۔۔۔ الا اللہ (النحل : 79) (کیا انہوں نے کبھی نہیں دیکھا پرندوں کی طرف کہ وہ مطیع اور فرمانبردار بن کر اڑ رہے ہیں فضاء آسمانی میں کوئی چیز انہیں تھامے ہوئے نہیں بجز اللہ کے) ۔ اور فرمایا : اولم یروا الی۔۔۔۔ الا الرحمن (الملک : 19) (کیا انہوں نے پرندوں کو اپنے اوپر (اڑتے) کبھی نہیں دیکھا پر پھیلاتے ہوئے اور کبھی پر سمیٹ بھی لیتے ہیں نہیں روکے ہوئے انہیں کوئی (فضا میں) بجز رحمن کے) ۔ مسئلہ نمبر 13: کعب الاحبار نے کہا : بادل، بارش کی چھلنی ہے۔ اگر بادل نہ ہوتا تو جب آسمان سے پانی نازل ہوتا تو زمین کے جس حصہ پر گرتا اسے خراب کردیتا۔ یہ کعب نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا۔ خطیب ابوبکر احمد بن علی نے معاذ بن عبد اللہ بن خبیب الجہنی سے کہا : میں نے حضرت ابن عباس کو دیکھا وہ خچر پر گزرے جبکہ میں بنی سلمہ میں تھا۔ ان کے پاس سے کعب کی بیوی کا بیٹا تبیع گزرا۔ اس نے حضرت ابن عباس کو سلام کیا۔ حضرت ابن عباس نے اس سے پوچھا : کیا تو نے کعب احبار سے بادل کے بارے کچھ کہتے سنا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں۔ اس نے کہا : بادل بارش کے لئے چھاننی ہے۔ اگر بادل نہ ہوتا جب آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے تو زمین کے جس حصہ پر گرتا اسے خراب کردیتا۔ انہوں نے کہا : کیا تو نے کعب کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ زمین ایک سال ایک نبات اگاتی ہے اور دوسرے سال دوسری نبات اگاتی ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں، میں نے ان کو یہ کہتے سنا ہے کہ بیج آسمان سے اترتا ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا : میں نے کعب سے سنا ہے۔ مسئلہ نمبر 14: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لایت ایسی ولالات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی قدرت پر دلالت کرتی ہیں اسی وجہ سے ان امور کو والھکم الہ واحد کے بعد ذکر کیا ہے تاکہ ان سے پہلے جو اللہ کی وحدانیت، اس کی رحمت کے ذکر اور اس کی مخلوق پر رأفت، ذکر کی ہے اس کی سچائی پر دلالت کرے۔ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا : اس شخص کے لئے ہلاکت ہے جس نے اس آیت کو پڑھا اور اس میں غور و فکر نہیں کیا۔ اگر کہا جائے کہ اس میں انکار نہیں ہے کہ یہ چیزیں خود بخود پیدا ہوتی ہیں۔ کہا جائے گا : یہ محال ہے اگر یہ خود پیدا ہوئی ہیں تو پھر ان کا دو حالتوں سے خالی ہونا جائز نہیں یا تو یہ موجود ہوں گی یا موجود نہیں ہوں گی۔ اگر یہ بعد میں پیدا ہوئی ہیں پہلے موجود نہیں تھیں تو یہ محال ہے کیونکہ کسی چیز کے عدم سے وجود میں آنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ جی، عالم، قادر اور مرید ذات کی تخلیق سے ہو اور جو پہلے موجود نہ ہو اس کا اس سے وصف صحیح نہیں۔ اگر یہ پہلے موجود تھیں تو پھر ان کا موجود ہونا ان کے پیدا کرنے سے انہیں غنی کر دے گا۔ پس جو کچھ انہوں نے کہا جائز ہو تو خود بخود پیدا ہونا جاری ہوگا۔ اسی طرح چیرنا اور بننا ہے، یہ محال ہے اور جو چیز محال تک پہنچائے وہ محال ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت میں صرف اخبار پر اکتفا نہیں فرمایا حتیٰ کہ اس نے قرآن کی آیات میں غور و فکر کے ساتھ اس کو ملایا۔ اپنے نبی مکرم ﷺ کو فرمایا : قل انظروا ما ذا فی السموت والارض (یونس : 101) (فرمائیے غور سے دیکھو کیا کیا (عجائبات) ہیں آسمانوں اور زمین میں) اور یہ کفار کو خطاب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما تغنی۔۔۔۔ لا یؤمنون۔ (یونس) (اور فائدہ نہیں پہنچاتیں آیتیں اور ڈرانے والے اس قوم کو جو ایمان نہیں لانا چاہتے اور فرمایا۔ اولم ینظروا فی ملکوت السموت والارض (اعراف : 185) (کیا انہوں نے غور سے نہیں دیکھا آسمانوں اور زمین کی وسیع مملکت میں) یعنی ملکوتی آیات میں غور و فکر نہیں کرتے۔ اور فرمایا : وفی انفسکم، افلا تبصرون۔ (الذاریات) (اور تمہارے وجود میں بھی نشانیاں ہیں کیا تمہیں نظر نہیں آتیں) فرمایا کیا انہوں نے تفکر و تدبر کی نظر سے نہیں دیکھا حتیٰ کہ یہ استدلال کرتے کہ یہ چونکہ حوادث و تغیرات کا محل ہیں تو یہ حادث ہیں اور حادث چیز اپنے صانع سے مستغنی نہیں ہوتی اور وہ صانع حکیم، عالم، قدیر، مرید، سمیع، بصیر اور متکلم ہے کیونکہ اگر اس میں یہ صفات نہ ہوں تو انسان اس سے کامل ہوگا، یہ محال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ولقد خلقنا الانسان من سللۃ من طین۔ (المومنون) یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) کو ہم نے پیدا فرمایا پھر ہم نے اس کی نسل اور اولاد بنائی نطفۃ فی قرار مکین تبعثون، انسان جب اس تنبیہ کے ساتھ غور و فکر کرے گا اس عقل کے ساتھ جو اسے عطا کی گئی ہے تو وہ اسے غور و فکر کرنے والا پائے گا اور مختلف احوال پر بھرتا ہوا پائے گا۔ وہ پہلے نطفہ تھا پھر جما ہوا خون تھا پھر گوشت کا لوتھڑا پھر گوشت اور ہڈیاں تھا، تو وہ جان لے گا کہ حالت نقص سے حالت کمال کی طرف خود بخود پھرنے والا نہیں کیونکہ وہ خود اس پر قادر نہیں کہ وہ اس افضل حالت میں پیدا ہو جو اس کی عقل کا کمال ہے اور اس کے اعضاء کامل اور مضبوط ہوں۔ انسان اس پر قدرت نہیں رکھتا کہ وہ اپنے اعضاء میں کسی عضو کا اضافہ کرے۔ پس یہ اس پر دلیل ہے کہ وہ اپنی حالت نقص میں اور اپنے ضعف کے وقت میں کسی فعل سے زیادہ عاجز ہے۔ کبھی اپنے آپ کو جوان دیکھتا ہے، کبھی ادھیڑ عمر میں دیکھتا ہے، کبھی بوڑھا دیکھتا ہے۔ وہ خود بخود حالت شباب اور قوت سے بڑھاپے کی حالت کو نہیں پہنچتا۔ نہ وہ خود اختیار کرتا ہے اور نہ اس کی وسعت میں ہے کہ وہ بڑھاپے کی حالت کو زائل کرکے پھر جوانی کی قوت کو لوٹا لے۔ پس وہ جان لے گا کہ وہ ایسا نہیں ہے جو ان افعال کو خود کرسکے، اس کا کوئی صانع ہے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف نقل کرنے والا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کے احوال بلاناقل و مدبر تبدیل نہ ہوتے۔ بعض حکماء نے کہا : اس عالم کبیر میں جو چیز بھی ہے اس کی عالم صغیر میں ایک مثال ہے اور عالم صغیر سے مراد انسان کا بدن ہے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔ (التین) بیشک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے (عقل و شکل کے اعتبار سے) بہترین اعتدال پر۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وفی انفسکم افلا تبصرون۔ (الذاریات) (اور تمہارے وجود میں بھی نشانیاں ہیں کیا تمہیں نظر نہیں آتیں) انسان کے حواس چمکنے والے ستاروں سے اشرف ہیں، سمع اور بصر مدرکات کے ادراک میں سورج اور چاند کے قائم مقام ہیں اور اس کے اعضاء بوسیدگی کی حالت میں زمین کی جنس سے مٹی ہوجاتے ہیں۔ اس میں پانی کی جنس سے رگیں اور دوسری بدن کی رطوبات ہیں اور ہوا کی جنس سے اس میں روح اور نفس ہے اور آگ کی جنس سے اس میں زرد پتہ ہے اور اس کی رگیں زمین کی نہروں کے قائم مقام ہیں اور اس کا چکران چشموں کی مانند ہے نہریں جن سے مدد حاصل کرتی ہیں اور رگیں جگر سے مدد حاصل کرتی ہیں۔ اس کا مثانہ دریا کے مقائم مقام ہے۔ بدن کے برتن میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اس میں جاتا ہے جس طرح نہریں دریا میں جاتی ہیں اور اس کی ہڈیاں پہاڑوں کی طرح ہیں جو زمین کے کیل ہیں اور اس کے اعضاء درختوں کی طرح ہیں جس طرح ہر درخت کے پتے ہوتے ہیں یا پھل ہوتے ہیں اسی طرح ہر عضو کا فعل یا اثر ہوتا ہے اور بال بدن پر بناتات اور گھاس کی مانند ہیں پھر انسان اپنی زبان سے ہر حیوان کی آواز کو حکایت کرتا ہے اور اپنے اعضاء کے ساتھ ہر حیوان کے کام کو حکایت کرتا ہے۔ یہ عالم صغیر، عالم کبیر کے ساتھ مخلوق ہے صانع واحد کا پیدا کردہ ہے۔ لا الہ الا ھو۔
Top