Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 60
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاكَمُوْۤا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ یَّكْفُرُوْا بِهٖ١ؕ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَزْعُمُوْنَ : دعویٰ کرتے ہیں اَنَّھُمْ : کہ وہ اٰمَنُوْا : ایمان لائے بِمَآ اُنْزِلَ : اس پر جو نازل کیا گیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف وَمَآ اُنْزِلَ : اور جو نازل کیا گیا مِنْ قَبْلِكَ : آپ سے پہلے يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يَّتَحَاكَمُوْٓا : مقدمہ لے جائیں اِلَى : طرف (پاس) الطَّاغُوْتِ : طاغوت (سرکش) وَقَدْ اُمِرُوْٓا : حالانکہ انہیں حکم ہوچکا اَنْ : کہ يَّكْفُرُوْا : وہ نہ مانیں بِهٖ : اس کو وَيُرِيْدُ : اور چاہتا ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَنْ : کہ يُّضِلَّھُمْ : انہیں بہکادے ضَلٰلًۢا : گمراہی بَعِيْدًا : دور
کیا آپ نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا۔ جو کہتے ہیں (دعویٰ کرتے ہیں) کہ وہ ایمان لائے ہیں اس چیز پر جو آپ کی طرف اتاری گئی ہے اور جو آپ سے پہلے اتاری گئی ہے۔ وہ ارادہ کرتے ہیں کہ اپنے فیصلے طاغوت کی طرف لے جائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس کے ساتھ کفر کریں اور شیطان چاہتا ہے کہ ان کو گمراہ کرے اور گمراہی میں دور لے جائے
ربط آیات گزشتہ سے پیوستہ درس میں اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کا حکم دیا تھا۔ ایک یہ کہ امانت اس کے اہل تک پہنچاؤ اور دوسری یہ کہ لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ ان دونوں احکام کے مخاطبین اولاً مسلمان حکام بنتے ہیں اور ثانیاً عام مسلمان ، پھر گزشتہ درس میں یہ ارشاد ہوا کہ مذکورہ دو احکام کی تعمیل اسی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے جبکہ اہل ایمان اللہ کی اطاعت کریں رسول کی اطاعت کریں اور مسلمان حکام کی اطاعت کریں۔ جب کہ وہ نیکی کا حکم دیں۔ پھر فرمایا اگر کسی معاملہ میں جھگڑا پیدا ہوجائے ، حکام اور رعایا کے درمیان کسی مسئلہ میں اختلاف رائے ہوجائے تو فرمایا کہ ایسے معاملہ کو واپس اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو اور حتمی فیصلہ انہی سے لو۔ مقصد یہ کہ اہل اسلام اپنے اختلافات کتاب و سنت کے روبرو پیش کریں۔ اگر یہ معاملات کسی دوسری طرف لوٹائے گئے تو درست نہ ہوگا ، کیونکہ انجام کے اعتبار سے بھی قرآن و سنت کا فیصلہ ہی بہتر ہے۔ قیامت میں جزا و سزا کا مدار اس پر ہوگا۔ اب آج کی آیات میں اسی مسئلہ کا دوسرا پہلو بیان فرمایا گیا ہے۔ وہاں ارشاد تھا کہ اپنے معاملات قرآن و سنت کی طرف لے جاؤ ، اور یہیں یہ ہے کہ اپنے تنازعات اور فیصلے شریعت اسلامیہ کے علاوہ اور کسی طرف نہ لے جائیں ان آیات سے خاص طور پر منافقین کی سرزنش مقصود ہے جو اپنے تنازعات اللہ اور رسول کے علاوہ غیروں کی طرف لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ اللہ کی رسول اور عام مسلمانوں کو بھی خبردار کیا گیا ہے کہ وہ منافقین کی چالوں سے ہوشیار رہیں۔ وہ تمہیں اسلام سے وابستگی کا یقین دلائیں گے ، مگر اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کی باتوں کو جانتا ہے ، ان کے ساتھ احسن طریقے سے پیش آئیں۔ منافقین کا دعویٰ ارشاد ہوتا ہے الم تر الی الذین یزعمون کیا آپ نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جو زعم کرتے ہیں ، دعویٰ کرتے ہیں اور زعم کا معنی قول بھی ہوتا ہے اور معنی یہ ہوگا جو زبان سے کہتے ہیں انہم امنوا کہ وہ ایمان لائے ہیں بما انزل الیک اس چیز پر جو حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلّم پر نازل ہوئی ہے یعنی قرآن کریم و ما انزل من قبلک اور وہ اس چیز پر بھی ایمان کے دعویدار ہیں جو آپ سے پہلے نازل ہوئی یعنی تورات ، انجیل وغیرہ۔ مدینے کے رہنے والے اکثر یہودی تھے اور پھر انہی میں سے کچھ لوگ بظاہر ایمان لے آئے مگر درپردہ مسلمانوں کے دشمن تھے۔ وہ مسلمانوں کو ناکام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ یہ لوگ اپنی نسبت سابقہ آسمانی کتب کی طرف کرتے تھے اور قرآن پاک کے ساتھ ساتھ سابقہ کتب پر بھی ایمان لانے کے دعویدار تھے۔ مگر جب کوئی تنازعہ پیدا ہوجاتا تھا۔ تو اسے شریعت اسلامیہ کی بجائے دانستہ غیروں کی طرف لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس مذموم کوشش کے متعلق فرمایا کہ دعویٰ ایمان کے باوجود یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے تنازعات فیصلہ کے لیے طاغوت یعنی شیطان کے پاس لے جائیں۔ جیسا کہ گزشتہ درس میں بھی عرض کیا تھا کہ طاغوت کا لفظ شیطان کے علاوہ ہر گمراہ کرنے والی طاقت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ شانِ نزول مفسرین کرام نے ان آیات کی شان نزول میں متعدد واقعات بیان کیے ہیں۔ مشہور واقعہ یہ ہے کہ ایک یہودی اور ایک کلمہ گو منافق کے درمیان جھگڑا پیدا ہوگیا۔ حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں آپ خود بھی معاملات کا تصفیہ فرماتے تھے اور بعض اکابر صحابہ جیسے عمر ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت معاذ بن جبل ؓ کو بھی قاضی مقرر کیا ہوا تھا تو اس تنازعہ کے تصفیہ کے لیے یہودی حضور ﷺ کی خدمت میں یا حضرت عمر ؓ کے پاس جانا چاہتا تھا۔ مگر منافق اسے یہودیوں کے سرخیل کعب بن اشرف کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا۔ دراصل فریقین سمجھتے تھے کہ اس معاملہ میں یہودی حق پر ہے۔ لہٰذا یہودی اہل اسلام سے انصاف کی توقعرکھتا تھا اور اپنا مقدمہ انہی کی عدالت میں پیش کرنا چاہتا تھا۔ برخلاف اس کے منافق (کلمہ گو مسلمان) کا موقف چونکہ کمزور تھا ، وہ چاہتا تھا کہ یہ کعب بن اشرف پر اثر انداز ہو کر فیصلہ اپنے حق میں کرا لے۔ بہرحال مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ اولاً یہ حضور ﷺ کے سامنے پیش ہوا اور آپ نے یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ منافق آخر منافق تھا۔ اس نے خیال کیا کہ حضرت عمر ؓ یہودیوں کے حق میں بڑے سخت ہیں ، اگر یہ مقدمہ ان کے پاس پیش ہوجائے تو وہ اس کے حق میں فیصلہ دے دیں گے۔ چناچہ اس نے یہودی کو پھر راضی کرلیا کہ اب حضرت عمر ؓ کے پاس چلتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر یہودی نے مقدمہ کی روائیداد سنائی اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ حضور ﷺ اس مقدمہ کا فیصلہ اس کے حق میں کرچکے ہیں ، مگر اس شخص کی خواہش پر اب آپ کے پاس بھی حاضر ہوگئے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر ؓ سخت برہم ہوئے اور فرمایا تم ٹھہرو ، میں ابھی آتا ہوں۔ آپ گھر سے تلوار لائے اور منافق کا سر قلم کردیا اور فرمایا جو شخص حضور نبی کریم ﷺ کے فیصلہ پر راضی نہیں ، اس کا فیصلہ یہی ہے۔ اب مقتول کے وارثان نے حضور ﷺ کی عدالت میں حضرت عمر ؓ کے خلاف قتل کا مقدمہ پیش کردیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ہمارا آدمی پکا سچا مسلمان تھا اور مقدمہ دوسری عدالت میں پیش کرنے سے کوئی مخالفت مقصود نہ تھی بلکہ اس سے مقصود فریقین میں اتفاق و اتحاد کرانا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کی تردید فرمائی ہے۔ مفسرین یہ واقعہ اس مقام پر بیان کرتے ہیں مگر اس کا تعلق تفسیری روایتوں سے ہے۔ کسی صحیح حدیث میں ایسا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ و سے بھی یہ واقعہ صحیح معلوم نہیں ہوتا کیونکہ طبرانی نے صحیح سند کے ساتھ یہ بات نقل کی ہے کہ ابو برزہ اسلمی ؓ ایک کاہن تھے جو بعد میں اسلام لے آئے۔ اکثر یہودی اپنے مقدمات انہی کے پاس لے جاتے تھے۔ یہودی اور منافق کا مقدمہ بھی اسی ابوبرزہ ؓ کے پاس گیا تھا جس پر یہ آئتیں نازل ہوئیں۔ منافقوں کے ساتھ سلوک حضرت عمر ؓ کا منافق کو یکدم قتل کردینا بھی کچھ صحیح نظر نہیں آتا کیونکہ صحیح احادیث میں بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں ایسے مواقع پر حضرت عمر ؓ اور حضرت خالد بن ولید ؓ نے بعض منافقین کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی۔ مگر حضور ﷺ نے اجازت نہ دی۔ بخاری اور ترمذی شریف میں روایت موجود ہے کہ جب حضرت حاطب ؓ ابن ابی بلتعہ سے غلطی ہوگئی تھی تو حضرت عمر ؓ نے عرض کیا تھا دعنی ان اضرب عنق ہذا المنافق۔ حضرت ! آپ مجھے چھوڑ دیں کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں ، مگر حضور ﷺ نے منع فرما دیا تھا۔ حضرت خالد بن ولید ؓ کا ذکر بھی آتا ہے کہ جب منافقین کی منافقت واضح طور پر ظاہر ہونے لگی تو آپ نے قتل کرنے کی اجازت طلب کی جو نہ مل سکی۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو قتل کرنے کی جب اجازت مانگی گئی تو نبی (علیہ السلام) نے فرمایا دعوا اس کو چھوڑ دو ۔ ان الناس یتحدثون ان محمداً یقتل اصحابہ لوگ پراپیگنڈا کریں گے کہ محمد خدا کے رسول نہیں بلکہ مطلق العنان بادشاہ ہیں جو اپنے ساتھیوں سے ناراض ہو کر انہیں قتل کروا دیتے ہیں۔ فرمایا یہ چیز تبلیغ اسلام کے راستے میں رکاوٹ بن جائیگی۔ جنگ حنین کے موقع پر ایک شخص نے کہا تھا ، اے محمد ! آپ انصاف کریں۔ اس پر آپ کو سخت کوفت ہوئی اور آپ نے فرمایا تو نامراد ہوگیا ، اگر میں دنیا میں انصاف نہیں کروں گا تو اور کون انصاف کرنے والا ہے۔ اس موقع پر بھی حضرت عمر ؓ یا حضرت خالد ؓ نے عرض کیا تھا کہ حضور ! اجازت دیں اس شخص کا کام تمام کردیں۔ آپ نے فرمایا ، اس کو چھوڑ دو ، یہ خارجیوں کا جد امجد ہے۔ اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اسلام سے بالکل اسی طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار کے آر پر نکل جاتا ہے اور اس کے ساتھ کوئی آلائش نہیں ہوتی۔ اس زمانے میں جب کسی شکاری جانور ہرن وغیرہ پر زور سے تیر چلاتے تھے تو وہ جانور کے پیٹ کے پار نکل جاتا تھا اور اس کے پچھلے کنارے پر معمولی سی آلائش ہوتی تھی باقی تیر بالکل صاف ہوتا تھا۔ بہرحال فرمایا کہ اس شخص سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے ، مگر قرآن ان کے گلے سے نیچے نہیں جائیگا۔ یہ واقعات بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ جلد بازی میں کوئی ایسا کام نہیں کرتے تھے جس کا ذکر ان تفسیری روایات میں ملتا ہے ، بلکہ وہ تو ہمیشہ حضور ﷺ کے اشارے کے منتظر رہتے تھے۔ دین کے معاملے میں بیشک سخت تھے مگر کوئی غلط قدم نہیں اٹھاتے تھے۔ اس قسم کی اجازت طلبی حضرت عمر ؓ کی اپنی بیٹی اور حضور ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت حفصہ ؓ کے متعلق بھی ملتی ہے۔ حضور ﷺ اپنی بیویوں سے ناراض ہوگئے اور ایک ماہ تک علیحدگی کی قسم کھاکر اوپر چوبارے میں چلے گئے۔ لوگ سمجھنے لگے کہ حضور نے اپنی تمام بیویوں کو طلاق دے دی ہے اس پر حضرت عمر ؓ نے حضور کی خدمت میں حاضری کے لیے دو تین دفعہ نیچے کھڑے ہو کر اجازت طلب کی۔ جب کوئی جواب نہ ملا تو عرض کیا کہ میں اپنی بیٹی کی سفارش کرنے کیلئے نہیں بلکہ حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں کہ کیا واقعی حضور نے بیویوں کو طلاق دے دی ہے یا محض ناراضگی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ خدا کی قسم اگر اللہ کا نبی مجھے حکم دے گا تو میں اپنی بیٹی کی گردن خود اڑا دوں گا۔ بعض روایات سے اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ اکثر منافقین اپنے مقدمات حضور ﷺ کے پاس اس لیے نہیں لاتے تھے کہ آپ ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیں گے۔ اس کے برخلاف وہ کعب بن اشرف جیسے طاغوتی شخص کے پاس جانا پسند کرتے تھے کیونکہ وہ اسے رشوت دیکر یا دیگر سفارشی ذرائع سے اپنے حق میں فیصلہ کرنے پر آمادہ کرسکتے تھے۔ بس اتنی بات ہے جس پر ان آیات کا نزول ہوا۔ طاغوتی نظام مولانا عبیداللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ طاغوت سے مراد شیطان اور کعب بن اشرف جیسے موذی اور غالی لوگ ہیں۔ وسیع تر مفہوم میں طاغوت ہر وہ سرکش قوت ہے جو لوگوں کو گمراہ کرتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس زمانے کے بڑے بڑے طاغوت قیصر اور کسریٰ تھے۔ انہوں نے دنیا بھر کے لوگوں کو غلام بنا رکھا تھا اور وہ انسانوں کو جانوروں کی طرح استعمال کرتے تھے۔ اللہ کے دین کے مخالف تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے ذریعے اس طاغوتی نظام کا قلع قمع کردیا یہ تو اس زمانے کا ذکر ہے اور اب ہمارے زمانے میں روس اور امریکہ کے نظام طاغوتی نظام ہیں۔ ایک الحادی نظام ہے اور دوسرا سرمایہ دارانہ۔ دنیا کا ایک حصہ سرمایہ داری کی لپیٹ میں ہے اور دوسرا اشتراکیت کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔ مگر ہیں دونوں طاغوتی اور باطل۔ دینِ اسلام نے ہمیشہ ان کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اللہ نے اپنے ہر نبی کی زبان سے کہلوایا ان اعبدوا اللہ و اجتنبوا الطاغوت یعنی عبادت صرف اللہ کی کرو اور ان طاغوتوں سے اجتناب کرو۔ مفسر قرآن شیخ عبدالقادر محدث دہلوی (رح) طاغوت کا معنی ” ہڑدنگا “ کرتے ہیں۔ ہندی میں ہڑدنگا اس شخص کو کہتے ہیں جو خود ساختہ سردار ہوتا ہے۔ کسی طریقے سے اقتدار پر قبضہ کرلیتا ہے اور پھر اسے من مانے طریقے سے استعمال کرتا ہے۔ اب تو ریگن اور برزنیف قسم کے لوگ ہیں جو یہ کردار ادا کہہ رہے ہیں تاہم تقریباً دو سو سال تک انگریز کو بھی دنیا میں یہی حیثیت حاصل رہی جو اب کمزور ہوچکا ہے۔ بہرحال طاغوت ہر وہ طاقت ہے کلما اضل عن الحق جو راہ راست سے گمراہ کر دے شرائع الٰہیہ کے خلاف جو بھی فیصلہ ہوگا وہ طاغوتی ہوگا ، مارشل لاء کا نظام بھی اسی قلیل س ہے۔ جہاں انسانوں کے بنائے ہوئے باطل قواعد جبراً نافذ کیے جاتے ہیں۔ فرمایا ، وہ تو اپنے تنازعات طاغوت کے پاس لے جانا چاہتے ہیں و قد امروا ان یکفروا بلہ حالانکہ انہیں حکم یہ تھا کہ وہ طاغوت کا انکار کردیں۔ تمام طاغوتی نظاموں کی نفی کر کے اللہ وحدہٗ لاشریک پر ایمان لے آئیں۔ سورة بقرہ میں فرمایا ” فمن یکفر باالطاغوت و یومن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقی “ جس نے طاغوت کا انکار کردیا اور اللہ پر ایمان لے آیا ، اس نے مضبوط کڑے کو پکڑ لیا۔ ویرید الشیطن ان یضلہم ضللاً بعیداً اور ادھر شیطان یا طاغوت کی خواہش یہ ہے کہ لوگ دور کی گمراہی میں جا پڑیں ، اور شریعت الٰہی سے منہ موڑ بیٹھیں۔ شرائع الٰہیہ کی پیروی آگے فرمایا واذا قیل لہم جب منافقوں سے کہا جاتا ہے تعالوا الی ما انزل اللہ اس چیز کی طرف آؤ جسے اللہ نے نازل کیا ہے یعنی قرآن حکیم و الی الرسول اور رسول کی طرف آؤ تو پھر رایت المنفقین آپ ان منافقوں کو دیکھیں گے۔ مقصد یہ کہ ان منافقوں کا حال یہ ہوتا ہے۔ یصدون عنک صدوداً اعراض کرتے ہیں آپ سے اعراض کرنا صدوداً مفعول مطلق ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ ایک خاص طریقے سے اعراض کرتے ہیں تاکہ کسی کو پتہ نہ چل سکے کہ وہ درپردہ منکر ہیں۔ منافقین بظاہر کلمہ تو پڑھتے ہیں مگر شریعت الٰہی کو تسلیم نہیں کرتے اور حیلے بہانے سے اس کے احکام کو ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مولانا شیخ الہند (رح) اپنے ترجمہ قرآن پاک کے حاشیے پر لکھتے ہیں کہ اگر مسلمانوں میں کوئی تنازعہ پیدا ہوجائے تو انہیں قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنھا چاہئے۔ کیونکہ ان کا ملجا و ماویٰ یہی دو چیزیں ہیں فرماتے ہیں کہ تنازعہ کے دو فریقین میں سے اگر ایک شخص کہے کہ چلو بھائی اس کا فیصلہ شریعتِ الٰہی سے کرواتے ہیں اور دوسرا کہے کہ میں تو شریعت کو تسلیم نہیں کرتا۔ تو ایسا شخص کافر کہلائے گا کیونکہ اس نے اللہ اور رسول کا حکم تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ سورة نور کے چھٹے رکوع میں آتا ہے کہ مومنین کی یہ شان یہ ہے کہ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ اور رسول کی طرف آؤ تو وہ خوشی محسوس کرتے ہیں اور جو اس قسم کے بودے اور منافق لوگ ہوتے ہیں وہ حیلہ سازی کرتے ہیں تاکہ بچ جائیں۔ منافقین کی بےبسی ایسے ہی منافقین کے متعلق فکیف اذا اصابتہم مصیبۃٌ بما قدمت ایدیہم پس کیا حال ہوگا جب ان کو مصیبت پہنچے گی ان کے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے۔ یعنی اللہ اور رسول کو چھوڑ کر طاغوتی فیصلے حاصل کرنے والوں پر جب محاسبے کا وقت آئیگا ، ان کو تکلیف پہنچے گی تو ان کا کیا حشر ہوگا اس وقت یہ لوگ سخت مصیبت میں ہوں گے اور یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے شریعت الٰہی سے اعراض کیا۔ دنیا میں بھی جب قرآن پاک کی آیات ان کے جھوٹ کا پول کھول دیتی تھی تو انہیں سخت ندامت ہوتی تھی مگر اپنے مکروہ عزائم سے باز نہیں آتے تھے۔ سورة توبہ میں بھی موجود ہے ” انہم یفتنون فی کل عامٍ مرۃً او مرتین “ یعنی ہر سال میں یاک یا دو مرتبہ منافقوں کی قلعی ضرور کھلتی ہے اور وہ ذلیل ہوتے ہیں مگر پھر بھی توبہ نہیں کرتے اور نہ قبیح حرکتوں سے باز آتے ہیں۔ جھوٹی قسمیں فرمایا ان کا کیا حال ہوگا جب وہ اپنے کردہ گناہوں کی سزا میں مبتلا ہوں گے۔ فرمایا ثم جاء وک یحلفون پھر وہ آپ کے پاس قسمیں اٹھاتے ہوئے آئیں گے باللہ ان اردنا الا احساناً و توفیقاً اللہ کی قسم دوسری جگہ مقدمہ لے جانے کا مقصد نیکی اور اتفاق رائے کرانا تھا۔ جھوٹی قسمیں اٹھائیں گے کہ ہم اللہ اور رسول پر ایمان رکھتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے سورة منافقون میں ارشاد فرما دیا کہ ان کی قسموں کا اعتبار نہ کریں۔ واللہ یشھد ان المنفقین لکذبون اللہ خود گواہی دیتا ہے کہ یہ جھوٹے لوگ ہیں۔ اتخذو ایمانہم جنۃً انہوں نے بچاؤ کے لیے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے ، لہٰذا ان پر اعتبار نہ کریں۔ فرمایا اولیک الذین یعلم اللہ ما فی قلوبہم یہی لوگ ہیں کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے۔ ان کا روگ بھلا خدا تعالیٰ سے کیسے چھپ سکتا ہے وہ تو علیہٌ بذاتِ الصدور “ ہے۔ تمام ظاہر و باطن کو جانتا ہے۔ ” عالمُ الغیب “ ہے۔ اسے علم ہے کہ منافقین میں کھوٹ کی مقدار کیا ہے۔ فرمایا ان تمام تر حقائق کے باوجود اے پیغمبر (علیہ السلام) ! فاعرض عنہم آپ منافقین سے اعراض کریں انہیں اچھے طریقے سے چھوڑ دیں۔ سورة مزمل میں بھی فرمایا ہے۔ واھجرہم ہجراً جمیلاً آپ انہیں اچھے طریقے سے چھوڑ دی۔ مقصد یہ کہ کوی برابھلا نہ کہیں بلکہ ان کے ساتھ رابطہ کی گنجائش باقی رہنے دیں۔ وعظہم اور ان کو نصیحت کرتے رہیں اور خیر خواہی کا سلوک کرتے رہیں۔ وقل لہم فی انفسہم قولاً بلیغاً اور ان کے نفسوں کے بارے میں موثر بات کریں جو ان کے دلوں پر اثر انداز ہو۔ بعض فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان کے جھوٹ کا پول ظاہر بھی ہوجائے پھر بھی فی انفسہم علیحدگی میں انکے ساتھ خیرخواہی کی موثر بات کریں ، کیونکہ اللہ کے نبیوں کا طریقہ تبلیغ یہی ہے کہ وہ مخالفین کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آتے ہیں اور ان کے ساتھ بہتر ، سچی اور موثر بات کرتے ہیں تاکہ ان کی مخالفت موافقت میں تبدیل ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ نے تبلیغ دین کے سلسلے میں یہ تعلیم بھی دے دی۔
Top