Mutaliya-e-Quran - Al-Israa : 24
وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ
وَاخْفِضْ : اور جھکا دے لَهُمَا : ان دونوں کے لیے جَنَاحَ : بازو الذُّلِّ : عاجزی مِنَ : سے الرَّحْمَةِ : مہربانی وَقُلْ : اور کہو رَّبِّ : اے میرے رب ارْحَمْهُمَا : ان دونوں پر رحم فرما كَمَا : جیسے رَبَّيٰنِيْ : انہوں نے میری پرورش کی صَغِيْرًا : بچپن
اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو، اور دعا کیا کرو کہ "پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح اِنہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا"
[وَاخْفِضْ : اور تو بچھا ] [لَهُمَا : دونوں کے لئے ] [جَنَاحَ الذُّلِ : تابعداری کا پہلو ] [مِنَ الرَّحْمَةِ : رحمت سے ] [وَقُلْ : اور تو کہہ ] [رَّبِ : اے میرے رب ] [ارْحَمْهُمَا : تو رحم کر دونوں پر ] [كَمَا : جیسے کہ ] [رَبَّيٰنِيْ : ان دونوں نے تربیت کی میری ] [صَغِيْرًا : چھوٹا ہوتے ہوئے (یعنی بچپن میں)] نوٹ۔ 1: معارف القرآن کی جلد۔ 5 کے صفحات۔ 451 تا 457 میں والدین کے حقوق پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ ہم اس کے چند اقتباسات ذیل میں نقل کر رہے ہیں۔ 1 ۔ امام قرطبی (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے ادب و احترام اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کو اپنی عبادت کے ساتھ ملا کر واجب کیا ہے۔ جیسا کہ سورة لقمان (آیت نمبر۔ 14) میں اپنے شکر کے ساتھ والدین کے شکر کو ملا کر لازم فرمایا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے شکر کی طرح والدین کا شکر گزار ہونا واجب ہے۔ (میرے خیال میں یہ بات ہمیں اس طرح سمجھنا چاہیے کہ اللہ کی اطاعت کے ساتھ والدین کی اطاعت اور اللہ کے شکر کے ساتھ والدین کا شکر لازم و ملزوم ہیں۔ مرتب) 2 ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کے لئے اپنے ماں باپ کا فرمانبردار رہا اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھلے رہیں گے۔ اور جو ان کا نافرمان ہوا اس کے لئے جہنم کے دو دروازے کھلے رہیں گے اور اگر ماں باپ میں سے کوئی ایک ہی تھا تو ایک دروازہ ۔ اس پر ایک شخص نے سوال کیا کہ یہ جہنم کی وعید اس صورت میں بھی ہے کہ ماں باپ نے اس پر ظلم کیا ہو تو آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا وَاِنْ ظَلَمَا۔ وَ اِنْ ظَلَمَا۔ وَ اِنْ ظَلَمَا۔ (اور اگر ان دونوں نے ظلم کیا) ۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ اولاد کو ماں باپ سے انتقام لینے کا حق نہیں ہے۔ اگر انہوں نے ظلم کیا تو اسے اجازت نہیں ہے کہ وہ ان کی خدمت اور اطاعت سے ہاتھ کھینچ لے۔ 3 ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی رضا باپ کی رضا میں ہے اور اللہ کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے۔ (میں نے ایک عالم دین سے پوچھا تھا کہ ماں اور باپ میں سے کس کا حق زیادہ ہے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ خدمت گزاری میں ماں کا حق باپ سے زیادہ ہے اور اطاعت میں باپ کا حق ماں سے زیادہ ہے۔ مرتب) 4 ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اور سب گناہوں کی سزا تو اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں قیامت تک مؤخر کردیتے ہیں بجز والدین کی حق تلفی اور نافرمانی کے کہ اس کی سزا آخرت سے پہلے دنیا میں بھی دی جاتی ہے۔ 5 ۔ اس پر علماء و فقہاء کا اتفاق ہے کہ والدین کی اطاعت صرف جائز کاموں میں واجب ہے۔ ناجائز یا گناہ کے کام میں واجب تو کیا جائز بھی نہیں ہے۔ (کیونکہ) حدیث میں ہے کہ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ 6 ۔ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جہاد میں شریک ہونے کی اجازت لینے کے لئے حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے والدین زندہ ہیں۔ اس نے کہا کہ ہاں زندہ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا فَفِیْھِمَا فَجَاھِدْ (تو ان دونوں میں پھر تم جہاد کرو) ۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی خدمت میں ہی تمہیں جہاد کا ثواب مل جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب تک جہاد فرض کفایہ کے درجے میں ہے اس وقت تک کسی کے لئے والدین کی اجازت کے بغیر جہاد میں شریک ہونا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح جب تک کوئی کام فرض کفایہ کے درجے میں ہو تو اولاد کے لئے وہ کام ماں باپ کی اجازت کے غیر کرنا جائز نہیں ہے۔ جس کو بقدر فرض دین کا علم حاصل ہے وہ عالم بننے کے لئے سفر کرے یا لوگوں کو تبلیغ و دعوت کے لئے سفر کرے تو یہ والدین کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے۔ 7 ۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ( ﷺ) ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کا کوئی حق میرے ذمہ باقی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں۔ ان کے لئے دعاء مغفرت اور استغفار کرنا اور جو عہد انھوں نے کسی سے کیا تھا اس کو پورا کرنا اور ان کے دوستوں کا احترام کرنا اور ان کے ایسے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا جن کا رشتہ صرف ان ہی کے واسطے سے ہے۔ والدین کے یہ حقوق ہیں جو ان کے بعد بھی تمہارے ذمہ باقی ہیں۔ 8 ۔ والدین اگر مسلمان ہوں تو ان کے لئے رحمت کی دعا ظاہر ہے۔ لیکن اگر وہ مسلمان نہ ہوں تو ان کی زندگی میں یہ دعا (وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا) اس نیت سے جائز ہوگی کہ ان کو دنیا کی تکالیف سے نجات ہو اور ایمان کی توفیق ہو۔ لیکن مرنے کے بعد ان کے لئے یہ دعائِ رحمت جائز نہیں ہے۔ 9 ۔ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ میرے باپ نے میرا مال لے لیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے باپ کو بلا کر لائو۔ اسی وقت حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور کہا کہ جب اس کا باپ آجائے تو آپ ﷺ اس سے پوچھیں کہ وہ کلمات کیا ہیں جو اس نے دل میں کہے ہیں اور خود اس کے کانوں نے بھی ان کو نہیں سنا۔ جب وہ اپنے والد کو لے کر آیا تو آپ ﷺ نے اس سے کہا کہ تمہارا بیٹا شکایت کرتا ہے۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اس کا مال چھین لو۔ والد نے کہا کہ آپ ﷺ اس سے پوچھیں کہ میں اس کی پھوپھی، خالہ یا اپنے نفس کے سوا کہاں خرچ کرتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اِیْہ “ اس کا مطلب یہ تھا کہ بس حقیقت معلوم ہوگئی۔ اب اور کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد اس کے والد سے پوچھا کہ وہ کلمات کیا ہیں جن کو ابھی تک خود تمہارے کانوں نے بھی نہیں سنا۔ اس نے کہا یا رسول اللہ ( ﷺ) اللہ تعالیٰ ہر معاملہ میں آپ ﷺ پر ہمارا ایمان بڑھا دیتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ میں نے چند اشعار دل میں کہے تھے جن کو میرے کانوں نے بھی نہیں سنا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ ہمیں سنائو۔ اس نے وہ اشعار سنائے جن کا ترجمہ یہ ہے۔ ” میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور جوان ہونے کے بعد بھی تیری ذمہ داری۔ تیرا سب کھانا پینا میری ہی کمائی سے تھا۔ جب کسی رات میں تجھے کوئی بیماری پیش آگئی تو میں نے تمام رات بیداری اور بیقراری میں گزاری۔ گویا کہ تیری بیماری مجھے ہی لگی ہے جس کی وجہ سے تمام شب روتا رہا۔ میرا دل تیری ہلاکت سے ڈرتا رہا حالانکہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے جو آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔ پھر جب تم اس عمر کو پہنچ گئے جس کی میں تمنا کیا کرتا تھا تو تو نے میرا بدلہ سخت کلامی بنادیا گویا کہ تو ہی مجھ پر احسان کر رہا ہے۔ کاش اگر تجھ سے میرے باپ ہونے کا حق ادا نہیں ہوسکتا تو کم از کم ایسا ہی کرلیتا جیسا ایک شریف پڑوسی کیا کرتا ہے۔ “ رسول اللہ ﷺ نے یہ اشعار سن کر بیٹے کا گریبان پکڑ لیا اور فرمایا اَنْتَ وَ مَالُکَ لِاَبِیْکَ یعنی تو بھی اور تیرا مال بھی تیرے باپ کے لئے ہے۔ (ڈاکٹر غلام مرتضیٰ مرحوم نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا تھا کہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ بیوی بچوں کا خرچ پورا نہیں ہوتا تو والدین کو کہاں سے دیں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ میرے بھائی آپ کا سوال غلط ہے۔ اگر آپ مجھ سے پوچھتے کہ والدین کا خرچ پورا نہیں ہوتا تو بیوی بچوں کو کہاں سے دیں، پھر میں آپ کو بتاتا کہ آپ کو کیا کرنا چاہیے۔ مرتب) نوٹ۔ 2: فضول خرچی کے معنی کو قرآن حکیم نے دو لفظوں سے تعبیر فرمایا ہے، ایک تبذیر اور دوسرا اسراف تبذیر کی ممانعت تو زیر مطالعہ آیت۔ 26 سے واضح ہَے جبکہ اسراف کی ممانعت وَلَاتُسْرِفُوْا (الاعراف۔ 31) سے ثابت ہے۔ بعض حضرات نے یہ تفصیل کی ہے کہ کسی گناہ میں یا بالکل بےموقع اور بےمحل خرچ کرنے کو تبذیر کہتے ہیں۔ اور جہاں خرچ کرنے کا جائز موقع تو ہو مگر ضرورت سے زیادہ خرچ کیا جائے تو اس کو اسراف کہتے ہیں۔ اس لئے تبذیر بہ نسبت اسراف کے زیادہ سخت ہے اور مبذرین کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔ (معارف القرآن)
Top