Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 108
وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ١ؕ كَذٰلِكَ زَیَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمْ١۪ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَیُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَ
: اور
لَا تَسُبُّوا
: تم نہ گالی دو
الَّذِيْنَ
: وہ جنہیں
يَدْعُوْنَ
: وہ پکارتے ہیں
مِنْ
: سے
دُوْنِ اللّٰهِ
: اللہ کے سوا
فَيَسُبُّوا
: پس وہ برا کہیں گے
اللّٰهَ
: اللہ
عَدْوًۢا
: گستاخی
بِغَيْرِ عِلْمٍ
: بےسمجھے بوجھے
کَذٰلِكَ
: اسی طرح
زَيَّنَّا لِكُلِّ
: ہم نے بھلا دکھایا ہر ایک
اُمَّةٍ
: فرقہ
عَمَلَهُمْ
: ان کا عمل
ثُمَّ
: پھر
اِلٰى
: طرف
رَبِّهِمْ
: اپنا رب
مَّرْجِعُهُمْ
: ان کو لوٹنا
فَيُنَبِّئُهُمْ
: وہ پھر ان کو جتا دے گا
بِمَا
: جو وہ
كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ
: کرتے تھے
اور ( اے اہل ایمان ! ) تم بُرا نہ کہو ان کو جن کی یہ لوگ پرستش کرتے ہیں اللہ کے سوا۔ پس وہ بُرا کہنے لگیں گے اللہ تعالیٰ کو تجاوز کرتے ہوئے نادانی سے ۔ اسی طرح ہم نے مزین کیا ہے ہر امت کے لیے ان کا عمل۔ پھر ان کا اپنے رب کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے ، پس وہ بتلا دے گا ان کو جو کچھ وہ کیا کرتے تھے
گذشتہ دروس میں شرک کی تردید اور توحید کے اثبات میں عقلی اور نقلی دلائل پیش ہوئے۔ پھر فرمایا کہ ان دلائل کی وجہ سے انسان میں جو بصیرت پیدا ہوتی ہے وہ تمہارے پاس پہنچ چکی ہے جو اسے دیکھے گا تو اسی کی بہتری ہے اور جو خود آنکھیں بند کر کے اندھا بن جائے گا۔ اس کا وبال اسی پر پڑیگا۔ یہ اللہ کے پیغمبر کی ذمہ داری نہیں ہے کہ کسی کو بُرائی سے زبردستی منع کرے یا کسی کے دل میں لازماً ایمان ڈالے البتہ ا تمام حجت تمام انبیاء اور ان کے متبعین کی ذمہ داری میں شامل ہے انہوں نے تمام دلائل بیان کر کے ہدایت کا سامان کردیا ہے انہوں نے ہر یز کو وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے ، اب اگر کوئی شخص نہیں مانتا تو وہ بُرے نتائج کا خود ذمہ دار ہے۔ نبی اس پر وکیل یا داروغہ نہیں کہ اسے زبردستی منائے ، فرمایا ، نبی کا کام یہ ہے کہ وہ اتباع وحی کرے جس میں اہم ترین بات اللہ کی وحدانیت ہے اس کو لازم پکڑیں اور مشرکین کو زیادہ خاطر نہ لائیں۔ اگر اللہ تعالیٰ سب کو جبراً ہدایت دیتا ، تو وہ دے سکتا تھا مگر یہ اس کی حکمت کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو قویٰ ظاہرہ اور باطنہ عطا کیے ہیں عقل و فہم عطا کیا ہے اور پھر اس کو اختیار دیا ہے ۔ اب یہ اس کی مرضی ہے کہ ایمان قبول کرتا ہے یا کفر کا راستہ اختیار کرتا ہے وہ جو بھی فیصلہ کرے گا۔ آپ کا کام صرف پہنچا دینا اور سمجھا دینا ہے۔ یہ لوتگ اگر ضد ، عنا اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ، کفر شرک اور بد عقیدگی میں مبتلا ہیں تو اس کی ذمہ داری آپ پر عاید نہیں ہوتی۔ فریضہ تبلیغ کی ادائیگی میں بعض اوقات بحث مباحثہ بھی کرنا پڑتا ہے اور کفار سے مناظرہ کی نوبت بھی آتی ہے مگر اللہ نے فرمایا ہے کہ غصے یا ناراضگی میں آکر کفار کے معبودوں یا مقتدائوں کو بُرا بھلا نہ کہیں ، کیوں ایسے کرنے سے وہ لوگ ضد اور عناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہیں تمہارے معبود حق کو بُرا بھلا نہ کہنے لگیں۔ فرمایا عین ممکن ہے کہ یہ لوگ جہالت اور نادانی کی وجہ سے واجب التعظیم خدا تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرنے لگیں یا انبیائے کرام اور بزرگان دین کی بےادبی کے مرتکب ہوں۔ لہٰذا آپ ان کے معبود ان باطلہ کے حق میں بھی بُرے الفاظ استعمال نہ کریں۔ دوسرے مقام پر جہاں تبلیغ کے اصول بیان کیے گئے ہیں وہاں بھی یہی نصیحت کی گئی ہے کہ کسی دوسرے کو بات سمجھانے کے لیے نرمی کا طریقہ اختیار کریں۔ اگر آپ سختی کریں گے تو ان میں چڑ پیدا ہوگی اور وہ مزید دور ہوجائیں گے۔ چناچہ صورۃ نمل میں ارشاد ہوتا ہے۔ ” ادعالیٰ سبیل ربک بلحکمہ والموعظۃ الحسنۃ “ آپ حکمت اور دانشمندی کے ساتھ اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دیں۔ اور اگر بحث مباحثہ اور مناظرہ بھی کرنا پڑے “ وجاد لھم بلتی ھی احسن ! “ تو بہتر طریقہ اختیار کریں اور اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں ان کے معبود ان باطلہ کو بُرا بھلا نہ کہیں کہ اس کا کوئی خراب نتیجہ برآمد نہ ہو۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ولا تسبوالذین یدعون من دون اللہ اور نہ برا بھلا کہیں ان کو جن کی مشرکین اللہ کے سوا پر ستش کرتے ہیں الذین سے معبود ان باطلہ مراد ہیں۔ جن کو یہ مشکل کشائی اور حاجت روائی کے لیے پکارتے ہیں۔ فرمایا اگر ان کو بُرا بھلا کہا گیا ، تو یہ لوگ چڑ جائیں گے اور ضد اور عناد کا مظاہرہ کریں گے فلیسبو اللہ پس وہ اللہ تعالیٰ کو بُرا بھلا کہیں گے جو کہ معبود برحق ہے عد و حد سے تجاوز کرتے ہوئے بغیر علم نادانی اور جہالت کی وجہ سے۔ فنانچہ مشرکین مکہ اپنی جہالت کی وجہ سے قرآن پاک ، جبرائیل علیہ اسلام ، حضور نبی کریم ﷺ حتیٰ کہ خدا تعالیٰ کی ذات پر بھی وشنام طرازی کے مرتکب ہوتے تھے۔ اسی لیے حکم ہوا کہ ان کے باطل خدائوں کو بھی بُرا بھلا نہ کہو۔ مکی زندگی کے دوران چونکہ مشرکین کا غلبہ تھا اس لیے وہ ہر حیلے بہانے سے اہل ایمان کو تنگ کرتے تھے۔ ان کے شر سے بچائو کے لیے اللہ تعالیٰ نے نماز کی قرأت کے متعلق بھی فرمایا ولا تجھر بصلو تک ولا تخافت بھا وابتغ بین ذلک سبیلا “ (بنی اسرائیل) آپ نہ تو اتنی بلند آواز سے تلاوت کریں کہ مشرکین کی طرف سے شرکا خطرہو اور نہ اتنا آہستہ پڑھیں کہ اپنے ساتھی بھی نہ سن سکیں ‘ فرمایا ان دونوں حالتوں میں اعتدال کی راہ اختیار کریں۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے معبودان باطلہ کو بُرا بھلا کہنے سے منع فرمایا “ البتہ کفر و شرک جیسے قبیح جرم کی تردید کا فریضہ انجام دیتے رہنے کی تلقین فرمائی کہ توحید کی دعوت آپ کا فریضہ منصبی ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ معبودان باطلہ کو بڑا بھلا کہنا تو فرض واجب ہے اور نہ ہی ناجائز بلکہ سبارح ہے۔ اور اگر مباح چیز کو اختیار کرنے میں بڑی قباحت پیدا ہونے کا احتمال ہو تو مباح کا ترک کردینا بھی روا ہے مطلب یہ کہ اگر معبودان باطلہ کو بُرا بھلا کہنے سے خدا تعالیٰ یا انبیاء کی گستاخی کا پہلو نکلتا ہو تو پھر اس مباح کو ترک کردینا چاہئے۔ البتہ فرض اور واجب کو کسی صورت میں بھی ترک نہیں کیا جاسکتا توحید کی اشاعت ہر حالت میں لازم ہے مگر اس کے لیے کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہئے جس سے کفار اپنے معبودوں کی تحقیر کا پہلو نکال سکتے ہوں۔ اس لیے حضور علیہ اسلام نے سببیت کا مسئلہ بھی بیان فرمایا ہے ارشاد ہے ملعون من سب والدیہ جو شخص اپنے والدین کو گالی دیتا ہے وہ ملعون ہے۔ صحابہ کرام ؓ نے تعجب کیا ، حضور ! ایسا شخص کون ہوگا جو اپنے ماں باپ کو گالی دے فرمایا ، جب تم کسی کے والدین کو گالی دو گے تو وہ تمہارے والدین کو گالی دے گا……… اپنے ماں باپ کو گالی دینے کا سبب تم خود بنے اور تم ہی اپنے والدین کے خلاف دشنام طرازی کا باعث بنے یہی اپنے والدین کو گالی دینا ہے۔ اسی اصول کے تحت اس مقام میں معبود ان باطلہ کے متعلق ایسی ویسی بات کرنے سے منع کیا گیا ہے جس کے جواب میں مشرکین کی طرف سے خدائے لم یزل کی شان میں گستاخی کی جاسکتی ہے۔ سببیت ہی کے ضمن میں بیت اللہ شریف کی تعمیر کا مسئلہ بھی آتا ہے حضور علیہ اسلام کے دعویٰ نبوت سے پہلے مشرکین بیت اللہ شریف کی تعمیر ابراہیمی بنیادوں پر کرنے کی بجائے اس کا کچھ حصہ چھوڑ دیا تھا جو اب بھی حطیم کی صورت میں موجود ہے۔ حضور علیہ اسلام نے ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا لولا قومک حدیث عہد بکفی اگر تیری قوم نئی نئی کفر سے نہ ن کی ہوتی تو میں ضرور اسے گرا کر ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کرتا۔ مگر لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہیں ، ان میں بد ظنی پیدا ہونے کا خطرہ ہے نیز یہ کہ میرے پاس ۔۔ بھی نہیں ہے ، لہٰذا میں نے بیت اللہ شریف کی تعمیر نو کا ارادہ ترک کردیا ہے۔ آپ کے زمانہء مبارک کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے اصل ابراہیمی بنیادوں پر اللہ کی تعمیر کی تھی مگر مردانیوں نے اس کو قبول نہ کیا اور دوبارہ اسے حضور علیہ اسلام کے زمانہ کی تعمیر کے مطابق کردیا۔ خانہ کعبہ کی چھت اور فرش تو تبدیل ہوتا رہا ہے۔ مگر اس کے مسقف رقبہ میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی اور حطیم والا حصہ آج تک بد ستور کمرے سے باہر ہے۔ بہر حال اس کے بعد علمائے ‘ کرام نے بھی یہی فتوی دیا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔ یہ فتوی اس سبب سے تھا کہ اگر ایک دفعہ اس کی تعمیر نو کی اجازت دے دی گئی تو پھر خلفاء اور سلاطین کو کھیل بنالیں گے۔ اور تعمیر آئے دن تبدیلی ہوتی رہے گی۔ چناچہ خانہ کعبہ کی موجودہ تعمیر انہی پتھروں اور اتنی جگہ پر ہوتی رہی ہے۔ آگے اللہ تعالیٰ نے ایک عام طبعی رحجان کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ہر شخص ، قوم اور فرقہ اپنے اعمال کو ہی بہترین سمجھتا ہے قطع نظر اس کے کہ اس میں واقعی کوئی خوبی ہے یا وہ سراسر باطل ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ کذلک زینا لیکل امۃ عملھم اسی طرح ہم نے ہر امت کے لیے اس کا عمل مزین کردیا ہے۔ ہر قوم اپنے اعتقادات اور رسم و رواج کو ہی بہتر سمجھتی ہے۔ مشرکین کے نزدیک شرک بھی ایک بہت اچھا کام ہے۔ بدعتی بدعت کے کام پر نازاں ہے۔ کافر اپنے معبودانِ باطلہ کو پوجا کر کے خوش ہے غرضیکہ ہر امت کا یہ دستور چلا آرہا ہے کہ اپنے اپنے اعمال کو اچھا خیال کر کے اس پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ پہلے اس سورة میں بھی گزر چکا ہے ” وزین لھم الشیطن ماکانو یعملون “ ظاہر اسباب کے سلسلے میں شیطان نے ان کے اعمال کو بڑا مزین کر کے دکھلایا ہے ۔ کوئی جواء کھیلتا ہے ، لہو و لعب میں مصروف ہے ، شراب نوشی کرتا ہے ، بدعات پر عمل پیرا ہے ، قبروں پر گنبد بناتا ہے۔ چادریں چڑھاتا ہے ، شیطان کہتا ہے تم بالکل ٹھیک کر رہے ہو ، ایسے ہی کرتے جائو۔ ہر فرقہ اپنے قبیح اعمال کو بھی نہایت اچھے اعمال سمجھ کر انجام دے رہا ہے اور انہیں سمجھتا کہ شیطان نے اس کے اعمال پر ڈاکہ ڈال رکھا ہے شرک کی جتنی اقسام ہیں ، سب نیکی اور کار ثواب سمجھ کر انجام دی جاتی ہیں فرمایا دنیا میں اسی طرح ہوتا رہے گا ” ولایزالون مختلفین “ اختلاف مٹنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ، یہ اسی طرح چلتے رہیں گے۔ سورة حج میں فرمایا اللہ یحکم بینکم یوم القیمۃ فیما کنتم فہ تختلفون “ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ قطعی فیصلہ کردے گا اس چیز میں جس میں یہ اختلاف کرتے ہیں۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دین حق اور اس کے دلائل کو بالکل واضح کردیا ہے۔ جو شخص منصف مزاج ہوگا ، وہ ذرا سا بھی غور کریگا تو حقیقت کو پالے گا۔ سورة بقرہ میں موجود ہے ” قد نبی ن الرشد من الغی “ نیکی اور بدی میں امتیاز ہوچکا ہے ، لٰہذا کسی کو اشتباہ باقی نہیں رہنا چاہئے۔ حضرت نوح علیہ اسلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا۔ خوب اچھی طرح سن لو ، اب کوئی بات مخفی نہیں رہنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے خود حضور علیہ اسلام کی زبان مبارک سے کہلوایا ” علیٰ بصیرۃ انا ومن اتبعنی (سورۃ یوسف) میں بھی بصیرت پر ہوں اور میرے پیروکار بھی بصیرت پر ہیں۔ اب کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارا عقیدہ عمل اور طور طریقہ بالکل برحق ہے۔ ہم اندھیرے میں نہیں بلکہ بصیرت پر ہیں تاہم ہر مذہب اور فرقہ یہی دعو یٰ کرتا ہے کہ وہ حق پر ہے خواہ وہ کفر و شرک پر ہو یا بدعات کا پیروکار۔ ہر امت کے زہن میں ان کے اعمال مزین ہوتے ہیں۔ پھر کیا ہوگا ، فرمایا ثم الیٰ ربھم مر جعھم سب کو اپنے رب کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے اسی کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے فینبعُھم بما کانوا یعملون پس وہ جتلادے گا وہ باتیں ، جو وہ کیا کرتے تھے۔ سب لوگوں کے اعمال ان کے سامنے رکھ دیئے جائیں گے۔ اور کہا جائے گا یہ ہیں تمہارے اعمال جنہیں میں نے گِن کر رکھا ہوا ہے۔ اب ان کا بھگتان کرو۔ تو جس طرح انسان کی پیدائش اور اس کا اپنا وجود قطعی ہے اسی طرح جزائے عمل بھی لازم ہے۔ اس امتحان سے ہر ایک کو گزرنا ہوگا ، کوئی بچ نہیں سکے گا۔ آگے مشرکین کے مطالبے کا ذکر فرمایا کہ وہ اپنی مرضی کی نشانی دیکھنا چاہتے ہیں اور اس س سلے میں واقسمعو باللہ جھد ایما نھم اللہ کے نام کی بڑی پختہ قسمیں اٹھا کر کہتے ہیں۔ لئِن جاء تھم ایۃ لیو منن بھا اگر ان کے پاس کوئی نشانی آجائے تو وہ ضرور ایمان لے آئیں گے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی خواہش کے مطابق معجزہ پیش کیا جائے۔ کہتے تھے جس طرح موسیٰ علیہ اسلام نے عصا کا معجزہ پیش کیا ، علیٰ علیہ اسلام نے مردوں کو زندہ کر دکھایا اور صالح علیہ اسلام نے پتھر سے اونٹنی نکالی ، اگر اسی طرح کی کوئی نشانی ظاہر ہو ، تو ایمان قبول کرلیں گے۔ مومن لوگ بھی چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مرضی کا کوئی معجزہ ظاہر فرمادے۔ تو شاید یہ لوگ اسلام میں داخل ہوجائیں اور ہر روز کا جھگڑا ہی ختم ہوجائے۔ مشرکین کا مطالبہ تھا کہ صفا پہاڑی کو سونے کا بنادیا جائے۔ ان کا ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ مکہ کی سرزمین کو ہموار کردیا جائے ، یہاں پر نہریں جاری ہوں اور کھیتی باڑی ہونے لگے۔ مند احمد کی حدیث میں آتا ہے کہ حضور علیہ اسلام نے بعض مطالبات کی منظوری کے لیے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں درخواست بھی پیش کی۔ تو مالک المک نے جواباً فرمایا کہ آپ چاہیں تو صفا پہاڑی کو سونے کا بنادیا جائیگا ، تاہم اگر انہوں نے پھر بھی انکار کیا تو پھر میں فوری طور پر سخت سے سخت سزادوں گا۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر آپ پسند کریں تو ان کی فرمائش پوری کرنے کی بجائے ان پر توبہ کا دروازہ کھلا رکھتا ہوں تاکہ کبھی نہ کبھی ایمان لے آئیں اس پر حضور علیہ اسلام نے عرض کیا ، مولاکریم ! مجھے یہ بات پسند ہے کہ ان کی منہ مانگی فرمائش پورا کرنے کی بجائے ان پر توبہ کا دروازہ کھلا رکھ۔ سورة مائدہ میں بھی اس قسم کا تذکرہ آپ پڑھ چکے ہیں۔ نزول مائدہ کی فرمائش پر اللہ نے فرمایا کہ میں یہ فرمائش پوری کرتا ہوں اور اگر یہ پھر بھی ایمان نہ لائے ” فانی اعذبہ عذابالا اعذبہ احد من العلمین “ تو ایسی سزا دونگا کہ دنیا میں کسی کو ایسی سزا نہ ملی ہو۔ چناچہ مائدہ نازل کرنے کے بعد بھی جن لوگوں نے نافرمانی کی ، انہیوں اللہ تعالیٰ نے فوری سزا میں مبتلا کیا ، ان کی شکلیں مسخ کردی گئیں اور پھر وہ ہلاک کردیئے گئے۔ فرمایا یہ لوگ پختہ قسمیں اٹھا کر کہتے ہیں کہ معجزات پاکر فوراً ایمان لے آئیں گے۔ قل اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجیے انما الایت عنداللہ بیشک نشانی کا ظاہر کرنا تو اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے۔ اس نے اس سے بیشتر سینکڑوں معجزات ظاہر کیے ہیں مگر فرمائشیں پوری نہیں کی کیونکہ اللہ تعالیٰ اس بات کا پابند نہیں ہے کہ ہر خواہش مند کی خواہش کے مطابق نشانی ظاہر کردے ۔ البتہ وہ اپنی حکومت کے مطابق جب ضرورت ہوتی ہے کوئی نہ کوئی معجزہ ظاہر کردیتا ہے مگر وما یشعرکم تم حیقت حال سے واقف نہیں ہو۔ تم سمجھتے ہو کہ نشانی دیکھ کر فوراً ایمان قبول کرلیں گے ایسا نہیں ، اللہ ان کے باطنی حالات کو خوب جانتا ہے تمہیں کیا معلوم ہے انھا اذ جائت لا یومنون کہ جب وہ نشانیاں آجائیں تو یہ لوگ ایمان ہی لے آئیں گے۔ اگر چہ یہاں پر الفاظ لایومنون ہے مگر مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ لازائد ہے اور اس کو لاصلہ کہتے ہیں۔ اس لیے اس کا یہ معنی کرتے ہیں کہ تمہیں کیا معلوم کہ نشانی دیکھ کر وہ ضرور ایمان لے آئیں گے اس کی مثال اس طرح ہے ” و حرام علی قریۃ اہلکنھا انھم لایرجعون (انبیائ) جس بستی کو ہم نے ہلاک کیا ، حرام ہے کہ وہ لوٹ کر آئیں۔ یہاں بھی لا زائد ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ یہاں پر ان کا لفظ لعل کے معنی میں آیا ہے۔ عربی زبان میں ایسا بھی ہوتا ہے۔ اگر انھا کے یہ معنی لیے جائیں تو مفہوم ہوگا تم کو کیا معلوم شاید یہ لوگ نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں۔ عدی بن زید مشہور عربی شاعر ہوا ہے۔ نعمان شاہ عراق اس کا بہنوئی تھا۔ کسی وجہ سے اس سے ناراض ہو کر عدی کو جیل میں ڈال دیا۔ زمانہ جاہلیت میں اس نے کہا تھا ۔ اعاذل مایدریدء ان مینت فی ساعۃِ الیوم اوفی ضحی افدی تمہیں کیا معلوم شاید کہ میری موت آج کے دن …واقع ہوجائے یا کل دوپہر سے پہلے ۔ مقصد یہ ہے کہ یہاں بھی ان شاید کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور عربی زبان میں یہ معانی بھی ہوتے ہیں۔ بہر حال اس آیت میں اہل ایمان کو تسلی دی گئی ہے۔ تم یہ نہ خیال کرو کہ نشانیاں دیکھ کر یہ ایمان لے آئیں گے۔ حقیقت یہ ہے ونقلب افد تھم وابصار ھم ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو پٹیاں دیتے ہیں۔ جب کوئی شخص ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل اور آنکھوں کو اس طرح پلٹ دیتا ہے کہ وہ نہ تو صحیح بات سمجھ سکتا ہے اور نہ آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔ اور اگر دیکھتا بھی ہے تو نظر انداز کردیتا ہے ۔ دل کے پلٹ دینے کے متعلق حضور علیہ اسلام نے یہ دعا بھی سکھلائی ہے یا مقلب القلوب ثلبت قلبی علی دینک اے دلوں کے پلٹنے والے ، میرے دل کو اپنے دین کی طرف پلٹ دیں قرآن پاک میں دوسری جگہ موجود ہے کہ برائی کرنے کے بعد مطئمن ہو کر نہ بیٹھ جائو۔ ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ دل ہی پلٹ دے ” واعلموا ان اللہ یحول بین المرعِ وقلبہ “ بیشک تعالیٰ انسان اور اس کے دل کے درمیان رکاوٹ ڈال دیتا ہے۔ پھر دل نیکی کی طرف آہی نہ سکے اور ظاہر ہے کہ جو ہٹ دھرمی کریگا ، اللہ تعالیٰ اس کے دل کو پلٹ دیگا۔ اسی لیے فرمایا کہ جو لوگ نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے ہم ان کے دلوں کو اور آنکھوں کو پلٹ دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ نیکی سے اس طور پر محروم ہوجاتے ہیں۔ کمالم یو منو بہ اول مرۃ جیسا کہ وہ پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے تھے جس طرح ابتداء میں انہوں نے اسلام قبول نہ کیا ، اب نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ ان کو چاہئے تھا کہ جب پہلی دفع قرآن پیش کیا گیا تھا تو فوراً ایمان لے آتے مگر انہوں نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے ہم نے ان کے دلوں کو پلٹ دیا ہے اور اب یہ ہر بار انکار ہی کرتے رہیں گے۔ اسی چیز کے متعلق سورة بقرہ کی ابتداء میں آچکا ہے ” ختم اللہ علی قلوبھم “ بل سکۃ ران علی قلوبھم “ ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے۔ کہیں فرمایا ” بل طبع اللہ علیھا بکفی ھم “ (نسائ) ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔ اب یہ رارست پر نہیں آسکتے ۔ ان کا ٹھکانا اب جہنم ہے کیونکہ یہ پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے۔ ان سے نشانیاں دیکھ کر ایمان لانے کی امید نہ رکھیں ۔ ونزرھم اور ہم ان کو چھوڑتے ہیں فی طغیا نھم یعمھون یہ اپنی سرکشی میں ہی ٹھبکتے رہیں گے۔ اے پیغمبر ! آپ اپنا فریضہ ادا کرتے رہیں۔ ان کو تبلیغ کرتے رہیں ، ان سے ہمدردی اور خیر خواہی کا سلوک کریں مگر ان کی طرف سے مسلسل انکار سے دل برداشتہ نہ ہوں ، اللہ تعالیٰ خود ان سے نپٹ لیگا۔
Top