Al-Qurtubi - Al-Hijr : 72
لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَكْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
لَعَمْرُكَ : تمہاری جان کی قسم اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَفِيْ : البتہ میں سَكْرَتِهِمْ : اپنے نشہ يَعْمَهُوْنَ : مدہوش تھے
(اے محمد ﷺ تمہاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مدہوش (ہو رہے) تھے۔
آیت نمبر 72 اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: قاضی ابوبکر بن عربی نے بیان کیا ہے کہ مفسرین نے بالاجماع کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے شرف و عظمت کے اظہار کے لئے ان کی حیات مبارکہ کی قسم کھائی ہے کہ آپ کی قوم قریش (اپنی طاقت کے نشہ میں) مست ہے (اور) بہکے بہکے پھر رہے ہیں اور اپنی حیرت میں ڈوبے ہوئے ٹامک ٹوٹیاں مار رہے ہیں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اسی طرح حضرت قاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے اس بارے میں اہل تفسیر نے اجماع کیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضور نبی رحمت محمد مصطفیٰ ﷺ کی مدت حیات کی قسم ہے۔ اور اس کی اصل عین کے ضمہ کے ساتھ ہے اور یہ العمر سے ہے لیکن کثرت استعمال کی وجہ سے اسے فتحہ دیا گیا۔ اور اس کا معنی ہے : اے محمد ! ﷺ تیری بقا کی قسم۔ اور بعض نے کہا ہے : تیری حیات کی قسم۔ اور یہ تعظیم کی انتہاء اور احسان اور شرف عطا کرنے کی حد ہے۔ ابو الجوزاء نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم محمد مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناء کے سوا کسی کی زندگی کی قسم نہیں کھائی، کیونکہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ساری مخلوق سے زیادہ معزز و مکرم ہیں۔ علامہ ابن عربی نے کہا ہے : وہ جو اس کے مانع ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت لوط (علیہ السلام) کی زندگی کی قسم کھائے اور اس کے سبب انہیں اس شرف و عظمت تک پہنچا دے جو چاہے، اور فضل و عظمت میں سے جو کچھ اللہ تعالیٰ حضرت لوط (علیہ السلام) کو عطا فرمائے گا تو اس سے کئی گنا شرف اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو عطا فرما سے گا، کیونکہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان سے زیادہ عزت والے ہیں ؛ کیا آپ جانتے نہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خلت اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو شرف ہمکلامی عطا فرمایا اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو بھی یہ عطا فرمائے، تو جب اللہ تعالیٰ حضرت لوط (علیہ السلام) کی حیات کی قسم کھائے تو حضور نبی رحمت ﷺ کی حیات طیبہ اس سے کہیں بلند اور ارفع ہے، (لہٰذا) کوئی ایک کلام سے دوسرے کلام کی طرف نہ نکلے اور بغیر ضرورت کے اس کا ذکر نہ کرے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : جو کچھ انہوں نے کہا ہے وہ اچھا ہے ؛ کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حضور نبی رحمت محمد مصطفیٰ ﷺ کی حیات کی قسم کھانا حضرت لوط (علیہ السلام) کے قصہ میں کلام معترض ہے (یعنی بطور جملہ معترضہ ہے) قشیری ابو نصر عبد الرحیم بن عبد الکریم نے اپنی تفسیر میں کہا ہے : یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کہا جائے کہ یہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی طرف راجع ہو، یعنی وہ اپنی طاقت کے نشے میں مست ہیں اور بہکے بہکے پھر رہے ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو وعظ کیا اور فرمایا : یہ میری (قوم) کی بیٹیاں ہیں، تو ملائکہ نے کہا : اے لوط ! لعمرک انھم لفی سکرتھم یعمھون اور یہ نہیں جانتے ان کے ساتھ صبح کے وقت کیا کچھ ہونے والا ہے ؟ پس اگر کہا جائے : تحقیق اللہ تعالیٰ نے انجیر، زیتون اور طور سینا کی قسم کھائی ہے ؛ تو اس میں کیا ہے ؟ تو کہ اجائے گا : کوئی شے نہیں ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے مگر وہ اس کی اس فضیلت پر دلالت کرتی ہے جو اس کے شمار میں داخل ہوتی ہے، پس اسی طرح ہمارے نبی مکرم ﷺ کے لئے یہ ثابت ہو ارہا ہے کہ آپ ان سے افضل ہیں جو آپ نے شمار میں ہیں۔ اور العمر اور العمر (یعنی عین کے ضمہ اور اس کی فتحہ کے ساتھ) یہ دو لغتیں ہیں اور ان دونوں کا معنی ایک ہے ؛ مگر یہ لفظ قسم میں کثرت استعمال کی وجہ سے فتحہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ اور تو کہتا ہے : عمرک اللہ۔ ای اسأل اللہ تعمیرک (یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری درازی عمر کی دعا کرتا ہوں) ۔ اور لعمرک یہ مبتدا ہونے کے سبب مرفوع ہے اور اس کی خبر محذوف ہے، اس کا معنی ہے لعمرک مما أقسم بہ (تیری عمر اس میں سے ہے جس کی میں قسم کھا رہا ہوں) مسئلہ نمبر 2: بہت سے علماء نے اسے مکروہ قرار دیا ہے کہ کوئی انسان کہے لعمری، کیونکہ اس کا معنی ہے وحیاتی (میری زندگی کی قسم) اور حضرت ابراہیم نخعی نے کہا ہے : آدمی کے لئے مکروہ ہے کہ وہ کہے لعمری ؛ کیونکہ یہ اس کی زپنی زندگی کی قسم ہے، اور یہ کمزور لوگوں کا کلام ہے۔ اور اسی طرح امام مالک (رح) نے بھی کہا ہے : بیشک مردوں میں سے کمزور اور عورتیں (اور خنثے وغیرہ) تیری حیات اور تیری عیش (زندگی) کی قسم کھاتے ہیں، اور یہ ان کا کلام نہیں ہے جو مرادنہ وصف سے متصف ہیں، اگرچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس قصہ میں اس کی قسم کھائی ہے، اور یہ اس کے رتبہ کے شرف اور اس کے مرتبہ کی بلندی کا بیان ہے، پس اس کے سوا کوئی معنی اس پر محمول نہیں کیا جائے گا اور نہ اسے اس کے سوا کسی اور معنی میں استعمال کیا جائے گا۔ اور ابن حبیب نے کہا ہے : مناسب یہ ہے کہ لعمرک کو کلام میں اس آیت کی طرف پھیر دیا جائے۔ اور حضرت قتادہ نے کہا ہے : یہ کلام عرب میں سے ہے۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : یہی میں بھی کہتا ہوں، لیکن شریعت نے استعمال میں اسے قطعی قرار دیا ہے اور قسم کو اس کی طرف لوٹا دیا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : لعمرک اور لعمری اور اسی طرح کے الفاظ کے ساتھ قسم کھانا عرب کے اشعار میں اور ان کے فصیح کلام میں کثرت سے موجود ہے۔ جیسا کہ نابغہ نے کہا ہے : لعمری وما عمری علی بھین لقد نطقت بطلا علی الأقارع دوسرے نے کہا : لعمرک إن الموت ما أخطأ الفتی لکالطول المرخی وثنیاہ بالید ایک اور نہ کہا : أیھا المکح الثریا سھیلا عمرک اللہ کیف یلتقان ایک دوسرے نے کہا : إذا رضیت علی بنو قشیر لعمر اللہ أعجنبی رضاھا مسئلہ نمبر 3: سورة مائدہ میں ان (الفاظ) کے بارے گفتگو گزر چکی ہے جن کے ساتھ قسم اٹھائی جاسکتی ہے اور جن کے ساتھ قسم اٹھانا جائز نہیں ہے، اور وہاں ہم نے اس آدمی کے بارے میں امام احمد بن حنبل (رح) تعالیٰ کا قول ذکر کیا ہے کہ جس نے نبی مکرم ﷺ کے (نام کے) ساتھ قسم کھائی اس پر کفارہ لازم ہوگا۔ ابن خویز منداد نے کہا ہے : میں نے غیر اللہ کے ساتھ ان چیزوں میں سے جن کی تعظیم حقوق میں سے کسی حق کے سبب جائز ہے قسم اٹھانے کو جائز قرار دیا ہے تو وہ یہ نہیں کہتا : بیشک یہ قسم ہے اس کے ساتھ کفارہ متعلق ہوتا ہے ؛ مگر یہ کہ جس نے کذب اور جھوٹ کا قصد کیا وہ قابل ملامت ہے ؛ کیونکہ باطن میں وہ اسے حقیر جان رہا ہے جس کی تعظیم اس پر واجب ہے۔ انہوں نے کہا : اور قول باری تعالیٰ لعمرک مراد تیری حیات اور زندگی کی قسم ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ کی حیات طیبہ کی قسم کھائی ہے تو بلاشبہ اس نے ہمارے لئے صراحتہ یہ بیان کرنے کا ارادہ فرمایا ہے کہ ہمارے لئے یہ جائز ہے کہ ہم آپ کی حیات طیبہ کی قسم کھائیں۔ اور امام مالک (رح) کے مذہب کے مطابق قول باری تعالیٰ : لعمرک اور والتین والزیتون۔ (التین) والطور۔ وکتب مسطور۔ (الطور) والنجم اذا ھوی۔ (النجم) والشمس وضحھا۔ (الشمس) لا اقسم بھذا البلد۔ وانت حل بھذا البلد۔ ووالد وما ولد۔ (البلد) ان تمام کا معنی یہ ہے : انجیر اور زیتون کے خالق کی قسم، کتاب مسطور کے رب کی قسم، اس شہر کے رب کی قسم جس میں آپ اترے، اور آپ کی زندگی اور حیات کو پیدا کرنے والے کی قسم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے حق کی قسم، تو ان تمام میں یمین اور قسم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نام سے حاصل ہوئی نہ کہ مخلوق کے ساتھ ابن خویز منداد نے کہا ہے : اور جس نے غیر اللہ کے ساتھ قسم کو جائز قرار دیا ہے اس نے آپ ﷺ کے اس قول کی تاویل کی ہے : لا تحلفوا بابائکم (اپنے آباء کے ساتھ قسم نہ کھاؤ) اور فرمایا : بیشک یہ کافر آباء کے ساتھ قسم کھانے سے منع کیا گیا ہے، کیا آپ دیکھتے ہیں کہ جب انہوں نے اپنے آباء کے ساتھ قسم کھائی تو آپ نے فرمایا : ” یہاڑ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ معزز و مکرم ہیں تمہارے ان آباء سے جو جاہلیت میں مرے ہیں “۔ اور امام مالک (رح) نے حدیث کو اپنے ظاہر پر ہی محمول کیا ہے۔ ابن خویز منداد نے کہا ہے : جس نے اسے جائز قرار دیا ہے اس نے اس سے بھی استدلال کیا ہے کہ مسلمانوں کی قسموں میں حضور نبی مکرم ﷺ کے زمانے سے لے کر ہمارے آج تک یہ طریقہ جاری ہے کہ وہ حضور نبی مکرم ﷺ کے ساتھ قسم کھاتے ہیں، حتیٰ کہ اہل مدینہ ہمارے اس دن تک جب ان میں سے کوئی اپنے کسی ساتھی کے بارے فیصلہ کرے تو کہتا ہے : تو مجھے اس کے حق کی قسم دے جسے یہ قبر جمع کئے ہوئے ہے، اور اس قبر کے مکین کے حق کی قسم، مراد حضور نبی مکرم ﷺ کی ذات ہے، اور اس طرح حرم پاک، مشاعر، رکن، مقام ابراہیم، محراب، اور جن کا اس میں ذکر کیا جاتا ہے (کی قسم کھائی جاتی ہے) ۔
Top