Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 153
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَعِيْنُوْا : تم مدد مانگو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلٰوةِ : اور نماز اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
(یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا : اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! ) (اسْتَعِیْنُوْا : تم لوگ مدد طلب کرو (اللہ کی) بِالصَّبْرِ : ثابت قدمی کے ذریعے ) (وَالصَّلٰوۃِ : اور نماز کے ذریعے) (اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ) (مَعَ الصّٰبِرِیْنَ : ثابت قدم لوگوں کے ساتھ ہے) ص ب ر صَبَرَ (ض) صَبْرًا : مشکل اور ناموافق حالات میں عقل کے تقاضے پر قائم رہنا ‘ ثابت قدم رہنا ‘ برداشت کرنا۔ { فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّھُمْ ط } (الاحقاف :35) ” تو آپ ﷺ ثابت قدم رہیں جیسے کہ ثابت قدم رہے عزم والے رسولوں میں سے اور آپ ﷺ جلدی نہ کریں ان کے لیے (یعنی کافروں کے لیے عذاب کی جلدی نہ کریں) “ { وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ۔ } (الشوریٰ ) ” اور بیشک جس نے برداشت کیا اور معاف کیا تو یقینا یہ حوصلے کے کاموں میں سے ہے۔ “ اِصْبِرْ (فعل امر) : تو ثابت قدم رہ ‘ تو برداشت کر۔ اس کے لیے سورة الاحقاف کی آیت 35 ملاحظہ کیجئے ! صَابِرٌ (اسم الفاعل) : ثابت قدم رہنے والا ‘ برداشت کرنے والا۔ { اِنْ یَّــکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ ج } (الانفال :65) ” اگر ہوں تم میں بیس ثابت قدم رہنے والے ( جھیلنے والے ) تو وہ لوگ غالب ہوں گے دو سو پر۔ “ صَبَّارٌ: فَعَّالٌکے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ مراد ہے بہت زیادہ ثابت قدم رہنے والا ‘ بہت زیادہ جھیلنے اور برداشت کرنے والا۔ { اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ ۔ } (ابراہیم) ” بیشک اس میں نشانیاں ہیں ہر ایک بہت زیادہ ثابت قدم رہنے والے شکر گزار کے لیے۔ “ صَبْرٌ (اسم ذات) : ثابت قدمی ‘ برداشت۔{ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ۔ } (العصر) ” اور انہوں نے باہم تاکید کی حق کی اور باہم تاکید کی ثابت قدمی کی۔ “ صَابَرَ (مفاعلہ) مُصَابَرَۃً : کسی کے مقابلہ پر ثابت قدمی میں غالب آنے کی کوشش کرنا۔ صَابِرْ ج صَابِرُوْا (فعل امر) : ثابت قدمی میں غالب آئو یا غالب رہو۔ { یٰٓـــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا قف } (آل عمران :200) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! تم لوگ ثابت قدم رہو اور ثابت قدمی میں غالب رہو اور باہم رابطہ رکھو۔ “ اِصْطَبَرَ (افتعال) اِصْطِبَارًا : اہتمام سے ڈٹے رہنا۔ اِصْطَبِرْ (فعل امر) : اہتمام سے ڈٹے رہو۔{ وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا ط } (طٰہٰ :132) ” اور حکم دو اپنے گھر والوں کو نماز کا اور خود ڈٹے رہو اس (نماز) پر “۔ ترکیب : ” یٰٓـایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا “ میں ” یا “ حرفِ ندائ ” اَیُّ “ منادیٰ نکرہ معینہ مقصودہ مبنی علی الضم مبدل منہ ” ھَا “ حرفِ تنبیہہ۔ ” الَّذِیْنَ “ اسم موصول ” اٰمَنُوْا “ میں ” واو “ ضمیر بارز مرفوع متصل فاعل۔ فعل+فاعل جملہ فعلیہ ہوکر صلہ۔ موصول صلہ مل کر بدل۔ مبدل منہ اور بدل مل کر منادیٰ ۔ ندا اور منادیٰ مل کر مبتدأ۔ ” اِسْتَعِیْنُوْا “ فعل+فاعل ” بِالصَّبْرِ “ جار مجرور متعلق ” اِسْتَعِیْنُوْا “ ۔ ” وَالصَّلٰوۃِ “ میں ” واو “ حرفِ عطف ” الصَّلٰوۃِ “ معطوف بر ” الصَّبْرِ “۔” اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ “ میں ” اِنَّ “ حرف مشبہ بالفعل۔ لفظ ” اللہ “ اس کا اسم۔ ” مَعَ “ ظرف مکان مضاف ” الصّٰبِرِیْنَ “ مضاف الیہ۔ مضاف+ مضاف الیہ کا متعلق ” مَوْجُوْدٌ“ ہے جو خبر محذوف ہے۔ ” اِنَّ “ اپنے اسم اور خبر سے مل کر جملہ اسمیہ تعلیلیہ لامحل لھا من الاعراب۔ استعانت کے افعال کا مفعول ‘ یعنی جس کی مدد طلب کی جائے ‘ وہ بنفسہٖ آتا ہے اور جس چیز کے ذریعہ اس کی مدد حاصل کی جائے اس پر ” بِ “ کا صلہ آتا ہے۔ اس آیت میں ” اسْتَعِیْنُوْا “ کے ساتھ ” بِالصَّبْرِ “ آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ ” اسْتَعِیْنُوْا “ کا مفعول محذوف ہے جو کہ اللہ ہے اور ” بِالصَّبْرِ “ متعلق فعل ہے۔ ” وَالصَّلٰوۃِ “ کی جربتا رہی ہے کہ یہ بھی ” بِ “ کے صلہ کے زیر اثر ہے۔ ” اِنَّ “ کا اسم منصوب ہوتا ہے اس لیے ” اِنَّ ھِیَ “ نہیں آسکتا ‘ کیونکہ ” ھِیَ “ ضمیر مرفوعہ ہے۔ چناچہ ” اِنَّ “ کے ساتھ ضمیر منصوبہ ” ھَا “ آئی ہے جو کہ صلوٰۃ کے لیے ہے۔
Top