Mutaliya-e-Quran - Al-Waaqia : 79
لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَؕ
لَّا يَمَسُّهٗٓ : نہیں چھوتے اس کو اِلَّا : مگر الْمُطَهَّرُوْنَ : مطہرین۔ پاکیزہ لوگ
جسے مطہرین کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا
[لَّا يَمَسُّهٗٓ: نہیں چھوتے اس کو ][ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ : مگر پاک کیے ہوئے ] نوٹ۔ 2: آیت ۔ 79 ۔ میں کفار کے اس الزام کی تردید ہے جو وہ قرآن پر لگاتے تھے کہ یہ کلام رسول اللہ ﷺ پر جن اور شیاطین القا کرتے ہیں اس کا جواب قرآن مجید میں متعدد مقامات پر دیا گیا ہے یہاں یہ ان الفاظ میں ہے کہ ” اسے مطہرین کے سوا کوئی نہیں چھوسکتا ۔ “ یعنی جن اور شیاطین کا اسے لانا یا اس کے نزول کے وقت اس میں دخل انداز ہونا تو درکنار ، جس وقت یہ لوح محفوظ سے نبی کریم ﷺ پر نازل کیا جاتا ہے اس وقت مطہرین یعنی پاک فرشتوں کے سوا کوئی قریب بھی نہیں پھٹک سکتا ۔ بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ کوئی ایسا شخص اسے نہ چھوئے جو پاک نہ ہو لیکن یہ تفسیر آیت کے سیاق وسباق سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ سیاق وسباق سے الگ کرکے تو اس کے الفاظ سے یہ مطلب نکالا جاسکتا ہے۔ مگر جس سلسلہ کلام میں یہ وارد ہوئی ہے اس میں رکھ کر اسے دیکھا جائے تو یہ بات کہنے کا کوئی موقع نظر نہیں آتا ۔ یہاں تو کفار مخاطب ہیں اور ان کو بتایا جارہا ہے کہ یہ رب العالمین کی نازل کردہ کتاب ہے اور تمہارا یہ گمان قطعی غلط ہے کہ اسے شیاطین نبی کریم ﷺ پر القا کرتے ہیں ۔ اس جگہ ایک شرعی حکم بیان کرنے کا کیا موقع ہوسکتا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ آیت یہ حکم دینے کے لیے نازل نہیں ہوئی ہے مگر فحوائے کلام اس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کتاب کو صرف مطہرین ہی چھو سکتے ہیں اسی طرح دنیا میں بھی ، کم از کم وہ لوگ جو اس کے کلام الہی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اسے ناپاکی کی حالت میں چھونے سے اجتناب کریں ۔ (تفہیم القرآن ) بعض مفسرین نے فرمایا کہ قرآن سے مراد وہ مصحف ہے جو ہمارے ہاتھوں میں ہے اور مطہرون سے مراد وہ لوگ ہیں جو نجاست سے پاک ہوں ۔ اس طرح آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ مصحف قرآن کو طہارت کے بغیر چھونا جائز نہیں ہے ۔ اس تفسیر کی ترجیح کے لیے بعض حضرات نے ان احادیث کو پیش کیا ہے جن میں غیر طاہر کو قرآن چھونے سے منع کیا گیا ہے ، مگر چونکہ اس مسلہ میں دوسرے صحابہ کر اختلاف ہے اور کچھ صحابہ کرام کے نزدیک اس آیت میں قرآن سے مراد وہ صحیفے ہیں جو وحی لانے والے فرشتوں کے ہاتھ میں دئیے جاتے ہیں ۔ جبکہ کچھ کے نزدیک مطہرون سے مراد فرشتے ہیں ، اس لیے بہت سے حضرات نے اس آیت سے استدلال کو چھوڑ کر صرف متعلقہ احادیث سے استدلال کیا ہے ۔ اس آیت کی تفسیر میں اختلاف کے باوجود جمہور امت اور ائمہ اربعہ یعنی حنفی ، شافعی ، مالکی اور حنبلی مسالک کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کو ہاتھ لگانے کے لیے طہارت شرط ہے اور اس کے خلاف کرنا گناہ ہے ۔ اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ یہ مسئلہ جو احادیث سے ثابت اور جمہور امت کے نزدیک مسلم ہے، کیا یہ بات قرآن کی اس آیت سے بھی ثابت ہے یا نہیں ۔ اس لیے اختلاف مسئلے میں نہیں ، بلکہ اس کی دلیل میں ہوا ہے۔ (معارف القرآن سے ماخذ ) حنفی اور شافعی مسلک میں تعلیم کے لیے قرآن مجید بچوں کے ہاتھ میں دیا جاسکتا ہے خواہ وہ وضو سے ہوں یا بےوضو ۔ جبکہ مالکی مسلک میں قرآن کی تعلیم کے لیے استاد اور شاگرد دونوں مستثنی ہیں ۔ بلکہ حائضہ عورت کے لیے بھی بغرض تعلیم مصحف کو ہاتھ لگانا جائز قرار دیا گیا ہے ۔ (تفہیم القرآن)
Top