Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 192
فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
فَاِنِ : پھر اگر انْتَهَوْا : وہ باز آجائیں فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
پھر اگر وہ باز آ جائیں، تو جان لو کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
[ فَاِنِ : پس اگر ] [ انْتَھَوْا : وہ لوگ باز آئیں ] [ فَاِنَّ اللّٰہَ : تو یقینا اللہ ] [ غَفُوْرٌ: بےانتہا بخشنے والا ہے ] [ رَّحِیْمٌ : ہر حال میں رحم کرنے والا ہے ] ن ھـ ی نَھٰی (ف) نَھْیًا : (1) کسی کام سے منع کرنا ‘ روکنا۔ (2) ذہین ہونا ‘ زیرک ہونا (تاکہ صحیح چیز سے روکے) ۔ { اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِط } (العنکبوت :45) ” بیشک نماز روکتی ہے بےحیائیوں سے اور برائی سے۔ “ اِنْہَ (فعل امر) : تو منع کر ‘ تو روک۔ { وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ } (لقمن :17) ” تو ترغیب دے نیکی کی اور منع کر برائی سے۔ “ نَاہٍ (اسم الفاعل) : منع کرنے والا۔ { اَلْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ } (التوبۃ :112) ” ترغیب دینے والے نیکی کی اور منع کرنے والے برائی سے۔ “ نُھٰی (اسم ذات) : ذہانت ‘ فراست۔ { اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّھٰی ۔ } (طٰہٰ ) ” یقینا اس میں نشانیاں ہیں ذہانت والوں کے لیے۔ “ تَنَاھٰی (تفاعل) تَنَاھِیًا : باہم ایک دوسرے کو روکنا۔ { کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنِ مُنْکَرٍ } (المائدۃ :79) ” وہ لوگ ایک دوسرے کو نہیں روکا کرتے تھے کسی برائی سے۔ “ اِنْتَھٰی (افتعال) اِنْتِھَائً : اہتمام سے خود کو منع کرنا ‘ رک جانا ‘ باز آنا۔ { اِنْ یَّنْتَھُوْا یُغْفَرْلَھُمْ } (الانفال :38) ” اگر وہ لوگ باز آجائیں تو انہیں معاف کردیا جائے گا۔ “ اِنْـتَہِ (فعل امر) : تو باز آ۔ { وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلٰـثَۃٌط اِنْتَھُوْا خَیْرًا لَّــکُمْط } (النسائ :171) ” اور تم لوگ مت کہو کہ (اللہ) تین ہیں۔ تم لوگ باز آئو ‘ تمہارے لیے بہتر ہے۔ “ مُنْتَھٍی (اسم الفاعل) : رکنے والا ‘ باز آنے والا۔ { فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ ۔ } (المائدۃ) ” تو کیا تم لوگ باز آنے والے ہو ؟ “ مُنْتَھًی (اسم المفعول ہے جو ظرف کے معنی میں استعمال ہوتا ہے) : رکنے کی جگہ۔ { عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی ۔ } (النجم) ” رکنے کے بیری کے درخت کے پاس۔ “ ترکیب : ” فَاِنِ انْـتَھَوْا “ شرط ہے اور ” فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ“ جواب شرط ہے۔ ” اِنْـتَھَوْا “ فعل ماضی میں جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے ‘ اس لیے اس پر حرفِ شرط ” اِنْ “ نے کوئی عمل نہیں کیا۔ نوٹ (1) : باز آنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر وہ لوگ اپنی پوجا پاٹ سے باز آجائیں ‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ لوگ اپنی تشدد کی روش سے باز آجائیں تو چونکہ اللہ تعالیٰ غفور اور رحیم ہے اس لیے تم بھی ان سے کچھ نہ کہو اور انہیں معاف کر دو ۔
Top