Al-Qurtubi - Al-Israa : 90
وَ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًاۙ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے لَنْ نُّؤْمِنَ : ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے لَكَ : تجھ پر حَتّٰى : یہانتک کہ تَفْجُرَ : تو رواں کردے لَنَا : ہمارے لیے مِنَ الْاَرْضِ : زمین سے يَنْۢبُوْعًا : کوئی چشمہ
اور کہنے لگے کہ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ (عجیب و غریب باتیں نہ دکھاؤ یعنی یا تو) ہمارے لئے زمین میں سے چشمہ جاری کردو۔
آیت نمبر 90 تا 93 قولہ تعالیٰ : وقالوا لن۔۔۔۔ ینبوعا یہ آیت رؤساء قریش کے بارے میں نازل ہوئی مثلا عتبہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو سفیان اور نضر بن حارث، ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ، امیہ بن خلف اور ابو البختری، اور ولید بن مغیرہ وغیرہم۔ اور وہ اس طرح کہ جب وہ قرآن کریم کا معارض لانے سے عاجز آگئے اور وہ اس کے معجزہ ہونے پر بھی راضی نہ ہوئے، تو ابن اسحاق وغیرہ کے باین کے مطابق وہ کعبہ معظمہ کے پاس غروب آفتاب کے بعد اکٹھے ہوئے، پھر ان میں سے بعض نے بعض کو کہا : محمد ﷺ کے پا سچلو اور ان سے گفتگو کرو، مباحثہ کرو یہاں تک کہ تمہیں اس بارے میں الزام سے بری کردیا جائے، پس انہوں نے آپ کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ کی قوم کے اشراف آپ کے لئے جمع ہیں تاکہ وہ آپ کے ساتھ گفتگو کریں لہٰذا آپ ان کے پاس تشریف لائیے، رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے درآنحالیکہ آپ گمان کر رہے تھے کہ جس بارے میں آپ نے ان کے ساتھ گفتگو کی ہے اس بارے میں ان کیلئے کوئی چیز ظاہر ہوگئی ہے، اور رسول اللہ ﷺ حریص تھے آپ ان کی رشد و ہدایت کو پسند کرتے تھے اور ان کی سرکشی اور رعونت آپ پر گراں گزرتی تھی، یہاں تک کہ آپ ان کے پاس بیٹھ گئے تو انہوں نے آپ کو کہا : اے محمد ! ﷺ بلاشبہ ہم نے آپ کی طرف پیغام بھیجا ہے تاکہ ہم آپ سے گفتگو کریں، اور بلاشبہ قسم بخدا ! ہم پورے عرب میں کسی آدمی کو نہیں جانتے جس نے اپنی قوم میں اس طرح مداخلت کی ہو جیسے آپ نے اپنی قوم میں مداخلت کی ہے، تحقیق آپ نے آباء و اجداد کو گالیاں دی ہیں، دین میں عیب اور نقص بیان کیا ہے، انہوں کو برا کہا ہے، جوانوں کو بیوقوف اور احمق قرار دیا ہے اور اجتماعیت کو تقسیم کردیا ہے، نتیجتاً کوئی قبیح امر باقی نہیں مگر وہ ہمارے اور آپ کے درمیان ظاہر ہوا، یا اسی طرح کی کئی باتیں انہوں نے آپ سے کیں، پس اگر آپ نے یہ بات اس لئے کی ہے کہ آپ اس کے بدلے مال چاہتے ہیں تو ہم آپ کے لئے اپنے اموال اکٹھے کرتے ہیں یہاں تک کہ آپ ہم سے زیادہ مالدار ہوجائیں گے، اور اگر آپ اس سے شرف و سرداری کے طالب ہیں تو ہم آپ کو اپنا سردار بنا لیتے ہیں، اور اگر آپ اس سے بادشاہی اور حکومت چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنے اوپر حاکم تسلیم کرتے ہیں، اور اگر یہ آپ سے کسی جن کی اتباع کی وجہ سے ہو رہا ہے جسے آپ دیکھتے ہیں کہ وہ آپ پر غالب ہے تو ہم کثرت سے اپنے اموال آپ کے علاج کے لئے خرث کرتے ہیں تاکہ ہم آپ کو اس سے برأت دلا سکیں یا آپ کو معذور قرار دے سکیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا : ” مجھے اس میں سے کچھ بھی نہیں جو تم کہہ رہے ہو جو کچھ میں تمہارے پاس لے کر آیا ہوں وہ اس لئے نہیں لایا کہ تم سے اموال کا مطالبہ کروں اور اس لئے کہ تم میں سردار بن جاؤں اور نہ اس لئے کہ تم پر حاکم بن جاؤں لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اور اس نے مجھ پر کتاب نازل فرمائی ہے اور اس نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے لئے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا ہوجاؤں، چناچہ میں نے اپنے رب کے پیغام تم تک پہنچا دئیے ہیں اور میں نے تمہیں نصیحت کردی ہے پس اگر تم مجھ سے وہ قبول کرلو جو تمہارے پاس لے کر آیا ہوں تو وہی دنیا اور آخرت میں تمہارے لئے باعث سعادت ہے اور اگر تم اسے مجھ پر لوٹا دو (رد کرو) تو میں اللہ تعالیٰ کے امر کی وجہ سے صبر کروں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرما دے “۔ او کما قال رسول اللہ ﷺ ۔ انہوں نے کہا : اے محمد ! ﷺ جو چیزیں ہم نے آپ کے سامنے پیش کی ہیں اگر آپ ان میں سے کوئی شے بھی قبول نہیں کرتے تو پھر آپ جان لیجئے کہ لوگوں میں سے کوئی نہیں جس کا شہر ہم سے زیادہ تنگ ہو، نہ کوئی ایسا ہے جس کے پاس ہم سے زیادہ پانی کی کمی اور قلت ہو اور نہ کوئی ایسا ہے جو ہم سے زیادہ زندگی کو سخت، تلخ اور تکلیف دہ گزارنے والا ہو، پس آپ اپنے اس رب سے التجا کیجئے جس نے آپ کو اس کے ساتھ بھیجا جس کے ساتھ آپ کو معبوث فرمایا کہ وہ ہم سے ان پہاڑوں کو دور ہٹا لے جنہوں نے ہم پر ماحول تنگ کر رکھا ہے، اور چاہئے کہ وہ ہمارے شہر کو کھول دے، وسیع کر دے اور ان میں ہمارے لئے شام کی نہروں کی طرح نہریں جاری کر دے، اور ہمارے وہ آباء جو گزر چکے ہیں انہیں ہمارے لئے زندہ کر دے، اور چاہئے کہ وہ ہمارے لئے قصی بن کلان کو زندہ کر دے، کیونکہ وہ سچے شیخ تھے اور ہم ان سے اس کے بارے پوچھیں گے جو آپ کہتے ہیں : کیا وہ حق ہے یا باطل ہے ؟ اور اگر انہوں نے آپ کی تصدیق کردی اور آپ نے وہ کیا جو ہم نے آپ سے کہا ہے تو ہم آپ کی تصدیق کریں گے اور ہم اس کے سبب اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ کا مقام و مرتبہ پہچان لیں گے، اور یہ کہ اس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے جیسے آپ کہتے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا : ” میں اس کے ساتھ تمہاری طرف نہیں بھیجا گیا بلاشبہ میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے تمہاری طرف وہ لایا ہوں جس کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اور میں نے تم تک وہ پیغام پہنچا دیا ہے جس کے ساتھ میں تمہاری طرف بھیا گیا ہوں پس اگر تم اسے قبول کرلو تو یہ دنیا اور آخرت میں تمہارے لئے سعادت ہے اور اگر تم اسے مجھ پر لوٹا دو (یعنی رد کر دو ) تو میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے صبر کروں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرما دے “۔ انہوں نے کہا : اور اگر تم یہ ہمارے لئے نہیں کرتے تو اپنے آپ کو ہی لے لیجئے ! اپنے رب سے التجا کیجئے کہ وہ آپ کے ساتھ ایک فرشتہ بھیجے جو آپ کی اس بارے میں تصدیق کرتا ہو جو آپ کہتے ہیں اور ہمیں آپ سے واپس لوٹا دے، اور یہ سوال کیجئے کہ وہ آپ کے لئے باغات، محلات اور سونے شاندی کے خزانے بنا دے اور وہ ان کے سبب آپ کو اس سے غنی کر دے جو ہم آپ کو دیکھ رہے ہیں کہ آپ چاہتے ہیں ؟ کیونکہ آپ بازاروں میں جاتے ہیں اور اسی طرح معاش، کاروبار تلاش کرتے ہیں جیسے ہم اسے تلاش کرتے ہیں، یہاں تک کہ ہم آپ کے رب کی طرف سے آپ کی فضیلت اور آپ کا مرتبہ جان لیں اگر آپ رسول ہیں جیسا کہ آپ گمان کرتے ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا : ” میں یہ کرنے والا نہیں اور نہ میں وہ ہوں جو اپنے رب سے یہ سوال کرے اور نہ میں تمہاری طرف اس کے ساتھ بھیجا گیا ہوں لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔۔۔ أو کما قال۔۔۔ پس اگر تم مجھ سے وہ قبول کرلو جو میں میں تمہارے پاس لے کر آیا ہوں تو یہ دنیا اور آخرت میں تمہاری سعادت ہے اور اگر تم اسے مجھ پر واپس لوٹا دو تو میں اللہ تعالیٰ کے امر کے لئے صبر کروں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرما دے “۔ انہوں نے کہا : پس وہ ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے جیسا کہ آپ کا گمان ہے کہ آپ کا رب اگر چاہے تو وہ یہ کرسکتا ہے، کیونکہ ہم ہرگز آپ کے ساتھ ایمان نہیں لائیں گے مگر تب کہ آپ ایسا کریں۔ راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے اگر وہ تمہارے ساتھ ایسا کرنا چاہے تو کرلے “۔ انہوں نے کہا : اے محمد ! ﷺ کیا آپ کا رب جانتا نہیں کہ ہم آپ کے پاس بیٹھیں گے اور ہم آپ سے اس بارے سوال کریں گے جو ہم نے آپ سے سوالات کئے ہیں اور ہم آپ سے وہ مطالبہ کریں گے جواب ہم مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ پہلے ہی آپ کی طرف توجہ فرماتا اور آپ کو اس کے بارے آگاہ کردیتا ہے جس کے ساتھ آپ ہمیں لوٹا سکتے ہیں اور وہ آپ کو اس کے بارے خبر دے دیتا جو کچھ وہ اس بارے ہمارے ساتھ کرنے والا ہے جب ہم آپ سے وہ قبول نہ کریں جو آپ ہمارے پاس لائے ہیں ؟ بیشک ہمیں تو یہ خبر پہنچی ہے کہ یمامہ کا ایک آدمی آپ کو یہ سکھلاتا ہے اس کو رحمن کہا جاتا ہے، اور ہم قسم بخذا ! رحمن کے ساتھ کبھی ایمان نہیں لائیں گے، تحقیق ہم آپ کے بارے میں معزور ہیں۔ اے محمد ! ﷺ اور قسم بخدا ! ہم آپ کو اور جو کچھ ہماری طرف سے آپ کو پہنچا ہے اسے نہیں چھوڑیں گے یہاں تک کہ ہم آپ کو ہلاک کردیں گے یا آپ ہمیں ہلاک کردیں گے۔ اور ان میں سے کسی کہنے والے نے کہا : ہم فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ اور بعض نے کہا : ہم آپ کے ساتھ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ آپ اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کے بارے میں کوئی ضامن لے آئیں۔ پس جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہا، تو آپ ان سے اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کے ساتھ عبد اللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمر مخزوم بھی کھڑا ہوگیا، اور یہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا تھا، اور وہ عاتکہ بنت عبد المطلب تھیں، تو اس نے کہا : اے محمد ! ﷺ آپ کی قوم نے آپ پر وہ کچھ پیش کیا جو انہوں نے پیش کیا اور آپ نے اسے ان سے قبول نہ فرمایا۔ پھر انہوں نے آپ سے اپنے بارے میں چند امور کے بارے سوال کیا تاکہ وہ اس کے سبب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ کا مقام و مرتبہ پہچان لیں جیسا کہ تم کہتے ہو اور وہ تمہاری تصدیق کریں اور تمہاری اتباع کریں لیکن تم نے وہ نہیں کیا، پھر انہوں نے تم سے یہ سوال کیا کہ اپنے آپ کے لئے ایسی چیزیں لے لیں جن کے سبب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان پر آپ کی فضیلت اور مرتبہ ظاہر ہوجائے لیکن آپ نے وہ بھی نہیں کیا۔ پھر انہوں نے آپ سے سوال کیا کہ آپ انہیں جس عذاب وغیرہ سے ڈرا رہے ہیں اس میں سے کوئی چیز ان پر فوراً اور جلدی لے آئیں، آپ نے یہ بھی نہیں کیا۔۔۔ یا جس طرح کی باتیں اس نے آپ سے کیں۔۔۔ پس قسم بخدا ! میں آپ کے ساتھ کبھی ایمان نہیں لاؤں گا یہاں تک کہ آپ آسمان کی طرف ایک سیڑھی بنائیں، پھر اس میں چڑھیں اور میں دیکھتا رہوں یہاں تک کہ آپ اس (آسمان) تک پہنچ جائیں پھر آپ وہاں سے اپنے ساتھ تحریری عہد نامہ لائیں اس کے ساتھ چار فرشتے ہوں جو آپ کی شہادت دیں کہ آپ اسی طرح ہیں جیسے آپ کہہ رہے ہیں۔ اور قسم بخدا ! اگر آپ ایسا کرلیں تو میں گمان نہیں کرتا کہ میں آپ کی تصدیق کروں گا۔ پھر وہ رسول اللہ ﷺ سے منہ پھیر کر چلا گیا، اور رسول اللہ ﷺ بھی غمزدہ ہو کر اپنے اہل خانہ کی طرف لوٹ آئے آپ کو اس پر شدید افسوس تھا کہ آپ اسے نہ پاسکے جو آپ اپنی قوم سے اس وقت طمع اور امید رکھتے تھے جس وقت انہوں نے آپ کو بلایا، اور اس وجہ سے کہ آپ نے انہیں اس سے بہت دور ہوتے ہوئے دیکھا ؛ یہ تمام الفاظ ابن اسحاق کے ہیں۔ اور واحدی نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے ذکر کیا ہے : پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : وقالوا لن نؤمن لک۔۔۔۔ ینبوعا، ینبوعا کا معنی چشمہ ہے ؛ یہ حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے۔ اور یہ یفعول کے وزن پر ہے، اور نبع ینیع سے ماخوذ ہے۔ اور ائمہ نے تفجر الانھار کے مشدد ہونے میں کوئی اختلاف نہیں کیا۔ ابو عبید نے کہا ہے : پہلا بھی اسی کی مثل ہے۔ ابو حاتم نے کہا ہے : پہلا اس کی مثل نہیں ہے، کیونکہ پہلے کے بعد ینبوع ہے اور وہ واحد ہے، اور دوسرے کے بعد الأنھار ہے اور یہ جمع ہے ؛ اسی طرح حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے۔ ینبوع کا معنی پانی کا چشمہ ہے، اور اس کی جمع ینابیع ہے۔ اور حضرت قتادہ نے او یکون لک جنۃ پڑھا ہے۔ خللھا یعنی اس کے درمیان۔ او تسقط السمآء یہ قرأت عامہ ہے۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے اویسقط السماء پڑھا ہے یعنی فعل کی نسبت آسمان کی طرف کی ہے۔ کسفا اس کا معنی قطعہ یعنی ٹکڑا ہے، یہ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ سے مروی ہے۔ اور الکسف (سین کے فتحہ کے ساتھ) کسفۃ کی جمع ہے، اور حضرت نافع، ابن عامر، اور عاصم کی قرأت ہے۔ اور باقیوں نے کسفا (سین کے سکون کے ساتھ) پڑھا ہے۔ اخفش نے کہا ہے : جنہوں نے کسفا من السماء پڑھا ہے، انہوں نے اسے واحد بنایا ہے، اور جنہوں نے اسے کسفا پڑھا ہے انہوں نے اسے جمع بنایا ہے۔ مہدوی نے کہا ہے : جنہوں نے سین کو ساکن قرار دیا ہے اس میں یہ بھی جائز ہے کہ وہ کسفۃ کی جمع ہو۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ وہ مصدر ہو، اور کسف الشئ جب تو کسی شی کو ڈھانپ لے سے ماخوذ ہو، تو گویا انہوں نے یہ کہا : تو ایسا ٹکڑا ہم پر گرا جو ہمیں گھیرنے اور ڈھانپنے والا ہو۔ اور جوہری نے کہا ہے : الکسفۃ اس کا معنی ہے کسی شے کا ایک ٹکڑا، کہا جاتا ہے : أعطنی کسفۃ من ثوبک (اپنے کپڑے سے ایک ٹکڑا مجھے دے دو ) اور اس کی جمع کسف اور کسف ہے۔ اور کہا جاتا ہے : الکسف اور الکسفۃ یہ واحد ہیں۔ اوتاتی باللہ والملئکۃ قبیلا یعنی آپ اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کو اس طرح سامنے لے آئیں کہ انہیں دیکھا جاسکے ؛ یہ حضرت قتادہ اور ابن جریج کا قول ہے۔ اور حضرت ضحاک اور ابن عباس ؓ نے کہا ہے کہ قبیلا کا معنی کفیل (ضامن) ہے۔ حضرت مقاتل نے کہا : اس کا معنی شھیدا (گواہ، شاہد) ہے۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : یہ قبیلۃ کی جمع ہے، یعنی آپ ملائکہ کی اصناف درآنحالیکہ وہ قبیلہ قبیلہ ہیں انہیں لے ائیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ضامن ہیں یعنی وہ ہمیں آپ کے اسے لانے کی ضمانت دیں۔ او یکون لک بیت من زخرف یعنی یا آپ کے لئے سونے کا ایک گھر ہوجائے، یہ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ نے کہا ہے۔ اور اس کا اصل معنی زینت ہے اور المزخرف کا معنی مزین (جس کو آراستہ کیا ہے یہاں تک کہ میں نے اسے حضرت ابن مسعود ؓ کی قرأت میں دیکھا بیت من ذھب (سونے کا گھر) یعنی ہم اس فقر کی حالت میں جو ہم دیکھ رہے ہیں آپ کی اتباع اور پیروی نہیں کریں گے۔ اوترقی فی السمآء یا آپ آسمان میں چڑھیں ؛ کہا جاتا ہے : رقیت فی السلم ارقی رقیا ورقیا جب تو سیڑھی پر چڑھے۔ اور ارتقیت بھی اسی کی مثل ہے۔ ولن نؤمن لرقیک یعنی آپ کے چڑھنے کی وجہ سے ہم ایمان نہیں لائیں گے، اور یہ مصدر ہے، جیس مضی یمضی مضیا، اور ھوی یھوی ھویا ہیں اسی طرح رقی یرقی رقیا ہے۔ حتی تنزل علینا کتبا نقرؤہ یعنی یہاں تک کہ آپ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہم میں سے ہر آدمی کی طرف ایک کتاب (تحریر) اتار لائیں جسے ہم پڑھ سکتے ہوں ؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بل یرید کل امری منھم ان یوتی صحفا منشرۃ۔ (المدثر) (بلکہ ان میں سے ہر شخص چاہتا ہے کہ ان کو کھلے صحیفے دئیے جائیں) ۔ قل سبحان ربی اہل مکہ اور شام نے قال سبحان ربی پڑھا ہے یعنی قال کا فاعل حضور نبی مکرم ﷺ ہیں یعنی آپ ﷺ نے اس سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کی کہ وہ کسی شے سے عاجز ہو اور اس سے کہ اس پر کوئی کام پیش کیا جائے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ سارے کا سارا کلام ان کے کفر اور ان کی خواہشات میں افراط کے سبب اظہار تعجب کے لئے ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ سارے کا سارا کلام ان کے کفر اور ان کی خواہشات میں افراط کے سبب اظہار تعجب کے لئے ہے۔ اور باقیوں نے صیغہ امر کی بنا پر قل پڑھا ہے : یعنی آپ انہیں فرما دیں اے محمد ! ﷺ ۔ ھل کنت یعنی میں نہیں ہوں الا بشرا رسولا مگر آدمی (اللہ کا) بھیجا ہوا۔ میں اس کی اتباع کرتا ہوں جو میری طرف میرے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے، اور اللہ تعالیٰ ان چیزوں میں سے جو انسان کی قدرت میں نہیں ہیں جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے، کیا تم نے انسانوں میں سے کسی کے بارے سنا ہے کہ وہ یہ نشانیاں اور آیات لایا ہو ؟ اور بعض ملحدوں نے کہا ہے : یہ ایسا جواب نہیں ہے جس پر قناعت کی جائے۔ اور انہوں نے غلط کہا ہے، کیونکہ آپ نے انہیں جواب یہ دیا ہے اور کہا ہے : بلاشبہ میں ایک آدمی ہوں میں ان میں سے کسی شے پر قدرت نہیں رکھتا جو تم نے مجھ سے مطالبات کئے ہیں، اور نہ میرے لئے یہ ہے کہ میں اپنے رب پر انہیں ڈال دوں (یعنی ان کا اپنے رب سے مطالبہ کروں) ، کیونکہ مجھ سے پہلے انبیاء و رسل (علیہم السلام) اپنی امتوں کے پاس ان تمام میں سے کوئی شے نہیں لائے جو مطالبات اور خواہشات وہ لوگ رکھتے تھے اور میرا طریقہ بھی انہیں کا طریقہ ہے، اور وہ انہیں آیات و علامات پر اقتصار کرتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں ان علامات میں سے عطا فرمائیں جو ان کی نبوت کی صحت پر دلیل تھیں، پس جب وہ (انبیاء علیہم السلام) ان پر حجت قائم کردیں تو پھر ان کی قوم کے لئے ضروری نہیں کہ وہ ان کے سوا اور کی خواہش اور مطالبہ کریں، اور اگر اللہ تعالیٰ پر واجب ہو کہ وہ انہیں ان تمام علامات کے ساتھ بھیجے جن کی وہ خواہش اور مطالبہ کرتے ہیں تو پھر اس پر یہ بھی لازم ہے کہ رسولوں میں سے وہ بھیجے جنہیں وہ اختیار اور پسند کریں گے، اور ہر آدمی کے لئے یہ کہنا لازم ہوجائے گا کہ میں ایمان نہیں لاؤں گا یہاں تک کہ اس کے خلاف نشانی لائی جائے جس کا مطالبہ میرے سوا دوسرے نے کیا ہے۔ اور یہ اس طرف لوٹ جائے گا کہ تدبیر لوگوں کے پاس ہے، (حالانکہ) بلاشبہ تدبیر اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔
Top