Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 87
وَ مِنْ اٰبَآئِهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ اِخْوَانِهِمْ١ۚ وَ اجْتَبَیْنٰهُمْ وَ هَدَیْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
وَ : اور مِنْ : سے (کچھ) اٰبَآئِهِمْ : ان کے باپ دادا وَذُرِّيّٰتِهِمْ : اور ان کی اولاد وَاِخْوَانِهِمْ : اور ان کے بھائی وَاجْتَبَيْنٰهُمْ : اور ہم نے چنا انہیں وَهَدَيْنٰهُمْ : اور ہم نے ہدایت دی انہیں اِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
اور اس کے آبائو اجداد میں سے اور ان کی اولادوں اور بھائیوں میں سے ہم نے انہیں منتخب کیا اور ان کو سیدھے راستے کی ہدایت دی۔
ربط آیات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس دلیل کا ذکر ہوچکا ہے جو انہوں نے توحید باری تعالیٰ کے حق میں اپنی قوم کے سامنے پیش کی۔ پھر اللہ نے بطور احسان فرمایا کہ یہ دلیل ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو سمجھائی۔ اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کی اولاد پر کئے گئے احسانات کا ذکر بھی کیا ‘ آپ کو جلیل القدر اور عالی مرتبت بیٹے عطا کئے جن کی نسل سے ہزاروں انبیاء مبعوث ہوئے۔ اولاد کا نجیب ہونا باعث شرف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جدامجد حضرت نوح (علیہ السلام) کا تذکرہ بھی کیا کہ موجودہ نبی نوع انسان آپ ہی کی اولاد ہے ۔ طوفان نوح میں تمام کافر مشرک ہلاک ہوگئے تھے اور پھر آگے نسل انسان آپ کے تین بیٹوں حام ‘ سام اور یافث کے واسطے سے ہی چلی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد سلسلہ نبوت اور رشد و ہدایت آپ ہی کی نسل میں قائم ہوا۔ آپ کی اولاد سے اللہ نے بڑے عالیشان رسول اور حضرت دائود اور سلیمان (علیہما السلام) جیسے خلیفتہ اللہ پیدا فرمائے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) اور یوسف (علیہ السلام) پر بڑی بڑی آزمائشیں آئیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت (علیہ السلام) کو عظیم معجزات عطا کئے۔ یہ سب انبیاء اور رسل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں ۔ پھر اللہ نے اپنے ان بندوں کی نیکی اور ان کے اچھے انجام کا ذکر کیا۔ حضرات زکریا ‘ یحییٰ ‘ الیاس اور عیسیٰ (علیہم السلام) جیسے عبادت گزاروں اور زاہدوں کا ذکر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسماعیل (علیہ السلام) کا تذکرہ بھی کیا جن کی اولاد سے حضور خاتم النبین ﷺ پیدا ہوئے۔ دنیا میں عزت و شرف پانے والی قوم قریش آپ ہی کی نسل سے ہے۔ اللہ نے حضرت الیسع ‘ یونس اور لوط (علیہ السلام) کا ذکر بھی کیا جن کی قوموں نے ان کی دعوت کا کوئی جواب نہ دیا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے گزشتہ درس میں حضرت نوح (علیہ السلام) سے شروع کر کے اٹھارہ انبیاء کا ذکر کیا ہے۔ متعلقین انبیاء کا انتخاب اب آج کے درس میں ان انبیاء علہیم السلام کے متعلقین کا تذکرہ ہو رہا ۔ اور ان کی فضیلت بیان کی جا رہی ہے ارشاد ہوتا ہے ومن ابائھم اور ان مذکورہ انبیاء کے آبائو اجداد میں سے بعض کو بزرگی عطا فرمائی۔ یہاں پر من تبعیضیہ ہے ‘ یعنی سارے کے سارے آبائو اجداد کو نہیں بلکہ ان میں سے بعض کو شرف عطا فرمایا ‘ ان کو صحیح راستے کی طرف راہنمائی فرمائی اور ان کو ہدایت بخشی۔ البتہ بعض انبیاء کے آبائو اجداد کا فر اور مشرک بھی ہوئے ہیں۔ خود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد آزر کا تذکرہ گزشتہ رکوع میں ہوچکا ہے کہ وہ سخت قسم کے بت پرست تھے آگے فرمایا وذریتھم اور ان انبیاء کی اولادوں میں سے بھی بعض کو اعلیٰ درجات عطا کئے۔ ایمان کی دولت نصیب کی اور بعض کو نبوت سے ونوازا ‘ تاہم بعض کفر ‘ شرک اور معصیت میں بھی مبتلا رہے۔ پھر فرمایا واخوانھم اور ان انبیاء کے بھائیوں میں سے بھی بعض کو فضیلت عطا کی اور ان کے درجات بلند کئے۔ بہرحال مجموعی طور پر انبیاء اور ان کے متعلقین کے بارے میں فرمایا واجتبینھم ہم نے ان کو منتخب کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی صلاحیتوں سے باخبر تھا اس لئے ان کو پسند فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی نیکی تقویٰ اور ایمان کو پسند فرمایا اور سب کو عزو شرف سے نوازا۔ اس دنیا میں بھی ان کو اعلیٰ مقام پر فائز کیا اور آخرت میں بھی ان کے لئے اعلیٰ درجات کا وعدہ فرمایا ‘ ان کے انتخاب سے یہی مراد ہے۔ صراط مستقیم کی طرف راہنمائی فرمایا انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے متعلق کو منتخب فرمایا و ھدینھم الی صراط مستقیم اور ان کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی بھی فرمائی۔ ظاہر ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ کسی خاص کام کے لئے منتخب کرتا ہے ‘ پھر اس کی راہنمائی بھی کرتا ہے۔ اور سیدھا راستہ وہی ہے جو اللہ کی توحید اور اس کی اطاعت کا راستہ ہے ‘ تمام انبیاء یہی کہتے ہیں ” نحن لہ مسلمون “ (البقرہ) ہم صرف اللہ ہی کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے والے ہیں اور اس کی وحدانیت کو مانتے ہیں۔ وہ کہتے تھے نعبد الھا واحد ہم صرف ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں ‘ عبادت میں غیر اللہ کو شریک نہیں کرتے۔ فرمایا ذلک ھدی اللہ یہی اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے یھدی بہ من یشاء من عبادہ اس کے ساتھ ہدایت دیتا ہے اپنے بندوں میں سے جسے چاہے ‘ ہر شخص کی نیت ‘ ارادے ‘ صلاحیت اور باطنی عزائم کے مطابق اس کو ہدایت دیتا ہے ‘ جن لوگوں کی صلاحیتیں درست ہوتی ہیں انہیں اس ہدایت سے سرفراز فرماتا ہے۔ شرک سے اعمال کا ضیاع ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ شرک کی تردید کے ضمن میں ہی بیان ہوا تھا۔ اب اٹھارہ انبیاء کا ذکر کرنے اور ان پر کئے گئے احسانات کا تذکرہ کرنے کے بعد شرک کی قباحت کو یوں بیان فرمایا ولو اشرکوا اگر اللہ کے منتخب بندے اور پیغمبر بھی شرک کا ارتکاب کرتے ۔ لحبط عنھم ما کانوا یعملون تو ان کے بھی تمام اعمال ضائع ہوجاتے ۔ شرک اتنی بری چیز ہے کہ بالفرض اگر اللہ کے برگزیدہ بندے بھی اس میں ملوث ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان کو بھی معاف نہیں کرتا بلکہ ان کے تمام کئے دھرے پر پانی پھیر دیتا ہے۔ سورة الزمر میں آتا ہے۔ ” ولقد اوہی الیک والی الذین من قبلک لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخسرین۔ “ آپ کی طرف بھی اور آپ سے پہلے رسولوں کی طرف بھی ہم نے وحی کی کہ اگر بالفرض آپ بھی شرک کا ارتکاب کریں یا سابقہ نبی شرک کا ارتکاب کرتے تو سب کے اعمال ضائع ہوجاتے۔ معلوم ہوا کہ شرک بہت ہی قبیح چیز ہے۔ سو سال کی عبادت ایک لحظہ میں غرق ہوجاتی ہے۔ ہاں اگر معافی مانگ لے تو بات بن جائے گی۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے۔ التوبۃ معروضۃ قبل الموت موت سے پہلے پہلے تو یہ قابل قبول ہے۔ لیکن اگر شرک سے باز نہیں آئے گا تو کسی نیکی کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ سب اکارت جائیں گی۔ سورة رعد میں آتا ہے کہ لوگ نیکیوں کے بڑے بڑے پہاڑ لے کر آئیں گے۔ مگر جب کفر شرک سامنے آئے گا تو وہ پہاڑ ایسے اڑ جائیں گے جیسے ہوا میں راکھ اڑ جاتی ہے۔ ایسے اعمال کا کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ کیونکہ نیکی کی قبولیت کے لئے ایمان اور عقیدے کی درستگی لازمی ہے۔ نجات اس شخص کے لئے ہے ومن یعمل من الصلحت من ذکر او انثیٰ و ھو مومن “ ۔ (النسائ) جو نیک اعمال انجام دے گا بشرطیکہ اس کا ایمان صحیح ہو۔ ایمان کی درستگی اللہ کی وحدانیت اور شرک سے بیزاری کے ذریعے ہوتی ہے جیسے ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور قوم کے مٹانے کا اعلان کیا۔ انا برائو وا منکم و مما تعبدون من دون اللہ “ (ممتمنہ) میں ان سے بیزار ہوں جن کی تم پوجا کرتے ہو آپ نے اپنی قوم کے لوگوں سے یہ بھی کہا ” اف “ لکم ولما تعبدون من دون اللہ “ (انبیائ) افسوس ہے تم پر اور ان پر جن کی اللہ کے سوا تم عبادت کرتے ہو۔ فرمایا وبدابیننا و بینک العداوۃ والبغضاء ابدا “ ہمارے اور تمہارے درمیان نفرت کی دیوار حائل ہے اور یہ دیوار اسی طرح رہے گی۔ ” حتیٰ تومنوا باللہ وحدہ “۔ یہاں تک کہ تم اللہ پر ایمان لے آئو (سورۃ ممتحنہ) انبیاء (علیہم السلام) بلاشبہ شرک سے پاک ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بالفرض اگر یہ بھی شرک کا ارتکاب کرتے تو ان کے سارے اعمال ضائع ہوجاتے۔ یہ بات سب لوگوں کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ جب انبیاء کرام بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں تو پھر شرک کرنے والے کسی شخص کو معافی کیسے مل سکتی ہے۔ شرک سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہئے ورنہ خطرہ ہے کہ تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ کتاب ‘ حکم اور نبوت آگے اللہ تعالیٰ نے انبیاء علہیم السلام کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ اولئک الذین اتینھم الکتب والحکم والنبوۃ یہی وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے کتاب ‘ حکم اور نبوت عطا کی۔ انبیاء (علیہم السلام) پر وحی نازل ہوتی رہی اور ان میں سے بعض کو مکمل کتاب عطا فرمائی اور بعض پر صحیفے نازل فرمائے۔ بعض انبیاء کو اس بات کا پابند بنایا کہ وہ سابقہ کتب و صحالف کی ہی نشرو اشاعت کریں ‘ ان کو علیحدہ احکام و شرائع نہیں دیئے گئے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ حکم سے مراد شریعت ہے یعنی کچھ انبیاء کو خاص شریعت دی گئی بعض اس سے حکومت بھی مراد لیتے ہیں۔ تاہم حکومت بھی تمام انبیاء کو تو نہیں ملی۔ البتہ بعض کو ملی ہے جیسے حضرت دائود اور سلیمان علیہما السلام۔ بعض فرماتے ہیں کہ حکم سے مراد فہم ہے جس سے انسان صحیح فیصلے پر پہنچتا ہے اور یہ تمام انبیاء کو عطا کیا گیا۔ چونکہ نبی پوری امت کے معاملات میں حکم ہوتا ہے اس لئے اس میں قوت فہم و فیصلہ بھی بدرجہ اتم ہوتی ہے باقی رہی نبوت تو یہ کائنات میں سب سے اعلیٰ اعزاز ہے۔ اللہ کے نزدیک اس کا نبی مقرب ترین بندہ ہوتا ہے۔ نبی ہوتا بجائے خود بلند ترین ہستی ہونے کی نشانی ہے وہ خدا تعالیٰ کے معصوم بندے ہوتے ہیں ‘ انہیں اس بات کی گارنٹی حاصل ہوتی ہے کہ ان سے گناہ سرزد نہیں ہوتا۔ وہ امت کے لئے نمونہ ہوتے ہیں ‘ ان کا قول ‘ فعل اور عمل امت کے لئے حجت ہوتا ہے۔ قیام دین کا خدائی انتظام انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد روئے سخن اولین مخاطبین قرآن کی طرف ہوتا ہے فان یکفر بھا ھولاء اگر یہ لوگ اس کے ساتھ کفر کریں یہاں ھولاء کی ضمیر مکہ والوں کی طرف لوٹتی ہے۔ قرآن پاک کے اولین مخاطبین وہی تھے اور وہی لوگ نبی ‘ کتاب اور شریعت کا انکار کرتے تھے۔ سورة یوسف میں اس با ت کی تصریح ہے۔ انا انزلنا قرآناً عربیا لعلکم تعقلون “ ہم نے قرآن پاک کو عربی زبان میں عربی بولنے والے لوگوں کی طرف نازل کیا تا کہ تم سمجھ سکو۔ فرمایا اگر یہ مکہ والے اس کا انکار کردیں۔ فقد و کلنا بھا قوما لیسعا بھا بکفرین۔ پس ہم نے اس کے ساتھ ایسے لوگوں کو مقرر کردیا ہے جو کفر کرنے والے نہیں ہیں۔ مقصد یہ کہ اگر اولین مخاطبین اللہ کے دین پر اور پیغمبر آخر الزمان پر ایمان نہیں لائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی جگہ دوسرے لوگوں کو کھڑا کر دے گا۔ جو ایمان لا کر دین کے مددگار ثابت ہوں گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ جب مشرکین مکہ نے مخالفت کی تو مدینے والوں نے خوشی خاطر سے دین کو قبول کرلیا اور اس کی حمایت کا یقین دلایا جب آپ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو اردگرد کے تمام قبائل آپ کے جاں نثار بن گئے۔ چناچہ یہی اولین لوگ ہیں جو اسلام کا علم لے کر دنیا میں پھیل گئے۔ اسلام کی آباری انہی لوگوں کے ہاتھوں سے ہوئی اور یہ لوگ پوری دنیا کے معلم بن کر ابھرے۔ حدیث شریف میں آتا ہے جب حب الانصار ایتہ الایمان یعنی انصار مدینہ کے ساتھ محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور ان کے ساتھ بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی رفاقت کے لئے منتخب فرمایا۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے سورة محمد میں اس طرح بیان فرمایا۔ وانتتولوا یستبدل قوما غیرکم ثم لا یکونوا امثالکم اگر تم روگردانی کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری بجائے دوسرے لوگوں کو لے آئے گا جو تمہاری طرح نہیں ہوں گے۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تاتاری اسلام کے سخت دشمن تھے اور بقول مولانا شبلی نعمانی (رح) انہوں نے ایک کروڑ مسلمانوں کو قتل کیا ‘ مگر تھوڑے عرصہ بعد ہی یہ لوگ اسلام کے علمبردار بن گئے اللہ نے ایمان کی دولت نصیب فرمائی۔ جب اپنے بیگانے ہوگئے تو اللہ نے بیگانوں کو اپنا بنا دیا۔ ترکوں کا بھی یہی حال تھا۔ ابتداء میں اسلام کے بدترین دشمن تھے ‘ مگر حضور ﷺ نے فرمایا اترکوا الترک ما ترکو کم ترکوں کو کچھ نہ کہو جب تک وہ خود چھیڑ چھاڑ کی ابتدا نہ کریں اور پھر سلطان محمد خامس کے زمانے میں وہ دور بھی آیا جب اللہ نے انہی ترکوں کو اسلام کی طرف مائل کردیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایک دن میں چار لاکھ ترک مسلمان ہوئے اور آج تک پوری کی پوری ترک قوم اسلام کی شیدائی ہے۔ باہر سے آنے والے کچھ یہودی اور نصرانی وہاں موجود ہیں ‘ وگرنہ اصل ترک سب مسلمان ہیں۔ ترکی میں بڑے بڑے سیاسی انقلاب بھی آئے مگر انہوں نے اسلام کا دامن نہیں چھوڑا۔ اللہ کا قانون آج بھی وہی ہے۔ اگر آج کا مسلمان دین سے غفلت کرے گا تو خدا تعالیٰ اس کی جگہ کسی دوسرے کو کھڑا کر دے گا۔ جو اس کے دین کو آگے بڑھا سکے۔ اس طرح دین تو قائم و دائم رہے گا مگر یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہوگی کہ وہ دین کے پودے کی آبیاری نہ کرسکیں۔ جب عربوں میں صلاحیت باقی نہ رہی تو وہ بھی ذلیل ہوگئے۔ سیاسی طور پر اب ترک بھی ختم ہوچکے ہیں خدا نے انگریز جیسا دشمن دین مسلط کردیا ہے جس نے تمام مسلمان سلطنتوں کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ روسی ‘ امریکی اور برطانوی سب انگریز ہیں اور عیسائی ہیں ‘ جو ہمیشہ دین اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ اور اس کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اقتدار کا ہوس آج مسلمان قوم محض اس لئے اغیار کا شکار ہو رہی ہے کہ یہ اندرونی خلفشار میں مبتلا ہے۔ ان کی آپس میں اقتدار کے لئے رسہ کشی ہو رہی ہے ہر فرد اور ہر ملک حب مال و جاہ کی بیماری میں مبتلا ہے ۔ ہر کوئی سیاہ وسفید کا مالک بننا چاہتا ہے۔ اب ان میں دین سے لگائو اور قربانی کا جذبہ ختم ہوچکا ہے۔ عباسی بھی اسی وجہ سے ذلیل ہوئے اور مغل بھی اسی بیماری کا شکار ہوئے۔ آج کے مسلمان کی ذلت کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس نے دین کے کام کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ تبلیغی جماعت والے کسی حد تک اسلام کا پیغام دنیا میں پہنچا رہے ہیں۔ مگر ان کے ذریعے ایک فیصد سے زیادہ کام نہیں ہو رہا ہے۔ باقی 99 فیصد کام کون کرے گا ؟ اسلام جس قربانی کا تقاضا کرتا ہے ‘ وہ مسلمانوں میں مفقود ہوچکی ہے۔ آج مسلمانوں کی ساری توانایاں فسق و فجور پھیلانے پر صرف ہو رہی ہیں۔ اقتدار کے حصول کے لئے روپیہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ تمام کوششیں امریکہ روس اور چین کی خوشنودی کے لئے کی جا رہی ہیں۔ عیاشی ‘ فحاشی اور کھیل تماشے میں مگن ہیں۔ کھیلوں کی وزارتیں بن چکی ہیں۔ کھیل کی ٹی میں غیر ممالک میں بھیجنے پر کثیر رقوم خرچ کی جاتی ہیں مگر اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے ملک پاکستان میں اسلام کے نام کے سوا کچھ نہیں ہو رہا۔ کمیٹیاں بن جاتی ہیں ‘ سیمینار ہوتے ہیں مگر عملی طور پر ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھتے۔ یاد رکھو اگر تم دین کا بیڑا نہیں اٹھائو گے ‘ تو اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ دوسروں کو کھڑا کر دے گا۔ علامہ اقبال مرحوم کہا کرتے تھے ‘ مسلمانو ! جب تم نے دین کا دامن چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے سکھوں میں سے ایک آدمی کھڑا کردیا جس نے دین کی ڈولتی ہوئی کشتی کو سہارا دیا۔ مولانا حمد علی لاہوری کے والد سکھ ہی تو تھے۔ آپ نے پانچ سو علماء کو قرآن پاک کی تفسیر پڑھائی۔ مولانا عبیداللہ سندھی کا باپ بھی سکھ تھا۔ وہ ہمارے استاد الاساتذہ ہیں ‘ جنہوں نے ہمیں قرآن و حدیث کی تعلیم دی مگر مسلمان کیا کر رہے ہیں ؟ انہوں نے دین سے کیوں اعراض کیا ہے۔ دین تو بہرحال زندہ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ یہ کام کسی دوسری ہستی سے لے لے گا۔ مگر ہماری تذلیل ضرور ہوگی۔ اسی لئے فرمایا کہ اگر یہ مکہ والے دین کا انکار کریں گے تو ہم ان کی جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئیں گے جو آگے بڑھ کر اس کا دامن تھام لیں گے۔ ہدایت یافتہ لوگ فرمایا اولئک الذین ھدی اللہ یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی ہے۔ اس سے مراد وہی انبیائے کرام ہیں جن کا ذکر ہوچکا ہے۔ فرمایا یہ ہدایت یافتہ لوگ ہیں فبھدئم اقتدہ آپ بھی انہی کی ہدایت کی اقتدار کریں۔ یہ خطاب حضور ﷺ سے ہو رہا ہے کہ آپ بھی ان انبیاء کے طریقے کو اپنا کر دین کے کام کو آگے بڑھائیں ‘ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ تین چیزیں انبیاء کی ہدایت کا جزو ہیں۔ پہلی چیز توحید ہے جس پر سب متفق ہیں۔ لہٰذا آپ بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ‘ اس کی ذات اور صفات ‘ اس کی عبادت ‘ شرک سے بیزاری وغیرہ کے معاملہ میں سابقہ انبیاء کی اتباع کریں۔ دوسری چیز اخلا قحمیدہ اور صفات کاملہ ہے۔ یہ چیزیں بھی انبیاء (علیہم السلام) میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ آپ بھی اپنے اندر یہ چیزیں پیدا کر کے انہی کا اقتدار کریں۔ فرمایا تیسری چیز احکام اور شرائع ہیں۔ بہت سے احکام و شرائع سارے نبیوں میں مشترک رہے ہیں ‘ آپ بھی ان پر چلتے رہیں۔ اصول فقہ والے بتاتے ہیں کہ سابقہ امتوں کے جو احکام قرآن پاک یا زبان نبوی سے بیان ہوئے ہیں ‘ اگر ان کی تردید نہیں کی گئی تو وہ ہمارے لئے بھی قابل عمل ہیں مختلف انبیاء کی شرائع میں بعض چیزیں مختلف ہوتی ہیں مگر اصول دین تمام نبیوں کے مشترک ہوتے ہیں ‘ آپ بھی ان پر کاربند ہیں۔ بلامعاوضہ تبلیغ دین تبلیغ دین کے سلسلے میں ایک اصولی بات سمجھا دی گئی ہے۔ قل اے پیغمبر آپ کہہ دیجئے لا اسئلکم علیہ اجرا میں تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ یہ دین کا کام میں کوئی تجارت کے طور پر نہیں کرتا ہوں ‘ بلکہ یہ حق پرستی کی تعلیم میرے فرائض منصبی میں شامل ہے جسے میں ادا کر رہا ہوں۔ اللہ کے سارے نبیوں کا یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ تبلیغ دین کی کوئی فیس طلب نہیں کرتے۔ دوسرے مقام پر آتا ہے۔ ” ان اجری الا علی رب العالمین “ (الشعرائ) میرا اجر تو اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ ہم انبیاء کی جماعت ہمیشہ بےلوث ہوتے ہیں ‘ ہم کسی ذاتی غرض کے لئے دین کا کام نہیں کرتے۔ ہم جو چیز آپ کے پیش کر رہے ہیں ان ھو الا ذکری للعالمین یہ تو تمام جہان والوں کے لئے ایک نصیحت ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ لوگ اس نصیحت کو قبول کرلیں ‘ توحید کا راستہ اختیار کرلیں ‘ کفر ‘ شرک اور معصیت کو ترک کر کے اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچ جائیں۔ دین نام ہی خیر خواہی کا ہے۔ ہم تو خیر خواہی کے طور پر تمہیں صراط مستقیم کی طرف بلاتے ہیں۔ بہرحال آیت کے اس حصلہ میں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ نبی لوگوں سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ دوسری جگہ موجود ہے کہ جو کچھ ہم نے مانگا ہے اے اپنے پاس رکھو ۔ ہماری دعوت کو قبول کر کے فلاح پا جائو یا انکار کر کے دائمی ذلت کا شکار ہو جائو ‘ اب یہ تمہاری فکر پر موقوف ہے۔
Top