Al-Qurtubi - Al-Israa : 103
فَاَرَادَ اَنْ یَّسْتَفِزَّهُمْ مِّنَ الْاَرْضِ فَاَغْرَقْنٰهُ وَ مَنْ مَّعَهٗ جَمِیْعًاۙ
فَاَرَادَ : پس اس نے ارادہ کیا اَنْ : کہ يَّسْتَفِزَّهُمْ : انہیں نکال دے مِّنَ : سے الْاَرْضِ : زمین فَاَغْرَقْنٰهُ : تو ہم نے اسے غرق کردیا وَمَنْ : اور جو مَّعَهٗ : اس کے ساتھ جَمِيْعًا : سب
تو اس نے چاہا کہ ان کو سرزمین (مصر) سے نکال دے تو ہم نے اس کو اور جو اس کے ساتھ تھے سب کو ڈبو دیا۔
آیت نمبر 103 تا 104 قولہ تعالیٰ : فاراد ان یستفزھم من الارض یعنی فرعون نے ارادہ کیا کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کو مصر کی زمین سے نکال دے یا قتل کرکے یا وہاں سے دور نکال کر، تو اللہ تعالیٰ نے اسے ہلاک کردیا۔ وقلنا من بعدہ اور ہم نے حکم دیا اسے غرق کرنے کے بعد۔ لبنی اسراء یل اسکنوا الارض بنی اسرائیل کو کہ تم شام اور مصر کی زمین میں آباد ہوجاؤ۔ فاذا جآء وعد الاخرۃ پس جب قیامت کا وعدہ آئے گا۔ جئنابکم لفیفا تو ہم تمہیں تمہاری قبروں سے لے آئیں گے اس حال میں کہ ہر جگہ سے اکٹھے ہوگے، تحقیق مومن کافر کے ساتھ مل جائے گا اور ایک دوسرے کی پہچان نہیں کرسکیں گے، اور تم میں سے کوئی بھی اپنے قبیلہ اور اپنے محلہ کی طرف مائل نہ ہوگا۔ اور حضرت ابن عباس اور حضرت قتادہ نے کہا ہے : ہم مختلف جہتوں سے تمہیں اکٹھا کرکے لے آئیں گے۔ دونوں معنی ایک ہی ہیں۔ جوہری نے کہا ہے : اللفیف سے مرا دلوگوں کا متفرق قبائل سے اکٹھا اور جمع ہونا ہے ؛ کہا جاتا ہے : جاء القوم بلفھم ولفیفھم، یعنی قوم مل جل کر آئی۔ اور قول باری تعالیٰ : جئنابکم لفیفا یعنی ہم تمہیں اکٹھا کر کے اور ملا جلا کرلے آئیں گے۔ اور طعام لفیف جب کھانا دو یا زیادہ جنسوں سے ملا جلا اور مخلوط ہو۔ اور فلان لفیف فلان یعنی فلاں فلاں کا دوست ہے۔ اصمعی نے کہا ہے : اللفیف جمع ہے اور اس کی واحد نہیں ہے، اور یہ جمیع کی مثل ہے۔ اور اس کا معنی ہے کہ انہیں قبروں سے اٹھاتے وقت منتشر مکڑیوں کی طرح نکالا جائے گا، درآنحالیکہ وہ اس طرح ملے جلے ہوں گے کہ ایک دوسرے کی پہچان نہیں کرسکیں گے۔ اور کلبی (رح) نے کہا ہے : فاذا جآء وعد الاخرۃ یعنی جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان سے اترنے کا وقت آجائے گا۔
Top