Al-Qurtubi - Al-Israa : 80
وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا
وَقُلْ : اور کہیں رَّبِّ : اے میرے رب اَدْخِلْنِيْ : مجھے داخل کر مُدْخَلَ : داخل کرنا صِدْقٍ : سچا وَّاَخْرِجْنِيْ : اور مجھے نکال مُخْرَجَ : نکالنا صِدْقٍ : سچا وَّاجْعَلْ : اور عطا کر لِّيْ : میرے لیے مِنْ لَّدُنْكَ : اپنی طرف سے سُلْطٰنًا : غلبہ نَّصِيْرًا : مدد دینے والا
اور کہو کے اے پروردگار مجھے (مدینے میں) اچھی طرح داخل کیجیو اور (مکے سے) اچھی طرح نکالیو۔ اور اپنے ہاں سے زور و قوت کو میرا مددگار بنائیو۔
آیت نمبر 80 کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے تو مجھے موت عطا فرما سچائی کی موت، اور مجھے قیامت کے دن اٹھا سچائی کے ساتھ، تاکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول سے متصل ہوجائے : عسیٰ ان یبعتک ربک مقامًا محمودًا گویا جب آپ کے ساتھ اس کا وعدہ فرمایا تو آپ کو حکم دیا کہ دعا مانگا کریں تاکہ آپ کے لئے وعدہ پورا کردیا جائے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : تو مجھے ان امور میں داخل فرما دے جن کا حکم دیا گیا ہے اور ان سے مجھے نکال لے جن سے منع کیا گیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو دعا کی تعلیم دی کہ آپ حالت نماز اور دیگر اوقات میں مشرکین کے درمیان سے نکالے جانے اور پر امن جگہ میں پہنچائے جانے کی دعا مانگا کیجئے، پس اللہ تعالیٰ کو مکہ مکرمہ سے نکالا اور آپ کو مدینہ طیبہ پہنچادیا۔ اس معنی کو ترمذی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا : حضور نبی مکرم ﷺ مکہ مکرمہ میں تھے پھر آپ کو ہجرت کا حکم دیا گیا پس یہ آیت نازل ہوئی : وقل رب ادخلنی مدخل صدقٍ اوخرجنی مخرج صدقٍ اوجعل لی من کدنک سلطٰنًا نصیرًا فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے۔ اور ضحاک نے کہا ہے : یہ مکہ مکرمہ سے نکلنا اور فتح کے دن حالت امن میں مکہ مکرمہ میں داخل ہونا ہے۔ ابو سہل نے کہا ہے : جس وقت آپ ﷺ تبوک سے واپسی تشریف لائے تو منافقین نے کہا تھا : لیخرجن الاعزمنھا الاذل (المنافقون :8) (تع نکال دیں گے عزت والے وہاں سے ذلیلوں کو ) ۔ تو اس ارشاد میں مراد عزت کے ساتھ داخل کرنا اور مدد ونصرت کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف نکالنا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے تو مجھے اس امر میں سچائی کے ساتھ داخل فرمادے جس کے ساتھ تو نے عزت و تکریم عطا فرمائی ہے (اور وہ) نبوت ہے، اور مجھے اس سے سچائی کے ساتھ نکال لے جب تو مجھے موت عطا فرمائے) ، اس کا یہ معنی حضرت مجاہد نے بیان کیا ہے۔ اور لمدخل اور المخرج (میم کے ضمہ کے ساتھ) یہ بمعنی ادخال (داخل کرنا) اور اخراج ( نکالنا) ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : انزلنی منزلا مبٰرکًا (المومنون : 29) (اے میرے رب ! اتار مجھے بابرکت منزل پر۔ ) یعنی یہ بمعنی انزال ہے میں اس جگہ میں ایسی شے نہ دیکھوں جو میں ناپسند کرتا ہوں اور یہی قرأت عامہ ہے۔ حسن، ابوالعالیہ، اور نصربن عاصم رحمہم اللہ تعالیٰ نے مدخل اور مخرج دونوں میموں کو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ بمعنی دخول اور خروج ہیں ( یعنی داخل ہونا اور نکلنا) ، پس پہلا رباعی ہے اور یہ ثلاثی ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : مجھے موت کے وقت سچائی کے ساتھ قبر میں داخل فرما اور دوبارہ اٹھائے جانے کے وقت سچائی کے ساتھ وہاں سے نکال۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : تو مجھے سچائی کے ساتھ لے جا جہاں کہیں تو مجھے لے جائے اور سچائی کے ساتھ وہاں سے لے آ، یعنی تو مجھے ان سے نہ بنا جو من وجہ داخل ہوتے ہیں اور من وجہ خارج ہوتے ہیں، کیونکہ دو چہروں والا تیرے نزدیک پسندیدہ نہیں ہوتا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت ہر اس کے بارے میں عام ہے جو امور میں پائے جاتے ہیں اور سفروں اور اعمال میں سے جن کا قصد کیا جاتا ہے، اور موت وحیات میں تقدیر کے جس تصرف کا انتظار کیا جارہا ہے۔ پس یہ ایک دعا ہے، اور اس کا معنی ہے : اے میرے رب ! تمام امور میں میرے داخل ہونے اور ان سے نکلنے کے بارے میری اصلاح فرما۔ اور قول باری تعالیٰ : وجعل لی من لدنک سلطٰنًا نصیرًا شعبی اور عکرمہ نے کہا ہے سلطٰناً نصیرا سے مراد حجۃ ثابتہ ہے۔ اور حسن اس طرف گئے ہیں کہ اس سے مراد عزت، مدد ونصرت اور تمام دینوں پت آپ کے دین کو غالب کرنا ہے۔ فرمایا : پس اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا کہ وہ فارس اور روم وغیرہ کی سلطنتیں ان سے چھین لے گا اور اسے آپ کے حوالے کردے گا۔
Top