Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 154
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ
وَ : اور اِلٰي : طرف مَدْيَنَ : مدین اَخَاهُمْ : ان کے بھائی شُعَيْبًا : شعیب قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : نہیں تمہارا مِّنْ : سے اِلٰهٍ : معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا قَدْ جَآءَتْكُمْ : تحقیق پہنچ چکی تمہارے پاس بَيِّنَةٌ : ایک دلیل مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَاَوْفُوا : پس پورا کرو الْكَيْلَ : ناپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول وَلَا تَبْخَسُوا : اور نہ گھٹاؤ النَّاسَ : لوگ اَشْيَآءَهُمْ : ان کی اشیا وَلَا تُفْسِدُوْا : اور فساد نہ مچاؤ فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں بَعْدَ : بعد اِصْلَاحِهَا : اس کی اصلاح ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور ہر راہ میں دھمکیاں دیتے، اہل ایمان کو اللہ کی راہ سے روکتے اور اس راہ کو کج کرتے نہ بیٹھو۔ یاد کرو جب کہ تم تھورے تھے تو تم کو خدا نے زیادہ کیا اور دیکھو فساد برپا کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا !
وَلَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَتَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَتَبْغُوْنَهَا عِوَجًا۔ یہ قوم کے سرکشوں کی ان سرگرمیوں کی طرف اشارہ ہے جو وہ حضرت شعیب کے ساتھیوں کو ہراساں اور خوف زدہ کرنے اور ایمان کی راہ سے ہٹانے کے لیے اختیار کیے ہوئے تھے۔ معلوم ہوتا ہے جگہ جگہ ہر نکڑ پر گنڈے سرِ راہ بیٹھ جاتے اور جہاں کوئی مسلمان مل جاتا اس کے در پئے آزار ہوجاتے۔ اس کو ڈراتے دھمکاتے کہ وہ حضرت شعیب کا ساتھ اور ایمان کی راہ چھوڑ کر پھر ان کے طریقہ پر آجائے۔ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًا کی وضاحت ہم دوسری جگہ کرچکے ہیں۔ خدا تک پہنچنے کی راہ توحید ہے۔ اس راہ میں کجی کرنے کے معنی اس کو شرک کی پگڈنڈیوں کی طرف موڑنے اور لوگوں و توحید سے ہٹٓ کر گمراہی کے راستوں پر ڈالنے کے ہیں۔ وَاذْكُرُوْٓا اِذْ كُنْتُمْ قَلِيْلًا فَكَثَّرَكُمْ ۠ وَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ۔ پہلے جملے میں شکر کی دعوت اور دوسرے جملے میں کفرانِ نعمت کے انجام کی طرف اشارہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم چھوٹے سے خاندان کی شکل میں اس علاقے میں آکر بسے تھے۔ پھر خدا نے تم کو ایک طاقتور قوم بنا دیا۔ تمہاری تعداد کی کثرت کے ساتھ تمہارے اسباب معیشت و تمدن میں بھی اضافہ ہوا یہاں تک کہ اسباب و وسائل کے اعتبار سے تم اس درجے کو پہنے جو آج تمہیں حاصل ہے۔ یہ سب اللہ کی دین ہے اور اس کا فطری تقاضا یہ ہے کہ خدا کے شکر گزار بنو اور زندگی کی وہ روش اختیار کرو جو خدا کو پسند ہے۔ لیکن تم نے اس کے برخلاف کفرانِ نعمت اور سرکشی کی راہ اختیار کی اور خدا کی زمین اس کی اصلاح کے بعد فساد مچا رہے ہو تو مفسدین کے انجام کو نہ بھولو۔ تمہارے دائیں بائیں ثمود اور قوم لوط کے آثار تباہی موجود ہیں۔ ان کے انجام سے سبق حاصل کرو۔
Top