Al-Qurtubi - Al-Hijr : 19
وَ الْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَ اَلْقَیْنَا فِیْهَا رَوَاسِیَ وَ اَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُوْنٍ
وَالْاَرْضَ : اور زمین مَدَدْنٰهَا : ہم نے اس کو پھیلا دیا وَاَلْقَيْنَا : اور ہم نے رکھے فِيْهَا : اس میں (پر) رَوَاسِيَ : پہاڑ وَاَنْۢبَتْنَا : اور ہم نے اگائی فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شئے مَّوْزُوْنٍ : موزوں
اور زمین کو بھی ہم ہی نے پھیلایا اور اس پر پہاڑ (بنا کر) رکھ دیئے اور اس میں ہر ایک سنجیدہ چیز اگائی۔
آیت نمبر 19 تا 20 قولہ تعالیٰ : والارض مددنھا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ہے، اور ان میں سے جو اس کے کمال قدرت پر دلالت کرتی ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا : ہم نے زمین کو پانی کی سطح پر پھیلا دیا : جیسا کہ فرمایا : والارض بعد ذلک دحھا۔ (النازعات) (اور زمین کو بعد ازاں بچھا دیا) ۔ یعنی ہم نے اسے بچھا دیا۔ اور فرمایا : والارض فرشنھا فنعم المھدون۔ (الذاریات) (اور زمین کا ہم نے فرش بجھا دیا پس ہم کتنے اچھے (فرش) بچھانے والے ہیں) اور یہ اس کا رد ہو رہا ہے جس کا گمان یہ ہے کہ یہ (زمین) گیند کی مثل ہے۔ اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ والقینا فیھا رواسی اور ہم نے اس میں ثابت اور محکم پہاڑ گاڑ دئیے ہیں تاکہ یہ اپنے رہنے والوں کے ساتھ حرکت نہ کرے۔ واثبتنا فیھا من کل شیء موزون اور ہم نے اس میں ہر چیز معلوم اور معین مقدار کے ساتھ اگا دی ؛ یہ حضرت ابن عباس اور سعید بن جبیر ؓ نے کہا ہے اور بیشک فرمایا : موزون کیونکہ وزن وہ ہے جس کے ستاھ کسی شئ کی مقدار پہچانی جاتی ہے۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے : قد کنت قبل لقاء کم ذامرۃ عندی لکل مخاصم میزانہ اور حضرت قتادہ نے کہا ہے : موزون سے مراد مقسوم (تقسیم کیا گیا) ہے اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : موزون سے مراد معدود ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے : ھذا کلام موزون ؛ یعنی یہ کلام منظم ہے منتشر نہیں ہے۔ پس اس بنا پر معنی یہ ہوگا یعنی ہم نے زمین میں اگادی ہر وہ چیز جس کا وزن کیا جاتا ہے جواہر، حیوانات اور معاون میں سے۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے حیوانوں کے بارے میں فرمایا : وانبتھا نباتا حسناً (آل عمران :37) اور یہاں انبات سے مقصود پیدا کرنا اور ایجاد کرنا ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے : انبتنا فیہا یعنی پہاڑوں میں من کل شیئ موزون یعنی ہم نے پہاڑوں میں ہر چیز ایک اندازے کے مطابق پیدا فرما دی سونے، چاندی، تانبے، سیسے، قزد پر (ایک دھات) میں سے حتیٰ کہ ہڑتال اور سرمہ اور ہر وہ شے جس کا وزن کیا جاتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : ہر وہ شے جس میں ثمنوں کا وزن کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اس شے کی نسبت قدر کے اعتبار سے اعلیٰ اور نفع کے اعتبار سے اعم ہوتی ہے جس کا کوئی ثمن نہ ہو۔ وجعلنا لکم فیھا معایش یعنی ہم نے تمہارے لئے اس میں کھانے پینے کی وہ چیزیں بنا دی ہیں جن کے ساتھ وہ زندگی گزارتے ہیں ؛ معایش کا واحد معیشۃ (یاء کے سکون کے ساتھ) ہے۔ اور اسی سے جریر کا قول ہے : تکلفنی معیشۃ آل زید ومن لی بالمرقق والصناب یہ اصل میں معیشۃ مفعلۃ کے وزن پر (یا متحرک کے ساتھ) ہے۔ سورة الاعراف میں یہ گزر چکا ہے۔ کہا گیا ہے : بیشک اس سے مراد ملابس (پہننے کے کپڑے) ہیں، یہ حسن نے کہا ہے۔ اور بعض نے کہا ہے : بیشک اس سے مراد مدت حیات تک اسباب رزق میں تصرف کرنا ہے۔ ماوردی نے کہا ہے : اور یہی ظاہر ہے۔ ومن لستم لہ برزقین مراد جانور اور چوپائے ہیں ؛ یہ حضرت مجاہد نے کہا ہے۔ اور ان کے نزدیک یہ بھی ہے کہ ان سے مراد غلام اور وہ بچے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : نحن نرزقھم وایاکم (الاسراء :31) (ہم ہی رزق دیتے ہیں انہیں بھی اور تمہیں بھی) اور لفظ من کے لئے جائز ہوتا ہے کہ وہ غلاموں اور چوپاؤں تمام کو شامل ہو جب وہ جمع ہوں ؛ کیونکہ جب ذوی العقول اور غیر ذوی العقول جمع ہوجائیں تو ذوی العقول غالب ہوتے ہیں، یعنی ہم نے تمہارے لئے اس میں سامان رزق، غلام، کنیزیں، جانور اور اولاد پیدا فرما دی ہے ہم انہیں رزق دیتے ہیں، تم انہیں رزق نہیں دیتے۔ پس اس تاویل کی بنا پر من محل نصب میں ہے ؛ یہ معنی حضرت مجاہد (رح) وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد وحشی جانور ہیں۔ حضرت سعید نے بیان کیا ہے : ہم نے منصور نے ومن لستم لہ برزقین پڑھی اور کہا : یہ وحشی مراد ہیں۔ پس اس معنی کی بنا پر من غیر ذوی العقول کے لیے ہوگا، جیسا کہ اس آیت میں ہے فمنھم من یمشی علی بطنہ الآیہ (النور : 45) (تو ان میں کچھ تو رینگتے ہیں پیٹ کے بل۔۔۔۔ ) پس من محل جر میں ہے کیونکہ اس کا عطف لکم میں کاف اور میم پر ہے۔ اور یہ بصریوں کے نزدیک قبیح ہے ؛ کیونکہ ان کے نزدیک ظاہر کا عطف مضمر پر جائز نہیں ہوتا مگر حرف جر کے اعادہ کے ساتھ ؛ جیسے مررت بہ وبزید۔ اور مررت بہ وزید کہنا شعر کے بغیر جائز نہیں ہوتا۔ جیسا کہ شاعر کا قول ہے : فالیوم قربت تھجونا وتشتمنا فاذھب فما بک والأیام من عجب اس میں الایام کا عطف بک پر بغیر حرف جر کے اعادہ کے ہے۔ یہ بحث سورة البقرہ اور سورة النساء میں گزر چکی ہے۔
Top