Mutaliya-e-Quran - Al-An'aam : 33
قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَیَحْزُنُكَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا یُكَذِّبُوْنَكَ وَ لٰكِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ
قَدْ نَعْلَمُ : بیشک ہم جانتے ہیں اِنَّهٗ : کہ وہ لَيَحْزُنُكَ : آپ کو ضرور رنجیدہ کرتی ہے الَّذِيْ : وہ جو يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں فَاِنَّهُمْ : سو وہ یقینا لَا يُكَذِّبُوْنَكَ : نہیں جھٹلاتے آپ کو وَلٰكِنَّ : اور لیکن (بلکہ) الظّٰلِمِيْنَ : ظالم لوگ بِاٰيٰتِ : آیتوں کو اللّٰهِ : اللہ يَجْحَدُوْنَ : انکار کرتے ہیں
اے محمدؐ! ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے، لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں
قَدْ نَعْلَمُ [ ہم جان چکے ہیں ] اِنَّهٗ [ کہ یہ حقیقت ہے کہ ] لَيَحْزُنُكَ [ بیشک غمگین کرتی ہے آپ کو ] الَّذِيْ [ وہ (بات) جو ] يَقُوْلُوْنَ [ یہ لوگ کہتے ہیں ] فَاِنَّهُمْ [ تو بیشک یہ لوگ ] لَا يُكَذِّبُوْنَكَ [ نہیں جھٹلاتے آپ کو ] وَلٰكِنَّ [ اور لیکن (یعنی بلکہ )] الظّٰلِمِيْنَ [ یہ ظالم لوگ ] بِاٰيٰتِ اللّٰهِ [ اللہ کی نشانیوں کا ] يَجْحَدُوْنَ [ جانتے بوجھتے انکار کرتے ہیں ] ج ح د : (ف) جحدا۔ اس کا انکار کرنا جس کا دل میں اقرار ہو ، جانتے بوجھتے انکار کرنا ۔ زیر مطالعہ آیت نمبر 33 ۔ ترکیب : انہ میں ضمیر الشان ہے ۔ (آیت نمب ر 2:85، نوٹ ۔ 1) الیحزنک کا فاعل الذی ہے ۔ الظلمین پر لام تعریف ہے ۔ (6:34) رسل اسم عاقل کی جمع مکسر ہے ۔ اس لئے واحد مونث کا صیغہ کذبت بھی جائز ہے۔ جاءک کا فاعل الباء محذوف ہے ۔ نبای میں یا زائدہ ہے ۔ یہ اصلا من نبا تھا المرسلین کا مضاف ہونے کی وجہ سے تنوین ختم ہوئی ہے ۔ (6:35) ان شرطیہ کی وجہ سے کان کا ترجمہ حال میں ہوگا ۔ فتاتیھم میں فاسببہ کی وجہ سے تاتی حالت نصب میں آیا ہے ۔ (6:37) نزل کا نائب فاعل ہونے کی وجہ سے آیۃ حالت میں رفع میں ہے ۔ نوٹ 1: رسول اللہ ﷺ جب دیکھتے تھے کہ اس قوم کو سمجھاتے ہوئے مدت گزر گئی ہے اور یہ راہ راست پر نہیں آتے تو آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اللہ کی طرف سے کوئی ایسی نشانی ظاہر ہو کہ یہ لوگ ایمان لے آئیں ۔ اس کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ اللہ کی اس حکمت کے خلاف ہے جس کے تحت اس نے انسان کو دنیا میں ایک ذمہ دار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے ، اسے تصرف کے اختیارات دئے ہیں، اطاعت اور نافرمانی کی آزادی بخشی ہے، امتحان کی مہلت عطا کی ہے اور اس کے طرز عمل کے مطابق جزا وسزا دینے کے لئے فیصلے کا ایک وقت مقرر کردیا ہے ۔ (تفہیم القرآن )
Top