Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 83
وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ١ؕ وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰۤى اُولِی الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْ١ؕ وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلًا
وَاِذَا : اور جب جَآءَھُمْ : ان کے پاس آتی ہے اَمْرٌ : کوئی خبر مِّنَ : سے (کی) الْاَمْنِ : امن اَوِ : یا الْخَوْفِ : خوف اَذَاعُوْا : مشہور کردیتے ہیں بِهٖ : اسے وَلَوْ : اور اگر رَدُّوْهُ : اسے پہنچاتے اِلَى الرَّسُوْلِ : رسول کی طرف وَ : اور اِلٰٓى : طرف اُولِي الْاَمْرِ : حاکم مِنْھُمْ : ان میں سے لَعَلِمَهُ : تو اس کو جان لیتے الَّذِيْنَ : جو لوگ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ : تحقیق کرلیا کرتے ہیں مِنْھُمْ : ان سے وَلَوْ : اور اگر لَا : نہ فَضْلُ : فضل اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : تم پر وَرَحْمَتُهٗ : اور اس کی رحمت لَاتَّبَعْتُمُ : تم پیچھے لگ جاتے الشَّيْطٰنَ : شیطان اِلَّا : سوائے قَلِيْلًا : چند ایک
اور جب پہنچتی ہے ان کے پاس کوئی بات امن کی یا خوف کی تو اس کو پھیلا دیتے ہیں اور اگر وہ پلٹاتے اس کو رسول کی طرف اور ان میں سے جو صاحب امر ہیں ان کی طرف تو البتہ تحقیق معلوم کرتے وہ لوگ جو اس بات کی تحقیق کرتے ہیں (اس کو نکالتے ہیں) ان میں سے اور اگر نہ ہوتا تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تو تم شیطان کی پیروی کرتے ، مگر بہت تھوڑے
ربط آیات گزشتہ آیات میں منافقین کی مذمت بیان ہوئی تھی کہ یہ لوگ حضور ﷺ کی مجلس میں بٹھ کر آپ کی اطاعت کا اظہار کرتے ہیں مگر جب وہاں سے اٹھ کر جاتے ہیں تو اسلام اور اہل اسلام کے خلاف مشورے کرتے ہیں اور سکی میں بناتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ ان کی تمام باتیں لکھ لی جاتی ہیں اور وہ قیامت کے دن سزا کے مستوجب ہوں گے۔ پھر حضور ﷺ سے فرمایا کہ آپ ان لوگوں سے اعراض کریں ، اور خدا کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنا کام کرتے رہیں آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کارساز ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے منافقین اور یہود کا شکوہ کیا کہ یہ لوگ قرآن پاک میں غورو فکر کیوں نہیں کرتے اگر اس طرف توجہ دیتے تو جان لیتے کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اس میں کوئی تعارض یا تخائف نہیں پایا جاتا۔ اس کے معارف بلند اور تمام اطوار صحیح ہیں۔ یہ علم و حکمت کا خزانہ ہے۔ اور اس کا لایا ہوا نظام بےمثال ہے۔ جب یہ چیزیں واضح ہوجاتیں تو انہیں نبی کی ذات کے متعلق کوئی تردد باقی نہ رہتا اور کلام پاک میں کوئی شک نہ کرتے۔ تشہیر کی ممانعت اب آج کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہر خبر کی بلاتصدیق و تحقیق تشہیر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اسلام کی ابتدائی جنگوں کے دوران لوگ محاذوں سے آنے والی خبروں کے منتظر رہتے تھے۔ اور پھر جونہی کوئی خبر پہنچتی اسے بلاتحقیق مشہور کردیتے ، حالانکہ جنگی حکمت عملی کے پیش نظر بعض چیزوں کی تشہیر نقصان کا باعث ہو سکتی ہے۔ اس معاملے میں منافقین اور یہود پیش پیش تھے اور کمزور دل مسلمان بھی ان کے ساتھ شامل ہوجاتے تھے ، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے سے منع فرما دیا۔ ارشاد ہوتا ہے و اذا جاء ہم امرٌ من الامن الوالخوف جب ان کے پاس کوئی خبر آتی ہے ، امن کی یا خوف کی۔ یہاں امن کی خبر سے مراد خوشخبری ہے ، مسلمانوں کو فتح حاصل ہوگئی ، مال غنیمت حاصل ہوگیا یا کوئی اور کامیابی ہوگئی تو اسے امن سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کے برخلاف اگر شکست آگئی ، جانی یا مالی نقصان ہوگیا تو اسے خوف کا نام دیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ جب کوئی ایسی خبر پہنچتی ہے تو منافقین اور کمزور مسلمان اذاعوا بہ اس کو پھیلا دیتے ہیں ، عام کردیتے ہیں ، حالانکہ ایسی باتوں کی تشہیر بعض اوقات مناسب نہیں ہوتی اور اہل اسلام اور دین کے لیے نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔ ہر بات کو بلاتحقیق آگے پہنچا دینا درست نہیں ہوتا۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک 1 ؎ ہے کفی بالمرئِ کذباً ان یحدت بکل ماسمع یعنی کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ کہ وہ ہر سنی سنائی بات بغیر چھان بین کے آگے چلا دے۔ پیشگی تحقیق فرمایا جب بھی کوئی ایسی خبر پہنچے تو اس کے لیے صحیح طریق کار یہ ہے۔ ولوردوہ الی الرسول اور اگر یہ لوٹاتے ایسی بات کو رسول کی طرف و الی اولی الامر منہم اور اپنے میں سے صاحب امر کی طرف۔ تو اس کا فائدہ یہ ہوتا لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم کہ ان میں تحقیق و تجسس کرنے والے بات کی حقیقت کو جان لیتے۔ مقصد یہ ہے کہ کسی خبر کو عام کرنے سے پہلے لازم ہے کہ اسے ذمہ دار لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ وہ اس کی باقاعدہ تحقیق و تصدیق کریں اور پھر فیصلہ کریں کہ آیا اس خبر کی تشہیر اسلام کے مفاد میں ہے یا نقصان میں ، اس ضمن میں فرمایا کہ کسی معاملہ میں حتمی فیصلہ اللہ کے رسول کا ہوتا ہے اگر اللہ کا رسول اس مقام پر موجود ہے تو ایسی بات فوراً اس کے نوٹس میں لاؤ اور پھر اس کے فیصلے کے مطابق عمل کرو۔ اور اگر رسول خدا موجود نہیں ہیں تو پھر ایسی بات آپ کے نایب یا اولی الامر کے پاس لے جاؤ ، تاکہ وہ حالات کے پیش نظر فیصلہ کرسکے کہ اس کی تشہیر مفید ہے یا نہیں۔ اولیٰ الامر کا لفظ پیچھے اسی سورة کے آٹھویں رکوع میں بھی آ چکا ہے وہاں بھی حکم ہوا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور پانے میں سے صاحب امر کی اطاعت کرو۔ وہاں پر بھی اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ صاحب امر سے مراد مسلمان حکام بھی ہیں اور امت کے علماء و فقہاء بھی۔ اگر معاملہ انتظامی نوعیت کا ہے تو وہ حاکم وقت کے پاس جائیگا ، کیونکہ فوج کی تنظیم ، شہری دفاع اور دیگر ملکی نظم و نسق کی ذمہ داری حکام پر ہوتی ہے ، اس لیے ایسے معاملہ میں وہی بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں اور اگر معاملہ حلت و حرمت کا ہے یا کسی بات کے جائز ناجائز کا ہے اور اس میں شرعی فتویٰ کی ضرورت ہے تو پھر ایسا معاملہ علما و فقہاء کے سامنے پیش کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنی علمی تحقیق و تجسس کی روشنی میں مسئلہ کا حل پیش کرسکیں۔ امام ابوبکر حصاص (رح) فرماتے ہیں کہ اولی الامر میں حکام وقت اور علماء فقہاء کے دونوں گروہ شامل ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا ، ہر نازک معاملہ کی پیشگی تحقیق از بس ضروری ہوتی ہے ، وگرنہ کسی غلط فہمی یا غلط خبر کی وجہ سے بڑے سے بڑے نقصان کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے کسی شخص کو ایک قوم کے پاس زکوٰۃ کی وصولی کے لیے بھیجا۔ جب یہ شخص اس بستی کے قریب پہنچا تو وہ لوگ اسے حضور ﷺ کے معزز نمائندہ سمجھ کر استقبال کے لیے بستی سے باہر نکلے۔ اس شخص کی گاؤں والوں سے کچھ دیرنہ عداوت تھی ، وہ سمجھا کہ شاید اس عداوت کی بنا پر یہ لوگ مجھے ہلاک کرنے کے لیے نکلے ہیں۔ اسی غلط فہمی کی وجہ سے حضور کا محصّل ان لوگوں کو ملے بغیر واپس آ گیا اور آ کر یہ مشہور کردیا کہ وہ لوگ نہ صرف دین سے پھرگئے ہیں اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کردیا ہے بلکہ مجھے مارنے کے لیے نکلے تھے۔ معاملہ بڑا نازک تھا۔ اہل اسلام اور قوم کے ارتداد اور زکوٰۃ سے انکار کو برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ اگر صورتحال کی تحقیق نہ کی جاتی تو قریب تھا کہ ان لوگوں کے خلاف کوئی فوری کارروائی ہوجاتی اور مسلمانوں کے ہاتھوں ہی مسلمانوں کا نقصان ہوجاتا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب کوئی ایسی خبر پہنچے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو۔ سورة حجرات میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی ارشاد فرمایا ہے کہ اے ایمان والو ! ” ان جاء کم فاسقٌ بنیاء فتبیتوا “ اگر کوئی ایسی ویسی خبر پہنچے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو کہیں نادانی اور جہالت کی وجہ سے کوئی نقصان نہ اٹھا بیٹھو۔ اسی سورة میں آگے تیرہویں رکوع میں بھی یہ لفظ آیا ہے۔ وہاں بھی اللہ نے فرمایا کہ کسی شخص کو غلط فہمی کی بناء پر کافر سمجھ کر قتل نہ کردیا کرو بلکہ اس کی تحقیق کرلیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ بےگناہ مسلمان تمہارے ہاتھوں ماراجائے۔ دورانِ جنگ بعض ایسی خبریں جنگی پراپیگنڈا کے طور پر بھی پھیلائی جاتی ہیں۔ تاکہ دشمن پر اس کا منفی اثر ہو۔ بعض اوقات اپنی کامیابی اور دشمن کی ناکامی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ مخالف فریق کو فوج کو اعصابی طور پر کمزور کیا جاسکے اور عوام میں بددلی پھیلا دی جائے۔ سورة احزاب میں اللہ نے فرمایا کہ منافقین کا حال یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں ضعف پیدا کرنے کے لیے غلط پراپیگنڈا کرتے ہیں کہ ہم نے یہ کردیا یا وہ کردیا۔ موجودہ زمانے میں انگریز نے پراپیگنڈا کے ہتھیار کو موثر طور پر استعمال کیا ہے۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے فرمیا ا کہ ہر خبر کو بلاسوچے سمجھے مشتہر نہ کردیا کرو بلکہ اسے اس کے اہل لوگوں کے پیش کردیا کرو اور پھر وہ جو کچھ فیصلہ کریں ، اس کے مطابق عمل کرو۔ استنباط مسائل امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں آمدہ لفظ یستنبطونہ سے کئی باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ نئے پیش آمدہ مسائل کا حل کلی طور پر نصوص سے نہیں ہو سکتا۔ نص تو ایسی چیز کو کہتے ہیں جو قرآن پاک یا حدیث شریف سے صراحتاً ثابت ہو۔ نئے مسائل میں چونکہ نص موجود نہیں ہوتی۔ لہٰذا ان کا حل استنباط سے ہی ممکن ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنے معاملات اللہ کے رسول یا صاحب امر کے پاس لے جاؤ جو استنباط کی اہلیت رکھتے ہیں ظاہر ہے کہ اگر کوئی انتظامی نوعیت کا معاملہ ہے تو حکام وقت نپٹائیں گے اور اگر حدود شریعت کا مسئلہ ہے تو اسے اہل علم کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ ہر شخص ہر مسئلہ میں خود مفتی نہیں بن سکتا۔ کیونکہ قرآن پاک میں یہ عام حکم بھی موجود ہے ” فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون “ اگر تمہیں کسی معاملہ کا علم نہیں تو اہل علم سے دریافت کرلو ، وہی اس کا حل پیش کرینگے گویا کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں استنباط کا عظیم اصول بیان فرمایا ہے۔ استنباط کا لفظ نبط کے مادہ سے ہے اور اس کا معنی زمین کی تہ میں موجود مخفی پانی کو آلات کی مدد سے نکالنا ہے۔ یہاں بھی استنباط سے مراد قیاس و اجتہاد کے ذریعے کسی مسئلے کا استخراج ہے۔ یہ مجتہد کا کام ہے کہ وہ مسئلہ کی بنیاد تلاش کرے اور دیکھے کہ اس کا تعلق کون سی دلیل کے ساتھ ہے۔ پھر اس میں غورو فکر کر کے پیش آمدہ مسئلہ کا حل پیش کرے۔ ظہر ہے کہ مجتہد کے پاس قطعی علم تو نہیں ہوتا کیونکہ قطعی علم فقط نبی کو بذریعہ وحی حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا مجتہد کا اجتہاد ظن غالب پر مبنی ہوتا ہے۔ اور اسی پر وہ مسئلہ کا حل پیش کرتا ہے۔ استنباط شرعی حجت ہے امام رازی (رح) فرماتے ہیں کہ استنباط حجتِ شرعی ہے۔ اور یہ ہر شخص کا کام نہیں۔ ظاہر ہے کہ نیا مسئلہ اہل علم کے آگے پیش ہوگا۔ اور جب وہ اس کا حل پیش کر دے تو پھر عام لوگوں کا فرض ہوگا کہ وہ اس پر عمل کریں ، اس طرح گویا اہل علم کی تقلید عوام پر واجب ہوگئی۔ اسی لیے اللہ نے ایسے مسائل کو اہلعلم کی طرف لوٹانے کا حکم دیا ہے تاکہ باقی لوگ ان کے فیصلے پر سرتسلیم خم کرلیں۔ یہی تقلید ہے۔ امام ابوبکر حصاص (رح) فرماتے ہیں کہ استنباط نبی اور امتی دونوں میں پایا جاتا ہے۔ بعض اوقات جب وحی نہیں آتی تو نبی خود بھی مسئلہ کا استنباط کرتا ہے اور پھر آپ کے عالوہ انتظامی امور میں ذمہ دار حکام وقت اور شرعی معاملات میں اہل علم و دانش استنباط واستخراج مسائل کے ذمہ دار ہیں۔ اہل سنت کے ائمہ اربعہ نے استنباط کے ذریعے ہزاروں اور لاکھوں شرعی مسائل کا حل پیش کر کے اس کی افادیت کو ثابت کردیا۔ امام اور معصومیت استنباط کے قانون سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ استنباط یا استخراج مساء لغور و فکر کا نتیجہ ہوتا ہے اور غورو تدبر میں آراء کا مختلف ہونا بھی عین ممکن ہے۔ لہٰذا رافضیوں کا عصمت امام کا عقیدہ درست نہیں ہے معصوم وہ ہوتا ہے جس کی بات قطعی ہو ، اور وہ صرف پیغمبر کی ذات ہوتی ہے اگر امام کی بات بھی قطعی ہو تو پھر استنباط کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے استنباط تو وہیں ہوگا جہاں غور و فکر کی ضرورت ہے اور جب کوئی چیز غورو فکر کے ذریعے نکالی جائے تو وہ قطعی نہیں ہو سکتی ، لہٰذا ثابت ہوا کہ امام معصوم نہیں ہوتا۔ ضرورت قیاس ماہرین اصول فقہ کہتے ہیں کہ دلائل شرع چار ہیں یعنی کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ اجماع امت یعنی اتفاق صحابہ ؓ اور قیاس۔ مقصد یہ ہے کہ جس مسئلہ کا حل نہ قرآن پاک سے معلوم ہو اور نہ حدیث رسول سے اور جس پر اجماع صحابہ ؓ بھی ثابت نہ ہو تو اس کا حل قیاس کے ذریعے معلوم کیا جائیگا۔ ائمہ اربعہ نے لاکھوں مسائل کا حل قیاس کے ذریعے پیش کیا اور وہ سب کے سب حق پر ہیں۔ ان کے درمیان بعض مسائل میں فروعی اختلاف پایا جاتا ہے مگر دین کے بنیادی مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں۔ فروعی اختلاف فہم اور استخراج کے طریق کار میں اختلاف کی وجہ سے ہوتا ہے چونکہ یہ غور و فکر کا نتیجہ ہوتا ہے اس لیے اللہ کے رسول نے اسے امت کے لیے باعث رحمت فرمایا ہے۔ بہرحال دلائل شرع میں سے چوتھی دلیل قیاس ہے اور اس کی ضرورت ہر زمان اور ہر مکان میں موجود رہیگی۔ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ فرمایا ولولا فضل اللہ علیکم و رحمتہ اگر اللہ تالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت شامل نہ ہوتی لاتبعتم الشیطن الا قلیلاً تو چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے چل نکلتے۔ شیطان انسان کے دل میں وہم ڈال کر گمراہ کردیتا ہے وہ گمراہی کی بات کو بڑا مزین کر کے پیش کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے کم علم لوگ اس کی پیروی کرنے لگتے ہیں۔ البتہ کچھ سمجھدار اور اہل علم لوگ اس کے جال سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ اس نے تمہاری ہدایت کے لیے تمام سامان مہیا کردیے ہیں۔ اور وہ طریقے بھی بتلا دیے ہیں جن سے پیش آمدہ مسائل کا حل معلوم کیا جاسکے۔ جہاد فی سبیل اللہ اگلی آیت میں پھر جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس کا تعلق بھی جہاد کی گزشتہ آیات کے ساتھ ہی مربوط ہے۔ گزشتہ آیات میں گزر چکا ہے ۔ الذین امنوا یقاتلون فی سبیل اللہ یعنی ایماندار لوگ محض اللہ کی رضا کے لیے میدان جہاد میں آتے ہیں اس سے پہلے فرمایا ” مالکم لا تقاتلون فی سبیل اللہ “ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کے راستے میں قتال نہیں کرتے ، حالانکہ کمزور مردوں ، عورتوں اور بچوں کو دشمن کی قید سے آزاد کرانا ضروری ہے۔ قبل ازیں یوں بھی ارشاد ہوا کہ اے ایمان والو ! ” خذوا حذرکم “ دفاع کا سامان مکمل کرلو اور پھر گروہوں کی شکل میں حملہکر دیا سب کے سب یکبارگی دشمن کا مقابلہ کرو۔ اس معاملہ میں لیت و لعل اور تاخیر کرنے ولاے منافق شمار ہوں گے۔ موت تو بہرحال آ جانی ہے اور جہاد سے محروم رہنے والے شہادت کی موت سے محروم رہ سکتے ہیں۔ اب اس آیت میں بھی ارشاد ہے۔ فقاتل فی سبیل اللہ اے پیغمبر ! اللہ کی راہ میں قتال کریں۔ فی سبیل اللہ کی تشریح پہلے عرض کردی گئی ہے کہ مومن کی جنگ محض اس لیے ہوتی ہے۔ ” لیظہرہ علی الدین کلہ “ تاکہ اللہ کی دین کو تمام ادیان پر غالب کر دے ، اس کا مطلوب و مقصود ، ملک گیری ، مال و دولت کا حصول یا شجاعت و بہادری کی تشہیر نہیں ہوتا۔ بلکہ اعلائے کلمۃ اللہ ہوتا ہے۔ حضور ﷺ خود جنگ کے موقع پر دعا فرمایا کرتے تھے اللہم منزل الکتب و مجری السحاب اہزم الاحزاب کتاب کو نازل کرنے والے اور بادلوں کو چلانے والے خدا یا ! دشمن کو مغلوب کر دے اور ہمیں فتح نصیب فرما۔ یہاں بھی یہی بات سمجھائی گئی ہے کہ مسلمان کی جنگ کسی دنیوی مقصد کے لیے نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کتاب کے پروگرام کو غالب بنانا مقصود ہوتا ہے جو خود اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے۔ پھر فرمایا لا تکلف الا نفسک نہیں تکلیف دی جائیگی مگر آپ کے نفس کو۔ مقصد یہ ہے کہ اگر لوگ جہاد کے معاملہ میں سستی کرتے ہیں تو ان کا مؤاخذہ آپ کی ذات سے نہیں ہوگا بلکہ آپ سے سوال آپ کی ذات کے متعلق ہوگا۔ لہٰذا آپ اللہ کے راستے میں ہمیشہ مستعد رہیں۔ چناچہ حضور ﷺ نے بعض مواقع پر فرمایا کہ کوئی دوسرا میرے ہمراہ جائے یا نہ جائے ، میں تنہا بھی دشمن کے مقابلے کے لیے ضرور نکلوں گا۔ دشمن پر گہری نظر فرمایا وحرض المومنین آپ مسلمانوں کو جہاد پر آمادہ کریں اور اس کے لیے ہمیشہ تیار رہیں عسی اللہ ان یکف باس الذی کفروا قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ کفار کی طرف لڑائی کو روک دے۔ مقصد یہ ہے کہ اگر آپ ہمہ وقت مستعد رہیں گے تو دشمن پر اس کا رعب پڑیگا اور وہ کسی ممکنہ حملے سے باز آئیگا۔ اسے پتہ چل جائے گا کہ دوسرافریق غافل نہیں بلکہ ہر وقت آمادہ جنگ ہے تو پھر وہ سوچ سمجھ کر حملہ آور ہوگا بتایا یہ جارہا ہے کہ بسا اوقات فریق ثانی کی مستعدی کی وجہ سے بھی دشمن جنگ سے گریز کرجاتا ہے۔ عرب کہتی ہیں اذا حوصی سقط دشمن کا محاصرہ کرو گے تو اس کو شکست ہوگی ، اگر سست ہوجاؤ گے ، جہاد کی تیاری میں غفلت برتو گے تو دشمن کو حملہ کرنے کی ترغیب ملیگی ، لہٰذا آپ ہر وقت مقابلہ و مقاتلہ کے لیے تیار رہیں۔ فرمایا ولالہ اشد باساً اللہ تعالیٰ سخت گرفت والا ہے واشدُّ تنکیلاً اور اس کی سزا بھی سخت ہوتی ہے۔ گرفت تو بسا اوقات دنیا میں ہوجاتی ہے اور سزا آخرت کے لیے مقرر کردی جاتی ہے۔ جب مومن اللہ کا نام لے کر اللہ کے دین کے قیم کے لیے نکلیں گے تو دشمن کو ذلت ناک شکست ہوگی۔ دنیا نے دیکھا کہ بدر کے مقام پر کفار کو کیسی شکست ہوئی۔ وہ تمام تر سامان ضرب و حزب کے باوجود میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے ، وجہ یہ تھی کہ مسلمان اللہ کے دین کی بلندی کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں اترے تھے۔
Top