Al-Qurtubi - Al-Israa : 79
وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ١ۖۗ عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا
وَمِنَ : اور کچھ حصہ الَّيْلِ : رات فَتَهَجَّدْ : سو بیدار رہیں بِهٖ : اس (قرآن) کے ساتھ نَافِلَةً : نفل (زائد) لَّكَ : تمہارے لیے عَسٰٓي : قریب اَنْ يَّبْعَثَكَ : کہ تمہیں کھڑا کرے رَبُّكَ : تمہارا رب مَقَامًا مَّحْمُوْدًا : مقام محمود
اور بعض حصہ شب میں بیدار ہوا کرو (اور تہجد کی نماز پڑھا کرو یہ شب خیزی) تمہارے لئے (سبب) زیادت (ثواب) ہے اور قریب ہے کہ خدا تم کو مقام محمود میں داخل کرے۔
آیت نمبر 79 اس میں چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ قولہ تعالیٰ : ومن الیل یہ من تبعیض کے لئے ہے۔ اور فتھجد میں فا مضمر کلام پر عطف کے لئے ہے ای قم فتھجد (یعنی اٹھو اور نماز تہجد اد اکرو) بہٖ یعنی تل اورت قرآن کریم کے ساتھ۔ اور التھجد ھجود سے ہے اور یہ اضداد میں سے ہے۔ کہا جاتا ہے : ھجد بمعنی نام (وہ سوگیا) اور ھجد بمعنی سھر (وہ جاگ گیا ( ، تو یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جیسا کہ شاعر نے بھی کہا ہے : ألا زارت و اھل منی ھجود ولیت خیالھا بمنیٰ یعود اور دوسرا کہتا ہے : ألا طرقتنا والرفاق ھجود فباتت بعلات النوال تجود مراد نیام (سونا) ہے۔ اور ھجد اور تھجد دونوں ہم معنی ہیں۔ اور ھجدتہ أی أنمتہ (میں نے اسے سلادیا) ، اور ھجدتہ ای أیقظتہ (میں نے اسے جگادیا) اور لتھجد سے مراد سونے کے بعد جاگنا ہے، اور پھر یہ نماز کا نام ہوگیا ہے، کیونکہ آدمی اس نماز کے لئے نیند سے بیدار ہوتا ہے، پس تھجد کا معنی نیند سے بیدار ہو کر نماز کے لئے کھڑا ہونا ہے۔ اس کا یہ معنی اسود، علقمہ اور عبدالرحمن بن اسودرحمہم اللہ تعالیٰ وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ اور اسماعیل بن اسحاق قاضی نے حضور نبی کریم ﷺ کے صحابی حضرت حجاج بن عمر ؓ کی حدیث بیان کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :” کیا تم میں سے کوئی یہ گمان کرتا ہے کہ جب اس نے ساری قیام کیا تو اس نے تہجد ادا کرلیے ! بلاشبہ تہجد وہ نماز ہے جو نیند کے بعد ہو “۔ پھر فرمایا :” وہ نماز ہے جو نیند کے بعد ہو “۔ پھر فرمایا :” وہ ہے جو سونے کے بعد ہو “۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی نماز ہوتی تھی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الھجود کا معنی النوم (سونا) ہے۔ کہا جاتا ہے : تھجد الرجل جب آدمی نیند سے بیدار ہو، اور القی الھجودوھو النوم وہ اپنی نیند پھینک دے، دور کردے۔ اور وہ آدمی کو نماز کے لئے اٹھا اسے متھجد کا نام دیا جائے گا : کیونکہ متھجد وہ ہوتا ہے جو اپنے آپ سے اپنی نیند کو دور پھینک دیتا ہے۔ اور یہ فعل تحوب (گناہ سے پچنا) ، تحرج (گناہ سے بچنا) تأثم تحنث (گناہ سے نفرت کرنا، اسے چھوڑدینا) تفذر اور تنجس (نجاست اور پلیدی سے پچنا) کے قائم مقام ہے جب آدمی انہیں اپنے آپ سے دور کردے، پھینک دے۔ اور اسی کی مثل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : فظلتم تفکھون۔ (الواقعہ) ۔ اس کا معنی ہے تندمون (کئے پر یشمان ہونا) ، یعنی تم اپنے آپ سے فکاہت پھینک دو گے، دور کردو گے اور اس سے مراد نفوس کا انتہائی فرحت و سرور میں ہونا ہے۔ کہا جاتا ہے : رجل فکہ جب آدمی بہت زیادہ بہت دو گے، دور کردوگے اور اس سے مراد نفوس کا انتہائی فرحت و سرور میں ہونا ہے۔ کہا جاتا ہے : رجل فکہ جب آدمی بہت آدمی بہت زیادہ خوش اور ہنسنے والا ہو۔ اور آیت میں اس کا معنی ہے : ووقنا من الللیل اسھرتہ فی صلاۃ وقرأۃ (اور رات میں کچھ وقت ہو جو اس کو نماز وقرات کے لئے بیدار کرے) ۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ قولہ تعالیٰ : نافلتہ لک یعنی یہ آپ کے لئے اعزاز ہے : یہ مقاتل نے کہا ہے۔ اور علماء نے حضور نبی مکرم ﷺ کی امت کو چھوڑکر خاص طور پر حضور علیہ السلوٰۃ اولسلام کا ذکر کرنے میں اختلاف کیا ہے، پس کہا گیا ہے کہ رات کی نماز آپ ﷺ پر فرض تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : نافلۃ لک یعنی یہ زائد فریضہ ہے اس فریضہ سے جو امت پر لازم کیا گیا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہون : اس تاویل میں دواعتبار سے بعد ہے : ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ فرض کو نفل کا نام دیا گیا ہے، اور یہ مجاز ہے حقیقت نہیں ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے۔۔۔ کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے :” پانچ نمازیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بندوں پر فرض کی ہیں۔ “ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ھن خمس وھن خمسون لایبدل القول لدی ( یہ پانچ ہیں (دراصل) یہ پچاس ہیں میرے نزدیک قول تبدیل نہیں کیا جائے گا) ۔ اور یہ نص ہے، تو پھر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ پر پانچ سے کوئی زائد نماز فرض ہوئی، یہ وہ ہے جو صحیح نہیں ہوسکتا، اگرچہ حضور نبی کریم ﷺ سے مروی ہے :” تین چیزیں ہیں جو مجھ پر فرض ہیں اور میری امت کے لئے نفل امت کے لئے نفل ہیں رات کا قیام، وتر، اور مسواک کرنا “۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ رات کی نماز آپ کے لئے بھی نقل ہے اور ابتدا میں یہ تمام پر واجب تھی، پھر وجوب منسوخ ہوگیا اور رات کا قیام فرض ہونے کے بعد نقل ہوگیا، جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے بیان کیا، اس کا مفصل بیان سورة المزمل میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور اس بنا پر نفل کے بارے امر ندب کے معنی میں ہوگا اور خطاب حضور نبی کریم ﷺ کو ہورہا ہے کیونکہ آپ کی مغفرت فرمادی گئی ہے (یعنی آپ معصوم ہیں) پس آپ وہ نقل ادا کریں گے جو آپ پر واجب نہیں ہیں تو وہ آپ کے لئے ردجات میں اضافہ اور بلندی کا باعث ہوں گے اور آپ کے علاوہ امت کا نفل ادا کرنا فرائض میں واقع ہونے والے خلل کا تدارک اور کفارہ ہوتے ہیں : اس کا یہ معنی حضرت مجاہد وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ عطیہ ہے، کیونکہ کوئی بندہ سعادت میں عبادت کی توفیق سے افضل کوئی عطا نہیں پائے گا۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ قولہ تعالیٰ : عسیٰ ان یبعثک ربک مقامًا محمودًا مقام محمود کے بارے میں چار مختلف قول ہیں۔ (1) اور یہی زیادہ صحیح ہے۔۔۔ کہ یہ قیامت کے دن لوگوں کی شفاعت کا مقام ہے : یہ حضرت حذیفہ بن یمان ؓ نے کہا ہے۔ اور صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا : بیشک لوگ قیامت کے دن گروہ گروہ ہوجائیں گے اور ہر امت اپنے نبی (علیہ السلام) کی اتباع کرے گی اور یہ کہے گی : اے فلاں ! تو شفاعت کر، یہاں تک کہ حضور نبی مکرم ﷺ پر شفاعت انتہا کو پہنچ جائے گی، پس اس دن اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود پر درفراز فرمائے گا۔ اور صحیح مسلم میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ ہمیں حضور نبی رحمت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے بیان فرمایا :” جب قیامت کا دن ہوگا لوگ آپس میں بعض سے اضطراب کا اظہار کریں گے اور پھر وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے : اپنی اولاد کی شفاعت کیجئے، تو آپ فرمائیں گے اور پھر وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے : اپنی اولاد کی شفاعت کیجئے، تو آپ فرمائیں گے : میں یہ نہیں کرسکتا، لیکن تم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ جاؤ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں پھر وہ حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے تو آپ بھی فرمائیں گے : میں نہیں کرسکتا، البتہ تم حضرت موسیٰ علیہ والسلام کے پاس جاؤ، کیونکہ وہ کلیم اللہ ہیں، چناچہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور وہ بھی کہیں گے : نہیں میں شفاعت نہیں کرسکتا، لیکن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس چلے جاؤ کیونکہ وہ روح اللہ اور کلمتہ اللہ ہیں، چناچہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے تو وہ بھی فرمائیں گے : میں اس کے لئے تیار نہیں البتہ تم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے پاس جاؤ چناچہ وہ میرے پاس آئیں گے تو میں کہوں گا : میں اس لئے تیار ہوں “۔ آگے حدیث ذکر کی۔ اور ترمذی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت بیان کی ہے، انہوں نے ییان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے قول باری تعالیٰ : عسیٰ ان یبعتک ربک مقامًا محمودًا کے بارے فرمایا جب اس کے بارے پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :” یہ (مقام) شفاعت ہے “۔ امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ مقام محمود ہی اس شفاعت کا امر ہے جیسے انبیاء (علیہم السلام) ایک دوسرے کے ذمہ لگائیں گے، یہاں تک کہ یہ امر ہمارے نبی مکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تک انتہا کو پہنچ جائے گا۔ پس آپ اہل موقف کی یہ شفاعت کریں گے تاکہ ان کا حساب جلدی میں ہوجائے اور وہ اپنے موقف (ٹھہرنے کا محل، میدان حشر) کے ہول اور خوف سے راحت اور سکون پالیں، اور یہ شفاعت آپ ﷺ کے ساتھ خاص ہے، اور اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا : ” میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور اس پر فخر نہیں “۔ نق اس نے کہا ہے : رسول اللہ ﷺ کے لئے تین شفاعتیں ہیں : شفاعت عامہ، جنت کی طرف سبقت لے جانے کی شفاعت، اور اہل کبائر کی شفاعت۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : مشہور یہ ہے کہ یہ صرف دو شفاعتیں ہیں : شفاعت عامہ، جہنم سے گنہگاروں کو نکالنے کی شفاعت اور یہ دوسری شفاعت وہ ہے جسے انبیاء (علیہم السلام) دور نہیں ہٹائیں گے اور نہ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالیں گے بلکہ وہ شفاعت کریں گے اور علماء بھی شفاعت کریں گے۔ اور قاضی ابو الفضل عیاض (رح) تعالیٰ نے ییان کیا ہے : قیامت کے دن ہمارے نبی مکرم ﷺ کی شفاعتیں پانچ ہیں ! شفاعت عامہ، دوسری بغیر حساب کے قوم کو جنت میں داخل کرنے کے بارے، تیسری آپ کی امت کے موحدین کی ایک جماعت جنہوں نے اپنے گناہوں کے سبب جہنم واجب کرلی ہوگی پس ان کے بارے میں ہمارے نبی مکرم ﷺ شفاعت کریں گے، اور اللہ تعالیٰ جس کے بارے چاہے گا کہ وہ شفاعت کریں اور وہ جنت داخل ہوجائیں گے۔ اور یہی وہ شفاعت ہے جس کا مبتدع خوازج اور معتزلہ نے انکار کیا ہے، اور انہوں نے اس کا انکار اپنے فاسد اصولوں کی بنا پر کیا پر کیا، اور وہ استحاق عقلی پر کسی کو حسین اور قبیح قرار دینے کا دار و مدار ہے اور چوتھی ان گنہگاروں کے بارے میں ہے جو جہنم میں داخل ہوں گے اور انہیں ہمارے نبی مکرم ﷺ اور دیگر انبیاء علیہم السلام، ملائکہ اور ان کے مومن بھائیوں کی شفاعت سے باہر نکالا جائے گا۔ اور پانچویں شفاعت جنت میں اہل جنت کے درجات میں زیادتی اور ان کی بلندی کے بارے ہوگی۔ اور یہ شفاعت ہے جس کا معتزلہ انکار نہیں کرتے اور نہ وہ حشر اول کی شفاعت کا انکار کرتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ حضرت قاضی عیاض (رح) تعالیٰ نے بیان فرمایا : سلف صالحین کا حضور نبی رحمت ﷺ کی شفاعت کی التجا کرنا اور ان کا اس میں رغبت رکھنا خبر مشہور اور مستفیض سے ثابت اور معلوم ہے، لہٰذا اس بنا پر اس کے قول کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا جس نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے میرا یہ دعا کرنا مکروہ ہے کہ وہ تجھے حضور نبی کریم ﷺ کی شفاعت عطا فرمائے، کیونکہ یہ تو فقط گنہگاروں کے لئے ہوگی۔ اس لئے کہ یہ حساب میں تخفیف اور درجات اور مراتب میں زیادتی اور بلندی کے لئے بھی ہوگی جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں۔ پھر ہر عقلمند کوتاہیوں کا اعتراف کرتا ہے اور وہ معافی کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ اپنے عمل کے سبب سرکش اور حدود سے تجاوز کرنے والا نہیں ہوتا اور وہ اس سے ذرتا رہتا ہے کہ کہیں وہ ہلاک ہونے والوں میں سے نہ ہوجائے، اور مذکورہ قول کرنے والے کے قول سے تو یہ لازم آتا ہے کہ وہ مغفرت اور رحمت کی دعا ہی نہ مانگے کیونکہ یہ بھی گناہ کرنے والوں کے لئے ہے۔ اور یہ سب اس کے خلاف ہے جو کچھ سلف وخلف کی دعا سے معلوم ہوا ہے : امام بخاری (رح) نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جس کسی نے اذان سن کر یہ دعا پڑھی اللھم رب ھذہ الدعوۃ التامۃ والصلواۃ القآئمۃ آت محمدان۔۔۔ ﷺ ۔۔۔۔ الوسیلۃ والفضیلۃ وابعثہ مقاما محمودان الذی وعدتہ قیامت کے دن اس کے لئے میری شفاعت حلال ہوگئی “۔ دوسرا قول یہ ہے۔۔۔ کہ مقام محمود سے مراد اللہ تعالیٰ کا آپ ﷺ کو قیامت کے دن لواء الحمد عطا کرنا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس قول اور پہلے قول کے درمیان کوئی منافرت نہیں ہے، کیونکہ لواء الحمد آپ ﷺ کے دست مبارک میں ہوگا اور آپ شفاعت کریں گے۔ ترمذی نے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت بیان کی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میں قیامت کے دن اولاد کا سردار ہوں گا اور یہ میں فخر سے نہیں کہہ رہا اور میرے ہاتھ میں لواء الحمد ہوگا اور اس پر مجھے فخر نہیں اور اس دن آدم (علیہ السلام) اور ان کے سوا کوئی نبی نہ ہوگا مگر وہ میرے جھنڈے کے نیچے ہوگا “۔ الحدیث۔ تیسرا قول یہ ہے۔۔۔ اسے علامہ طبری (رح) نے ایک جماعت سے بیان کیا ہے، اس میں سے حضرت مجاہد بھی ہیں، اس جماعت نے یہ کہا ہے کہ مقام محمود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اپنے ساتھ اپنی کرسی پر بٹھائے گا اور اس بارے میں انہوں نے ایک حدیث بھی روایت کی ہے۔ اور علامہ طبری نے اس کے جواز کو ایک قول کی زیادتی سے تقویت دی ہے۔ اور وہ نہیں نکل سکتا مگر معنی میں حیلہ اور انتہائی نرمی برتنے کے ساتھ، اور اس میں حقیقت سے بہت بعد اور دوری ہے۔ اور اس کے باوجود روایت کا انکار نہیں کیا جاسکتا، اور اس کے معنی میں تاویل ہوگی۔ اور نقاش نے ابوداؤد سجستانی سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے کہا ؛ جس نے اس حدیث کا انکار کیا تو وہ ہمارے نزدیک متہم ہوگا، اہل علم اس کے بارے مسلسل بیان کرتے رہے ہیں، جس نے اس کی تاویل کی بنا کی بنا پر اس کے جواز کا انکار کیا ہے۔ ابوعمر نے کہا ہے : حضرت مجاہد اگرچہ ائمہ میں سے ایک ہیں آپ قرآن کریم کی تاویل کرتے ہیں کیونکہ آپ کے دو قول ہیں جو اہل علم کے نزدیک چھوڑ دیئے گئے ہیں : ان میں سے ایک یہی ہے۔ اور دوسرا اس قول باری تعالیٰ کی تاویل میں ہے : وجوہ یومئذناضرۃ۔ الیٰ ربھا ناظرۃ۔ (القیا مۃ) فرمایا : وہ ثواب کا انتظار کرے گا، یہ نظر (یعنی رب کریم کو دیکھنے) سے نہیں ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : ابن شہاب نے حدیث التنزیل کے باپ میں اے ذکر کیا ہے۔ اور حضرت مجاہد سے بھی اس آیت میں روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو عرش پر بٹھائے گا۔ اور یہ تاویل محال نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام اشیاء اور عرش کو پیدا کرنے سے پہلے اپنی ذات کے ساتھ قائم اور موجود تھا، پھر اس نے بغیر حاجت اشیاء کو تخلیق فرمایا مگر اسے ان کی حاجت اور ضرورت نہ تھی، بلکہ صرف اپنی قدرت اور حکمت کے اظہار کے لئے ایسا کیا، اور اس لئے تاکہ اس کا وجود، اس کی توحید، کمال قدرت اور تمام افعال محکمہ کے بارے اس کا علم معلوم ہوجائے، اور اس نے اپنے لئے عرش تخلیق فرمایا اور اپنی قدرت اور شان کے مطابق اس پر قرار پذیر ہوا بغیر اس کے کہ اللہ کریم نے اس کو مس کیا ہو، یا عرش اس کے مکان بنا ہو، کہا گیا ہے : وہ اب بھی اسی صفت پر ہے جس پر وہ زمان ومکان کو پیدا کرنے سے پہلے تھا، پس اس بناء پر جواز میں یہ قول کرنا برابر ہے کہ حضرت محمد ﷺ کو عرش یا زمین پر بیٹھا یا گیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا عرش پر قرار پذیر ہونا انتقال، زوال، احوال کا تبدیل ہونا مثلاً اٹھنا، بیٹھنا وغیرہ اوعر وہ حالت جو عرش کو مشغول کردے، کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے عرش پر بلاکیف متمکن ہوا جیسا کہ اس نے اپنے بارے میں خبردی ہے، اور اللہ تعالیٰ کا حضرت محمد ﷺ کو عرش پر بٹھانا نہ تو آپ کے لئے صفت ربوبیت کو ثابت کرتا ہے اور نہ آپ کو صفت عبودیت سے نکالنے کا سبب ہے، بلکہ یہ تو آپ کے مقام ومحل کو بلند کرنا اور آپ کو اپنی مخلوق پر شرف وعزت عطا کرنا ہے۔ اور رہا اخبار میں آپ کا قول معہ تو یہ اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات کی طرح ہے : ان الذین عند ربک (الاعراف :126) (بےشک جو مقرب ہیں تیرے رب کے) اور رب ابن عندک بیتا فی الجنۃ (التحریم :11) (اے میرے رب ! بنا دے میرے لئے ایک گھر جنت میں۔ ) اور وان اللہ لمع المحسنین (العنکبوت :69) (اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ (ہر وقت) محسنین کے ساتھ ہے) اور اسی طرح کے دیگر ارشادات۔ یہ تما بلند رتبہ، اور درجہ کی طرف عائد ہیں نہ کہ مکان کی طرف۔ چوتھا قول یہ ہے کہ آپ کا اپنی شفاعت کے ساتھ جہنم سے انہیں نکالنا ہے جو نکلیں گے : یہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے کہا ہے۔ اسے مسلم نے ذکر کیا ہے۔ ہم نے اسے ” کتاب لتذکرہ “ میں ذکر کیا ہے۔ واللہ الموفق۔ مسئلہ نمبر 6 ۔ رات کے قیام کے مقام محمود کا سبب ہونے کے بارے میں علماء کے دو مختلف قول ہیں : ان میں سے ایک یہ ہے۔۔۔۔ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے فعل میں سے جسے چاہے اپنے فضل کا سبب بنا دیتا ہے چاہے تو اس میں وجہ حکمت کی پہچان نہ کرائے، یا وجہ حکمت کی معرفت عطا کردے۔ دوسرا قول یہ ہے۔۔۔ کہ رات کے وقت قیام کرنے میں لوگوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ خلوت اختیار کرنا اور اس کی مناجات کرنا ہے، پس اس نے رات کے قیام میں اپنے ساتھ خلوت نشینی اور اپنی مناجات عطا فرمادی ہے اور یہی مقام محمود ہے اور اس میں مخلوق اپنے درجات کے اعتبار سے ایک دوسرے پر فضیلت پاتی ہے اور مخلوق میں درجہ کے اعتبار سے سب سے اشرف و اعلی حضور نبی رحمت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات گرای ہے، کیونکہ آپ کو وہ کچھ عطا کیا جاتا ہے جو کسی کو عطا نہیں کیا جائے گا اور آپ اس وقت شفاعت کریں گے جب کوئی شفاعت نہیں کرے گا۔ اور عسیٰ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ واجب اور ثابت کے معنی میں ہوتا ہے۔ اور مقامًا ظرف کی بنا پر منصوب ہے، یعنی بمعنی فی مقام اوإکی مقام۔ اور طبری نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” مقام محمود وہی مقام ہے جس میں میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا ؛۔ پس مقام وہ جگہ ہے جس میں انسان امور عظیمہ سر انجام دینے کے لئے کھڑا ہوتا ہے جیسا کہ وہ مقامات جو بادشاہوں کے سامنے ہوتے ہیں۔
Top