Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 80
وَ حَآجَّهٗ قَوْمُهٗ١ؕ قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰهِ وَ قَدْ هَدٰىنِ١ؕ وَ لَاۤ اَخَافُ مَا تُشْرِكُوْنَ بِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ رَبِّیْ شَیْئًا١ؕ وَسِعَ رَبِّیْ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا١ؕ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ
وَحَآجَّهٗ
: اور اس سے جھگڑا کیا
قَوْمُهٗ
: اس کی قوم
قَالَ
: اس نے کہا
اَتُحَآجُّوْٓنِّىْ
: کیا تم مجھ سے جھگڑتے ہو
فِي
: میں
اللّٰهِ
: اللہ
وَ
: اور
قَدْ هَدٰىنِ
: اس نے مجھے ہدایت دے دی ہے
وَ
: اور
لَآ اَخَافُ
: نہیں ڈرتا میں
مَا تُشْرِكُوْنَ
: جو تم شریک کرتے ہو
بِهٖٓ
: اس کا
اِلَّآ
: مگر
اَنْ
: یہ کہ
يَّشَآءَ
: چاہے
رَبِّيْ
: میرا رب
شَيْئًا
: کچھ
وَسِعَ
: احاطہ کرلیا
رَبِّيْ
: میرا رب
كُلَّ شَيْءٍ
: ہر چیز
عِلْمًا
: علم
اَ
: کیا
فَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ
: سو تم نہیں سوچتے
اور جھگڑا کیا ان (ابراہیم علیہ السلام) سے ان کی قوم نے ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا ‘ کیا تم جھگڑا کرتے ہو میرے ساتھ اللہ کے بارے میں وار بیشک اس (اللہ) نے مجھے ہدایت دی ہے اور میں نہیں خوف کھاتا ان چیزوں سے جن کو تم اس کے ساتھ شریک بناتے ہو ‘ مگر یہ کہ میرا رب جو چاہے (وہ ہی ہوتا ہے) میرے رب کا علم ہر چیز پر وسیع ہے ‘ کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے
ربط آیات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے شرک کی تردید کے سلسلے میں اپنے والد اور قوم کے سامنے ستارے ‘ چاند اور سورج کے تغیر و تبدل کو بطور دلیل پیش کیا ‘ اور فرمایا غائب ہوجانے والی چیزیں الہ نہیں بن سکتیں لہٰذا میں شرک سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں معبود تو وہ ہو سکتا ہے جو ازلی ‘ ابدی ‘ قائم اور دائم ہو اور وہ صرف ذات باری تعالیٰ ہے جن چیزوں کی تم پرستش کرتے ہو وہ تو مخلوق ہیں ‘ ان کو زوال آتا ہے مگر تم ان کو معبودمشکل کشا اور حاجت رو ا مان کر …شرک کا ارتکاب کرتے ہو ‘ میں اس معاملہ میں تمہارے ساتھ شامل نہیں ہو سکتا میں نے تو اپنا رخ یعنی جسم و جان اس مالک الملک کی طرف پھیرلیا ہے جو زمین و آسمان کا خاطر ہے ‘ اس نے تمام کائنات کو بغیر نمونے کے پیدا کیا ہے۔ میں حنیف یعنی ہر طرف سے ہٹ کر صرف اسی ایک خدا کی طرف رجوع کرنے والا ہوں۔ میں تو اس کی وحدانیت کا پرستار ہوں۔ میں شرک کرنیوالوں میں سے نہیں ہوں۔ معبودان باطلہ کے متعلق جھگڑا جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد اور قوم کے سامنے شرک کی تردید اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے حق میں دلیل پیش کی تو وہ لوگ دلیل کا جواب دلیل سے تو نہ دے سکے بلکہ وحاجہ قومہ آپ کی قوم نے آپ سے جھگڑا کرنا شروع کردیا۔ اس جھگڑے کی بہت سی مثالیں قرآن پاک میں موجود ہیں مثلاً جب ابراہیم (علیہ السلام) کسی راستے سے گزرتے تھے تو مشرکین آپ کی طرف اشارے کرتے تھے اور کہتے تھے اھذا الذی یذکر الھتکم “ (سورۃ الانبیائ) کیا یہ ہے وہ شخص جو تمہارے معبودوں پر نکتہ چینی کرتا ہے ؟ کہتا ہے کہ یہ تمہاری مشکلات کو حل نہیں کرسکتے کوئی کہتا باز آجائو ‘ ہمارے معبودوں کی مذمت نہ کرو ‘ ورنہ خطرہ ہے کہ وہ تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچائیں ‘ کوئی کہتا کہ تم ایسی باتیں اس لئے کرتے ہو کہ ہمارے معبودوں کی تم پر مار پڑگئی ہے۔ انہوں نے تمہیں مجنون بنا دیا ہے۔ مشرکین مکہ بھی یہی کہتے تھے کہ ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہنے کی وجہ سے اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ کبھی کہتا ہے کہ مردے پھر زندہ ہوجائیں گے ‘ کبھی کہتا ہے محاسبہ ہوگا۔ غیر اللہ کی پوجا سے منع کرتا ہے ‘ ان کی نذر و نیاز کو غلط بتاتا ہے ‘ مشکلات میں انہیں پکارنے کو شرک بتاتا ہے۔ کوئی کہتا دیکھو کتنی عجب بات ہے ” اجعل الالھۃ الھا واحدا “ کیا اس نے اتنے معبودوں کی جگہ صرف ایک ہی الہ بنا لیا ہے۔ غرض یہ کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے بھی آپ سے اسی قسم کا جھگڑا کیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا جواب قال اس کے جواب میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ” اتحاجونی فی اللہ “ کیا تم اللہ کے بارے میں مجھ سے جھگڑا کرتے ہو ؟ وقد ھدئن حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو مجھے ہدایت عطا کی ہے۔ اس نے میری صراط مستقیم کی طرف راہنمائی فرمائی ہے ‘ تم مجھ سے کیسے جھگڑتے ہو ؟ سن لو ! ولا اخاف ما تشرکون بہ میں ان چیزوں سے خوف نہیں کھاتا جن کو تم خدا تعالیٰ کے ساتھ شریک بناتے ہو۔ یہ تو بےجان اور بےحقیقت چیزیں ہیں۔ ان کے پاس نہ کوئی اختیار اور نہ کوئی تصرف ہے ‘ بھلا میں ان سے کیسے ڈر سکتا ہوں ‘ ہر چیز کا خالق ‘ مالک اور متصرف تو اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا اسی سے ڈرنے کا حق ہے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ پیش آیا ‘ آپ کی قوم نے کہا ‘ اے ہود (علیہ السلام) ہم تمہارے کہنے پر اپنے معبودوں کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ان تقول الا اعتراک بعض الھتنا بسوء (سورۃ ہود) ہم تو سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا کر دیوانہ کردیا ہے۔ ہود (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تمہارے شرکاء سے بیزار ہوں۔ اب تم جو تدبیر کرنا چاہو کرلو ثم لا تنظرون (ہود) پھر بیشک مجھے مہلت بھی نہ دو ۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی یہی فرمایا کہ میں تمہارے ان معوبدوں سے ہرگز خوفزدہ نہیں ہوں جو کسی نفع نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ الا ان یشاء ربی شیئا اختیار اور تصرف میرے رب کے پاس ہے اور وہی کچھ ہوتا ہے ‘ جو وہ چاہے۔ وہی عطا کرتا اور وہی واپس لینے پر قادر ہے وہی تکلیف پہنچاتا اور وہی دور کرتا ہے وسع ربی کل شی علما میرے رب کا علم ہر چیز پر وسیع ہے۔ وہ علیم کل اور عالم الغیب والشہادۃ ہے۔ اس کے احاطہ سے کوئی چیز باہر نہیں۔ افلا تتذکرون کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے ؟ تم اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ با اختیار کون ہے اور بےاختیار کون ہے۔ پھر مجھے بےیارومددگار معبودوں سے ڈراتے ہو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مزید فرمایا و کیف اخاف ما اشرکتم میں کس طرح خوف کھائوں ان چیزوں سے جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو ڈر تو تمہیں آنا چاہئے ‘ مگر ولا تخافون انکم اشرکتم باللہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم اللہ کے ساتھ شریک بناتے ہو ایسی چیزوں کو مالم ینزل بہ علیکم لسطنا جن کے بارے میں اس نے تم پر کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ تم نے محض اپنی خواہشات نضانیہ ‘ رسم و رواج اور بےوقوفی کی وجہ سے ان کو خدا تعالیٰ کی صفت الوہیت میں شریک کرلیا ہے لہٰذا خوف تو تمہیں کھانا چاہئے ‘ جنہوں نے احکم الحاکمین ‘ قادر مطلق اور متصرف فی الامور خدا تعالیٰ سے ٹکر لے رکھی ہے یاد رکھو اس جرم عظیم کی پاداش میں تم پر ضرور گرفت آئے گی جس سے بچ نہیں سکو گے۔ سن کے خدا ر فرمایا فای الفریقین احق بالامن دونوں فریقوں میں سے کونسا فریق امن یعنی نجات کا زیادہ مستحق ہے ؟ ایک فرقہ ہمارا ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو مانتا ہے اور شرک سے بیزار ہے۔ اور دوسرا فرقہ وہ ہے جس نے بیشمار معبود بنا رکھے ہیں ‘ انہیں خدا تعالیٰ کی صفات میں شریک کرتے ہیں ‘ ان کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں ‘ ان کے نام کی دہائی دیتے ہیں ‘ ان کو نذر و نیاز پیش کرتے ہیں۔ مصیبت کے وقت انہیں پکارتے ہیں۔ تو بتائو ان دونوں فرقوں میں سے اللہ کی ابدی رحمت کا کون مستحق ہے ان کنتم تعلمون اگر تمہیں کچھ علم اور سمجھ ہے تو خود ہی فیصلہ کرو کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا کون زیادہ حقدار ہے ؟ پھر اللہ تعالیٰ نے خود ہی جواب دیا ‘ کہ امن کے حق دار وہ لوگ ہیں الذین امنوا جو ایمان لائے ولم یلبسوا ایمانھم بظلم اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ نہیں ملایا اولئک لھم الامن امن ایسے ہی لوگوں کو حاصل ہوگا ‘ وہی زیادہ حق دار ہیں۔ اس آیت میں مذکور ظلم کا مفہوم سمجھنے میں صحابہ کرام ؓ کو کسی قدر اشتباہ واقع ہوا ‘ چناچہ بخاری ‘ مسلم اور ترمذی شریف کی روایت حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ صحابہ ؓ کو خیال ہوا کہ ظلم سے مراد عام کوتاہی ہے۔ تو انہوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا اینالم یظلم نفسہ ہم میں سے کون ایسا شخص ہے جس سے ظلم یعنی چھوٹی موٹی خطا نہ سرزد ہوئی ہو ‘ اگر ہر چھوٹے بڑے گناہ پر گرفت ہوگئی تو پھر ہماری نجات تو محال ہوجائے گی۔ اس پر حضور ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ لفظ ظلم کا اطلاق ہر چھوٹی سے چھوٹی برائی سے لے کر بڑے سے بڑے گناہ پر ہوتا ہے لغوی لحاظ سے اس کا معنی ہے وضع الشی فی غیر محلہ یعنی کسی چیز کا اپنے اصل مقام کی بجائے دوسرے مقام پر رکھ دینا۔ مثلا مسجد میں داخل ہوتے وقت اگر دائیاں پائوں پہلے داخل کرنے کی بجائے بائیاں پائوں داخل کردیا تو یہ بھی ظلم کی تعریف میں آ گیا ‘ اور بڑے سے بڑا ظلم شرک اور کفر ہے ‘ جیسا کہ حضرت لقمان ؓ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا بیٹا ! اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا کیونکہ ” ان الشرک لظلم عظیم “ (سورۃ لقمان) بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس آیت میں ظلم سے چھوٹا موٹا گناہ مراد نہیں ہے بلکہ اس سے شرک مراد ہے اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ نجات اور امن ان لوگوں کا حق ہے جنہوں نے اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ ملوث نہیں کیا۔ اور جن لوگوں نے اپنے ایمان کے ساتھ شرک کو ملا لیا ‘ ان کا عقیدہ خراب ہوگیا ‘ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کا قانون واضح ہے کہ ” ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ و یغفر مادون ذلک لمن یشاء یعنی اللہ تعالیٰ شرک جیسے گناہ کو معاف نہیں کرے گا ‘ اس کے علاوہ جس کو چاہے بغیر توبہ کئے معاف فرما دے ‘ اسے مکمل اختیار حاصل ہے ‘ مگر شرک کو معاف نہیں فرمائے گا ‘ تو آیت کا مطلب یہ نکلا کہ نجات ایسے ایمانداروں کا حق ہے جو شرک سے بچتے رہے۔ وھم مھتدون اور یہی ہدایت یافتہ لوگ ہیں۔ متشابہ آیات کی تفسیر قرآن پاک میں اور بھی بہت سی آیات ایسی ہیں جن کے سمجھنے میں صحابہ کرام ؓ کو اشکال پیدا ہوا۔ مثلاً سورة بقرہ کے آخری رکوع میں آتا ہے ” ان تبدو ما فی انفسکم او تخفوہ یحسابکم بہ اللہ “ یعنی جو کچھ تم اپنے نفسوں میں ظاہر کرو چھپائو ‘ اللہ تعالیٰ اس کا ضرور حساب لے گا۔ یہ آیت صحابہ کرام ؓ پر بڑی دشوار گزری۔ انہوں نے تخفوہ سے ہر وہ خیال اور وسوسہ مراد لیا جو کسی انسان کے دل میں آتا رہتا ہے اور جسے وہ ظاہر نہیں کرتا۔ صحابہ ؓ نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ اگر ہر وسوسے پر بھی مواخذہ ہوا تو پھر کوئی بھی نہیں بچ سکے گا۔ آپ نے فرمایا ایسا خیال نہ کرو ‘ بلکہ کہو ” غفرانک ربنا “ اے ہمارے پروردگار ! ہم تجھ سے معافی طلب کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت نازل فرمائی ” لا یکلف اللہ نفساً الا وسعھا “ یعنی اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ دل میں وسوسوں کا آنا غیر اختیاری امر ہے۔ یہ کسی شخص کی طاقت میں داخل نہیں ‘ لہٰذا اس پر مواخذہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح اختتام سحری کے متعلق حضرت عدی بن حاتم کو اشتباہ پیدا ہوگیا تھا ‘ سورة بقرہ میں اختتام سحری کی نشانی اللہ تعالیٰ نے اسی طرح بیان فرمائی ہے۔ حتیٰ یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود “۔ یہاں تک کہ سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے نمایاں ہوجائے۔ یعنی اس وقت تک روزہ رکھنے کے لئے سحری کھا سکتے ہو۔ حضرت عدی ؓ نے دھاگے سے مراد عام دھاگہ لیا اور صبح صادق کے امتیاز کے لئے اسے اپنے پاس سرہانے کے نیچے رکھ لیا۔ جب اس بات کا ذکر حضور ﷺ سے کیا ‘ تو آپ نے فرمایا ‘ تمہارا تکیہ تو بہت بڑا ہے ‘ جس میں تم نے دن اور رات کو لپیٹ کر رکھ لیا ہے ‘ فرمایا سیاہ اور سفید دھاگے سے رات اور دن مراد ہیں۔ اس پر اللہ نے ان الفاظ کے بعد ” من الفجر “ کے الفاظ نازل کردیئے ‘ جس سے واضح ہوگیا کہ طلوع فجر تک سحری کھا پی سکتے ہیں۔ موت پر ایمان اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مسند احمد کی ایک لمبی حدیث بھی آتی ہے۔ جو حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم حضور ﷺ کے ہمراہ کسی کام سے مدینہ سے باہر نکلے۔ تھوڑی دور گئے تھے کہ ایک سوار کو دیکھا جو اپنی سواری کو دوڑاتا ہوا ہماری طرف آ رہا تھا۔ اسے دیکھ کر حضور ﷺ نے فرمایا ” ایاکم یرید یعنی یہ سوار تمہارے پاس ہی آنا چاہتا ہے۔ جب وہ ہمارے پاس پہنچا تو اس نے سلام کیا ‘ ہم نے جواب دیا۔ پھر حضور ﷺ نے اس سے دریافت کیا من این اقبلت تم کہاں سے آئے ہو۔ عرض کیا من اھلی و ولدی و عشیرتی اپنے پیچھے اہل و عیال ‘ بال بچے اور خاندان چھوڑ کر آ رہا ہوں حضور ﷺ نے دریافت کیا این ترید کہاں جانے کا خیال ہے ؟ تو وہ شخص کہنے لگا ارید رسول اللہ ﷺ میں تو اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے آیا ہوں ‘ آپ ﷺ نے فرمایا قد اصبتہ اس تک تم پہنچ گئے ہو۔ پھر اس شخص نے عرض کیا ‘ حضور ! علمنی ما لا یمان یعنی ایمان کیا ہے مجھے سکھا دیجئے۔ آپ نے فرمایا ‘ ایمان یہ ہے ان تشھد ان لا الہ الا اللہ و ان محمد رسول اللہ تو دل کی گہرائی سے گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ کے رسول ہیں اور پھر ظاہری احکام میں تقسیم الصلوٰۃ نماز قائم کرو توتی الزکوٰۃ مال ہے تو سالانہ زکوٰۃ ادا کرو۔ تصوم رمضان ماہ رمضان کے روزے رکھو۔ تحج البیت اگر استطاعت ہے تو بیت اللہ کا حج کرو۔ جب حضور ﷺ نے یہ باتیں بتائیں تو وہ شخص کہنے لگا قد اقررت میں نے مان لیا۔ آپ کے ارشادات پر اسی طرح عمل کروں گا۔ پھر جب واپس ہوا تو اس کے اونٹ کا پائوں جنگلی چوہے کی بل میں پھنس گیا ‘ جس سے اونٹ گر پڑا۔ ساتھ ہی وہ شخص بھی سر کے بل زمین پر گرا اور ہلاک ہوگیا۔ حضور ﷺ نے دیکھ کر فرمایا ‘ اسے جلدی اٹھا کرلے آئو۔ عمار ؓ اور حذیفہ ؓ دوڑے ‘ جب اس کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ اس کی روح پرواز کرچکی تھی ‘ انہوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا قد قبض الرجل یہ آدمی تو اللہ کو پیارا ہوچکا ہے حضور ﷺ وہاں سے ذرا ہٹ گئے ‘ پھر عمار ؓ اور حذیفہ ؓ سے فرمایا ‘ کیا تم جانتے ہو کہ میں وہاں سے کیوں ہٹ گیا تھا ؟ پھر خود ہی فرمایا ‘ میں نے دیکھا کہ وہ فرشتے جنت کے پھل اس شخص کے منہ میں ڈال رہے تھے ‘ جس سے میں سمجھ گیا کہ اس شخص کی موت بھوک کی حالت میں واقع ہوئی ہے دوسری روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ جب اس شخص سے پوچھا گیا کہ تم کہاں سے آئے ہو ‘ تو اس نے یہ بھی کہا راستے میں مجھے کھانے کے لئے کوئی چیز نہیں ملی لہٰذا میں درختوں کے پتوں اور گھاس پھونس پر گزارہ کرتا رہا ہوں۔ الغرض ! اس واقعہ کے بعد حضور ﷺ صحابہ کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا ‘ دیکھو ! ھذا من الذین لم یلبسوا ایمانھم بظلم یہ شخص ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ نہیں ملایا۔ یہ شخص ایمان لایا ‘ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کیا ‘ پھر اس نے اپنے ایمان کو شرک کی نجاست سے پاک رکھا حتی کہ اس کی موت واقع ہوگئی۔ حضور ﷺ نے اس موقع پر یہی آیات تلاوت فرمائی۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا ‘ یہ تمہارا بھائی ہے ‘ اس کو اٹھا لو ‘ پھر اس کو غسل دیا گیا ‘ خوشبو لگائی گئی ‘ کفن پہنایا گیا ‘ اس کی قبر کھودنے لگے تو آپ وہاں تشریف لے گئے اور فرمایا الحمد والہ اس کے لئی لحد یعنی بغلی قبر تیار کرو فان الحد لنا کیونکہ لحد ہمارے لئے ہے والشق لغیرنا اور دوسرے لوگوں کے لئے دراڑ یعنی کھلی قبر ہے تاہم ہمارے لئے کھلی یعنی صندوق نما قبر بھی جائز ہے مگر لحد یا بغلی قبر بہتر ہے۔ مدینے کی زمین قدرے سخت ہے اور وہاں لحد آسانی سے بن جاتی ہے۔ آپ نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا ھذا من الذین عملوا قلیلا واجروا کثیرا یہ شخص ان لوگوں میں سے ہے ‘ جنہوں نے عمل تو تھوڑا کیا مگر اجر بہت زیادہ پا گئے۔ ظاہر ہے کہ اس شخص نے ابھی تک نہ نماز پڑھی تھی ‘ نہ روزہ رکھا تھا ‘ نہ حج کیا اور نہ زکوٰۃ ادا کی۔ ایمان لانے کے متصل ہی اس کو حادثہ پیش آ گیا اور وہ فوت ہوگیا۔ بہرحال وہ صحیح اور شرک سے پاک ایمان لے کر گیا اور اے ایک طرح کی شہادت کا درجہ بھی مل گیا ‘ کیونکہ جو مومن کسی حادثے کا شکار ہوجائے وہ ایک درجے میں شہید ہوتا ہے۔ بہرحلا امام ابن کثیر (رح) نے مسند احمد کی یہ روایت بیان کر کے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ جو لوگ ایمان کی حفاظت کریں گے ‘ اسے شرک میں ملوث نہیں کریں گے ‘ ان کی کامیابی انشاء اللہ یقینی ہی ‘ انہیں امن نصیب ہوگا۔ اس کے برخلاف شرک میں ملوث اور اعتقادی منافق پکڑے جائیں گے۔
Top