Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 166
اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَ رَاَوُا الْعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْبَابُ
اِذْ تَبَرَّاَ : جب بیزار ہوجائیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اتُّبِعُوْا : پیروی کی گئی مِنَ : سے الَّذِيْنَ : جنہوں نے اتَّبَعُوْا : پیروی کی وَرَاَوُا : اور وہ دیکھیں گے الْعَذَابَ : عذاب وَتَقَطَّعَتْ : اور کٹ جائیں گے بِهِمُ : ان سے الْاَسْبَابُ : وسائل
جب وہ سزا دے گا اس وقت کیفیت یہ ہوگی کہ وہی پیشوا اور رہنما، جن کی دنیا میں پیروی کی گئی تھی، اپنے پیروؤں سے بے تعلقی ظاہر کریں گے، مگر سزا پا کر رہیں گے اور ان کے سارے اسباب و وسائل کا سلسلہ کٹ جائے گا
[ اِذْ تَـبَرَّاَ : جب اظہارِ بیزاری کریں گے ] [ الَّذِیْنَ : وہ لوگ جن کی ] [ اتُّبِعُوْا : پیروی کی گئی ] [ مِنَ الَّذِیْنَ : ان لوگوں سے جنہوں نے ] [ اتَّبَعُوْا : پیروی کی ] [ وَرَاَوُا : اور وہ لوگ دیکھیں گے ] [ الْعَذَابَ : عذاب کو ] [ وَتَقَطَّعَتْ : اور کٹ جائیں گے بِھِمُ : ان کے ] [ الْاَسْبَابُ : سارے بندھن ] س ب ب سَبَّ (ن) سَبًّا : (1) رسّی کاٹنا ‘ تعلقات کے بندھن کاٹنا۔ (2) گالی دینا (کیونکہ اس سے تعلقات منقطع ہوتے ہیں) ۔ { وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ } (الانعام :108) ” اور تم لوگ گالی مت دو ان لوگوں کو جو پکارتے ہیں اللہ کے علاوہ کسی کو ‘ تو وہ لوگ برا کہیں گے اللہ کو۔ “ سَبَبٌ ج اَسْبَابٌ (اسم ذات) : ایسی رسّی جس سے درخت پر چڑھا اور اترا جاتا ہے۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے : (1) رسّی (2) بندھن ‘ تعلقات (3) ذریعہ ‘ سامان۔ { فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَی السَّمَآئِ } (الحج :15) ” تو اسے چاہیے کہ وہ تان لے کوئی رسّی آسمان کی طرف۔ “{ وَاٰتَیْنٰہُ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ سَبَبًا ۔ } (الکہف) ” اور ہم نے دیا اس کو ہر چیز میں سے بطور سامان کے “۔” تعلقات “ کے مفہوم کے لیے آیت زیر مطالعہ دیکھیں۔ ترکیب : ” تَبَرَّاَ “ کا فاعل ” اَلَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا “ ہے ‘ جبکہ ” مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا “ اس کا مفعول ہے۔ ” رَاَوْا “ کا فاعل اس میں شامل ” ھُمْ “ کی ضمیر ہے جو گزشتہ جملہ کے فاعل اور مفعول دونوں کے لیے ہے۔” الْعَذَابَ “ اس کا مفعول ہے۔” تَقَطَّعَتْ “ کا فاعل ” الْاَسْبَابُ “ ہے ‘ اس پر لام جنس ہے ۔ اور چونکہ یہ غیر عاقل کی جمع مکسر ہے اس لیے فعل واحد مؤنث آیا ہے۔ یہاں قیامت کا ذکر ہے اس لیے ماضی کا ترجمہ مستقبل میں ہوگا۔
Top