Al-Qurtubi - Al-Hijr : 18
اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِیْنٌ
اِلَّا : مگر مَنِ : جو اسْتَرَقَ : چوری کرے السَّمْعَ : سننا فَاَتْبَعَهٗ : تو اس کا پیچھا کرتا ہے شِهَابٌ : شعلہ مُّبِيْنٌ : چمکتا ہوا
ہاں اگر کوئی چوری سے سننا چاہے تو چمکتا ہوا انگارہ اسکے پیچھے لپکتا ہے۔
آیت نمبر 18 لیکن وہ جو چوری چھپے سن لے، یعنی کوئی تھوڑی سی چیز اچک لے، پس یہ استثناء منقطع ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ استثنا متصل ہے، یعنی سوائے اس کے جو چوری چھپے سن لے، یعنی ہم نے آسمان کو شیاطین سے محفوظ کردیا ہے کہ وہ وحی وغیرہ میں سے کسی چیز کو سنیں، بجز اس کے جو چوری چھپے سن لے کیونکہ ہم نے اسے اس سے محفوظ نہیں کیا کہ وحی کے سوا آسمان کی خبروں میں سے کوئی خبر سنی جائے، اور وہی وحی ! تو اس میں سے کوئی شے نہیں سنی کا سکتی ؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انھم عن السمع لمعزولون (شعراء) (نہیں (شیطان کو) تو اس کے سننے سے بھی محروم کردیا گیا ہے) ۔ اور جب شیاطین کسی ایسی شے کی طرف کان لگا کر سنیں جو وحی نہیں تو وہ اسے آنکھ جھپکنے سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ کاہنوں کی طرف پھینک دیتے ہیں۔ پھر شہاب (شعلے) ان کا تعاقب کرتے ہیں پس وہ انہیں قتل کردیتے ہیں یا ان کے اعضاء کو فاسد اور خراب کردیتے ہیں ؛ اسے حضرت حسن اور حضرت ابن عباس ؓ نے ذکر کیا ہے۔ قولہ تعالیٰ : فاتبعہ شھاب مبین۔ أتبعہ، اسے پالیتا ہے اور اسے پیچھے سے لاحق ہوجاتا ہے اور شہاب سے مراد روشن ستارہ ہے۔ اور اسی طرح شہاب ثاقب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان : شھاب قبس (نمل :7) یعنی آگ کے اس شعلے کے ساتھ جو لکڑی کے سرے پر ہوتا ہے) یہ ابن عزیز نے کہا ہے۔ اور ذوالرمہ نے کہا ہے : کأنہ کو کب فی إثر عفریۃ مسوم فی سواد اللیل منقضب اور ستارے کو اسکی چمک اور روشنی کی وجہ سے شہاب کا نام دیا گیا ہے کہ وہ آگ کے مشابہ ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ شہاب سے مراد آگ کا شعلہ ہے، جو اہل زمین کے لیے جلایا جائے پس وہ انہیں جلا دیتا ہے اور لوٹ کر نہیں آتا جب وہ جلا دے جیسا کہ جب آگ جلا دے تو وہ نہیں لوٹتی، بخلاف ستارے کے کیونکہ جب وہ جلائے تو اپنی جگہ (اور مقام) کی طرف لوٹ آتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا : شیاطین گروہ درگروہ اوپر چڑھتے ہیں اور چوری چھپے سنتے ہیں پھر ان میں سے زیادہ سرکش منفرد اور الگ ہوجاتا ہے اور وہ مزید بلند ہوت ا ہے، تو اسے شہاب (شعلے) کے ساتھ بھگا دیا جاتا ہے پس وہ اس کی پیشانی یا اس کی ناک پر یا جہاں اللہ تعالیٰ چاہے آلگتا ہے پس وہ جلنے لگتا ہے، اور وہ اپنے ساتھیوں کے پاس اسی حال میں آتا ہے کہ وہ جل رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے : بیشک امر اس اس طرح ہے، پس وہ کاہنوں میں سے اپنے بھائیوں کے پاس جاتے ہیں اور اس پر نو کا اضافہ کردیتے ہیں، اور وہ اس کے ساتھ اہل زمین سے گفتگو کرتے ہیں ؛ ایک کلمہ حق ہے اور نو باطل ہیں۔ پس جب وہ ان کے کہنے کے مطابق کوئی شے دیکھ لیتے کہ وہ اسی طرح ہوئی ہے، تو وہ (اہل زمین) ان کی ہر اس بات کی تصدیق کرلیتے جو انہوں نے اس کے ساتھ اپنی طرف سے جھوٹ بھی بولے، یہی معنی مرفوع روایت کے ساتھ سورة السبا میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور شہاب کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ قتل کرتا ہے یا نہیں ؟ تو حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے کہ شہاب زخمی کردیتا ہے، جلا دیتا ہے اور اعضاء کو خراب اور فاسد کردیتا ہے، لیکن وہ قتل نہیں کرتا۔ حسن اور ایک گروہ نے کہا ہے : وہ قتل کردیتا ہے ؛ پس اس قول کی بنا پر جنوں تک سنی ہوئی بات پہنچانے سے پہلے شہابوں کے ساتھ ان کے قتل کے بارے میں دو قول ہیں : ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ بات جو انہوں نے چوری چھپے سنی ہے اسے اپنے غیر تک پہنچانے سے پہلے وہ قتل کر دئیے جاتے ہیں ؛ پس اس بنا پر آسمان کی خبریں غیر انبیاء تک نہیں پہنچ سکتیں، اسی لیے کہانت ختم ہوچکی ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ جو کچھ انہوں نے چوری چھپے سنا ہے اسے اپنے غیر جنوں تک پہنچانے کے بعد وہ قتل کئے جاتے ہیں ؛ یہی وجہ ہے کہ وہ اسے چرانے کے لئے دوبارہ لوٹ کر نہیں آتے، اور اگر وہ بات نہ پہنچتی تو یقیناً چرانے کا سلسلہ منقطع ہوجاتا اور جلانے کا سلسلہ بھی ختم ہوجاتا۔ اسے ماوردی نے ذکر کیا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں ؛ پہلا قول زیادہ صحیح ہے جیسا کہ اس کا بیان سورة الصافات میں آئے گا۔ اور علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ کیا شہابوں کے ساتھ بھگانا بعثت سے پہلے بھی تھا ؟ تو اکثر نے کہا ہے : ہاں (یہ سلسلہ تھا) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ نہیں، بلکہ یہ بعثت کے بعد شروع ہوا۔ اس مسئلہ کا بیان عنقریب سورة الجن میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور سورة الصافات میں بھی۔ زجاج نے کہا ہے : شہابوں کے ساتھ بھگانا حضور نبی کریم ﷺ کی ان علامات اور نشانیوں میں سے ہے جو آپ ﷺ کی ولادت باسعادت کے بعد ظاہر ہوئیں ؛ کیونکہ قدیم شعراء نے اپنے اشعار میں اس کا ذکر نہیں کیا ہے، اور نہ انہوں نے کسی تیز رفتار شے کو اس کے ساتھ تشبیہ دی ہے جیسا کہ انہوں نے بجلی اور سیلاب کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ اور یہ بعید نہیں کہ کہا جائے کہ ستاروں کا ٹوٹنا تو قدیم زمانے میں تھا لیکن وہ شیطانوں کو بھگانے کیلئے نہ تھا، پھر جس وقت حضور نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی تو یہ انہیں بھگانے کے لئے ہوگیا۔ اور علماء نے کہا ہے : ہم ستاروں کو ٹوٹنا دیکھتے ہیں۔ پس یہ بھی جائز ہے کہ وہ اسی طرح ہو جیسے ہم دیکھتے ہیں پھر وہ آگ بن جاتا ہو جب وہ شیطان کو پالے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ کہا جائے : وہ ہوائے نفس کی آگ کے شعلے کے ساتھ بھاگتے ہیں اور اس میں ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ستارہ چل رہا ہے۔ اور لغت میں شہاب سے مراد روشن آگ ہے۔ اور ابو داؤد نے عامر شعبی سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا : جب حضور نبی مکرم ﷺ کی بعثت ہوئی تو شیاطین کو ستاروں کے ساتھ بھگایا گیا اس سے قبل وہ اس کے سبب نہ بھگائے جاتے تھے، پس وہ عبد یا لیل بن عمر و ثقفی کے پاس آئے اور کہا : بیشک لوگ خوفزدہ ہوگئے ہیں اور وہ اپنے غلاموں کو آزاد کرنے لگے ہیں اور انہوں نے اپنے جانور چھوڑ دیئے ہیں جب سے انہوں نے ستاروں میں دیکھا ہے۔ تو اس نے انہیں کہا : اور وہ نابینا آدمی تھا۔۔۔ ؟ تم جلدی نہ کرو اور حالات دیکھو اور غور و فکر کرو پس اگر ستارے وہ ہیں جو معروف ہیں اور پہچانے جاسکتے ہیں تو پھر یہ لوگوں کے فناہ ہونے کا وقت ہے، اور اگر وہ ستارے پہچانے نہیں جاسکتے تو یہ کوئی حادثہ ہے جو پیش آنے والا ہے۔ پس انہوں نے غور سے دیکھا تو وہ ستارے نہیں پہچانے جاسکتے تھے، تو انہوں نے کہا : یہ کوئی واقعہ پیش آنے والا ہے۔ پس ابھی زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ کے بارے سن لیا۔
Top