Mutaliya-e-Quran - Al-An'aam : 74
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةً١ۚ اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَ قَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم لِاَبِيْهِ : اپنے باپ کو اٰزَرَ : آزر اَتَتَّخِذُ : کیا تو بناتا ہے اَصْنَامًا : بت (جمع) اٰلِهَةً : معبود اِنِّىْٓ : بیشک میں اَرٰىكَ : تجھے دیکھتا ہوں وَقَوْمَكَ : اور تیری قوم فِيْ ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
ابراہیمؑ کا واقعہ یاد کرو جبکہ اُس نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا "کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے؟ میں تو تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں"
وَاِذْ [ اور جب ] قَالَ [ کہا ] اِبْرٰهِيْمُ [ ابرہیم نے ] لِاَبِيْهِ اٰزَرَ [ اپنے باپ آزر سے ] اَ [ کیا ] تَتَّخِذُ [ تو بناتا ہے ] اَصْنَامًا [ بتوں کو ] اٰلِهَةً ۚ [ الہ ] اِنِّىْٓ [ بیشک میں ] اَرٰىكَ [ خیال کرتاہوں تجھ کو ] وَقَوْمَكَ [ اور تیری قوم کو ] فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ [ ایک کھلی گمراہی میں ] ء زر : (ض) ازرا (1) گتھا ہواہونا ۔ مضبوط ہونا ۔ (2) تہبند باندھنا ۔ ازر ، اسم ذات ہے۔ (1) قوت (2) کمر (تہبند باندھنے کی جگہ ) اشددبہ ازری [ تو سخت کر اس سے میری قوت کو ] 20:31 ۔ ازر ، افعل تفضیل کا وزن ہے۔ زیادہ گتھا ہوا ۔ زیادہ مضبوط زیر مطالعہ آیت ۔ 74 میں یہ اسم علم کے طور پر آیا ہے۔ (مفاعلہ) موازرۃ ۔ کسی کو تقویت دینا ۔ مضبوط کرنا ۔ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ [ ایک ایسی کھیتی کی مانند جس نے نکالا اپنا خوشہ پھر اس نے مضبوط کیا اس کو ] 48:29 ۔ ص ن م : (س) صنما ، غلام کا قوی اور مضبوط ہونا۔ صنم (ج) اصنام ۔ کسی کا مجسمہ ، بت زیر مطالعہ آیت ۔ 74) ک و ک ب : (رباعی) کو کبۃ ۔ لوہے کا چمک اٹھنا ۔ جگ مگ کرنا ۔ کوکب ، ستارہ ، وَاِذَا الْكَوَاكِبُ انْـتَثَرَتْ [ اور جب ستارے جھڑجائیں گے ] 82:2 ۔ ءل : (ض۔ ن) افولا ، غروب ہونا ، ڈوب جانا۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 76 ۔ افل ۔ اسم الفاعل ہے ۔ غروب ہونے والا ۔ زیر مطالعہ آیت 76 ۔ ب ز غ : (ن) بزغا ، نشتر لگنے سے خون نکلنا ۔ نمودار ہونا ۔ طلوع ہونا ۔ بازغ ۔ اسم الفاعل ہے ، طلوع ہونے والا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 77 ۔ ترکیب : (6:74) ابی کا بدل ہونے کی وجہ سے ازر حالت جر میں ہے ۔ تتخذ کا مفعول اول اصناما ہے اور الہۃ اس کا مفعول ثانی ہے ۔ سلسلہ کلام اذ سے شروع ہوا ہے اس لئے نری (مضارع ) کا ترجمہ ماضی میں ہوگا ۔ (6:78) الشمس مونث غیر حقیقی ہے اس لئے اس کے لئے کہ ھذا اور کبری کی جگہ اکبر بھی جائز ہے ۔ نوٹ 1: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام آزر ہے ۔ تورات کے عربی اور انگریزی ترجموں اور تالمود ، سب میں اس لفظ کا تلفظ ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔ قرآن نے یہاں جس تصریح کے ساتھ اس نام کا ذکر کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں یہود کے ہاں روایات کا جو اختلاف ہے وہ اس کو رفع کرنا چاہتا ہے اور قرآن چونکہ براہ راست وحی الہی پر مبنی ہے اس لئے ماننا چاہیے کہ یہی نام صحیح ہے (تدبر قرآن ) یہ بات نوٹ کرلیں کہ ناموں میں تلظ کے اختلاف کا مسئلہ صرف آزر کے نام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔ بلکہ متعدد نام ایسے ہیں جن میں تلفظ کا اختلاف موجود ہے، مثلا یعقوب کو جیکب ، موسیٰ کو موسس ، یوسف کو جوزف کہنا ، وغیرہ ۔ نوٹ 2: آیات 76 تا 78 میں ستارہ ، چاند اور سورج کو دیکھنے کا جو ذکر ہے، یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس ابتدائی غور و فکر کی کیفیت بیان کی گئی ہے جو منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے ان کے لئے حقیقت تک پہنچے کا ذریعہ بنی ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ایک سوچنے سمجھنے والا انسان ، جس نے سراسر شرک کے ماحول میں آنکھ کھولی تھی ، کس طرح آثار کائنات کا مشاہدہ کرکے اور ان پر غور وفکر کرکے حقیقت معلوم کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب ہوش سنبھالا تو ان کے گرد وپیش ہر طرف چاند ، سورج اور تاروں کی خدائی کے ڈنکے بج رہے تھے۔ اس لئے قدرتی طور پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی جستجوئے حقیقت کا آغاز اسی سوال سے ہونا چاہیے تھا کہ کیا فی الواقع ان میں سے کوئی رب ہوسکتا ہے ؟ اسی مرکزی سوال پر انہوں نے غور و فکر کیا اور ان سارے خداؤں کو ایک اٹل قانون کے تحت غلاموں کی طرح گردش کرتے دیکھ کر وہ اس نتیجہ پر پہنچ گئے کہ ان میں سے کوئی بھی رب نہیں ہوسکتا ۔ رب صرف وہی ایک ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا اور اپنے حکم کا پابند کیا ۔ مذکورہ آیات کے الفاظ سے عام طور پر لوگوں کے ذہن میں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ ہر روز چاند تاروں اور سورج کو طلوع و غروب ہوتے نہ دیکھتے تھے، لیکن یہ کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے ۔ نیوٹن کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے باغ میں ایک سیب کو درخت سے گرتے دیکھا تو اس کے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ اشیاء آخر زمین پر ہی کیوں گرا کرتی ہیں ۔ اس پر غور کرتے ہوئے وہ کشش ثقل کے قانون تک پہنچ گیا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے نیوٹن نے کبھی کوئی چیز گرتی ہوئی نہیں دیکھی تھی ، ظاہر ہے کہ بار بار دیکھی ہوگی ۔ لیکن ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کسی چیز کو بارہا دیکھتا رہتا ہے اور اس کے ذہن میں کوئی تحریک نہیں ہوتی ، مگر کسی وقت اسی چیز کو دیکھ کر ذہن میں تحریک ہوتی ہے یا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے اور انسان کی غور وفکر کی قوتیں کام کرنے لگتی ہیں۔ ایسا ہی معاملہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ بھی پیش آیا ۔ سورج ، چاند اور تارے سب ہی ان کی آنکھوں کے سامنے ڈوبتے اور ابھرتے رہتے تھے، لیکن وہ ایک خاص دن تھا جب ایک تارے کے مشاہدے نے ان کے ذہن کو اس راہ پر ڈال دیا جس سے وہ توحید الہ کی حقیقت تک پہنچ گئے۔ اس سلسلہ میں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تارے ، چاند اور سورج کو دیکھ کر انہیں اپنا رب کہا، تو کیا اس وقت عارضی طور پر ہی سہی ، وہ شرک میں مبتلا نہ ہوگئے تھے، اس کا جواب یہ ہے کہ ایک طالب حق اپنی جستجو کی راہ میں سفر کرتے ہوئے بیچ کی جن منزلوں پر غور وفکر کے لئے ٹھہرتا ہے، اصل اعتبار ان منزلوں کا نہیں ہوتا ، بلکہ اصل اعتبار اس سمت کا ہوتا ہے جس پر وہ پیش قدمی کررہا ہے اور اس آخری مقام کا ہوتا ہے جہاں پہنچ کر وہ قیام کرتا ہے ۔ بیچ کی منزلیں ہر جویائے حق کے لئے ناگزیر ہیں ۔ ان پر ٹھہرنا بسلسلہ طلب و جستجو ہوتا ہے نہ کہ بصورت فیصلہ ۔ اصلا یہ ٹھہراؤسوالی واستفہامی ہوتا ہے نہ کہ حکمی ۔ طالب جب ان میں سے کسی منزل پر رک کر کہتا ہے کہ ” ایسا ہے “ تو دراصل یہ اس کی آخری رائے نہیں ہوتی بلکہ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ” ایسا ہے ؟ “ اور تحقیق سے اس کا جواب نفی میں پاکر وہ آگے بڑھ جاتا ہے ۔ اس لئے یہ خیال کرنا بالکل غلط ہے کہ اثنائے راہ میں جہاں جہاں وہ ٹھہرتا رہا وہاں وہ عارضی طور پر کفر وشرک میں مبتلا رہا (تفہیم القرآن )
Top