Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Israa : 79
وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ١ۖۗ عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا
وَمِنَ
: اور کچھ حصہ
الَّيْلِ
: رات
فَتَهَجَّدْ
: سو بیدار رہیں
بِهٖ
: اس (قرآن) کے ساتھ
نَافِلَةً
: نفل (زائد)
لَّكَ
: تمہارے لیے
عَسٰٓي
: قریب
اَنْ يَّبْعَثَكَ
: کہ تمہیں کھڑا کرے
رَبُّكَ
: تمہارا رب
مَقَامًا مَّحْمُوْدًا
: مقام محمود
اور بعض حصہ شب میں بیدار ہوا کرو (اور تہجد کی نماز پڑھا کرو یہ شب خیزی) تمہارے لئے (سبب) زیادت (ثواب) ہے اور قریب ہے کہ خدا تم کو مقام محمود میں داخل کرے۔
آیت نمبر
79
اس میں چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
۔ قولہ تعالیٰ : ومن الیل یہ من تبعیض کے لئے ہے۔ اور فتھجد میں فا مضمر کلام پر عطف کے لئے ہے ای قم فتھجد (یعنی اٹھو اور نماز تہجد اد اکرو) بہٖ یعنی تل اورت قرآن کریم کے ساتھ۔ اور التھجد ھجود سے ہے اور یہ اضداد میں سے ہے۔ کہا جاتا ہے : ھجد بمعنی نام (وہ سوگیا) اور ھجد بمعنی سھر (وہ جاگ گیا ( ، تو یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جیسا کہ شاعر نے بھی کہا ہے : ألا زارت و اھل منی ھجود ولیت خیالھا بمنیٰ یعود اور دوسرا کہتا ہے : ألا طرقتنا والرفاق ھجود فباتت بعلات النوال تجود مراد نیام (سونا) ہے۔ اور ھجد اور تھجد دونوں ہم معنی ہیں۔ اور ھجدتہ أی أنمتہ (میں نے اسے سلادیا) ، اور ھجدتہ ای أیقظتہ (میں نے اسے جگادیا) اور لتھجد سے مراد سونے کے بعد جاگنا ہے، اور پھر یہ نماز کا نام ہوگیا ہے، کیونکہ آدمی اس نماز کے لئے نیند سے بیدار ہوتا ہے، پس تھجد کا معنی نیند سے بیدار ہو کر نماز کے لئے کھڑا ہونا ہے۔ اس کا یہ معنی اسود، علقمہ اور عبدالرحمن بن اسودرحمہم اللہ تعالیٰ وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ اور اسماعیل بن اسحاق قاضی نے حضور نبی کریم ﷺ کے صحابی حضرت حجاج بن عمر ؓ کی حدیث بیان کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :” کیا تم میں سے کوئی یہ گمان کرتا ہے کہ جب اس نے ساری قیام کیا تو اس نے تہجد ادا کرلیے ! بلاشبہ تہجد وہ نماز ہے جو نیند کے بعد ہو “۔ پھر فرمایا :” وہ نماز ہے جو نیند کے بعد ہو “۔ پھر فرمایا :” وہ ہے جو سونے کے بعد ہو “۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی نماز ہوتی تھی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الھجود کا معنی النوم (سونا) ہے۔ کہا جاتا ہے : تھجد الرجل جب آدمی نیند سے بیدار ہو، اور القی الھجودوھو النوم وہ اپنی نیند پھینک دے، دور کردے۔ اور وہ آدمی کو نماز کے لئے اٹھا اسے متھجد کا نام دیا جائے گا : کیونکہ متھجد وہ ہوتا ہے جو اپنے آپ سے اپنی نیند کو دور پھینک دیتا ہے۔ اور یہ فعل تحوب (گناہ سے پچنا) ، تحرج (گناہ سے بچنا) تأثم تحنث (گناہ سے نفرت کرنا، اسے چھوڑدینا) تفذر اور تنجس (نجاست اور پلیدی سے پچنا) کے قائم مقام ہے جب آدمی انہیں اپنے آپ سے دور کردے، پھینک دے۔ اور اسی کی مثل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : فظلتم تفکھون۔ (الواقعہ) ۔ اس کا معنی ہے تندمون (کئے پر یشمان ہونا) ، یعنی تم اپنے آپ سے فکاہت پھینک دو گے، دور کردو گے اور اس سے مراد نفوس کا انتہائی فرحت و سرور میں ہونا ہے۔ کہا جاتا ہے : رجل فکہ جب آدمی بہت زیادہ بہت دو گے، دور کردوگے اور اس سے مراد نفوس کا انتہائی فرحت و سرور میں ہونا ہے۔ کہا جاتا ہے : رجل فکہ جب آدمی بہت آدمی بہت زیادہ خوش اور ہنسنے والا ہو۔ اور آیت میں اس کا معنی ہے : ووقنا من الللیل اسھرتہ فی صلاۃ وقرأۃ (اور رات میں کچھ وقت ہو جو اس کو نماز وقرات کے لئے بیدار کرے) ۔ مسئلہ نمبر
2
۔ قولہ تعالیٰ : نافلتہ لک یعنی یہ آپ کے لئے اعزاز ہے : یہ مقاتل نے کہا ہے۔ اور علماء نے حضور نبی مکرم ﷺ کی امت کو چھوڑکر خاص طور پر حضور علیہ السلوٰۃ اولسلام کا ذکر کرنے میں اختلاف کیا ہے، پس کہا گیا ہے کہ رات کی نماز آپ ﷺ پر فرض تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : نافلۃ لک یعنی یہ زائد فریضہ ہے اس فریضہ سے جو امت پر لازم کیا گیا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہون : اس تاویل میں دواعتبار سے بعد ہے : ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ فرض کو نفل کا نام دیا گیا ہے، اور یہ مجاز ہے حقیقت نہیں ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے۔۔۔ کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے :” پانچ نمازیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بندوں پر فرض کی ہیں۔ “ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ھن خمس وھن خمسون لایبدل القول لدی ( یہ پانچ ہیں (دراصل) یہ پچاس ہیں میرے نزدیک قول تبدیل نہیں کیا جائے گا) ۔ اور یہ نص ہے، تو پھر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ پر پانچ سے کوئی زائد نماز فرض ہوئی، یہ وہ ہے جو صحیح نہیں ہوسکتا، اگرچہ حضور نبی کریم ﷺ سے مروی ہے :” تین چیزیں ہیں جو مجھ پر فرض ہیں اور میری امت کے لئے نفل امت کے لئے نفل ہیں رات کا قیام، وتر، اور مسواک کرنا “۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ رات کی نماز آپ کے لئے بھی نقل ہے اور ابتدا میں یہ تمام پر واجب تھی، پھر وجوب منسوخ ہوگیا اور رات کا قیام فرض ہونے کے بعد نقل ہوگیا، جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے بیان کیا، اس کا مفصل بیان سورة المزمل میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور اس بنا پر نفل کے بارے امر ندب کے معنی میں ہوگا اور خطاب حضور نبی کریم ﷺ کو ہورہا ہے کیونکہ آپ کی مغفرت فرمادی گئی ہے (یعنی آپ معصوم ہیں) پس آپ وہ نقل ادا کریں گے جو آپ پر واجب نہیں ہیں تو وہ آپ کے لئے ردجات میں اضافہ اور بلندی کا باعث ہوں گے اور آپ کے علاوہ امت کا نفل ادا کرنا فرائض میں واقع ہونے والے خلل کا تدارک اور کفارہ ہوتے ہیں : اس کا یہ معنی حضرت مجاہد وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ عطیہ ہے، کیونکہ کوئی بندہ سعادت میں عبادت کی توفیق سے افضل کوئی عطا نہیں پائے گا۔ مسئلہ نمبر
3
۔ قولہ تعالیٰ : عسیٰ ان یبعثک ربک مقامًا محمودًا مقام محمود کے بارے میں چار مختلف قول ہیں۔ (
1
) اور یہی زیادہ صحیح ہے۔۔۔ کہ یہ قیامت کے دن لوگوں کی شفاعت کا مقام ہے : یہ حضرت حذیفہ بن یمان ؓ نے کہا ہے۔ اور صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا : بیشک لوگ قیامت کے دن گروہ گروہ ہوجائیں گے اور ہر امت اپنے نبی (علیہ السلام) کی اتباع کرے گی اور یہ کہے گی : اے فلاں ! تو شفاعت کر، یہاں تک کہ حضور نبی مکرم ﷺ پر شفاعت انتہا کو پہنچ جائے گی، پس اس دن اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود پر درفراز فرمائے گا۔ اور صحیح مسلم میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ ہمیں حضور نبی رحمت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے بیان فرمایا :” جب قیامت کا دن ہوگا لوگ آپس میں بعض سے اضطراب کا اظہار کریں گے اور پھر وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے : اپنی اولاد کی شفاعت کیجئے، تو آپ فرمائیں گے اور پھر وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے : اپنی اولاد کی شفاعت کیجئے، تو آپ فرمائیں گے : میں یہ نہیں کرسکتا، لیکن تم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ جاؤ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں پھر وہ حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے تو آپ بھی فرمائیں گے : میں نہیں کرسکتا، البتہ تم حضرت موسیٰ علیہ والسلام کے پاس جاؤ، کیونکہ وہ کلیم اللہ ہیں، چناچہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور وہ بھی کہیں گے : نہیں میں شفاعت نہیں کرسکتا، لیکن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس چلے جاؤ کیونکہ وہ روح اللہ اور کلمتہ اللہ ہیں، چناچہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے تو وہ بھی فرمائیں گے : میں اس کے لئے تیار نہیں البتہ تم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے پاس جاؤ چناچہ وہ میرے پاس آئیں گے تو میں کہوں گا : میں اس لئے تیار ہوں “۔ آگے حدیث ذکر کی۔ اور ترمذی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت بیان کی ہے، انہوں نے ییان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے قول باری تعالیٰ : عسیٰ ان یبعتک ربک مقامًا محمودًا کے بارے فرمایا جب اس کے بارے پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :” یہ (مقام) شفاعت ہے “۔ امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ مسئلہ نمبر
4
۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ مقام محمود ہی اس شفاعت کا امر ہے جیسے انبیاء (علیہم السلام) ایک دوسرے کے ذمہ لگائیں گے، یہاں تک کہ یہ امر ہمارے نبی مکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تک انتہا کو پہنچ جائے گا۔ پس آپ اہل موقف کی یہ شفاعت کریں گے تاکہ ان کا حساب جلدی میں ہوجائے اور وہ اپنے موقف (ٹھہرنے کا محل، میدان حشر) کے ہول اور خوف سے راحت اور سکون پالیں، اور یہ شفاعت آپ ﷺ کے ساتھ خاص ہے، اور اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا : ” میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور اس پر فخر نہیں “۔ نق اس نے کہا ہے : رسول اللہ ﷺ کے لئے تین شفاعتیں ہیں : شفاعت عامہ، جنت کی طرف سبقت لے جانے کی شفاعت، اور اہل کبائر کی شفاعت۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : مشہور یہ ہے کہ یہ صرف دو شفاعتیں ہیں : شفاعت عامہ، جہنم سے گنہگاروں کو نکالنے کی شفاعت اور یہ دوسری شفاعت وہ ہے جسے انبیاء (علیہم السلام) دور نہیں ہٹائیں گے اور نہ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالیں گے بلکہ وہ شفاعت کریں گے اور علماء بھی شفاعت کریں گے۔ اور قاضی ابو الفضل عیاض (رح) تعالیٰ نے ییان کیا ہے : قیامت کے دن ہمارے نبی مکرم ﷺ کی شفاعتیں پانچ ہیں ! شفاعت عامہ، دوسری بغیر حساب کے قوم کو جنت میں داخل کرنے کے بارے، تیسری آپ کی امت کے موحدین کی ایک جماعت جنہوں نے اپنے گناہوں کے سبب جہنم واجب کرلی ہوگی پس ان کے بارے میں ہمارے نبی مکرم ﷺ شفاعت کریں گے، اور اللہ تعالیٰ جس کے بارے چاہے گا کہ وہ شفاعت کریں اور وہ جنت داخل ہوجائیں گے۔ اور یہی وہ شفاعت ہے جس کا مبتدع خوازج اور معتزلہ نے انکار کیا ہے، اور انہوں نے اس کا انکار اپنے فاسد اصولوں کی بنا پر کیا پر کیا، اور وہ استحاق عقلی پر کسی کو حسین اور قبیح قرار دینے کا دار و مدار ہے اور چوتھی ان گنہگاروں کے بارے میں ہے جو جہنم میں داخل ہوں گے اور انہیں ہمارے نبی مکرم ﷺ اور دیگر انبیاء علیہم السلام، ملائکہ اور ان کے مومن بھائیوں کی شفاعت سے باہر نکالا جائے گا۔ اور پانچویں شفاعت جنت میں اہل جنت کے درجات میں زیادتی اور ان کی بلندی کے بارے ہوگی۔ اور یہ شفاعت ہے جس کا معتزلہ انکار نہیں کرتے اور نہ وہ حشر اول کی شفاعت کا انکار کرتے ہیں۔ مسئلہ نمبر
5
۔ حضرت قاضی عیاض (رح) تعالیٰ نے بیان فرمایا : سلف صالحین کا حضور نبی رحمت ﷺ کی شفاعت کی التجا کرنا اور ان کا اس میں رغبت رکھنا خبر مشہور اور مستفیض سے ثابت اور معلوم ہے، لہٰذا اس بنا پر اس کے قول کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا جس نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے میرا یہ دعا کرنا مکروہ ہے کہ وہ تجھے حضور نبی کریم ﷺ کی شفاعت عطا فرمائے، کیونکہ یہ تو فقط گنہگاروں کے لئے ہوگی۔ اس لئے کہ یہ حساب میں تخفیف اور درجات اور مراتب میں زیادتی اور بلندی کے لئے بھی ہوگی جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں۔ پھر ہر عقلمند کوتاہیوں کا اعتراف کرتا ہے اور وہ معافی کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ اپنے عمل کے سبب سرکش اور حدود سے تجاوز کرنے والا نہیں ہوتا اور وہ اس سے ذرتا رہتا ہے کہ کہیں وہ ہلاک ہونے والوں میں سے نہ ہوجائے، اور مذکورہ قول کرنے والے کے قول سے تو یہ لازم آتا ہے کہ وہ مغفرت اور رحمت کی دعا ہی نہ مانگے کیونکہ یہ بھی گناہ کرنے والوں کے لئے ہے۔ اور یہ سب اس کے خلاف ہے جو کچھ سلف وخلف کی دعا سے معلوم ہوا ہے : امام بخاری (رح) نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جس کسی نے اذان سن کر یہ دعا پڑھی اللھم رب ھذہ الدعوۃ التامۃ والصلواۃ القآئمۃ آت محمدان۔۔۔ ﷺ ۔۔۔۔ الوسیلۃ والفضیلۃ وابعثہ مقاما محمودان الذی وعدتہ قیامت کے دن اس کے لئے میری شفاعت حلال ہوگئی “۔ دوسرا قول یہ ہے۔۔۔ کہ مقام محمود سے مراد اللہ تعالیٰ کا آپ ﷺ کو قیامت کے دن لواء الحمد عطا کرنا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس قول اور پہلے قول کے درمیان کوئی منافرت نہیں ہے، کیونکہ لواء الحمد آپ ﷺ کے دست مبارک میں ہوگا اور آپ شفاعت کریں گے۔ ترمذی نے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت بیان کی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میں قیامت کے دن اولاد کا سردار ہوں گا اور یہ میں فخر سے نہیں کہہ رہا اور میرے ہاتھ میں لواء الحمد ہوگا اور اس پر مجھے فخر نہیں اور اس دن آدم (علیہ السلام) اور ان کے سوا کوئی نبی نہ ہوگا مگر وہ میرے جھنڈے کے نیچے ہوگا “۔ الحدیث۔ تیسرا قول یہ ہے۔۔۔ اسے علامہ طبری (رح) نے ایک جماعت سے بیان کیا ہے، اس میں سے حضرت مجاہد بھی ہیں، اس جماعت نے یہ کہا ہے کہ مقام محمود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اپنے ساتھ اپنی کرسی پر بٹھائے گا اور اس بارے میں انہوں نے ایک حدیث بھی روایت کی ہے۔ اور علامہ طبری نے اس کے جواز کو ایک قول کی زیادتی سے تقویت دی ہے۔ اور وہ نہیں نکل سکتا مگر معنی میں حیلہ اور انتہائی نرمی برتنے کے ساتھ، اور اس میں حقیقت سے بہت بعد اور دوری ہے۔ اور اس کے باوجود روایت کا انکار نہیں کیا جاسکتا، اور اس کے معنی میں تاویل ہوگی۔ اور نقاش نے ابوداؤد سجستانی سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے کہا ؛ جس نے اس حدیث کا انکار کیا تو وہ ہمارے نزدیک متہم ہوگا، اہل علم اس کے بارے مسلسل بیان کرتے رہے ہیں، جس نے اس کی تاویل کی بنا کی بنا پر اس کے جواز کا انکار کیا ہے۔ ابوعمر نے کہا ہے : حضرت مجاہد اگرچہ ائمہ میں سے ایک ہیں آپ قرآن کریم کی تاویل کرتے ہیں کیونکہ آپ کے دو قول ہیں جو اہل علم کے نزدیک چھوڑ دیئے گئے ہیں : ان میں سے ایک یہی ہے۔ اور دوسرا اس قول باری تعالیٰ کی تاویل میں ہے : وجوہ یومئذناضرۃ۔ الیٰ ربھا ناظرۃ۔ (القیا مۃ) فرمایا : وہ ثواب کا انتظار کرے گا، یہ نظر (یعنی رب کریم کو دیکھنے) سے نہیں ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : ابن شہاب نے حدیث التنزیل کے باپ میں اے ذکر کیا ہے۔ اور حضرت مجاہد سے بھی اس آیت میں روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو عرش پر بٹھائے گا۔ اور یہ تاویل محال نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام اشیاء اور عرش کو پیدا کرنے سے پہلے اپنی ذات کے ساتھ قائم اور موجود تھا، پھر اس نے بغیر حاجت اشیاء کو تخلیق فرمایا مگر اسے ان کی حاجت اور ضرورت نہ تھی، بلکہ صرف اپنی قدرت اور حکمت کے اظہار کے لئے ایسا کیا، اور اس لئے تاکہ اس کا وجود، اس کی توحید، کمال قدرت اور تمام افعال محکمہ کے بارے اس کا علم معلوم ہوجائے، اور اس نے اپنے لئے عرش تخلیق فرمایا اور اپنی قدرت اور شان کے مطابق اس پر قرار پذیر ہوا بغیر اس کے کہ اللہ کریم نے اس کو مس کیا ہو، یا عرش اس کے مکان بنا ہو، کہا گیا ہے : وہ اب بھی اسی صفت پر ہے جس پر وہ زمان ومکان کو پیدا کرنے سے پہلے تھا، پس اس بناء پر جواز میں یہ قول کرنا برابر ہے کہ حضرت محمد ﷺ کو عرش یا زمین پر بیٹھا یا گیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا عرش پر قرار پذیر ہونا انتقال، زوال، احوال کا تبدیل ہونا مثلاً اٹھنا، بیٹھنا وغیرہ اوعر وہ حالت جو عرش کو مشغول کردے، کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے عرش پر بلاکیف متمکن ہوا جیسا کہ اس نے اپنے بارے میں خبردی ہے، اور اللہ تعالیٰ کا حضرت محمد ﷺ کو عرش پر بٹھانا نہ تو آپ کے لئے صفت ربوبیت کو ثابت کرتا ہے اور نہ آپ کو صفت عبودیت سے نکالنے کا سبب ہے، بلکہ یہ تو آپ کے مقام ومحل کو بلند کرنا اور آپ کو اپنی مخلوق پر شرف وعزت عطا کرنا ہے۔ اور رہا اخبار میں آپ کا قول معہ تو یہ اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات کی طرح ہے : ان الذین عند ربک (الاعراف :
126
) (بےشک جو مقرب ہیں تیرے رب کے) اور رب ابن عندک بیتا فی الجنۃ (التحریم :
11
) (اے میرے رب ! بنا دے میرے لئے ایک گھر جنت میں۔ ) اور وان اللہ لمع المحسنین (العنکبوت :
69
) (اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ (ہر وقت) محسنین کے ساتھ ہے) اور اسی طرح کے دیگر ارشادات۔ یہ تما بلند رتبہ، اور درجہ کی طرف عائد ہیں نہ کہ مکان کی طرف۔ چوتھا قول یہ ہے کہ آپ کا اپنی شفاعت کے ساتھ جہنم سے انہیں نکالنا ہے جو نکلیں گے : یہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے کہا ہے۔ اسے مسلم نے ذکر کیا ہے۔ ہم نے اسے ” کتاب لتذکرہ “ میں ذکر کیا ہے۔ واللہ الموفق۔ مسئلہ نمبر
6
۔ رات کے قیام کے مقام محمود کا سبب ہونے کے بارے میں علماء کے دو مختلف قول ہیں : ان میں سے ایک یہ ہے۔۔۔۔ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے فعل میں سے جسے چاہے اپنے فضل کا سبب بنا دیتا ہے چاہے تو اس میں وجہ حکمت کی پہچان نہ کرائے، یا وجہ حکمت کی معرفت عطا کردے۔ دوسرا قول یہ ہے۔۔۔ کہ رات کے وقت قیام کرنے میں لوگوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ خلوت اختیار کرنا اور اس کی مناجات کرنا ہے، پس اس نے رات کے قیام میں اپنے ساتھ خلوت نشینی اور اپنی مناجات عطا فرمادی ہے اور یہی مقام محمود ہے اور اس میں مخلوق اپنے درجات کے اعتبار سے ایک دوسرے پر فضیلت پاتی ہے اور مخلوق میں درجہ کے اعتبار سے سب سے اشرف و اعلی حضور نبی رحمت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات گرای ہے، کیونکہ آپ کو وہ کچھ عطا کیا جاتا ہے جو کسی کو عطا نہیں کیا جائے گا اور آپ اس وقت شفاعت کریں گے جب کوئی شفاعت نہیں کرے گا۔ اور عسیٰ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ واجب اور ثابت کے معنی میں ہوتا ہے۔ اور مقامًا ظرف کی بنا پر منصوب ہے، یعنی بمعنی فی مقام اوإکی مقام۔ اور طبری نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” مقام محمود وہی مقام ہے جس میں میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا ؛۔ پس مقام وہ جگہ ہے جس میں انسان امور عظیمہ سر انجام دینے کے لئے کھڑا ہوتا ہے جیسا کہ وہ مقامات جو بادشاہوں کے سامنے ہوتے ہیں۔
Top