Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 167
وَ قَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّاَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّا١ؕ كَذٰلِكَ یُرِیْهِمُ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ مَا هُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّارِ۠   ۧ
وَقَالَ : اور کہیں گے الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اتَّبَعُوْا : پیروی کی لَوْ اَنَّ : کاش کہ لَنَا : ہمارے لیے كَرَّةً : دوبارہ فَنَتَبَرَّاَ : تو ہم بیزاری کرتے مِنْهُمْ : ان سے كَمَا : جیسے تَبَرَّءُوْا : انہوں نے بیزاری کی مِنَّا : ہم سے كَذٰلِكَ : اسی طرح يُرِيْهِمُ : انہیں دکھائے گا اللّٰهُ : اللہ اَعْمَالَهُمْ : ان کے اعمال حَسَرٰتٍ : حسرتیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَمَا ھُمْ : اور نہیں وہ بِخٰرِجِيْنَ : نکلنے والے مِنَ النَّار : آگ سے
اور وہ لوگ جو دنیا میں اُن کی پیروی کرتے تھے، کہیں گے کہ کاش ہم کو پھر ایک موقع دیا جاتا تو جس طرح آج یہ ہم سے بیزاری ظاہر کر رہے ہیں، ہم اِن سے بیزار ہو کر دکھا دیتے یوں اللہ اِن لوگوں کے وہ اعمال جو یہ دنیا میں کر رہے ہیں، ان کے سامنے اِس طرح لائے گا کہ یہ حسرتوں اور پشیمانیوں کے ساتھ ہاتھ ملتے رہیں گے مگر آگ سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے
[ وَقَالَ : اور کہیں گے ] [ الَّذِیْنَ : وہ لوگ جنہوں نے ] [ اتَّـبَعُوْا : پیروی کی ] [ لَوْ اَنَِّ : کاش کہ ] [ لَنَا : ہمارے لیے ہوتی ] [ کَرَّۃً : کوئی ایک اور باری ] [ فَنَتَبَرَّاَ : تاکہ ہم اظہارِ بیزاری کرتے ] [ مِنْھُمْ : ان سے ] [ کَمَا : جیسے کہ ] [ تَبَرَّئُ وْا : انہوں نے اظہار بیزاری کیا ] [ مِنَّا : ہم سے ] [ کَذٰلِکَ : اس طرح ] [ یُرِیْھِمُ : دکھائے گا ان کو ] [ اللّٰہُ : اللہ ] [ اَعْمَالَھُمْ : ان کے اعمال ] [ حَسَرٰتٍ : حسرتیں ہوتے ہوئے ] [ عَلَیْھِمْ : ان پر ] [ وَمَا ھُمْ : اور نہیں وہ لوگ ] [ بِخٰرِجِیْنَ : نکلنے والے ] [ مِنَ النَّارِ : آگ سے ] ک ر ر کَرَّ (ن) کَرُوْرًا : لوٹنا ‘ مڑنا۔ کَرًّا : لوٹانا ‘ موڑنا۔ کَرَّۃٌ : ایک مرتبہ لوٹنا یا لوٹایا جانا ‘ یعنی دوسری باری ‘ دوسری اننگ۔ آیت زیر مطالعہ ح س ر حَسَرَ (ض) حَسْرًا : تھکانا ‘ غمگین کرنا۔ حَسِرَ (س) حَسَرًا : تھکنا ‘ غمگین ہونا۔ حَسْرَۃٌ ج حَسَرَاتٌ (اسم ذات) : تأسف ‘ حسرت ۔ { لِیَجْعَلَ اللّٰہُ ذٰلِکَ حَسْرَۃً فِیْ قُلُوْبِھِمْ ط } (آل عمران :156) ” تاکہ بنائے اللہ اس کو حسرت ان کے دلوں میں۔ “ حَسِیْرٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت): غم زدہ ‘ ناکام۔ { یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّھُوَ حَسِیْرٌ ۔ } (الملک :4) ” لوٹے گی تیری طرف نگاہ تھکی ہوئی اور وہ ناکام ہوگی “۔ مَحْسُوْرٌ (مَفْعُوْلٌ کے وزن پر صفت) : تھکایا ہوا ‘ تھکاہارا۔ { فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ۔ } (بنی اسرائیل ) ” کہ پھر تو بیٹھے ملامت زدہ تھکا ہارا ہوتے ہوئے۔ “ اِسْتَحْسَرَ (استفعال) اِسْتِحْسَارًا : تھکاوٹ محسوس کرنا ‘ سستی کرنا ‘ کاہلی کرنا۔ { لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَلَا یَسْتَحْسِرُوْنَ ۔ } (الانبیائ) ” وہ لوگ استکبار نہیں کرتے اس کی عبادت سے اور نہ ہی سستی کرتے ہیں۔ “ ترکیب : ” لَوْاَنَّ “ کا ” لَوْ “ تمنی ہے۔ ” کَرَّۃً “ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے اور ” اَنَّ “ کا اسم ہونے کی وجہ سے نصب میں ہے۔ اس کی خبر محذوف ہے اور ” لَنَا “ قائم مقام خبر مقدم۔ ” فَنَتَبَرَّاَ “ میں مضارع منصوب آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس سے پہلے ” لام کَیْ “ یا ” لِاَنْ “ محذوف ہے۔ ” یُرِیْ “ کا فاعل ” اَللّٰہُ “ ہے ‘ اس کا مفعول اوّل ” ھُمْ “ کی ضمیر ہے جو ” قَالَ الَّذِیْنَ “ کے لیے ہے جبکہ ” اَعْمَالَھُمْ “ اس کا مفعول ثانی ہے اور ” حَسَرٰتٍ “ حال ہونے کی وجہ سے نصب میں آیا ہے۔ نوٹ (1) : سورة البقرۃ کی آیت 48 اور 123 میں اصولی بات بیان کی گئی ہے کہ کوئی جان کسی جان کے کام نہیں آئے گی۔ اسی اصول کو دوسرے الفاظ میں پانچ مقامات پر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ (الانعام :164‘ بنی اسرائیل :15‘ فاطر :18‘ الزمر :7‘ النجم :38) ۔ اس اصول کے ایک پہلو کا نقشہ آیت زیر مطالعہ اور اس سے پچھلی آیت میں کھینچا گیا ہے۔ جب کسی کا کوئی باہم مشورہ یا فتویٰ غلط ثابت ہوگا اور ان پر آنکھ بند کر کے عمل کرنے والوں کو پکڑا جائے گا یا کسی پیر صاحب کی غلطی پر ان کے مرید پکڑے جائیں گے ‘ تو پھر اس وقت کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا۔
Top