Al-Qurtubi - Al-Baqara : 155
وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ١ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ : اور ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں بِشَيْءٍ : کچھ مِّنَ : سے الْخَوْفِ : خوف وَالْجُوْعِ : اور بھوک وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے الْاَمْوَالِ : مال (جمع) وَالْاَنْفُسِ : اور جان (جمع) وَالثَّمَرٰتِ : اور پھل (جمع) وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں آپ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میووں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے تو صبر کرنے والوں کو (خدا کی خوشنودی کی) بشارت سنادو
آیت نمبر 155 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولنبلونکم یہ واو مفتوحہ ہے۔ سیبویہ کے نزدیک کیونکہ التقائے ساکنین پایا گیا ہے۔ دوسرے علماء نے کہا : جب واو نون ثقیلہ کے ساتھ ملائی گئی تو فعل مبنی ہوگیا۔ پس یہ خمسۃ عشر کے قائم مقام ہوگیا۔ بلاء کبھی اچھی ہوتی ہے کبھی بری۔ اس کا اصل معنی محبت ہے۔ یہ پہلے گزر چکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم تمہیں آزمائیں گے تاکہ ہم مجاہد اور صابر کو آنکھوں سے دیکھنے والے کے علم کی طرف علم حاصل کرلیں تاکہ اس پر جزا واقع ہو جیسا کہ گزر چکا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کے ساتھ آزمائے گئے تاکہ بعد والوں کے لئے نشانی بن جائیں اور وہ جان لیں کہ انہوں نے اس پر صبر کیا جب ان کے لئے حق واضح ہوگیا۔ بعض علماء نے فرمایا : انہیں اس سے آگاہ کیا تاکہ انہیں یقین ہوجائے کہ انہیں مصائب سے دو چار ہونا پڑے گا۔ پس اس پر وہ اپنے نفسوں کو تسکین دیں اور جزع و فزع سے دور رہیں۔ اس آیت میں عزم اور نفس کو تسکین دینے میں جلدی ثواب ملنے کا مژدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بشیء یہ لفظا مفرد ہے اور اس کا معنی جمع ہے۔ ضحاک نے باشیاء جمع پڑھا ہے جمہور نے مفرد پڑھا ہے یعنی کچھ خوف سے کچھ بھوک سے۔ پہلے کے ساتھ شے کے ذکر پر اختصار کی وجہ سے اکتفا کیا۔ من الخوف یعنی دشمن کا خوف اور جنگ کی گھبراہٹ۔ یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ امام شافعی نے فرمایا اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا خوف ہے۔ والجوع یعنی قحط سالی کے ساتھ۔ یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ امام شافعی نے فرمایا رمضان کے مہینہ کی بھوک مراد ہے۔ ونقص من الاموال کفار سے جنگ لڑنے کے ساتھ۔ بعض نے فرمایا : مال کے ضیاع کے ساتھ۔ امام شافعی نے فرمایا فرضی زکوٰۃ کے ساتھ۔ الانفس حضرت ابن عباس نے فرمایا : جہاد میں قتل اور موت کے ساتھ ہم جانوں میں کمی کرکے آزمائیں گے۔ امام شافعی نے فرمایا : امراض کے ساتھ الثمرت امام شافعی نے فرمایا اس سے مراد بچوں کی موت ہے۔ انسان کی اولاد اس کے دل کا ثمرہ ہوتی جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس سے مراد نبات کی قلت اور برکات کا انقطاع ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وبشر الصبرین صبر پر ثواب کی بشارت دو ۔ الصبر کا اصل معنی روکنا ہے۔ صبرکا ثواب غیر مقدر ہے۔ یہ پہلے گزر چکا ہے لیکن صبر، پہلے صدمہ کے وقت ہوتا جیسا کہ بخاری نے حضرت انس سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے، فرمایا : صبر پہلے صدمہ کے وقت ہے۔ مسلم نے اس سے مکمل ذکر کی ہے۔ صبر جو نفس پر شاق ہوتا ہے اور اس پر بہت بڑا ثواب ہوتا ہے وہ مصائب کے ہجوم اور ان کی حرارت کے وقت ہے یہ دل کی قوت اور صبر کے مقام پر ثابت قدم رہنے پر دلالت کرتا ہے۔ جب مصیبت کی حرارت ٹھنڈی ہوجاتی ہے تو اس وقت ہر ایک صبر کرتا ہے۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے، عقلمند پر واجب ہے کہ وہ مصیبت کے وقت اس کیفیت کو لازم پکڑے جو احمق کی تین دن کے بعد ہوتی ہے۔ سہل بن عبد اللہ تستری نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا وبشر الصبرین تو صبر زندگی بن گیا۔ صبر کی دو قسمیں ہیں : ایک اللہ تعالیٰ کی معصیت (نافرمانی) سے صبر کرنا، یہ مجاہد ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کرنا، یہ عابد ہے۔ جب آدمی اللہ تعالیٰ کی معصیت سے صبر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے اپنی قضا پر رضا کا وارث بنا دیتا ہے۔ رضا کی علامت، نفس پر مکروہات اور محبوبات وارد ہونے پر دل اپنی جگہ سکون میں رہے۔ خواص نے کہا : صبر، کتاب و سنت کے احکام پر ثابت رہنا ہے۔ رویم نے کہا : شکوہ کا ترک کرنا ہے۔ حضرت ذوالنون مصری نے کہا : صبر، اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا ہے۔ استاذ ابو علی نے کہا : صبر کی تعریف یہ ہے کہ تقدیر پر معترض نہ ہو۔ رہا شکوہ کے بغیر مصیبت کا اظہار، یہ صبر کے منافی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب کے قصہ میں فرمایا : انا وجدنہ صابرا، نعم العبد (ص : 44) (بےشک ہم نے پایا انہیں صبر کرنے والا بڑا خوبیوں والا بندہ) اس کے ساتھ یہ بھی ان کے متعلق خبر دی کہ انہوں نے کہا : مسنی الضر (الانبیاء : 83)
Top