Al-Qurtubi - Al-Hijr : 9
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ
اِنَّا : بیشک نَحْنُ : ہم نَزَّلْنَا : ہم نے نازل کیا الذِّكْرَ : یاد دہانی (قرآن) وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَهٗ : اس کے لَحٰفِظُوْنَ : نگہبان
بیشک یہ (کتاب) نصیحت ہم ہی نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔
آیت نمبر 9 قولہ تعالیٰ : انا نحن نزلنا الذکر یعنی ہم نے ہی اس قرآن مجید کو نازل کیا ہے۔ وانا لہ لحفظون اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں اس سے کہ اس میں کوئی اضافہ اور زیادتی کی جائے یا اس سے کوئی کمی کی جائے۔ حضرت قتادہ اور ثابت بنانی (رح) تعالیٰ نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے اس سے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے کہ شیاطین اس میں کسی باطل کا اضافہ کریں یا اس سے کسی حق کی کمی کریں ؛ پس اللہ سبحانہ و تعالیٰ خود اس کا ولی اور محافظ ہے اس لیے یہ ہمیشہ محفوظ رہے گا اور قرآن کریم کے علاوہ دوسری کتب کے بارے فرمایا : بما استحفظوا (المائدہ :44) پس ان کی حفاظت ان کے سپرد کردی تو انہوں نے انہیں بدل دیا اور ان میں تغیر کردیا۔ ہمیں الشیخ الفقیہ الامام ابو القاسم عبد اللہ نے اپنے باپ الشیخ الفقیہ الامام المحدث ابو الحسن علی بن خلف بن معزوز الکومی التلمسانی سے خبر دی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : الشیخۃ العالمہ فخر النساء شہدۃ بنت ابی نصر احمد بن الفرج الدینورمی پر پڑھا گیا اور وہ جمادی الآخر 564 ھ کے آخر میں اپنے گھر دار السلام میں تھیں۔ ان سے کہا گیا : الشیخ الأجل العامل نقیباء أبو الفور اس طراد بن ممد الزینبی نے ان سے پڑھنے کی تمہیں خبر دی اور تم سن رہی تھیں (یہ) 490 ھ کی بات ہے، ہمیں علی بن عبد اللہ بن ابراہیم نے خبر دی (انہوں نے کہا) ہمیں ابو علی عیسیٰ بن محمد بن احمد بن عمر بن عبد الملک بن عبد العزیز بن جریج المعروف بالطوماری نے بیان کیا (انہوں نے کہا) ہمیں حسین بن فہم نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا : میں نے یحییٰ بن أکثم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مامون مجلس نظر و فکر (اور مذاکرہ) میں تھا اور وہی اس وقت امیر اور حاکم تھا۔ تو ان تمام لوگوں میں ایک یہودی آدمی داخل ہوا اس کا لباس حسین تھا، چہرہ خوبصورت تھا اور عمدہ خوشبو لگائے ہوئے تھا، راوی نے بیان کیا اس نے کلام کی اور اس نے اپنی کلام اور عبارت کو خوب آراستہ اور مزین کیا، راوی نے بیان کیا : کہ جب مجلس برخاست ہوئی تو مامون نے اسے بلایا اور اس سے پوچھا : کیا تو اسرائیلی ہے ؟ اس نے کہا : ہاں۔ تو مامون نے اسے کہا : تو اسلام قبول کرلے تاکہ میں تیرے ساتھ معاملات کروں اور حسن سلوک کا برتاؤ کروں، اور اس نے اسے دھمکی بھی دی تو اس نے کہا : میرا دین وہی ہے جو میرے آباؤ اجداد کا دین ہے ! اور واپس چلا گیا۔ راوی نے بیان کیا : پھر جب ایک سال گزرنے کے بعد وہ ہمارے پاس آیا تو وہ مسلمان تھا، اور اس نے فقہ سے متعلق انتہائی خوبصورت اور حسین گفتگو کی، پس جب مجلس برخاست ہوئی تو مامون نے اسے بلایا اور کہا : کیا کل تو ہمارا ساتھی نہ تھا ؟ اس نے جواب دیا : ہاں کیوں نہیں۔ تو مامون نے کہا : پھر تیرے اسلام کا سبب کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا : میں تمہارے پاس سے واپس لوٹ کر گیا تو میں نے پسند کیا کہ میں ان ادیان کو آزماؤں، اور اس کے ساتھ ساتھ تو مجھے خوشنویس دیکھ رہا ہے، چناچہ میں تو رات کا قصد کیا اور اس کے تین نسخے لکھے اور ان میں کثھ کمی بیشی کردی، اور میں انہیں گرجاگھر میں لے گیا اور وہ مجھ سے خرید لئے گئے۔ پھر میں نے انجیل کو لیا اور اس کے تین نسخے لکھے اور اس میں کچھ زیادتی اور کچھ کمی کردی، اور انہیں لے کر یہودیوں کی عبادت گاہ میں گیا اور وہ مجھ سے خرید لی گئی۔ اور پھر میں نے قرآن کریم کا ارادہ کیا اور اس کے تین نسخے لکھے اور ان میں کچھ کمی بیشی کردی، اور انہیں لے کر کاغذ بیچنے والوں کے پاس گیا تو انہوں نے ان کو خوب غور سے دیکھا۔ پس جب انہوں نے ان میں کمی بیشی کو تلاش کرلیا تو انہوں نے انہیں پھینک دیا اور انہیں نہ خریدا ؛ تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہ کتاب محفوظ ہے، پس یہی میرے اسلام لانے کا سبب ہے۔ یحییٰ بن أکثم نے کہا ہے : میں نے اس سال حج کیا اور میں حضرت سفیان بن عینیہ سے ملا اور ان سے اس خبر کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے فرمایا : اس کا مصداق کتاب اللہ میں موجود ہے۔ میں نے پوچھا : کون سی جگہ میں ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : اس میں جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے تورات اور انجیل کے بارے میں فرمایا ہے : بما استحفظوا من کتب اللہ (المائدہ :44) (اس واسطے کہ محافظ ٹھہرائے گئے تھے اللہ کی کتاب کے) پس اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت ان پر ڈال دی تو یہ ضائع ہوگئی، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : انا نحن نزلنا الذکر انا لہ لحفظون پس اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لے لیا تو یہ ضائع نہ ہوا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : وانا لہ لحفظون یعنی ہم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی اس سے حفاظت کرنے والے ہیں کہ وہ ہمارے بارے میں کوئی جھوٹا قول کہیں یا ہم ان پر کوئی جھوٹ ڈال دیں۔ یا وانا لہ لحفظون یعنی ہم ان کی حفاظت کرنے والے ہیں اس سے کہ ان کے ساتھ کوئی دھوکہ کیا جائے یا انہیں قتل کیا جائے۔ اور اس کی نظیر واللہ یعصمک من الناس (المائدہ : 67) ہے (اور اللہ تعالیٰ بچائے گا آپ کو لوگوں (کے شر) سے) ۔ اور نحن میں یہ بھی جائز ہے کہ وہ مبتدا ہونے کے سبب محل رفع میں ہو اور نزلنا اس کی خبر ہو اور پھر مکمل جملہ انا کی خبر ہو۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ نحن، انا کے اہم کی تاکید ہونے کی وجہ سے محل نصب میں ہو اور پھر مکمل جملہ انا کی خبر ہو۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ نحن، انا کے اہم کی تاکید ہونے کی وجہ سے محل نصب میں ہو اور یہ بطور فاصلہ (یا فارقہ) نہ ہو کیونکہ جو اس کے بعد ہے وہ معرفہ نہیں وہ بلاشبہ جملہ ہے، اور جملے نکروں کی صفت ہوتے ہیں لہٰذا یہ نکروں کے حکم میں ہوتے ہیں۔
Top