Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 80
وَ حَآجَّهٗ قَوْمُهٗ١ؕ قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰهِ وَ قَدْ هَدٰىنِ١ؕ وَ لَاۤ اَخَافُ مَا تُشْرِكُوْنَ بِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ رَبِّیْ شَیْئًا١ؕ وَسِعَ رَبِّیْ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا١ؕ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ
وَحَآجَّهٗ : اور اس سے جھگڑا کیا قَوْمُهٗ : اس کی قوم قَالَ : اس نے کہا اَتُحَآجُّوْٓنِّىْ : کیا تم مجھ سے جھگڑتے ہو فِي : میں اللّٰهِ : اللہ وَ : اور قَدْ هَدٰىنِ : اس نے مجھے ہدایت دے دی ہے وَ : اور لَآ اَخَافُ : نہیں ڈرتا میں مَا تُشْرِكُوْنَ : جو تم شریک کرتے ہو بِهٖٓ : اس کا اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّشَآءَ : چاہے رَبِّيْ : میرا رب شَيْئًا : کچھ وَسِعَ : احاطہ کرلیا رَبِّيْ : میرا رب كُلَّ شَيْءٍ : ہر چیز عِلْمًا : علم اَ : کیا فَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ : سو تم نہیں سوچتے
اور جھگڑا کیا ان (ابراہیم علیہ السلام) سے ان کی قوم نے ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا ‘ کیا تم جھگڑا کرتے ہو میرے ساتھ اللہ کے بارے میں وار بیشک اس (اللہ) نے مجھے ہدایت دی ہے اور میں نہیں خوف کھاتا ان چیزوں سے جن کو تم اس کے ساتھ شریک بناتے ہو ‘ مگر یہ کہ میرا رب جو چاہے (وہ ہی ہوتا ہے) میرے رب کا علم ہر چیز پر وسیع ہے ‘ کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے
ربط آیات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے شرک کی تردید کے سلسلے میں اپنے والد اور قوم کے سامنے ستارے ‘ چاند اور سورج کے تغیر و تبدل کو بطور دلیل پیش کیا ‘ اور فرمایا غائب ہوجانے والی چیزیں الہ نہیں بن سکتیں لہٰذا میں شرک سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں معبود تو وہ ہو سکتا ہے جو ازلی ‘ ابدی ‘ قائم اور دائم ہو اور وہ صرف ذات باری تعالیٰ ہے جن چیزوں کی تم پرستش کرتے ہو وہ تو مخلوق ہیں ‘ ان کو زوال آتا ہے مگر تم ان کو معبودمشکل کشا اور حاجت رو ا مان کر …شرک کا ارتکاب کرتے ہو ‘ میں اس معاملہ میں تمہارے ساتھ شامل نہیں ہو سکتا میں نے تو اپنا رخ یعنی جسم و جان اس مالک الملک کی طرف پھیرلیا ہے جو زمین و آسمان کا خاطر ہے ‘ اس نے تمام کائنات کو بغیر نمونے کے پیدا کیا ہے۔ میں حنیف یعنی ہر طرف سے ہٹ کر صرف اسی ایک خدا کی طرف رجوع کرنے والا ہوں۔ میں تو اس کی وحدانیت کا پرستار ہوں۔ میں شرک کرنیوالوں میں سے نہیں ہوں۔ معبودان باطلہ کے متعلق جھگڑا جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد اور قوم کے سامنے شرک کی تردید اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے حق میں دلیل پیش کی تو وہ لوگ دلیل کا جواب دلیل سے تو نہ دے سکے بلکہ وحاجہ قومہ آپ کی قوم نے آپ سے جھگڑا کرنا شروع کردیا۔ اس جھگڑے کی بہت سی مثالیں قرآن پاک میں موجود ہیں مثلاً جب ابراہیم (علیہ السلام) کسی راستے سے گزرتے تھے تو مشرکین آپ کی طرف اشارے کرتے تھے اور کہتے تھے اھذا الذی یذکر الھتکم “ (سورۃ الانبیائ) کیا یہ ہے وہ شخص جو تمہارے معبودوں پر نکتہ چینی کرتا ہے ؟ کہتا ہے کہ یہ تمہاری مشکلات کو حل نہیں کرسکتے کوئی کہتا باز آجائو ‘ ہمارے معبودوں کی مذمت نہ کرو ‘ ورنہ خطرہ ہے کہ وہ تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچائیں ‘ کوئی کہتا کہ تم ایسی باتیں اس لئے کرتے ہو کہ ہمارے معبودوں کی تم پر مار پڑگئی ہے۔ انہوں نے تمہیں مجنون بنا دیا ہے۔ مشرکین مکہ بھی یہی کہتے تھے کہ ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہنے کی وجہ سے اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ کبھی کہتا ہے کہ مردے پھر زندہ ہوجائیں گے ‘ کبھی کہتا ہے محاسبہ ہوگا۔ غیر اللہ کی پوجا سے منع کرتا ہے ‘ ان کی نذر و نیاز کو غلط بتاتا ہے ‘ مشکلات میں انہیں پکارنے کو شرک بتاتا ہے۔ کوئی کہتا دیکھو کتنی عجب بات ہے ” اجعل الالھۃ الھا واحدا “ کیا اس نے اتنے معبودوں کی جگہ صرف ایک ہی الہ بنا لیا ہے۔ غرض یہ کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے بھی آپ سے اسی قسم کا جھگڑا کیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا جواب قال اس کے جواب میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ” اتحاجونی فی اللہ “ کیا تم اللہ کے بارے میں مجھ سے جھگڑا کرتے ہو ؟ وقد ھدئن حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو مجھے ہدایت عطا کی ہے۔ اس نے میری صراط مستقیم کی طرف راہنمائی فرمائی ہے ‘ تم مجھ سے کیسے جھگڑتے ہو ؟ سن لو ! ولا اخاف ما تشرکون بہ میں ان چیزوں سے خوف نہیں کھاتا جن کو تم خدا تعالیٰ کے ساتھ شریک بناتے ہو۔ یہ تو بےجان اور بےحقیقت چیزیں ہیں۔ ان کے پاس نہ کوئی اختیار اور نہ کوئی تصرف ہے ‘ بھلا میں ان سے کیسے ڈر سکتا ہوں ‘ ہر چیز کا خالق ‘ مالک اور متصرف تو اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا اسی سے ڈرنے کا حق ہے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ پیش آیا ‘ آپ کی قوم نے کہا ‘ اے ہود (علیہ السلام) ہم تمہارے کہنے پر اپنے معبودوں کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ان تقول الا اعتراک بعض الھتنا بسوء (سورۃ ہود) ہم تو سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا کر دیوانہ کردیا ہے۔ ہود (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تمہارے شرکاء سے بیزار ہوں۔ اب تم جو تدبیر کرنا چاہو کرلو ثم لا تنظرون (ہود) پھر بیشک مجھے مہلت بھی نہ دو ۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی یہی فرمایا کہ میں تمہارے ان معوبدوں سے ہرگز خوفزدہ نہیں ہوں جو کسی نفع نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ الا ان یشاء ربی شیئا اختیار اور تصرف میرے رب کے پاس ہے اور وہی کچھ ہوتا ہے ‘ جو وہ چاہے۔ وہی عطا کرتا اور وہی واپس لینے پر قادر ہے وہی تکلیف پہنچاتا اور وہی دور کرتا ہے وسع ربی کل شی علما میرے رب کا علم ہر چیز پر وسیع ہے۔ وہ علیم کل اور عالم الغیب والشہادۃ ہے۔ اس کے احاطہ سے کوئی چیز باہر نہیں۔ افلا تتذکرون کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے ؟ تم اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ با اختیار کون ہے اور بےاختیار کون ہے۔ پھر مجھے بےیارومددگار معبودوں سے ڈراتے ہو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مزید فرمایا و کیف اخاف ما اشرکتم میں کس طرح خوف کھائوں ان چیزوں سے جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو ڈر تو تمہیں آنا چاہئے ‘ مگر ولا تخافون انکم اشرکتم باللہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم اللہ کے ساتھ شریک بناتے ہو ایسی چیزوں کو مالم ینزل بہ علیکم لسطنا جن کے بارے میں اس نے تم پر کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ تم نے محض اپنی خواہشات نضانیہ ‘ رسم و رواج اور بےوقوفی کی وجہ سے ان کو خدا تعالیٰ کی صفت الوہیت میں شریک کرلیا ہے لہٰذا خوف تو تمہیں کھانا چاہئے ‘ جنہوں نے احکم الحاکمین ‘ قادر مطلق اور متصرف فی الامور خدا تعالیٰ سے ٹکر لے رکھی ہے یاد رکھو اس جرم عظیم کی پاداش میں تم پر ضرور گرفت آئے گی جس سے بچ نہیں سکو گے۔ سن کے خدا ر فرمایا فای الفریقین احق بالامن دونوں فریقوں میں سے کونسا فریق امن یعنی نجات کا زیادہ مستحق ہے ؟ ایک فرقہ ہمارا ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو مانتا ہے اور شرک سے بیزار ہے۔ اور دوسرا فرقہ وہ ہے جس نے بیشمار معبود بنا رکھے ہیں ‘ انہیں خدا تعالیٰ کی صفات میں شریک کرتے ہیں ‘ ان کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں ‘ ان کے نام کی دہائی دیتے ہیں ‘ ان کو نذر و نیاز پیش کرتے ہیں۔ مصیبت کے وقت انہیں پکارتے ہیں۔ تو بتائو ان دونوں فرقوں میں سے اللہ کی ابدی رحمت کا کون مستحق ہے ان کنتم تعلمون اگر تمہیں کچھ علم اور سمجھ ہے تو خود ہی فیصلہ کرو کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا کون زیادہ حقدار ہے ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے خود ہی جواب دیا ‘ کہ امن کے حق دار وہ لوگ ہیں الذین امنوا جو ایمان لائے ولم یلبسوا ایمانھم بظلم اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ نہیں ملایا اولئک لھم الامن امن ایسے ہی لوگوں کو حاصل ہوگا ‘ وہی زیادہ حق دار ہیں۔ اس آیت میں مذکور ظلم کا مفہوم سمجھنے میں صحابہ کرام ؓ کو کسی قدر اشتباہ واقع ہوا ‘ چناچہ بخاری ‘ مسلم اور ترمذی شریف کی روایت حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ صحابہ ؓ کو خیال ہوا کہ ظلم سے مراد عام کوتاہی ہے۔ تو انہوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا اینالم یظلم نفسہ ہم میں سے کون ایسا شخص ہے جس سے ظلم یعنی چھوٹی موٹی خطا نہ سرزد ہوئی ہو ‘ اگر ہر چھوٹے بڑے گناہ پر گرفت ہوگئی تو پھر ہماری نجات تو محال ہوجائے گی۔ اس پر حضور ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ لفظ ظلم کا اطلاق ہر چھوٹی سے چھوٹی برائی سے لے کر بڑے سے بڑے گناہ پر ہوتا ہے لغوی لحاظ سے اس کا معنی ہے وضع الشی فی غیر محلہ یعنی کسی چیز کا اپنے اصل مقام کی بجائے دوسرے مقام پر رکھ دینا۔ مثلا مسجد میں داخل ہوتے وقت اگر دائیاں پائوں پہلے داخل کرنے کی بجائے بائیاں پائوں داخل کردیا تو یہ بھی ظلم کی تعریف میں آ گیا ‘ اور بڑے سے بڑا ظلم شرک اور کفر ہے ‘ جیسا کہ حضرت لقمان ؓ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا بیٹا ! اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا کیونکہ ” ان الشرک لظلم عظیم “ (سورۃ لقمان) بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس آیت میں ظلم سے چھوٹا موٹا گناہ مراد نہیں ہے بلکہ اس سے شرک مراد ہے اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ نجات اور امن ان لوگوں کا حق ہے جنہوں نے اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ ملوث نہیں کیا۔ اور جن لوگوں نے اپنے ایمان کے ساتھ شرک کو ملا لیا ‘ ان کا عقیدہ خراب ہوگیا ‘ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کا قانون واضح ہے کہ ” ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ و یغفر مادون ذلک لمن یشاء یعنی اللہ تعالیٰ شرک جیسے گناہ کو معاف نہیں کرے گا ‘ اس کے علاوہ جس کو چاہے بغیر توبہ کئے معاف فرما دے ‘ اسے مکمل اختیار حاصل ہے ‘ مگر شرک کو معاف نہیں فرمائے گا ‘ تو آیت کا مطلب یہ نکلا کہ نجات ایسے ایمانداروں کا حق ہے جو شرک سے بچتے رہے۔ وھم مھتدون اور یہی ہدایت یافتہ لوگ ہیں۔ متشابہ آیات کی تفسیر قرآن پاک میں اور بھی بہت سی آیات ایسی ہیں جن کے سمجھنے میں صحابہ کرام ؓ کو اشکال پیدا ہوا۔ مثلاً سورة بقرہ کے آخری رکوع میں آتا ہے ” ان تبدو ما فی انفسکم او تخفوہ یحسابکم بہ اللہ “ یعنی جو کچھ تم اپنے نفسوں میں ظاہر کرو چھپائو ‘ اللہ تعالیٰ اس کا ضرور حساب لے گا۔ یہ آیت صحابہ کرام ؓ پر بڑی دشوار گزری۔ انہوں نے تخفوہ سے ہر وہ خیال اور وسوسہ مراد لیا جو کسی انسان کے دل میں آتا رہتا ہے اور جسے وہ ظاہر نہیں کرتا۔ صحابہ ؓ نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ اگر ہر وسوسے پر بھی مواخذہ ہوا تو پھر کوئی بھی نہیں بچ سکے گا۔ آپ نے فرمایا ایسا خیال نہ کرو ‘ بلکہ کہو ” غفرانک ربنا “ اے ہمارے پروردگار ! ہم تجھ سے معافی طلب کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت نازل فرمائی ” لا یکلف اللہ نفساً الا وسعھا “ یعنی اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ دل میں وسوسوں کا آنا غیر اختیاری امر ہے۔ یہ کسی شخص کی طاقت میں داخل نہیں ‘ لہٰذا اس پر مواخذہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح اختتام سحری کے متعلق حضرت عدی بن حاتم کو اشتباہ پیدا ہوگیا تھا ‘ سورة بقرہ میں اختتام سحری کی نشانی اللہ تعالیٰ نے اسی طرح بیان فرمائی ہے۔ حتیٰ یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود “۔ یہاں تک کہ سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے نمایاں ہوجائے۔ یعنی اس وقت تک روزہ رکھنے کے لئے سحری کھا سکتے ہو۔ حضرت عدی ؓ نے دھاگے سے مراد عام دھاگہ لیا اور صبح صادق کے امتیاز کے لئے اسے اپنے پاس سرہانے کے نیچے رکھ لیا۔ جب اس بات کا ذکر حضور ﷺ سے کیا ‘ تو آپ نے فرمایا ‘ تمہارا تکیہ تو بہت بڑا ہے ‘ جس میں تم نے دن اور رات کو لپیٹ کر رکھ لیا ہے ‘ فرمایا سیاہ اور سفید دھاگے سے رات اور دن مراد ہیں۔ اس پر اللہ نے ان الفاظ کے بعد ” من الفجر “ کے الفاظ نازل کردیئے ‘ جس سے واضح ہوگیا کہ طلوع فجر تک سحری کھا پی سکتے ہیں۔ موت پر ایمان اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مسند احمد کی ایک لمبی حدیث بھی آتی ہے۔ جو حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم حضور ﷺ کے ہمراہ کسی کام سے مدینہ سے باہر نکلے۔ تھوڑی دور گئے تھے کہ ایک سوار کو دیکھا جو اپنی سواری کو دوڑاتا ہوا ہماری طرف آ رہا تھا۔ اسے دیکھ کر حضور ﷺ نے فرمایا ” ایاکم یرید یعنی یہ سوار تمہارے پاس ہی آنا چاہتا ہے۔ جب وہ ہمارے پاس پہنچا تو اس نے سلام کیا ‘ ہم نے جواب دیا۔ پھر حضور ﷺ نے اس سے دریافت کیا من این اقبلت تم کہاں سے آئے ہو۔ عرض کیا من اھلی و ولدی و عشیرتی اپنے پیچھے اہل و عیال ‘ بال بچے اور خاندان چھوڑ کر آ رہا ہوں حضور ﷺ نے دریافت کیا این ترید کہاں جانے کا خیال ہے ؟ تو وہ شخص کہنے لگا ارید رسول اللہ ﷺ میں تو اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے آیا ہوں ‘ آپ ﷺ نے فرمایا قد اصبتہ اس تک تم پہنچ گئے ہو۔ پھر اس شخص نے عرض کیا ‘ حضور ! علمنی ما لا یمان یعنی ایمان کیا ہے مجھے سکھا دیجئے۔ آپ نے فرمایا ‘ ایمان یہ ہے ان تشھد ان لا الہ الا اللہ و ان محمد رسول اللہ تو دل کی گہرائی سے گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ کے رسول ہیں اور پھر ظاہری احکام میں تقسیم الصلوٰۃ نماز قائم کرو توتی الزکوٰۃ مال ہے تو سالانہ زکوٰۃ ادا کرو۔ تصوم رمضان ماہ رمضان کے روزے رکھو۔ تحج البیت اگر استطاعت ہے تو بیت اللہ کا حج کرو۔ جب حضور ﷺ نے یہ باتیں بتائیں تو وہ شخص کہنے لگا قد اقررت میں نے مان لیا۔ آپ کے ارشادات پر اسی طرح عمل کروں گا۔ پھر جب واپس ہوا تو اس کے اونٹ کا پائوں جنگلی چوہے کی بل میں پھنس گیا ‘ جس سے اونٹ گر پڑا۔ ساتھ ہی وہ شخص بھی سر کے بل زمین پر گرا اور ہلاک ہوگیا۔ حضور ﷺ نے دیکھ کر فرمایا ‘ اسے جلدی اٹھا کرلے آئو۔ عمار ؓ اور حذیفہ ؓ دوڑے ‘ جب اس کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ اس کی روح پرواز کرچکی تھی ‘ انہوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا قد قبض الرجل یہ آدمی تو اللہ کو پیارا ہوچکا ہے حضور ﷺ وہاں سے ذرا ہٹ گئے ‘ پھر عمار ؓ اور حذیفہ ؓ سے فرمایا ‘ کیا تم جانتے ہو کہ میں وہاں سے کیوں ہٹ گیا تھا ؟ پھر خود ہی فرمایا ‘ میں نے دیکھا کہ وہ فرشتے جنت کے پھل اس شخص کے منہ میں ڈال رہے تھے ‘ جس سے میں سمجھ گیا کہ اس شخص کی موت بھوک کی حالت میں واقع ہوئی ہے دوسری روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ جب اس شخص سے پوچھا گیا کہ تم کہاں سے آئے ہو ‘ تو اس نے یہ بھی کہا راستے میں مجھے کھانے کے لئے کوئی چیز نہیں ملی لہٰذا میں درختوں کے پتوں اور گھاس پھونس پر گزارہ کرتا رہا ہوں۔ الغرض ! اس واقعہ کے بعد حضور ﷺ صحابہ کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا ‘ دیکھو ! ھذا من الذین لم یلبسوا ایمانھم بظلم یہ شخص ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ نہیں ملایا۔ یہ شخص ایمان لایا ‘ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کیا ‘ پھر اس نے اپنے ایمان کو شرک کی نجاست سے پاک رکھا حتی کہ اس کی موت واقع ہوگئی۔ حضور ﷺ نے اس موقع پر یہی آیات تلاوت فرمائی۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا ‘ یہ تمہارا بھائی ہے ‘ اس کو اٹھا لو ‘ پھر اس کو غسل دیا گیا ‘ خوشبو لگائی گئی ‘ کفن پہنایا گیا ‘ اس کی قبر کھودنے لگے تو آپ وہاں تشریف لے گئے اور فرمایا الحمد والہ اس کے لئی لحد یعنی بغلی قبر تیار کرو فان الحد لنا کیونکہ لحد ہمارے لئے ہے والشق لغیرنا اور دوسرے لوگوں کے لئے دراڑ یعنی کھلی قبر ہے تاہم ہمارے لئے کھلی یعنی صندوق نما قبر بھی جائز ہے مگر لحد یا بغلی قبر بہتر ہے۔ مدینے کی زمین قدرے سخت ہے اور وہاں لحد آسانی سے بن جاتی ہے۔ آپ نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا ھذا من الذین عملوا قلیلا واجروا کثیرا یہ شخص ان لوگوں میں سے ہے ‘ جنہوں نے عمل تو تھوڑا کیا مگر اجر بہت زیادہ پا گئے۔ ظاہر ہے کہ اس شخص نے ابھی تک نہ نماز پڑھی تھی ‘ نہ روزہ رکھا تھا ‘ نہ حج کیا اور نہ زکوٰۃ ادا کی۔ ایمان لانے کے متصل ہی اس کو حادثہ پیش آ گیا اور وہ فوت ہوگیا۔ بہرحال وہ صحیح اور شرک سے پاک ایمان لے کر گیا اور اے ایک طرح کی شہادت کا درجہ بھی مل گیا ‘ کیونکہ جو مومن کسی حادثے کا شکار ہوجائے وہ ایک درجے میں شہید ہوتا ہے۔ بہرحلا امام ابن کثیر (رح) نے مسند احمد کی یہ روایت بیان کر کے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ جو لوگ ایمان کی حفاظت کریں گے ‘ اسے شرک میں ملوث نہیں کریں گے ‘ ان کی کامیابی انشاء اللہ یقینی ہی ‘ انہیں امن نصیب ہوگا۔ اس کے برخلاف شرک میں ملوث اور اعتقادی منافق پکڑے جائیں گے۔
Top