Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Israa : 78
اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّیْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ١ؕ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا
اَقِمِ
: قائم کریں آپ
الصَّلٰوةَ
: نماز
لِدُلُوْكِ
: ڈھلنے سے
الشَّمْسِ
: سورج
اِلٰى
: تک
غَسَقِ
: اندھیرا
الَّيْلِ
: رات
وَ
: اور
قُرْاٰنَ
: قرآن
الْفَجْرِ
: فجر (صبح)
اِنَّ
: بیشک
قُرْاٰنَ الْفَجْرِ
: صبح کا قرآن
كَانَ
: ہے
مَشْهُوْدًا
: حاضر کیا گیا
(اے محمد ﷺ سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک (ظہر، عصر، مغرب، عشاء کی) نمازیں اور صبح کو قرآن پڑھا کرو۔ کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور (ملائکہ) ہے۔
آیت نمبر
78
اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
۔ قولہ تعالیٰ : اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس جب مشرکین کے مکروفریب کو ذکر کر چلے تو ساتھ ہی اپنے نبی ﷺ کو صبر کرنے اور نماز کی محافظت کا حکم ارشاد فرمایا، اور اس میں دشمنوں کے خلاف مدد ونصرت کی طلب موجود ہے۔ اور اسی کی مثل یہ ارشاد بھی ہے ولقد نعلم انک یضیق صدرک بما یقولون۔ فسبح بحمد ربک وکن من السجدین۔ (الحجر) (اور ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کا دل تنگ ہوتا ہے ان باتوں سے جو وہ کیا کرتے تھے سو آپ پاکی بیان کیجئے اپنے رب کی تعریف کے ساتھ اور جایئے سجدہ کرنے والوں سے) اور إقامۃ الصلوٰۃ کے بارے میں بحث سورة البقرہ کے آغاز میں گزر چکی ہے۔ اور باجماع مفسرین یہ آیت فرض نمازوں کی طرف اشارہ ہے۔ علماء نے دلوک کے معنی میں دو مختلف قول بیان کئے ہیں : ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے مراد آسمان کے درمیان سے سورج کا ڈھل جانا، زوال پذیر ہوجانا ہے : یہ حضرت عمر، آپ کے صاحبزادے، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن عباس ؓ اور ان کے سوا علماء تابعین وغیرہ کی ایک جماعت نے کہا ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ دلوک سے مراد سورج کا غروب ہونا ہے : یہ حضرت علی، حضرت ابن مسعود اور حضرت ابی بن کعب ؓ نے کہا ہے، اور حضرت ابن عباس ؓ سے بھی مروی ہے۔ ماوردی نے کہا ہے : جنہوں نے دلوک کو سورج کے غروب ہونے کا نام قرار دیا ہے وہ اس لئے ہے کیونکہ انسان سورج کے غروب ہونے کی حالت میں اس کے بالکل ظاہر اور بین ہونے کی وجہ سے اپنی آنکھوں کو اپنی ہتھیلی کے ساتھ رگڑتا ہے، اور جنہوں نے اسے سورج کے زوال کا نام دیا ہے تو وہ اس لئے کیونکہ وہ سورج کی شدت اور تیزی کی وجہ سے اپنی آنکھوں کو رگڑتا ہے۔ اور ابوعبید نے کہا ہے : سورج کے دلوک کا معنی غروب ہونا ہے۔ اور دلکت براح کا معنی ہے سورج غروب ہوگیا۔ جیسا کہ قطرب نے کہا ہے : ھذا مقام قدمی رباح ذبب حتی ذلکت براح اس میں براح (با کے فتحہ کے ساتھ) حذام، قطام اور رقاش کے وزن پر ہے اور یہ سورج کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اور فراء نے اسے (با کے کسرہ کے ساتھ) پڑھا ہے اور یہ راحۃ کی جمع ہے اور اس کا معنی ہتھیلی ہے، یعنی وہ غائب ہوگئی حالانکہ وہ اس کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس نے اپنی ہتھیلی اپنی بھنوؤں پر رکھ لی۔ اور اسی سے عجاج کا قول بھی ہے : والشمس قد کا دت تکون دنقا أدفعھا بالراح کی تزحلفا ابن الاعرابی نے کہا ہے : الرحلوفۃ سے مراد ملائم گرنے کی جگہ ہے، (یعنی ڈھلوان کی جگہ ) ، کیونکہ وہ اس میں لڑھکتے اور پھسلتے ہیں۔ مزید کہا : الزخلفۃ دحرجۃ کی طرح ہے اور الدفع کی طرح، (یعنی لڑھکنا اور دھکا دینا ) ، کہا جاتا ہے : زحلفتہ فتزحلف (میں نے اسے دھکا دیا پس وہ پھسل گیا، لڑھک گیا۔ ) اور کہا جاتا ہے : دلکت الشمس جب سورج غروب ہوجائے۔ ذوالرمہ نے کہا ہے : مصابیح لیست بالواتی تقودھا نجوم ولا بالآفلات الدوالک ابن عطیہ نے کہا ہے : دلوک کا لغوی معنی مائل ہونا، جھکنا اور ڈھلنا ہے پس دلوک کی ابتدا سورج کا زوال پذیر ہونا ہے اور اس کی انتہا اس کا غروب ہونا ہے۔ اور زوال کے وقت سے لے کر غروب ہونے تک کے وقت کو دلوک کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ ڈھلنے اور جھکنے کی حالت میں ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان نمازوں کا ذکر کیا ہے جو دلوک کی حالت اور اس کے قریب ہوتی ہیں، پس اس میں ظہر، عصر اور مغرب کی نمازیں داخل ہیں، اور یہ بھی صحیح ہے کہ مغرب کی نماز عسق اللیل میں داخل ہو۔ اور ایک قوم اس طرف گئی ہے کہ ظہر کا وقت زوال سے لے کر غروب آفتاب تک پھیلا ہوتا ہے، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کے واجب ہونے کو دلوک پر معلق کیا ہے، اور یہ سارے کا سارا دلوک ہی ہے، اور یہ امام اوزاعی اور امام ابوحنیفہ رحمہا اللہ تعالیٰ نے تفصیل میں کہا ہے۔ اور امام مالک اور امام شافعی رحمہا اللہ تعالیٰ نے حالت ضرورت میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے ، مسئلہ نمبر
2
۔ قولہ تعالیٰ : الیٰ غسق الیل امام مالک (رح) نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ دلوک الشمس سے مراد سورج کا ڈھلنا ہے، اور غسق اللیل سے مراد رات کا جمع ہونا اور اس کا تاریک ہونا ہے۔ اور ابو عبیدہ نے کہا ہے : الغسق سے مراد رات کی سیاہی ہے۔ جیسا کہ ابن قیس رقیات نے کہا ہے : إن ھذا اللیل قد غسقا واشتکیت الھم والأرقا اور یہ بھی کہا گیا ہے : غسق اللیل سے مراد شفق کا غروب ہونا ہے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ اس سے مراد رات کی تاریکی کا آنا ہے۔ جیسا کہ زہیر نے کہا ہے : ظلمت تجود یداھا وھی لاھیۃ حتی إذا جنح الإظلام والغسق کہا جاتا ہے : غسق اللیل غسوقا۔ اور الغسق یہ اسم سین کے فتحہ کے ساتھ ہے۔ اور کلمہ کی اصل السیلان سے ہے۔ (یعنی اس کا معنی بہنا ہے) ، کہا جاتا ہے : غسقت العین جب چشمہ بہہ پڑے، تغسق۔ اور غسق الجرح غسقانًا، یعنی زخم سے زرد پانی بہنے لگا۔ اور اغسق المؤذن یعنی مؤذن نے مغرب کو رات آنے تک مؤخر کردیا۔ اور فراء نے بیان کیا ہے : غسق اللیل وأغسق، ظلم وأظلم، دجاوأدجی، غبس وأغبس، غبش وأغبش (ان تمال میں رات کے آنے اور اس کے تاریک ہونے کا معنی پایا جاتا ہے) ۔ اور ربیع بن خثیم بادل کے دن اپنے مؤذن کو فرماتے ہیں : أغسق أغسق۔ وہ کہتے : مغرب کو مؤخر کرو یہاں تک کہ رات کی تاریکی چھاجائے۔ مسئلہ نمبر
3
۔ علماء نے مغرب کے آخری وقت میں اختلاف کیا ہے، پس کیا گیا ہے : اس کا وقت ایک ہی وقت ہے اور اس کا وقت نہیں ہے مگر اس وقت جب سورج غروب ہوجاتا ہے، اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی امامت میں بالکل بین اور واضح ہے، کیونکہ آپ نے یہ نماز دو دن ایک ہی وقت میں پڑھائی اور وہ غروب آفتاب کا وقت تھا، اور یہی امام مالک (رح) کا ان کے اصحاب کے نزدیک ظاہر مذہب ہے۔ اور یہی امام شافعی (رح) کے دو قولوں میں سے ایک ہے اور آپ سے مشہور بھی ہے، اور اسی طرح ثوری (رح) نے بھی کہا ہے۔ اور امام مالک (رح) نے مؤطا میں کہا ہے : پس جب شفق غائب ہوجائے تو مغرب کا وقت نکل جاتا ہے اور عشاء کا وقت داخل ہوجاتا ہے۔ اور اسی طرح ابوحنیفہ اور آپ کے اصحاب، حسن بن حی، احمد، اسحاق، ابوثور، اور داؤ درحمہم اللہ تعالیٰ نے کہا ہےِ کیونکہ غروب سے لے کر شفقت تک کا وقت سارے کا سارا غسق ہے۔ اور حضرت ابوموسیٰ ؓ کی حدیث میں ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے مغرب کے وقت کے بارے سوال کرنے والے کو دوسرے دن مغرب کی نماز پڑھائی اور اسے موخر کیا یہاں تک کہ وہ شفق غروب ہونے کے قریب تھی : اسے مسلم (رح) نے روایت کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے : یہ حدیث امامت جبرائیل (علیہ السلام) کی اخبار سے اولیٰ ہے، کیونکہ یہ حدیث متاخر ہے کیونکہ یہ واقعہ مدینہ طیبہ میں پیش آیا اور جبرائیل (علیہ السلام) نے امامت مکہ مکرمہ میں کرائی، اور آپ کے فعل اور امر میں سے متاخر اولیٰ ہے، کیونکہ وہ اپنے کے لئے ناسخ ہے۔ اور ابن عربی نے خیال کیا ہے کہ یہی قول امام مالک (رح) کے مذہب سے مشہور ہے۔ اور آپ کا وہ قول جو آپ کی موطا میں ہے آپ نے وہ طویل عمر تک پڑھا یا اور اپنی زندگی میں اسے املاء کروایا۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ وہ احکام جو اسماء سے متعلق ہوتے ہیں کیا وہ ان کے اوائل سے متعلق ہوتے ہیں یا ان کے آخر سے یا پھر حکم ان تمام سے متعلق یہ ہے کہ وہ احکام جو اسماء سے متعلق ہوتے ہیں کیا وہ ان کے اوائل سے متعلق ہوتے ہیں یا ان کے آخر سے یا پھر حکم ان تمام سے متعلق ہوتا ہے ؟ تو نظر وفکر میں اقویی یہی ہے کہ حکم کا تعلق ان کے اوائل سے متعلق ہوتے ہیں یا ان کے آخر سے یا پھر حکم ان تمام سے متعلق ہوتا ہے ؟ تو نظر وفکر میں اقویی یہی ہے کہ حکم کا تعلق ان کے اوائل سے ہوتا ہے تاکہ اس کا ذکر لغونہ ہوجائے پس جب حکم انکے اوائل سے مربوط ہوجائے تو پھر اس کے بعد اس کا تعلق تمام کے ساتھ آخر تک جاری رہے گا میں (مفسر) کہتا ہوں : جس قول میں وسعت ہے وہ راجح ہے۔ تحقیق امام حافظ ابومحمد عبد الغنی بن سعید نے اجلح بن عبداللہ کندی کی حدیث بیان کی ہے، انہوں نے ابو زبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ سے اسے نقل کیا ہے، آپ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ سے سورج غروب ہونے کے قریب نکلے اور آپ نے مغرب کی نماز ادا نہ فرمائی یہاں تک کہ آپ مقام سرف پر آگئے۔ اور وہ نو میل سفر ہے۔ اور رہا نسخ کے بارے قول تو وہ بین اور واضح نہیں ہے اگرچہ تاریخ معلوم ہے، کیونکہ ان روایات میں تطبیق اور انہیں جمع کرنا ممکن ہے۔ ہمارے علماء نے کہا ہے : مغرب کے وقت کے بارے میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی احادیث کو افضلیت پر محمول کیا جائے گا، اسی وجہ سے امت نے سورج غروب ہونے کے وقت اس میں تعجیل کرنے اور اسے فوراً ادا کرنے پت اتفاق کیا ہے۔ ابن خویز منداد نے کہا ہے : ہم مسلمانوں میں سے کسی کو بھی نہیں جانتے جس نے جماعت والی مسجد میں غروب آفتاب سے مغرب کی اقامت کو موخر کیا ہو۔ اور وسعت والی احادیث جواز کے وقت کو ظاہر کرتی ہیں، پس اس طرح تعارض ختم ہوجاتا ہے اور ان کو جمع کرنا صحیح ہوتا ہے، اور بااتفاق اصولیین یہ ترجیح سے اولیٰ ہے کیونکہ اس میں دو دلیلوں میں سے ہر ایک پر عمل کرنا ثابت ہوتا ہے اور ترجیح یا نسخ کے قول میں ایک کو ساقط کرنا لازم آتا ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر
4
۔ قولہ تعالیٰ : وقراٰن الفجر اس میں قراٰن دو وجہوں سے منصوب ہے : ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ الصلوٰۃ پر معطوف ہو، اس کا معنی ہوگا : أقم قرآن الفبر یعنی صبح کی نماز قائم کرنا، یہ فراء نے کہا ہے۔ اور اہل بصرہ نے کہا ہے : یہ اغراء کی بنا پر منصوب ہے، یعنی فعلیک بقرآن الفجر (تجھ ہر صبح کی نماز لازم ہے) : یہ زجاج نے کہا ہے۔ خاص کر اس نماز کو قرآن سے تعبیر کیا گیا ہے دوسری نماز روں کو نہیں، کیونکہ قرآن ان سے عظمت وشان والا ہے، جبکہ صبح کی نماز کی قرأت طویل اور بالجہر ہے جیسا کہ یہ مشہور بھی ہے اور لکھی ہوئی بھی : یہ بھی زجاج سے مروی ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : صبح کی نماز میں قرأت کو طویل کرنے کے مستحب ہونے پر اہل مدینہ کا پختہ عمل ہے اتنی مقدار تک جو پیچھے کھڑے ہونے والوں کے لئے تکلیف دہ نہ ہو۔ وہ اس میں طوال مفصل پڑھتے ہیں، اور ظہر اور جمعہ کی نمازوں کو بھی اس میں اس کے ساتھ ملاتے ہیں۔ اور مغرب کی نماز میں قرأت میں تخفیف کرتے ہیں اور عصر اور عشاء میں متوسط قرأت کرتے ہیں۔ اور عصر کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ اس میں بھی مغرب کی طرض تخفیف کی جائے گی۔ اور جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے جو صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ ان نمازوں میں قرأت طویل کرنا جن میں مختصر قرأت پر استقرار ہے، اور ان نمازوں میں قرآت مختصر کرنا جن میں طریل قرأت کرنے پر عمل ہے، جیسا کہ فجر کی نماز معوذتین پڑھنا۔۔۔ جیسا کہ اسے نسانی نے روایت کیا ہے۔۔۔ اور مغرب کی نماز میں سورة اعراف، مرسلات اور طور کی قرأت کرنا، پس اس پر عمل متروک ہے اور اس وجہ سے بھی کہ آپ ﷺ نے حضرت معاذ ؓ کو قرأت طویل کرنے سے منع کیا تھا جس وقت آپ نے اپنی قوم کو عشاء کی نماز کی امامت کرائی کرائی اور اس میں سورة البقرہ پڑھی، اسے صحیح نے روایت کیا ہے۔ اور اس وجہ سے بھی کہ آپ نے ائمہ کو تخفیف کرنے کا حکم ارشاد فرمایا :” اے لوگو ! بیشک تم میں سے بھگانے والے بھی ہیں پس تم میں سے جو کوئی لوگوں کی امامت کرائے تو اسے چاہئے کہ وہ تخفیف کرے کیونکہ ان میں بچے بھی ہوتے ہیں اور بوڑھے بھی، مریض بھی ہوتے ہیں اور درد والے بیمار بھی، اور ضعیف اور کمزور بھی ہوتے ہیں اور صاحب حاجت بھی “۔ اور فرمایا :” پس جب تم میں سے کوئی اکیلے نماز پڑھے تو وہ جتنی چاہے لمبی اور طویل پڑھے۔ “ یہ سب صحیح حدیث میں لکھا ہوا ہے۔ مسئلہ نمبر
5
۔ قولہ تعالیٰ : وقراٰن الفجر یہ اس پر دلیل ہے کہ کوئی نماز بغیر قرات کے نہیں ہوتی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نماز کو قرآن کا نام دیا ہے۔ علماء نے نماز میں قرأت کے بارے اختلاف کیا ہے پس جمہور کا نظریہ یہ ہے کہ امام کے لئے اور اکیلے نماز پڑھنے والے کے لئے ہر رکعت میں سورة فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔ اور یہی امام مالک (رح) کا مشہور قول ہے۔ اور آپ سے یہ بھی روایت ہے کہ نماز کے بڑے حصے میں اس کی قرأت واجب ہے، اور یہ اسحاق کا قول ہے۔ اور آپ سے یہ بھی ہے کہ ایک رکعت میں اس کی قرات واجب ہے : یہ مغیرہ اور سحنون نے کہا ہے۔ اور یہ اسحاق کا قول ہے۔ اور آپ سے یہ بھی ہے کہ ایک رکعت میں اس کی قرات واجب ہے : یہ مغیرہ اور سحنون نے کہا ہے۔ اور ان سے یہ بھی ہے کہ نماز میں سے کسی شے میں قرأت واجب نہیں ہوتی۔ اور یہ آپ اے انتہائی شاذ روایات میں سے ہے۔ اور امام مالک (رح) سے یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ قرأت نماز میں نماز میں واجب ہے، اور اسی طرف امام اوزاعی (رح) بھی گئے ہیں۔ اور امام اوزاعی (رح) سے بھی اور ایوب سے ایوب سے بھی روایت ہے کہ امام پر، اکیلے نماز پڑھنے والے پر اور مقتدی پر ہر حال میں قرات واجب ہوتی ہے۔ اور یہی امام شافعی (رح) کے دو قولوں میں سے ایک ہے، مکمل بحث سورة قاتحہ میں گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر
6
۔ قولہ تعالیٰ : کان مشھودًا ترمذی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے قول باری تعالیٰ : وقراٰن الفجر ان قراٰن الفجر کان مشھودًا کے بارے میں فرمایا :” اس نماز میں رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے سبھی حاضر ہوتے ہیں “۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور اسے علی بن مسہر نے اعمش سے انہوں نے ابوصالح سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابوسعید ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ اور بخاری نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت بیان کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” جماعت کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز کی افضیلت اکیلے آدمی کی نماز پر پچیس درجے ہے اور صبح کی نماز میں رات کے ملائکہ اور دن کے ملائکہ جمع ہوجاتے ہیں “۔ اسی وجہ سے اس نماز کو جلدی (صبح سویرے) پڑھا جاتا ہے، پس جس نے یہ نماز سویرے نہ پڑھی تو اس کی نماز میں ملائکہ کے دو گروہوں میں سے صرف ایک گروہ حاضر ہوگا۔ اور اس معنی کی بناء پر امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : صبح کی نماز اندھرے میں پڑھا افضل ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ ر حمۃ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے : اندھیرے اور روشنی کو جمع کرنا (یعنی ان کے درمیان پڑھنا) افضل ہے، اور اگر یہ نہ ہوسکے تو پھر روشن کرکے پڑھنا اندھیرے میں پڑھنے سے افضل ہے اور یہ اس کے مخالف ہے جو آپ ﷺ تغلیس پر مداومت اختیار کرتے تھے، اور یہ بھی کہ اس میں رات کے ملائکہ کی حاضری کو بھی فوت کرنا آتا ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر
7
۔ بعض علماء نے آپ ﷺ کے اس قول سے اس پر استدلال کیا ہے : ” اس میں رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں “۔ کہ صبح کی نماز نہ رات کی نماز میں سے ہے اور نہ دن کی نماز میں سے۔ میں (مسفر) کہتا ہوں : اس بنا پر تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عصر کی نماز بھی نہ رات کی نماز میں سے ہو اور نہ دن کی نماز میں سے، کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ سے صحیح روایت میں مروی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ اس کی راوی ہیں : ” تم میں رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں، پس وہ عصر کی نماز میں اور فجر کی نماز میں جمع ہوجاتے ہیں “۔ الحدیث۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ عصر کی نماز دن میں سے ہے پس اسی طرح میں اور فجر کی نماز رات کی نماز میں سے ہوگی اور یہ اس طرح نہیں ہے، بلاشبہ یہ عصر کی نماز کی طرح دن کی نمازوں میں سے ہی ہے اور اس کی دلیل روزہ اور قسم وغیرہ ہے، اور یہ بالکل واضح ہے
Top