Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 75
وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُرِيْٓ : ہم دکھانے لگے اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم مَلَكُوْتَ : بادشاہی السَّمٰوٰتِ : آسمانوں (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلِيَكُوْنَ : اور تاکہ ہوجائے وہ مِنَ : سے الْمُوْقِنِيْنَ : یقین کرنے والے
اور اسی طرح ہم دکھاتے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) کو بادشاہی آسمانوں کی اور زمین کی ‘ تا کہ ہوجائیں وہ یقین رکھنے والوں میں
ربط آیات اللہ تعالیٰ نے شرک کی تردید میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرمایا ہے اور اس دلیل کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے شرک کی تردید میں مشرکین کے سامنے پیش کی۔ ان آیات میں ابراہیم (علیہ السلام) کا عقیدہ اور مسلک بھی کھل کر سامنے آ گیا ہے پھر اگلی آیات میں قوم سے جھگڑا کرنے کا ذکر ہوگا۔ پھر انبیاء کا مسلک بیان ہوگا جو کہ ابراہیم (علیہ السلام) ہی کا مسلک ہے۔ گزشتہ آیت میں گزر چکا ہے کہ اللہ نے فرمایا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ کو دھیان میں لائو ‘ جب انہوں نے اپنے والد آزر سے کہا تھا کہ کای تو بتوں کو الٰہ بناتا ہے۔ میں تجھے اور تیری قوم کے لوگوں کو صریح گمراہی میں دیکھتا ہوں تم اپنے ہاتھ سے پتھر تراش کر بت بناتے ہو اور پھر انہیں معبود سمجھ کر ان کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہو ‘ یہ کونسا دین ہے ؟ یہ تو واضح گمراہی ہے جس میں ساری قوم مبتلا ہے۔ نام آزر کی تحقیق میں نے کل عرض کیا تھا کہ مفسرین کی تحقیق کے مطابق آزر ابراہیم (علیہ السلام) کے والد ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ تورات میں اور عام تاریخی کتابوں میں ان کا نام تارخ آتا ہے مگر قرآن پاک نے صراحتاً آزر بتایا ہے اس معاملے میں بعض مفسرین کو غلط فہمی بھی ہوئی ہے جنہوں نے تارخ کو والد اور آزر کو چچا کہا ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ بعض کے نزدیک تارخ کی بجائے زارخ کا تلفظ بھی آیا ہے اور عین ممکن ہے زارخ کو آزر میں تبدیل کردیا گیا ہو بعض اوقات اہل لغت الفاظ میں اس قسم کی تبدیلی کرلیتے ہیں لہٰذا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ امام ابن کثیر (رح) کی تحقیق کے مطابق ابراہیم (علیہ السلام) کے والد چونکہ آزر نامی بت کے پجاری تھے اور اس کی خدمت کیا کرتے تھے ‘ لہٰذا ان کا نام بھی بت کے نام پر آزر ہی مشہور ہوگیا۔ اور یہی بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے تاہم اگر اصل نام تارخ بھی ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ کا لقب بہرحال آزر مشہور ہوگیا اور اسی نام سے جانے پہچانے جانے لگے۔ عربی زبان اب باپ کے لئے استعمال ہوتا ہے نہ کہ چچا کے لئے قرآن پاک میں ہر جگہ ابی کا لفظ ہی آیا ہے ‘ لہٰذا اس امر میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ آزر آپ کے والد ہی تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی والدہ کا نام شانی تھا ‘ آپ کلدانی قوم کے فرد تھے۔ یہ قوم قدیم عراق میں ایک بڑی تہذیب کی وارث تھی اور وہاں پر صدیوں سے ان کی حکومت چلی آ رہی تھی۔ اس علاقے میں کلدانیوں سے پہلے آشوری دور بھی گزرا ہے کلدانیوں میں حمورابی بادشاہ ہوا ہے جس نے اپنے قوانین پتھروں پر کنندہ کرا دیئے تھے یہ شخص دو ہزار سال قبل مسیح ہوا ہے۔ اسی سرزمین سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو پیدا کیا۔ اس وقت نمرود حکمران تھا۔ نمرود اصل میں نمو تھا۔ نمو سے انمو ہوا اور پھر عربی لہجے میں آ کر نمرود بن گیا۔ خاندان ابراہیم (علیہ السلام) جیسا کہ کل عرض کیا تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بڑی بیوی کا نام سارہ تھا۔ جو آپ کی چچازاد تھی۔ آپ کی دوسری بیوی ہاجرہ تھیں جو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ ہیں عام مشہور یہ ہے کہ حضرت ہاجرہ لونڈی تھیں مگر یہ بات درست نہیں ہے۔ حضرت مولانا انور شاہ کشمیری (رح) کی تحقیق کے مطابق حصرت ہاجرہ شہزادی تھیں۔ گردش زمانہ میں آ کر کسی طرح قید ہو کر شاہ مصر کی تحویل میں چلی گئیں جنہوں نے انہیں لونڈی بنا لیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جب حضرت سارہ کے ہمراہ مصر پہنچے تو وہاں کا جبار حکمران اپنے دستور کے مطابق برائی کا ارادہ رکھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل ہوئی اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اللہ تعالیٰ نے کسی طریقے سے خوفزدہ کردیا ‘ چناچہ اس نے حکم دیا کہ ان نواردان کو مصر سے نکال دیا جائے تاہم اس نے خدمت کے لئے حضرت ہاجرہ حضرت سارہ کو دیدی۔ پھر انہوں نے اسے حضرت ابراہیم کو ہبہ کردیا۔ آپ نے ان سے نکاح کرلیا ‘ اور اللہ تعالیٰ نے ان کے بطن سے اسماعیل جیسا عظیم فرزند اور عالی شان رسول پیدا فرمایا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک اور بیوی قطورہ نامی بھی تھی۔ آپ نے عمر کے آخری حصے میں ان سے قریہ خلیل میں نکاح کیا۔ اسی مقام پر آپ کی قبر کی نشان دہی بھی ملتی ہے۔ مدین والے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اسی بیوی کی اولاد تھے جو بنی قطورہ کہلاتے تھے۔ ابراہیم اللہ کے جلیل القدر پیغمبر ہوئے ہیں۔ آپ کالقب خلیل اللہ ہے آپ کا تذکرہ قرآن پاک کی بہت سی سورتوں میں مختلف عنوانات کے تحت ہوا ہے۔ آپ کے نام ایک سورة ابراہیم بھی قرآن پاک میں موجود ہے آپ حنیفیت کے سب سے بڑے امام تھے۔ آپ سے پہلے صابی دور تھا۔ جو کہ شیث (علیہ السلام) کے دور سے چلا آرہا تھا یہ دین بھی ابتداء میں حق پر تھا مگر بعد میں اس میں بت پرستی ‘ ستارہ پرستی اور سورج پرستی شروع ہوگئی۔ یہ لوگ آسمانی کردوں میں کرشمہ مانتے تھے اور سیاروں کے نام پر مندر بنائے ہوئے تھے جن کی وہاں پوجا ہوتی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس ماحول میں آنکھ کھولی ‘ ان قباحتوں کو دیکھا اور پھر ان کے خلاف جہاد میں مصروف ہوگئے۔ اور آیات میں آپ کی اس کاوش کا ذکر ہے جس کے ذریعے آپ نے بتوں کی پرستش کے خلاف نہایت حکیمانہ دلائل قدرت پیش کئے۔ قیام حجت گزشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ اللہ نے ارشاد فرمایا ” ولقد اتینا ابراھیم رشدہ من قبل “ یعنی ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو شروع سے ہی سمجھ عطا فرمائی۔ امام ابن کثیر من قبل کی تفسیر میں فرماتے ہیں من صغرہ الفی کبرہ یعنی ابراہیم (علیہ السلام) بچپن سے لے کر سن شعور تک اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے ماہر اور محقق تھے۔ آپ نے اپنے والد کو خطاب کر کے واضح الفاظ میں کہا کہ تم اور تمہاری قوم گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔ چونکہ وہ لوگ صابی ملت سے تعلق رکھتے تھے اور عام طور پر ستارہ پرست تھے ‘ لہٰذا ابراہیم (علیہ السلام) نے ان ستاروں اور سیاروں کو ہی اپنی قوم کے سامنے بطور دلیل پیش کیا آج کی آیات میں ستارہ چاند اور سورج تین چیزوں کا ذکر ہے جن کے مشاہدہ کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کی الوہیت کی نفی کی ہے تو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہ تینوں مشاہدات ایک ہی دن میں نہیں کئے گئے ‘ بلکہ مختلف مواقع پر ان کا مشاہدہ کرنے اور پھر قوم کو متوہ کرنے کے بعد آپ نے ان پر دلیل و حجت قائم کی۔ اور اپنے باپ آزر اور قوم کے دیگر افراد کو سمجھایا کہ بتوں کی پرستش صریح گمراہی ہے کفر اور شرک ہے ‘ لہٰذا اس سے باز آ جائو۔ نشانات قدرت کا مشاہدہ ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی فضیلت بیان فرمائی ہے و کذلک نری ابراھیم ملکوت السموات والارض اور اسی طرح ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمان اور زمین کی سلطنت دکھا دی۔ ملکوت ‘ ملک کا مبالغہ ہے ‘ جیسے رحمت سے رح موت اور جبر سے جبروت ‘ اور ملکوت کا معنی ہوگا عظیم سلطنت ۔ اس طرح ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ارض و سما کی عظیم سلطنت کا نظام دکھا دیا۔ عجائبات قدرت کا انہیں مشاہدہ کرا دیا۔ اس قسم کا طرز کلام سورة بنی اسرائیل میں واقعہ معراج کے ضمن میں بھی آیا ہے ‘ پاک ہے وہ (ذات) جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا۔ ” لنریہ من ایتنا “ تا کہ ہم اسے اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائیں اور پھر اصل مشاہدہ کی تصدیق سورة نجم میں یوں کی ” لقد رای من ایت ربہ الکبری “ انہوں نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ اسی طرح ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی عجیب و غریب نشانیوں کا مشاہدہ کرایا۔ اللہ نے آپ کو سمجھا دیا کہ کائنات کا نظام اس طریقے سے چل رہا ہے۔ یہ سورج ‘ چاند اور ستارے اللہ تعالیٰ کی عظیم سلطنت کا ایک حصہ ہیں۔ اور یہ سب کچھ دکھانے سے مطلب کیا تھا ؟ ولیکون من الموقنین “ تا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا یقین اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر پختہ ہوجائے۔ بعض اوقات ایمان لانے کے باوجود مشاہدہ کی خواہش برقرار رہتی ہے ‘ جس کی مثال ابراہیم (علیہ السلام) ہی کے واقعہ میں ملتی ہے۔ آپ نے پروردگار عالم سے عرض کیا رب ارنی کیف نحی الموتیٰ اے پروردگار ! مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا۔ تو اللہ نے فرمایا ‘ کیا تو اس بات پر ایمان نہیں رکھتا۔ عرض کیا ‘ ایمان تو رکھتا ہوں۔ ” ولکن لیطمئن قلبی “ تاہم میں مشاہدے کے ذریعے اطمینان قلب حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار پرندوں کو ذبح کرنے کے بعد پھر زندہ کردینے کا مشاہدہ کرا دیا اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو زمین و آسمان کی سلطنت کی نشانیاں دکھا دیں۔ اور ان کی حکمت سے بھی آپ کو آگاہ کردیا۔ ستارے پر نگاہ ارشاد ہوتا ہے فلما جن علیہ الیل را کوکبا جب رات تاریک ہوگئی تو ابراہیم (علیہ السلام) نے ستارے پر نگاہ کی جو کہ چمک رہا تھا۔ اس وقت آپ کسی مجلس میں ہوں گے جہاں قوم کے بہت سے لوگ ہوئے تھے جن کی وہاں پوجا ہوتی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس ماحول میں آنکھ کھولی ‘ ان قباحتوں کو دیکھا اور پھر ان کے خلاف جہاد میں مصروف ہوگئے۔ ان آیات میں آپ کی اس کاوش کا ذکر ہے جس کے موجد تھے تو آپ نے ان کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا قال ھذا ربی کیا یہ (ستارہ) میرا رب ہے ؟ بعض مفسرین کو یہاں پر غلط فہمی ہوئی ہے ان کے مطابق ابراہیم (علیہ السلام) تحقیق کے منازل طے کرنے کے دوران شرک بھی کرتے رہے ‘ اسی لئے انہوں نے ستارے کو ایک نظر دیکھ کر کہہ دیا کہ یہ میرا رب ہے اور پھر آخرکار تحقیق کرتے کرتے توحید خالص کا نقطہ پا لیا۔ مولانا مودودی صاحب کو بھی اسی قسم کا اشتباہ ہوا ہے۔ مگر یہ حقیقت کے برعکس ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) روز اول سے ہی کامل درجے کے موحد تھے۔ انہوں نے کبھی ستارے ‘ چاند ‘ یا سورج کو اپنا رب نہیں کہا بلکہ انہوں نے لوگوں کو سمجھانے کے لئے استفہامیہ طور پر کہا ‘ کیا یہ میرا رب ہے ؟ آپ کا مقصد ستارے کو توحید کی دلیل بنانا تھا۔ فلما افل جب وہ ستارہ غروب ہوگیا قال لا احب الافلین فرمایا میں غروب ہوجانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ آپ نے قوم کو سمجھایا کہ تم محض ستارے کی چمک دیکھ کر اسے معبود بناتے ہو حالانکہ یہ تو غروب ہوجانے والی چیز ہے۔ اور جس چیز پر زوال آجائے وہ الہ نہیں ہو سکتی ‘ لہٰذا میں ستارے کو اپنا رب تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ معبود برحق تو وہ ہستی ہے الئن کما کان جو ازل میں بھی تھی اور اب بھی ہے اور ابد میں بھی ہوگی۔ ایسی ذات پر کسی قسم کا تغیر نہیں آسکتا۔ اللہ تعالیٰ مخلوق پر اپنی تجلیات کا نزول کرتا ہے ‘ کبھی وہ نظر آتی ہیں اور کبھی نہیں آتیں ‘ تو اس سے مخلوق میں تو تغیر آتا ہے مگر خود اس ذات باری تعالیٰ میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا۔ وہ آج بھی ایسا ہے جیسا ازل میں تھا اور ابد میں بھی رہے گا۔ وہ چیز الہ نہیں ہو سکتی جو کبھی طلوع ہو اور کبھی غروب ہو ‘ کبھی ایک افق میں ہو اور کبھی دوسرے افق میں ‘ فرمایا میں متغیر ہونے والی شے کو معبود تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ چاند کا مشاہدہ چاند بھی خدا تعالیٰ کی بہت بڑی نشانی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشادمبارک ہے۔ الشمس والقمر ایتان من ایت اللہ یعنی سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو عظیم نشانیاں ہیں۔ مگر ان کو الوہیت کا درجہ دینا سخت گمراہی ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ جس روز سورج گرہن ہوا ‘ اسی روز حضور ﷺ کے فرزند حضرت ابراہیم کی وفات ہوئی جاہلیت میں یہ تو ہم پایا جاتا تھا کہ جس دن سورج یا چاند گرہن ہو اس دن کوئی بڑا آدمی پیدا ہوتا ہے یا فوت ہوتا ہے۔ آپ نے اس کی تردید فرمائی اور فرمایا کہ کسوف کسی کے پیدا ہونے یا مرنے کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے مخلوق میں تغیر و تبدل کو دکھا دیتا ہے تا کہ لوگ سمجھ جائیں کہ جب اللہ تعالیٰ اتنی بڑی چیزوں میں تغیر و تبدل پیدا کردیتا ہے تو ان کے مقابلے میں کمزور سے انسان کی کیا حیثیت ہے ‘ بہرحال کسوف کے دن آپ نے لمبی نماز پڑھی طویل قرارت کی ‘ رکوع اور سجود بہت لمبے کئے اور پھر بڑی لمبی دعا فرمائی۔ سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق جب زمین ‘ سورج اور چاند کے درمیان ایک سیدھ میں آجاتی ہے ‘ تو زمین کا سایہ چاند پر پڑتا ہے ‘ جس کی وجہ سے چاند کا اتنا حصہ تاریک ہوجاتا ہے ‘ اسے چاند گرہن کہتے ہیں ‘ اسی طرح جب چاند ‘ سورج اور زمین کے عین درمیان میں آجاتا ہے تو سورج کی روشنی زمین کے اتنے حصے تک نہیں پہنچ پاتی جس کی وجہ سے اس حصہ زمین سے سورج تاریک نظر آتا ہے ‘ یہ سورج گرہن ہے۔ کسوف کی تکوینی وجہ کچھ بھی ہو یہ بہرحال خدا تعالیٰ کا فعل ہے کہ چاند یا سورج کی روشنی کو موقوف کر دے۔ حضور ﷺ نے فرمایا ‘ ایسے موقع پر توبہ و استغفار کرو ‘ غلام آزاد کرو۔ صدقہ خیرات کرو اور اپنی فکر کرو ‘ نہ کہ کیمرے لے کر فوٹو کھینچنا شروع کر دو ۔ اس فعل کو خدا ہی کی طرف منسوب کرو اور مشرکانہ یا مبتدعانہ افعال سے پرہیز کرو۔ حقیقت میں نیر اعظم یعنی روشنی کا منبع تو سورج ہی ہے جب سورج کی روشنی چاند پر پڑتی ہے تو وہ معکوس ہو کر پھر زمین پر پڑتی ہے ‘ اسی لئے چاند کی روشنی مدھم ہوتی ہے یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا کرشمہ ہے کہ اس نے سورج کو بہت زیادہ تابانی عطا کی ہے اور چاند کو کم۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورج میں تابانی کے لئے بڑے درجے کا ایندھن جمع کردیا ہے جو سورج کی پیدائش کے دن سے لیکر جب تک اللہ کو منظور ہے روشنی اور حرارت بہم پہنچاتا رہے گا۔ پھر ایک دن آئے گا جب اللہ تعالیٰ اس ایندھن کو ٹھنڈا کر دے گا اور کائنات کا پورا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے چاند کی دھیمی روشنی میں انسان کے فائدے کی کئی چیزیں رکھی ہیں۔ چاند کے ذریعے اناج میں رس اور پھلوں میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے اور پانی پر اس کے خاص اثرات وارد ہوتے ہیں۔ اسی طرح سورج حرارت اور روشنی کا منبع ہے۔ اس کے ذریعے فصلیں پکتی ہیں اور کئی قسم کے دیگر فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ فرمایا فلما را القمر بازغا جب ابراہیم (علیہ السلام) نے چاند کو چمکتا ہوا دیکھا ‘ ظاہر ہے کہ اس معاشرے میں چاند کے پجاری بھی موجود تھے۔ چاند کے مشاہدہ کے وقت آپ نے ان کو متوجہ کیا قال ھذا ربی اور کہا ‘ کیا یہ ہے میرا رب ؟ فلما افل پھر جب چاند بھی غروب ہوگیا تو آپ نے قوم کے سامنے دوسری دلیل پیش کی۔ قال لئن لم یھدنی ربی لا کونن من القوم الضالین اگر میرا پروردگار مجھے راہ راست پر نہیں رکھے گا ‘ تو میں گمراہ لوگوں میں سے ہوجائوں گا۔ اگر اللہ نے میری راہنمائی نہ فرمائی تو جس طرح یہ لوگ چاند میں کرشمہ مان کر شرک میں مبتلا ہوچکے ہیں تو میں بھی بہک سکتا ہوں۔ ہدایت بھی اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ہی حاصل ہوتی ہے اگر وہ دستگیری نہ فرمائے اور اپنی رحمت سے نہ نوازے تو کسی کو صراط مستقیم کی طرف راہنمائی حاصل نہیں ہو سکتی۔ حدیث شریف میں آتا ہے ‘ حضور ﷺ خطبہ میں پڑھا کرتے تھے من یضللہ فلا ھادی لہ جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے ‘ اس کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ بہرحال ابراہیم (علیہ السلام) نے دوسرے دن چاند کا مشاہدہ کر کے اس سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل پکڑی اور قوم کو سمجھانے کی کوشش کی۔ آفتاب ماہتاب مفسرین فرماتے ہیں کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کے خصوصی مشاہدے کا تیسرا دن آیا ت سورج اپنی پوری تابانی کے ساتھ آسمان پر موجود تھا ‘ چناچہ ارشاد ہوتا ہے فلما را الشمس بازغۃ جب آپ نے سورج کو چمکتے ہوئے دیکھا قال ھذا ربی ھذا اکبر فرمایا کیا یہ میرا رب ہے ؟ یہ تو بڑا ہے ۔ مگر سورج بھی تغیر پذیر ہے فلما افلت جب وہ بھی غروب ہوگیا قال انی بری مما تشرکون ۔ فرمایا ‘ اے لوگو ! میں ان چیزوں سے بیزا رہوں جن کو تم شریک بناتے ہو ‘ مقصد یہ کہ نہ ستارہ الہ ہے ‘ نہ چاند اور نہ ہی سورج جو ان میں سب سے بڑا ہے لہٰذا میں ان میں سے کسی کو بھی معبود تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ مقصد یہی تھا کہ تم ان کو معبود بنا کر شرک کے مرتکب نہ ہو بلکہ معبود برحق وہ ہے جس نے ان سب چیزوں کو پیدا کیا ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا ۔ ” لا تسجدوالشمس ولا للقمر واسجدوا للہ الذی خلقن “ (حمن سجدہ) لوگو ! نہ سورج کو سجدہ کرو ‘ نہ چاند کی پرستش کرو بلکہ اس اللہ وہدہ لا شریک کو سجدہ کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا۔ رجوع الی اللہ پھر فرمایا انی وجہت وجہی للذی فطر السموات والارض بیشک میں نے متوجہ کرلیا اپنے رخ کو اس ذات کی طرف جو آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے یعنی میں تو صرف اسی کو معبود مانتا ہوں جس نے بغیر نمونے کے زمین و آسمان اور باقی تمام مخلوق کو پیدا کیا۔ فاطر اور بدیع کا یہی معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے ہر چیز کو بغیر سابقہ نمونہ اور بغیر کسی آلے کے اپنی صفت اور تجلی سے پیدا فرمایا۔ تو ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تمہارے تمام شریکوں سے بیزار ہو کر اسی ایک خدا کی طرف لو لگاتا ہوں۔ اور اسی کو معبود برحق جانتا ہوں۔ حنیفاً میں حنیف ہوں ‘ یعنی ہر طرف سے کٹ کر صرف ایک وحدہ لا شریک کی طرف جھکنے والا ہوں ۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ حنیف وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو مانتا ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو یہی حکم دیا ہے ” حنفاء للہ غیر مشرکین بہ “ (الحج) تم سب حنیف بن جائو ‘ ہر طرف سے کٹ کر اس ایک کی طرف متوجہ ہو جائو ۔ جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے کیا۔ فرمایا میں حنیف ہوں وما انا من المشرکین اور مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ میں کسی قسم کا شرک روا نہیں سمجھتا۔ بہرحال ابراہیم (علیہ السلام) نے ستاروں ‘ چاند اور سورج کو سامنے رکھ کر قوم کے سامنے اللہ کی وحدانیت کی دلیل پیش کی۔ تغیر و تبدل کو علت بنایا کہ جس میں یہ چیز پائی جائے وہ معبود نہیں ہو سکتا۔ آپ نے اپنا عقیدہ قوم کے سامنے واضح کردیا اب اگلی آیات میں قوم کے بحث مباحثے اور جھگڑے کا تذکرہ آئے گا۔
Top