Al-Qurtubi - Al-Hijr : 3
ذَرْهُمْ یَاْكُلُوْا وَ یَتَمَتَّعُوْا وَ یُلْهِهِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ
ذَرْهُمْ : انہیں چھوڑ دو يَاْكُلُوْا : وہ کھائیں وَيَتَمَتَّعُوْا : اور فائدہ اٹھالیں وَيُلْهِهِمُ : اور غفلت میں رکھے انہیں الْاَمَلُ : امید فَسَوْفَ : پس عنقریب يَعْلَمُوْنَ : وہ جان لیں گے
(اے محمد ﷺ ان کو ان کے حال پر رہنے دو کہ کھا لیں اور فائدے اٹھا لیں اور (طول عمل) ان کو (دنیا میں) مشغول کئے رہے۔ عنقریب ان کو اسکا (انجام) معلوم ہوجائے گا۔
آیت نمبر 3 اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : ذرھم یاکلوا ویتمتعوا یہ ان کیلئے تہدید اور جھڑک ہے۔ ویلھھم الامل یعنی جھوٹی امید انہیں طاعت سے غافل اور مشغول رکھے۔ کہا جاتا ہے : ألھاہ عن کذا یعنی اس نے اسے اس سے مشغول کردیا، غافل کردیا۔ اور لھی ھو عن الشئ یلھی (وہ فلاں شے سے غافل ہوگیا) فسوف یعلمون (وہ حقیقت کو خودبخود جان لیں گے) جب وہ قیامت کو دیکھیں گے اور اپنے کرتوتوں کا وبال چکھیں گے۔ یہ آیت آیۃ السیف کے ساتھ منسوخ ہے۔ مسئلہ نمبر 2: مسند بزار میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” چار چیزیں شقاوت اور بدبختی میں سے ہیں آنکھ کا خشک ہوجانا، دل کا سخت ہوجانا، لمبی امید رکھنا، اور دنیا کی حرص رکھنا “۔ اور لمبی امید اور آرزو و عاجز کردینے والی بیماری اور اپاہج کردینے والا مرض ہے، اور جب یہ دل پر قدرت پالے تو اس کا مزاج فاسد ہوجاتا ہے اور علاج مشکل اور سخت ہوجاتا ہے، نہ اس سے بیماری جدا ہوتی ہے اور نہ اس میں کوئی دوا اثر انداز ہوتی ہے، بلکہ وہ اطباء کو تھکا دیتا ہے اور حکماء اور علماء اس کے صحت مند ہونے سے مایود ہوجاتے ہیں۔ اور طویل امید کی حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا حریص ہونا اور اس پر گر پڑنا، اور اس کی محبت رکھنا اور آخرت سے اعراض کرنا۔ اور رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : ” اس امت کے پہلے آنے والے لوگ یقین اور زہد کے سبب نجات پاگئے اور اس کے آخر میں آنے والے بخل اور امید کے سبب ہلاک ہوجائیں گے “۔ اور روایت بیان کی جاتی ہے کہ حضرت ابو الدرداء ؓ دمشق کی مسجد کے صحن میں کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے اہل دمشق ! کیا تم اپنے نصیحت کرنے والے بھائی کی بات نہیں سنو گے ؟ بیشک جو تم سے پہلے تھے وہ کثرت سے جمع ہوتے تھے اور عمارتیں مضبوط بناتے تھے اور امیدیں دور کی رکھتے تھے، پس ان کے اجتماع ہلاک اور برباد ہوگئے، ان کی عمارتیں قبریں بن گئیں اور ان کی امیدیں غرور اور تکبر ہوگئیں۔ یہ (قوم) عاد تھی اس نے شہروں کو رہنے والوں، مال، گھوڑوں اور مردوں سے برا ہوا تھا۔ پس آج مجھ سے کون خریدے گا میں نے انہیں دو درہم کے عوض چھوڑ دیا ہے اور یہ اشعارک ہے : یا ذا المؤمل آمالا وإن بعدت منہ ویزعم أن یحظی بأقصاھا أنی تفوز بما ترجوہ ویک وما أصبحت فی ثقۃ من نیل أدناھا اور حسن نے کہا ہے : کسی بندے نے امید کو طویل نہیں کیا مگر اس نے عمل کو برا کردیا۔ اور آپ ﷺ نے سچ کہا ہے ! پس امید آدمی کو عمل سے سست کردیتی ہے اور یہ تاخیر کرنے اور لاپرواہی برتنے کا وارث بناتی ہے، اور غفلت اور سستی کو اپنے پیچھے لاتی ہے، زمین کی طرف جھکا دیتی ہے، اور خواہش (نفس) کی طرف مائل کردیتی ہے۔ اور یہ ایسا امر ہے جس کا مشاہدہ آنکھوں کے ساتھ کیا گیا ہے اور یہ کسی بیان اور وضاحت کا محتاج نہیں اور نہ ایسا کرنے والے سے دلیل طلب کی جائے گی، جیسا کہ امید کا مختصر ہونا کام اور عمل پر ابھارتا ہے، اور جلدی کی طرف پھیر دیتا ہے اور مسابقت پر برانگیختہ کرتا ہے۔
Top