Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 74
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةً١ۚ اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَ قَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم لِاَبِيْهِ : اپنے باپ کو اٰزَرَ : آزر اَتَتَّخِذُ : کیا تو بناتا ہے اَصْنَامًا : بت (جمع) اٰلِهَةً : معبود اِنِّىْٓ : بیشک میں اَرٰىكَ : تجھے دیکھتا ہوں وَقَوْمَكَ : اور تیری قوم فِيْ ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
(اس واقعہ کو یاد کرو) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آذر سے کہا ‘ کیا تو بتوں کو معبود بناتا ہے ؟ بیشک میں تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں
ربط آیات گزشتہ آیات میں شرک کی تردید بیان ہوئی تھی اور اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ مشرک لوگ جن ہستیوں اور چیزوں کو اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ نفع نقصان کے کچھ مالک نہیں پھر ایمان والوں کے متعلق فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو اختیار کرتے ہیں اور کسی دوسری ہستی کی عبادت نہیں کرتے ‘ نہ ہی کسی کو اپنا کارساز مانتے ہیں۔ وہ تو اللہ رب العالمین کی اطاعت کرتے ہیں کیونکہ ان کے لئے یہی حکم ہے کہ وہ نماز قائم کریں اور خدا تعالیٰ سے ڈرتے رہیں جس کے سامنے سب کو اکٹھا ہونا ہے وہی ارض و سما کا مالک ‘ با اختیار اور متصرف ہے۔ اس کی بات برحق ہے ‘ بادشاہی صرف اسکی ہے جس دن وہ صور پھونکنے کا حکم دے گا ‘ کائنات کا سارا نظام درہم برہم کردیا جائے گا ‘ محاسبے کی منزل آجائے گی ‘ اللہ تعالیٰ عالم الغیب والشہادۃ ہے۔ وہ حکمت کا مالک اور ہر چیز سے باخبر ہے۔ آج کا درس بھی تردید شرک پر ہی مشتمل ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ابولموحدین ہوئے ہیں۔ ان کا باپ اور پوری قوم گمراہی میں مبتلا تھی ‘ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ آمدہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس دعوت توحید کا ذکر فرمایا ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آذر کے سامنے پیش کی۔ آپ نے شرک کی قباحتوں کو واضح کر کے اس سے منع فرمایا۔ آپ نے بتایا کہ مسئلہ توحید تمام انبیاء (علیہم السلام) کی مشترکہ دعوت ہے۔ ہر نبی نے اپنی قوم کے سامنے یہی دعوت پیش کی کہ تمام معبودان باطلہ کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ حضرت ابراہیم کا واقعہ بیان کرنے سے مشرکین عرب کو سمجھانا مقصود ہے کہ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ بھی وہی دعوت پیش کر رہے ہیں جو تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پیش کی ‘ اس لئے یہ کوئی انوکھی دعوت نہیں ہے۔ اسے قبول کرلو۔ تمام انبیاء کا دین یہی رہا ہے۔ عرب میں شرک کی ابتداء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہود و نصاریٰ اور مشرکین عرب سب کیلئے قابل صد احترام ہیں۔ عراق اور عرب کے دیگر علاقوں کے صابی لوگ بھی آپ کا احترام کرتے تھے کیونکہ جدالانبیاء ہونے کی حثیت سے اپ سب کے جانے پہچانے تھے۔ اگرچہ ان لوگوں نے آپ کے دین کو بگاڑ رکھا تھا۔ تاہم وہ سب اپنے آپ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی طرمنسوب کرتے تھے۔ یہود و نصاریٰ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے واسطے سے آپ کی نسل سے تھے اور عرب کے لوگ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد ہونے کی وجہ سے اپنا تعلق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جوڑتے تھے ‘ بلکہ عربوں کا دعویٰ تو یہ تھا کہ صرف وہی اصل دین ابراہیمی پر ہیں ‘ باقی کوئی نہیں۔ کسی حد تک حقیقت حال بھی یہی تھی۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد تقریباً ڈیڑھ ہزار سال تک عرب کے لوگ دین حنیف پر قائم تھے اور ان میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا طریقہ ہی رائج تھا۔ تاہم حضور ﷺ کی بعثت سے تقریباً چار پانچ سو سال پہلے آپ کے اجداد میں سے قصی بن کلاب کے زمانے میں عرب کی سرزمین پر شرک کی ابتداء ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ یہ وبا ایسی پھیلی کہ عربوں کا کوئی گھر شرک سے خالی نہ رہا۔ ہزاروں میں کوئی اکا دکا آدمی ہی صحیح دین پر ملتا تھا ‘ وگرنہ تمام بنی اسماعیل شرک میں غرق ہوچکے تھے۔ ملت ابراہیمی سے پہلے صابی ملت کا دور تھا۔ امام جلال الدین سیوطی (رح) اپنی تاریخ کی کتاب ” حسن المحاضرۃ فی احوال المصر والقاھرۃ “ میں لکھتے ہیں کہ صابی ملت اصل میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کی ملت ہے آپ پر بہت سے صلحیفے نازل ہوئے۔ آپ کی ملت میں بنیادی طور پر یہ چار چیزیں تھیں۔ توحید ‘ طہارت ‘ صلوٰۃ اور صوم۔ مگر جب اس ملت میں بگاڑ پیدا ہوا ‘ تو ان میں سے کوئی چیز بھی باقی نہ رہی ۔ جس طرح یہود ونصاریٰ نے اصل دین کو بگاڑ رکھا تھا ‘ اسی طرح صابیوں نے بھی اصل دین کو بالکل مسخ کردیا تھا۔ ستارہ پرستی صابی ملت والوں کا ستاروں کے ساتھ خاص طور پر تعلق ہے۔ یہ لوگ آسمانی چیزوں یعنی ستاروں ‘ سورج اور چاند وغیرہ میں خدائی کرشمہ مانتے تھے اور ان کی پوجا کرتے تھے۔ رومیوں اور یونانیوں نے ان ستاروں کے نام پر مندر بنائے ہوئے تھے ۔ وہاں پر زہرہ ‘ مشتری اور عطارد کے نام مندر موجود تھے۔ عرب میں شعریٰ سیارے کی پوجا کی جاتی تھی جس کی تردید سورة نجم میں موجود ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی صفات کا ذکر ہے ‘ وہاں یہ بھی ہے ” وانہ ھو رب الشعریٰ “ یعنی شعریٰ سیارے کا رب بھی وہی اللہ ہے۔ لہٰذا اس سیارے کی پوجا کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ یہ سیارہ بھی اسی خدائے واحد کے ہکم کے تابع ہے اس میں الوہیت کی کوئی بات نہیں ‘ وہ تو مخلوق ہے اور اللہ کے حکم سے چلتا ہے عبادت کے لائق صرف خداوند قدوس ہے جو اس سیارے کا بھی خالق ہے۔ ماہرین فلکیات بتاتے ہیں کہ شعریٰ سیارہ ہماری اس زمین سے بہت دور ہونے کی وجہ سے بہت چھوٹا نظر آتا ہے ‘ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس کا حجم سورج کے حجم سے بیس ہزار گنا بڑا ہے۔ ادھر سورج ہماری زمین سے بارہ لاکھ گنا بڑا ہے اور زمین سے اس کا فاصلہ نوکروڑ تیس لاکھ میل ہے نظام شمسی میں جتنے سیارے پائے جاتے ہیں ‘ ان میں سورج سب سے بڑا ہے اور باقی سارے سیارے اس سے چھوٹے ہیں۔ بہرحال شعریٰ سیارہ یہاں سے اربوں میل دور ہونے کی وجہ سے کہکشاں کے ایک چھوٹے سے ستارہ کی صورت میں نظر آتا ہے۔ تو اللہ نے فرمایا کہ اس شعریٰ جیسے بڑے سیارے کا رب بھی اللہ ہے۔ تو پھر تم ان تمام ستاروں اور سیاروں کی پرستش کیونکر کرتے ہو۔ عبادت کے لائق تو فقط وہی ہے جو ہر چیز کا خالق اور مالک ہے شعریٰ کی طرح سورج کی پرستش بھی کی جاتی تھی ‘ مصر میں سورج کے نام پر مندر موجود تھے جو فرعون کے زمانے میں بھی پائے جاتے تھے۔ سورج کے کچھ پرستار آج بھی دنیا میں موجود ہیں۔ جب یہ طلوع ہوتا ہے کہ سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر اس کو سلام کرتے ہیں اور اس کی پوجا کرتے ہیں ‘ اس کو سورج دیوتا مانتے ہیں۔ رات کو بارش ہوئی تو صبح کے وقت حضور ﷺ نے فرمایا کہ مخلوق میں دوقسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ کہ جب بارش ہوئی تو کہا مطرنا برحمتہ اللہ و فضلہ ہم پر اللہ کی رحمت اور اس کے فضل سے بارش ہوئی۔ یہ بندے اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور ستاروں میں کوئی کرشمہ نہیں مانتے۔ اور دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے کہا کہ فلاں نچھتر طلوع ہوا تو بارش ہوئی یعنی فلاں ستارے کی وجہ سے ہمیں بارش نصیب ہوئی۔ فرمایا یہ لوگ ستاروں پر یقین رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔ علم نجوم والے بھی سعادت اور نحوست کو ستاروں کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب فلاں سیارہ فلاں کے بالمقابل آجائے گا تو اس وقت پیدا ہونے والا بچہ سعادت مند ہوتا ہے اور اگر فلاں فلاں ستارے آمنے سامنے آجائیں تو بچہ منحوس پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ حوادثات دنیا کو سیاروں اور ستاروں کی طرف منسوب کرتے ہیں جو کہ کفر ہے۔ سیاروں میں کوئی ذاتی تاثیر نہیں ‘ وہ تو اس کے نظام کا ایک حصہ ہیں۔ یہ سب اس کی قدرت کا کرشمہ ہیں کوئی چمک دیتا ہے ‘ کوئی روشنی اور کوئی حرارت ‘ لہٰذا جو لوگ تمام امور کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں ‘ وہ اللہ کے شکرگزار بندے ہوتے ہیں اور جو لوگ ستاروں میں تاثیر مانتے ‘ وہ کفران نعمت کے مرتکب ہوتے ہیں اگر انہوں نے کسی چیز کو موثر بالذات سمجھ لیا تو مشرک ہوگئے کافر بہ و مومن بالکواکب یعنی اللہ تعالیٰ کا انکار کر کے کافر بن گئے اور ستاروں پر ایمان لے آئے۔ بہرحال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے سامنے جو استدلال پیش کیا ‘ اس میں یہی بات سمجھائی گئی ہے کہ سیاروں اور ستاروں میں کوئی تاثیر نہیں اور نہ ہی یہ عبادت کے لائق ہیں۔ اصل مدبر اور موثر تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس کا حکم ستارے بھی مانتے ہیں ‘ لہٰذا ستاروں اور سیاروں کی عبادت کسی طور پر روا نہیں۔ بعض لوگوں نے ستاروں کے نام پر بت بنائے ہوئے تھے جن کی پوجا کرتے تھے۔ ان میں الوہیت کی صفت مانی جاتی تھی۔ پھر ان کی تعظیم ہوتی ‘ ان پر نذرانے رکھے جاتے تھے ‘ آج کل تعزیہ کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جاتا ہے ‘ اس پر نذرانے ڈالے جاتے ہیں۔ اور پھر قبروں کے ساتھ تو بہت کچھ ہو رہا ہے۔ پہلے پختہ بنائی جاتی ہیں۔ ان پر بڑے بڑے گنبد تعمیر ہوتے ہیں۔ پھر ان کو غسل دیا جاتا ہے۔ چادریں چڑھائی جاتی ہیں۔ نذر و نیاز ہوتا ہے ‘ کوئی چومتا ہے اور کوئی سجدہ کرتا ہے یہی کچھ صابی ملت کے لوگ ‘ ہندو وغیرہ کرتے تھے اور یہی چیز آج مسلمانوں میں بھی موجود ہے۔ نظام شمسی جس کائنات میں ہم رہتے ہیں اسے نظام شمسی کا نام دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے سات سیاروں کا یہ نظام کمال حکمت کے ساتھ بنایا ہے۔ اس نظام میں سورج سب سے بڑا سیارہ ہے ‘ زمین بھی انہی میں سے ایک سیارہ ہے جس پر ہم رہتے ہیں۔ یہ تمام سیارے سورج کے گرد اپنی اپنی مقررہ رفتار کے ساتھ چکر لگا رہے ہیں۔ اتنے بڑے بڑے سیاروں کی فضا میں گردش قدرت کے قائم کردہ قانون جذب و کشش کے تحت ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر سیارے میں ایک خاص درجے کی کشش رکھی ہے جس کی وجہ سے ان کی رفتار معین ہے اور اپنے اپنے مدار میں چل رہے ہیں۔ اس متعینہ کشش کی وجہ سے یہ سیارے نہ تو اپنے مدار سے باہر نکل سکتے ہیں اور نہ ہی یہ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے سورج میں سب سے زیادہ کشش رکھی ہے۔ جس کی وجہ سے تمام باقی سیارے اس کے گرد ایک فاصلے اور خاص رفتار سے چکر لگانے پر مجبور ہیں۔ جو چیز غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ سیاروں کی یہ کشش خود بخود نہیں آ رہی ہے بلکہ اسے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے ‘ یہی وجہ ہے کہ ان سیاروں کا آپس میں ٹکرائو نہیں ہوتا۔ اس مالک الملک کا فرمان ہے کہ ایک دن آنے والا ہے جب یہ سیارے آپس میں ٹکرا کر پاش پاش ہوجائیں گے اور کائنات کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ جب قیامت برپا ہوگی تو ہر چیز فنا ہوجائے گی پھر دوبارہ قائم ہوگی اور محاسبے کا عمل شروع ہوگا۔ ابراہیم علیہ السام کا وطن مولود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ولادت باسعادت آج سے تقریباً پانچ ہزار سال پہلے کلدان یعنی بابل کے مقام اور میں ہوئی۔ موجودہ جغرافیے کے مطابق یہ علاقہ اب عراق میں شامل ہے۔ بابل شہر بغداد سے ساٹھ ستر میل دور آباد تھا یہاں پر بڑے متمدن لوگ رہتے تھے ‘ اس زمانے میں نمرود ابن کنعان وہاں کا بادشاہ تھا۔ یہ بڑا ظالم ‘ جابر اور مشرک آدمی تھا۔ مصر کے فرعون کی طرح یہ بھی لوگوں پر ظلم و ستم ڈھاتا تھا۔ گردش زمانہ کے ہاتھوں بابل کا مشہور و معروف شہر جہاں کلدانی نسل آباد تھی ‘ تباہ و برباد ہوگیا ‘ اب صرف کھنڈرات باقی ہیں جن کی کھدائی کر کے ماہرین آثار قدیمہ کلدانی تہذیب کے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں۔ انگریزوں نے سلطان ترکی سے اجازت لے کر کھدائی شروع کی تو نیچے سے سنگ مرمر کے بنے ہوئے عجیب و غریب مجسمے برآمد ہوئے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں سنگ تراشی کو عروج حاصل تھا ‘ لوگ خود ہی پتھروں کو تراش کر بت بناتے تھے اور پھر خود ہی ان کی پرستش کرنے لگتے۔ پرانی تہذیبوں کے آثار پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے کھنڈرات سے پانچ چھ ہزار سال پرانے آثار ملے ہیں۔ بلوچستان اور سوات میں بھی بعض قدیم تہذیبوں کے آثار ملے ہیں۔ ہندوستان میں بدھ سے بھی سینکڑوں سال پہلے کے نشانات ملے ہیں۔ مصر میں ابراہم کے نام سے جو بڑے بڑے گنبد نظر آتے ہیں ‘ ان کی تاریخ بھی ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی ہے بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہ اس زمانے کے حکمرانوں کی قبریں ہیں ‘ جن پر یادگار کے طور پر عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ مصر کا سب سے بڑا حرم چار سو فٹ بلند ہے جس پر پچھتر پچھتر من وزنی پتھر لگائے گئے ہیں آج تو سائنس بہت ترقی کرچکی ہے۔ ایسے کاموں کے لئے بڑی بڑی مشینیں اور کرینیں ایجاد ہوچکی ہیں جنہیں بجلی کے ذریعے کام میں لایا جاتا ہے ‘ مگر اس زمانے میں جب یہ وسائل میسر نہیں تھے ‘ اتنی بڑی بڑی عمارتیں بنانا حیران کن ہے۔ وہ بھی بڑے ذہین لوگ تھے جنہوں نے اتنے بڑے کام محض افرادی قوت کے ساتھ انجام دیئے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے والد آزر تورات کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام تارخ تھا ‘ مگر اس آیت کریمہ میں ان کا نام آزر بتایا گیا ہے۔ چناچہ مفسرین کے نزدیک یہ تفاوت اشکال کا باعث بنا ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ تارخ اور آزر ایک ہی شخصیت ہے۔ قرآن پاک میں تو واضح طور پر آزر لکھا ہے اور اگر ان کا اصل نام تارخ بھی تسلیم کرلیا جائے تو آزر لقب ہو سکتا ہے اور بعض اوقات نام کی نسبت لقب زیادہ مشہور ہوجاتا ہے جس طرح حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب اسرائیل تھا تو وہ زیادہ تر اسی لقب سے پہچانے جانے لگے اور ان کی اولاد بنی اسرائیل کے نام سے مشہور ہوئی۔ آزر ایک بت کا نام بھی تھا جس کی وہ پوجا کرتے تھے بلکہ خود بت تراش اور بتوں کی تجارت کرتے تھے آپ مشرکین کے امام اور مندروں کے محافظ تھے۔ ان کا لقب آزر شاید اسی بت کی نسبت سے مشہور ہوگیا۔ بہرحال قرآن پاک نے ان کا نام آزر بتایا ہے۔ دونوں ناموں میں سے ایک کو اصل نام اور دسرے کو لقب مان لیا جائے تو تعارض باقی نہیں رہتا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آزر ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ نہیں بلکہ چچا تھے جو کہ درست نہیں ہے ‘ تارخ اور آزر ایک شخصیت کے دو نام ہیں جو بلاشبہ مشرک تھے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی پیدائش حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیدائش اور پرورش کے متعلق بہت سے واقعات تفسیری روایات میں آتے ہیں۔ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے فرعون کی دست برد سے بچایا ‘ اسی طرح ابراہیم (علیہ السلام) بھی نمرود کے ہاتھوں سے بچتے رہے۔ نمرود کو کاہنوں اور نجومیوں نے بتایا تھا کہ تیری سلطنت میں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جو تیرے زوال کا باعث بنے گا ۔ چناچہ اس نے میاں بیوی کے ملاپ کی ممانعت کردی۔ اس کے باوجود جو بچے پیدا ہوتے ان کی نگرانی کی جاتی اور اس کے متعلق پوری تحقیق کی جاتی کہ یہی وہ بچہ تو نہیں جس کی پیشین گوئی کی جا چکی ہے مگر اللہ تعالیٰ کو ایسا ہی منظور تھا جب ابراہیم (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو سرکاری کارندوں نے اس طرف دھیان ہی نہیں دیا بعض یہ بھی فرماتے ہیں کہ آپ کی والدہ ایک غار میں چلی گئیں ‘ وہیں آپ کی پیدائش ہوئی اور پھر آپ کو تین سال تک اسی غار میں رکھا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی پرورش بڑے اچھے طریقے سے فرمائی ‘ پھر جب آپ سن شعور کو پہنچے تو اللہ نے غیر معمولی رشد و ہدایت سے نوازا ولقد اتینا ابراھیم رشدہ من قبل و کتابہ علمین (سورۃ الانبیائ) ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بچپن ہی سے سمجھ عطا فرمائی۔ وہ اللہ کی توحید کے محقق اور اس پر سختی سے کاربند تھے وہ ابوالموحدین یعنی تمام توحید پرستوں کے باپ تھے ‘ بہرحال آپ کی پیدائش اور پرورش کے متعلق تاریخی روایات ملتی ہیں جن کے متعلق یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ قرآن و حدیث اس معاملہ میں خاموش ہیں۔ باپ کو دعوت توحید آج کی آیت کریمیہ میں اسی دعوت توحید کا تذکرہ ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کو دی تھی واذقال ابراہیم لابیہ ازر اور اس وقت کو دھیان میں لائو جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر سے کہا اتخذ اصناما الھۃ کیا تو بتوں کو معبود بناتا ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی باپ سے اس طرح کی ہم کلامی کے اور بھی واقعات قرآن پاک میں مذکور ہیں۔ مثلاً سورة مریم میں ہے آپ نے باپ سے فرمایا یابت انی قد جاء نی من العلم “ اے میرے باپ ! میرے پاس علم آ گیا ہے جس کی روسنی میں میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں ” فاتبعنی اھدک صراطا سویا “ میری بات مان لے میں تجھے سیدھے راستی کی طرف راہنمائی کروں گا۔ اصنام صنم کی جمع ہے اور یہ لفظ ایسی انسانی شکل پر بولا جاتا ہے جو مٹی ‘ پتھر ‘ سونے ‘ چاندی وغیرہ سے بنائی گئی ہو۔ اور جو چیز بغیر کسی شکل و صورت کے معبود تسلیم کی جائے اسے وثن کہتے ہیں۔ ہندوئوں کے ہاں کروڑوں معبود ہیں۔ ان میں سے بعض کسی شکل پر بنائے جاتے ہیں اور بعض اوقات ویسے ہی کسی چیز ‘ ان گھڑے پتھر یا مٹی وغیرہ کو خاص حیثیت دے کر اس کی پوجا کرنے لگتے ہیں۔ یہ وشن کہلاتے ہیں۔ اس پر نذرانے ڈالے جاتے ہیں ‘ اس کے سامنے منتیں مانی جاتی ہیں اور سجدے ہوتے ہیں۔ سورة حج میں موجود ہے۔ ” فاحتنبوا الرجس من الاوثان “ ان (ان گھڑے) بتوں کی پلیدی سے بچ جائو۔ ان میں ذہنی اور فکری نجاست پائی جاتی ہے اور انسان شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ بہرحال جب ابراہیم (علیہ السلام) نے ہوش سنبھالا اور انہوں نے اپنے اردگرد نگاہ کی تو پورے ماحول کو شرک میں ڈوبا ہوا دیکھا۔ کوئی مشتری اور زہہ کا پجاری ہے۔ کوئی ستاروں میں کرشمہ مانتا ہے ۔ کوئی ارضی چیزوں کے پرستار ہیں اور کوئی آسمانی چیزوں کے۔ اور پھر سب سے بڑھ کر اپنے باپ کو مندر کا محافظ اور بڑا مشرک پایا تو دعوت توحید کی ابتدا اسی سے کی اور کہا کہ اے میرے باپ ! کیا تم ان خود تراشیدہ بتوں کی پوجا کرتے ہو۔ یہ بہت ہی بری بات ہے کہ حقیقی خالق اور مالک کو چھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے مٹی اور پتھروں کے بتوں کی پوجا کی جائے۔ پوری قوم کی گمراہی فرمایا انی ارک و قومک فی ضلل مبین۔ میں تو تمہیں اور پوری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھ رہا ہوں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے پورے وثوق اور جوش و جذبے کے ساتھ اعلان کیا کہ اے باپ ! تو اور تیری پوری قوم شرک کا ارتکاب کر کے گمراہی کے گڑھے میں گر چکی ہے۔ فرمایا جن بتوں کو تم اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہو پھر ان کی خریدو فروخت کرتے ہو ‘ نہ وہ سن سکتے ہیں ‘ نہ بول سکتے ہیں ‘ تم ان کی عبادت کیوں کرتے ہو۔ ان پر چڑھاوے کیوں چڑھاتے ہو۔ ان کو نذر و نیاز کیوں پیش کرتے ہو ؟ آخر ان کو کون سا اختیار حاصل ہے جس کے ذریعے یہ تمہاری مدد کرتے ہیں اور تم انہیں الوہیت کا درجہ دیتے ہو۔ یہ تو محض شیطان کا دھوکہ ہے جو تمہیں پٹی پڑھاتا ہے کہ یہ سب کچھ کرسکتے ہیں ‘ انہیں خدائی اختیارت حاصل ہیں حالانکہ یہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد (رح) لکھتے ہیں کہ انسان بھی عجیب مخلوق ہے۔ جب یہ ماننے پر آتا ہے تو گوبر کو بھی معبود بنا لیتا ہے ‘ کیڑے مکوڑوں ‘ مکھیوں ‘ بلکہ بلی چوہے اور سانپ کی پوجا کرنے لگتا ہے۔ اور جب انکار کر دے تو پھر اللہ کے جلیل القدر پیغمبر نوح (علیہ السلام) کو جھٹلا دے اور ان پر پتھر برسانے لگے۔ اللہ کے مقرب انبیاء کو کتنی تکلیفیں دی گئیں۔ خود حضور ﷺ کو اپنے بھائی بندوں کے ہاتھوں کتنی مشقت برداشت کرنا پڑی۔ عکاظ کی منڈی میں لوگوں نے دیکھا حضور ﷺ تشریف لے جا رہے اور کہہ رہے ہیں اے لوگو ! قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا لا الہ الا اللہ کو دو فلاح پا جائو گے۔ آپ کے پیچھے پیچھے لمبا چغہ پہنے ہوئے ایک لمبا دھڑنگا گورا چٹا جوان آپ کو پتھر مارتا جاتا تھا۔ اور کہتا تھا لوگو ! یہ شخص (معاذ اللہ) پاگل ہے۔ اس کی بات نہ سننا۔ پوچھنے والے نے پوچھا کہ یہ پتھر مارنے والا شخص کون ہے تو بتلایا گیا کہ یہ حضور ﷺ کا حقیقی چچا ابولہب ہے۔ بہرحال ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے سامنے توحید کا واضح تصور پیش کیا اور اسے بتایا کہ تم اور تمہاری پوری قوم گمراہی کے گڑھے میں گر چکی ہے۔ اس کے بعد اگلی آیت میں اس کمال کا ذکر ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو عطا کیا ۔ پھر اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے شرک کی تردید اور توحید کے حق میں قوم کے سامنے واضح دلائل پیش کئے جن کی وہ تردید نہ کرسکے۔ تارخ اور آزر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کٹر مشرک اور آپ کے سخت دشمن تھے۔ ان کے نام کے متعلق قرآن میں تو صراحتاً موجود ہے کہ ان کا نام آزر تھا ‘ مگر بعض لوگ آزر کو باپ ماننے کے لئے اس لئے تیار نہیں کہ نبی کا باپ مشرک نہیں ہو سکتا ‘ لہٰذا باپ نہیں بلکہ چچا تھا۔ یہ بات اصولاً غلط ہے اسی طرح حضور ﷺ کے آبائواجداد کے متعلق یہ کہا کہ ان میں سے کوئی بھی مشرک نہیں تھا ‘ قطعاً غلط ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد آپ کی نسل میں بہت سے مشرک گزرے ہیں۔ لہٰذا اگر ابراہیم (علیہ السلام) کے والد مشرک تھے تو یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے ‘ جس سے نبی کی معاذ اللہ توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ شیخ سعدی (رح) نے کہا ہے۔ ہنر بہ نما اگر دارمی نہ گوہر گل از خار است و ابراہیم از آزر اگر تم ذات نہیں رکھتے تو ہنر میں کمال پیدا کرو۔ پھول کانٹوں سے نکلتا ہے اور اسی طرح ابراہیم (علیہ السلام) آزر سے نکلا ہے۔ قرآن پاک میں موجود ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ نکال دے۔ یعنی یہ تو اس کی حکمت پر موقوف ہے ‘ چاہے تو مشرک سے موحد پیدا فرما دے اور مومن کی نسب سے کافر پیدا کر دے۔ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ‘ وہ جو چاہے کرے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) جیسے پیغمبر کا بیٹا اگر باپ کی بات نہیں مانتا تو غرق ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ ثابت کرنا کہ حضور ﷺ کی نسل میں کوئی بھی مشرک نہیں تھا ‘ حقیقت کے خلاف ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ بھی مشرک تھا اور ان کی اولاد میں بھی بہت سے مومن تھے اور بہت سے کافر و مشرک بھی تھے۔ بہرحال ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے کہا کہ میں تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں۔ کفر و شرک سب سے بڑی گمراہی ہے جس میں پوری قوم مبتلا تھی۔ بابل شہر کا رقبہ ساٹھ یا سومربع میل پر پھیلا ہوا تھا مگر پوری آبادی مشرک تھی۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے وہاں سے ہجرت کی تو آپ اپنی بیوی سارہ اور بھتیجے لوط (علیہ السلام) کے ہمراہ نکلے۔ اس وقت ان کے علاوہ کوئی مومن نہیں تھا۔
Top