Al-Qurtubi - Al-Hijr : 75
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِیْنَ
اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ : غور وفکر کرنے والوں کے لیے
بیشک اس (قصے) میں اہل فراست کے لئے نشانی ہے۔
آیت نمبر 75 اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : للمتوسمین ترمذی الحکیم نے ” نوادر الاصول “ میں حضرت ابو سعید خدری ؓ کی حدیث ذکر کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : للمتفرسین (نظر جما کر دیکھنے والوں کے لئے، اہل فراست کے لئے) اور یہی حضرت مجاہد (رح) کا قول ہے۔ اور ابو عیسیٰ ترمذی نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اتقوا فراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنور اللہ (تم مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے) پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی : ان فی ذلک لایت للمتوسمین ترمذی نے کہا : یہ حدیث غریب ہے۔ اور مقاتل اور ابن زید نے کہا ہے : للمتوسمین بمعنی للمتفکرین (غور و فکر کرنے والوں کے لئے) ہے اور ضحاک (رح) نے کہا ہے : یہ للناظرین (گہری نظر و فکر کرنے والے) کے معنی میں ہے۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : أو کلما وردت عکاظ قبیلۃ بعثوا إلی عریفھم یتوسم اور قتادہ نے کہا ہے : یہ بمعنی للمعتبرین (عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے) ہے۔ جیسا کہ زہیر نے کہا ہے : وفیھن ملھی للصدیق ومنظر أنیق لعین الناظر المتوسم اور ابو عبیدہ نے کہا ہے : بمعنی للمتبصرین (بصیرت والے) ہے، مذکورہ تمام معنی باہم قریب قریب ہیں۔ اور حکیم ترمذی نے حضرت ثابت کی حدیث بیان کی ہے انہوں نے اسے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” بیشک اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ہیں جو لوگوں کو علامت اور نشانی سے پہچان لیتے ہیں “۔ ان للہ عزوجل عبادا یعرفون الناس بالتوسم۔ علماء نے بیان کیا ہے : التوسم تفعل کے وزن پر الوسم سے ماخوذ ہے۔ اور اس سے مراد ایسی علامت ہے جس سے اس کے سوا مطلوب پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے : توسمت فیہ الخیر (یہ تب کہے گا) جب تو اس میں خیر اور بھلائی کی علامت دیکھ لے ؛ اور اسی سے حضور نبی مکرم ﷺ کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کا قول ہے : انی توسمت فیک الخیر أعرفہ واللہ یعلم أن ثابت البصر بلاشبہ میں نے آپ میں خیر کی علامت دیکھی ہے میں اسے پہچانتا ہوں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں صحیح البصر ہوں۔ اور دوسرے نے کہا ہے : توسمتہ لما رأیت مھابۃ علیہ وقلت المؤمن آل ھاشم اور اتسم الرجل جب آدمی اپنے لئے ایسی علامت بنا لے جس سے اسے پہچانا جاسکتا ہو، اور توسم الرجل اس نے وسمی گھاس طلب کیا۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : وأصبحن کالدوم النواعم حدوۃ علی وجھۃ من ظاعن متوسم اور ثعلب نے کہا ہے : واسم وہ ہوتا ہے جو تجھے سر سے پاؤں تک دیکھے۔ اور التوسم کا اصل معنی التسبت (ثابت رہنا) اور التفکر (غور و فکر کرنا) ہے ؛ یہ الوسم سے ماخوذ ہے اور اس کا معنی ہے اونٹ وغیرہ کی جلد میں لوہے کے ساتھ نشان لگانا، اور یہ (قوت) طبیعت اور مزاج کی عمدگی، دماغ کی تیزی اور صاف ستھری فکر سے حاصل ہوتی ہے اور بعض نے یہ چیزیں زائد ذکر کی ہیں۔ اور دنیوی حشووزوائد سے دل کو فارغ رکھنے، اور گناہوں کی میل، اخلاق کی کدورت اور دنیا کی فضولیات سے اسے پاک رکھنے سے حاصل ہوتی ہے، نہشل نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ للمتوسمین کے بارے انہوں نے فرمایا : اہل صلاح وخیر کے لئے (اس واقعہ میں علامات ہیں) اور صوفیہ نے یہ گمان کیا ہے کہ یہ کرامت ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بلکہ یہ علامات کے ساتھ استدلال ہے۔ اور علامات میں سے وہ ہوتی ہے جو ہر ایک کے لئے ظاہرا ظاہر ہوتی ہے اور پہلی نظر کے ساتھ (ظاہر ہوتی ہے) ، اور ان میں سے جو مخفی ہوتی ہے وہ کسی کے لئے بھی ظاہر نہیں ہوتی اور نہ بادی النظر میں اسے پایا جاسکتا ہے۔ حسن نے کہا ہے : المتوسمون وہ ہیں جو امور میں غوروفکر کرتے ہیں اور جان لیتے ہیں کہ وہ جس نے قوم لوط کو ہلاک کردیا ہے وہ ان کفار کو بھی ہلاک و برباد کرنے پر قادر ہے، اور یہ دلائل ظاہرہ سے ثابت ہے۔ اور اسی کی مثل حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے : مجھ سے کسی نے کسی شے کے بارے سوال نہیں کیا مگر میں اسے پہچان لیتا ہوں کہ آیا وہ فقیہ ہے یا غیر فقیہ ہے۔ ما سألنی أحد عن شئ إلا عرفت أفقیۃ ھو أو غیر فقیہ اور امام شافعی (رح) اور امام محمد بن حسن رحمہما اللہ تعالیٰ کے بارے مروی ہے کہ وہ دونوں کعبہ معظمہ کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے ایک آدمی مسجد کے دروازے پر تھا تو ان میں سے ایک نے کہا : میں اسے نجار (بڑھئی) دیکھتا ہوں، اور دوسرے نے کہا : (نہیں) بلکہ یہ حداد (لوہار) ہے، پس حاضرین میں سے ایک آدمی جلدی سے اس کی طرف گیا اور اس سے پوچھا تو اسنے جواب دیا : کنت نجارا وأنا الیوم حداد (میں بڑھئ تھا اور آج کل میں لوہار ہوں) اور حضرت بندب بن عبد اللہ بجلی ؓ سے روایت ہے کہ وہ ایک آدمی کے پاس آئے جو قرآن پڑھ رہا تھا پس آپ اس کے پاس ٹھہر گئے اور کہا : جس نے شہرت کے لئے سنایا اللہ تعالیٰ نے اسے شہرت بنا دیا، اور جس نے دکھاوا کیا اللہ تعالیٰ نے اسے دکھاوا بنا دیا۔ تو ہم نے ان کو کہا : گویا آپ نے اس آدمی کے بارے میں تعریض کی ہے، تو انہوں نے فرمایا : بیشک یہ جو تجھ پر آج قرآن کریم پڑھ رہا ہے کل یہ حروریہ ہو کر نکل جائے گا ؛ پس وہی راس الحرور یہ تھا، اور اسکا نام مرداس تھا۔ اور حضرت حسن بصری کے بارے روایت ہے کہ وہ عمرو بن عبید کے پاس گئے اور فرمایا : یہ بصرہ کے نوجوانوں کا سردار ہے اگرچہ اس نے کوئی بات نہیں کی، پس اس کے بارے تقدیر کا فیصلہ یہی ہے جو ہوچکا ہے، یہاں تک کہ اس کے عام بھائیوں نے اسے چھوڑ دیا۔ اور ایوب کو کہا : یہ اہل بصرہ کے جوانوں کا سردار ہے، اور کوئی استثنا نہیں کی۔ اور حضرت شعبی کے بارے روایت ہے کہ انہوں نے داؤد أزدی کو کہا اس حال میں کہ وہ ان کے ساتھ جھگڑ رہا تھا : بیشک تو نہیں مرے گا یہاں تک کہ تیرے سر میں داغا جائے گا۔ اور پھر اسی طرح ہوا۔ روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ حج کی ایک جماعت کے پاس تشریف لے گئے ان میں أشتر بھی تھا، پس آپ نے اس میں نظر جمادی اور خوب غور سے دیکھا اور فرمایا : یہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا : یہ مالک بن حارث ہے۔ تو آپ نے فرمایا : اسے کیا ہے اللہ اسے قتل کرے ! بیشک میں مسلمانوں کے لئے اس کی طرف سے انتہائی سخت (تکلیف دہ) دن دیکھ رہا ہوں ؛ پھر اس کی طرف سے فتنہ میں وہی ہوا جو ہوا۔ اور حضرت عثمان بن عفان ؓ کے بارے روایت ہے کہ حضرت انس بن مالک ؓ آپ کے پاس گئے، اور وہ بازار سے گزر کر گئے تھے اور انہوں نے ایک عورت کی طرف دیکھا تھا، پس جب آپ نے ان کی طرف دیکھا تو حضرت عثمان ؓ نے کہا : تم میں سے کوئی مجھ پر داخل ہوتا ہے اور اس کی آنکھوں میں زنا کا اثر ہوتا ہے۔ تو حضرت انس ؓ نے آپ کو کہا : کیا رسول اللہ ﷺ کے بعد وحی آرہی ہے ؟ تو آپ نے جواب فرمایا : نہیں۔ لیکن یہ برہان، فراست اور سچ ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین ؓ اجمعین سے اس کی مثل کثیر مثالیں ہیں۔ مسئلہ نمبر 2: قاضی ابوبکر بن عربی نے کہا ہے : ” جب یہ ثابت ہے کہ علامت اور فراست سے پہچاننا معانی کی پہچان کے ذرائع میں سے ہے لیکن اس پر کوئی حکم مرتب نہیں ہوسکتا اور اس کے ساتھ موسوم (جس میں علامت پائی جائے) اور متفرس (جس کو فراست کے ساتھ پہچان لیا جائے) کو پکڑا نہیں جاسکتا۔ بغداد کے قاضی القضاۃ الشامی المالکی شام میں ہونے کے دوران احکام میں فراست کے ساتھ فیصلہ کرتے تھے، ایاس ابن معاویہ کے طریقہ پر چلتے ہوئے، جن دونوں وہ قاضی تھے، اور ہمارے شیخ فخر السلام ابوبکر الشاسی نے اس کے رد میں ایک جز تصنیف کیا ہے انہوں نے اسے اپنے خط کے ساتھ میرے لئے لکھا اور وہ مجھے عطا فرما دیا۔ اور یہ صحیح ہے، کیونکہ احکام کی پہچان شرعاً معلوم ہے انہیں پانے کا ذریعہ قطعی ہے اور فراست ان قطعی ذرائع میں سے نہیں ہے۔
Top