Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 193
وَ قٰتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰهِ١ؕ فَاِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِیْنَ
وَقٰتِلُوْھُمْ : اور تم ان سے لڑو حَتّٰى : یہانتک کہ لَا تَكُوْنَ : نہ رہے فِتْنَةٌ : کوئی فتنہ وَّيَكُوْنَ : اور ہوجائے الدِّيْنُ : دین لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاِنِ : پس اگر انْتَهَوْا : وہ باز آجائیں فَلَا : تو نہیں عُدْوَانَ : زیادتی اِلَّا : سوائے عَلَي : پر الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے پھر اگر وہ باز آ جائیں، تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں
[ وَقٰتِلُوْہُمْ : اور تم لوگ جنگ کرو ان سے ] [ حَتّٰی : یہاں تک کہ ] [ لاَ تَـکُوْنَ : نہ ہو ] [ فِتْنَۃٌ : کوئی تشدد ] [ وَّیَکُوْنَ : اور (یہاں تک کہ) ہو ] [ الدِّیْنُ : نظامِ حیات ] [ لِلّٰہِ : اللہ کے لیے ] [ فَاِنِ انْتَہَوْا : پھر اگر وہ لوگ باز آجائیں ] [ فَلاَ عُدْوَانَ : تو کسی قسم کی کوئی زیادتی نہیں ہے (ان پر) ] [ اِلاَّ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ : مگر ظلم کرنے والوں پر ] ترکیب :” حَتّٰی “ کے بعد ” اَنْ “ مقدر ہے جس کی وجہ سے ” لَا تَـکُوْنَ “ منصوب ہے اور یہ ” کَانَ “ تامّہ ہے۔ ” فِتْنَۃٌ“ اس کا فاعل ہے۔” یَکُوْنَ “ کی نصب بتارہی ہے کہ یہ ” تَـکُوْنَ “ پر عطف ہے۔ یہ ” کَانَ “ ناقصہ ہے اور ” اَلدِّیْنُ “ اس کا اسم ہے۔ ” لِلّٰہِ “ متعلق خبر محذوف ہے۔” فَلَا عُدْوَانَ “ پر لائے نفی ٔجنس ہے اور یہ مبتدأ ہے۔ اس کی خبر محذوف ہے جو کہ ” وَاجِبٌ“ یا ” ثَابِتٌ“ ہوسکتی ہے۔ قائم مقام خبر ” عَلَیْھِمْ “ بھی محذوف ہے۔ ” اِلاَّ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ “ اس کا استثناء ہے۔ نوٹ (1) : اوپر ترکیب میں ” کَانَ “ تامّہ کی بات ہوئی ہے ‘ اسے سمجھ لیں۔ ” کَانَ “ افعالِ ناقصہ میں سے ہے۔ اس لیے عام طور پر اس کا ایک اسم اور ایک خبر ہوتی ہے ‘ تب بات مکمل ہوتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی اس کا صرف اسم ہوتا ہے اور خبر کوئی نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں ” کَانَ “ فعل ہوتا ہے اور اس کا اسم دراصل اس کا فاعل ہوتا ہے اور فعل فاعل مل کر بات مکمل کردیتے ہیں۔ جیسا کہ اس آیت میں ہے۔ ایسے ” کَانَ “ کو ” کَانَتامّہ “ کہتے ہیں۔ نوٹ (2) : ” لاَ تَـکُوْنَ “ کا فاعل اگر ” اَلْفِتْنَۃُ “ ہوتا تو اس کا مطلب ہوتا کہ مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں پر جو تشدد ہو رہا ہے وہ ختم ہوجائے۔ لیکن یہاں پر ” فِتْنَۃٌ“ نکرہ لا کر ہدایت کی گئی ہے کہ جنگ کر کے جس تشدد کو تم نے ختم کیا ہے ‘ اب غالب ہونے کے بعد خود اس کا ارتکاب مت کرنا۔ اس لیے مذہب کی بنیاد پر کسی غیر مسلم پر کسی قسم کا تشدد جائز نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈبل اسٹینڈرڈ میڈ ان یو۔ ایس۔ اے کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مذہبی تشدد اگر ناجائز ہے تو پھر نظام حیات اللہ کے لیے ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ غلبہ حاصل کرنے کے بعد اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے Personal Laws ان کے عقائد و نظریات کے مطابق ہی رہیں گے اور انہیں ان پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہوگی۔ جبکہ دین اللہ کے لیے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے Public Laws قرآن و سنت کے مطابق ہوں گے۔ نوٹ (3) : ” فَــلَا عُدْوَانَ “ میں اصل ہدایت یہ ہے کہ غلبہ حاصل کرنے کے بعد مغلوب مخالفین کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہ کی جائے۔ البتہ اس سے وہ لوگ مستثنیٰ ہوں گے جن کے جرائم کی نوعیت زیادہ سنگین اور فہرست طویل ہو۔ جنگ بدر کے تمام جنگی قیدی رہا کیے گئے ‘ لیکن دو کو قتل کیا گیا۔ فتح مکہ میں عام معافی کے اعلان کے ساتھ سترہ افراد کو مستثنیٰ قرار دیا گیا جن میں سے چار قتل بھی کیے گئے۔
Top