Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 188
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بالْبَاطِلِ : ناحق وَتُدْلُوْا : اور (نہ) پہنچاؤ بِهَآ : اس سے اِلَى الْحُكَّامِ : حاکموں تک لِتَاْكُلُوْا : تاکہ تم کھاؤ فَرِيْقًا : کوئی حصہ مِّنْ : سے اَمْوَالِ : مال النَّاسِ : لوگ بِالْاِثْمِ : گناہ سے وَاَنْتُمْ : اور تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اور نہ کھائو ایک دوسرے کا مال اپنے درمیان باطل اور ناحق کے ساتھ اور نہ پہنچائو مالوں کو حاکموں تک تا کہ لوگوں کے مالوں سے ایک حصہ گناہ کے ساتھ کھائو ، اور تم جانتے ہو
گزشتہ سے پیوستہ اس سے پہلے اعتکاف کا مسئلہ بیان ہوچکا ہے کہ اعتکاف کی حالت میں عورتوں سے مقاربت جائز نہیں ، حدود اللہ کی حفاظت کا مسئلہ بھی بیان ہوا ۔ تا کہ انسان کے اندر تقویٰ کی روح پیدا ہوجائے ، روزہ کی مدت کا تذکرہ بھی آ گیا کہ روزہ طلوع فجر سے لے کر غروب شمس تک کے لیے ہے ، رات کو کھانے پینے اور عورتوں سے ملنے کی اجازت دے دی ۔ الغرض اس پورے رکوع میں روزہ ہی کا بیان ہے ، جس میں صدقہ فطر ، نزول قرآن دعا ، سحری کھانے اور اعتکاف کے مسائل شامل ہیں ۔ ربط آیات اس رکوع کے بعد اگلے رکوع میں حج کا ذکرہ ہے۔ یسئلونک عن الاھلۃ سے شروع کر کے مناسک حج کی ترتیب بیان کی گئی ہے ۔ اس کے بعد جہاد کا مسئلہ ہے۔ مفسرین کرام کے لیے اشکال پیدا ہوا ہے کہ درمیان میں مال کا تذکرہ کیونکر آ گیا ہے ، جب کہ ایک طرف روزے کا بیان ہے اور دوسری طرف جہاد کا مسئلہ ہے ، بظاہر یہ مضامین آپس میں غیر مربوط معلوم ہوتے ہیں ، مگر حقیقت میں سابقہ مضمون کے ساتھ اس کا گہرا ربط ہے۔ حضرت مولانا شیخ الہند (رح) نے اس کی تشریح یوں بیان کی ہے کہ روزے مقصود طہارت نفس اور طہارت بدن ہے ، اب اس آیت میں مالی تذکرے سے مراد مال کی طہارت ہے ۔ اس وقت تک مسلمان کا تزکیہ نہیں ہو سکتا جب تک روح و جسم کے علاوہ اس کا مال بھی پاک نہ ہو ، اس آیت میں حرام مال کھانے سے منع کیا گیا ہے اور اس میں یہ لطیف نکتہ پوشیدہ ہے کہ روزہ کی حالت میں تو حلال چیز بھی اتنے وقت کے لیے حرام ہوجاتی ہے ، مگر حرام مال تو مدت العمر یعنی ہمیشہ کے لیے حرام ہے ، گویا ایک مسلمان حرام مال کی طرف سے ساری عمر کے لیے روزے دار ہے ، وہ اس کے قریب کیسے جاسکتا ہے ، چناچہ آیت زیر درس کو مسائل روزے کے ساتھ نہ مناسبت ہے۔ شیخ الہند (رح) کا ترجمہ قرآن شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن (رح) کو عالم اسلام میں اعلیٰ مقام حاصل ہے ، یہ میرے سامنے آپ ہی کا ترجمہ قرآن پاک ہے۔ آپ حضرات کے پاس جو ترجمہ ہے ، یہ حضرت مولانا احمد علی صاحب لاہوری (رح) کا ہے ، یہ دونوں تراجم دراصل شاہ عبد القادر (رح) کے ترجمہ کی آسان صورت ہے جو ان حضرات کے ہاتھوں انجام پائی ۔ برصغیر میں سب سے پہلا بامحاورہ اردو ترجمہ شاہ عبد القادر (رح) کا ہی ہے ، تا ہم اس میں آج سے اڑھائی سو سال پرانی اردو استعمال کی گئی تھی اور اس میں ہندی اور بعض دوسری زبانوں کے الفاظ بھی پائے جاتے ہیں جو آجکل کی اردو میں استعمال نہیں ہوت ، مثال کے طور پر شاہ صاحب نے اللہ الصمد کا ترجمہ نرادھار کیا ہے جو کہ خالص ہندی یا سنسکرت زبان کا لفظ ہے ۔ اسی طرح واجتنبوا الطاغوت میں طاغوت کا ترجمہ ہڑونگا کیا ہے۔ مولانا سید عزیر گل مولانا شیخ الہند (رح) نے یہ ترجمہ مالٹا کی جیل میں قید کے دوران کیا تھا ، آپ اور آپ کے پانچ ساتھیوں پر بغاوت کا مقدمہ چلا تھا ، اگرچہ آپ سزائے موت سے بچ گئے تا ہم قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں ۔ آپ نے اس تنہائی سے یہ فائدہ اٹھایا کہ قرآن پاک کا ترجمہ آسان اردو میں پیش کردیا ۔ آپ کے پانچ ساتھیوں میں سے اس وقت صرف حضرت مولانا سید عزیر گل فاضل دیوبند زندہ ہیں ۔ مولانا شیخ الہند (رح) کی نواسی آپ کے نکاح میں تھی ۔ اس کے علاوہ سندھ کے انگریز کمشنر کی بیٹی مسلمان ہو کر آپ کے نکاح میں آئی اور تیس سال کی وفات کے بعد فوت ہوئی ۔ مولانا عزیز گل ایک تاریخی انسان ہیں ۔ سخا کوٹ ایجنسی میں ان کی اپنی زمین ہے ، وہیں آپ کی رہائش ہے ، کافی بوڑھے ہوچکے ہیں ، تا ہم اپنے زمانے میں بڑے بہاد اور دلیر آدمی تھے۔ مولانا وحید احمد (رح) مولانا شیخ الہند (رح) کے ساتھیوں میں مولانا سید حسین احمد مدنی (رح) کے بھتیجے مولانا وحید احمد مدنی (رح) بھی تھے۔ آپ کے ایک شاگرد مولا ان حکیم سید نصرت حسین صاحب (رح) بھی آپ کے ساتھ مالٹا میں قید رہے ، اور وہیں فوت ہوئے ، انگریزوں نے ان کے ساتھ بڑے ظلم کیے ، ان کی وفات کے بعد مولانا شیخ الہند (رح) نے بڑی کوشش کی کہ حکیم صاحب کو دفن کرنے سے پہلے منسون طریقے سے غسل دیا جاسکے ، مگر انگریزوں نے اسکی اجازت نہ دی اور کہا کہ ان کی طرف سے دیا گیا غسل کافی ہے ، بہر حال آپ نے تیمم کرا کے جنازہ پڑھا ، اور ان کو دفن کیا ۔ حضرت شیخ الہند (رح) انگریز کے سخت مخالف تھے ، اگر کوئی انگریز کے متعلق مسئلہ دریافت کرتاتو فرماتے بھئی کسی اور عالم سے پوچھ لو ، شاید میں مبالغہ کر جائوں کیونکہ مجھے انگریزوں سے سخت نفرت ہے ، آپ خوب سمجھتے تھے کہ انگریز نے اسلام کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے۔ ترکوں کی سلطنت کو انگریز نے ہی درہم برہم کیا ، مولویوں کی قلم اور زبان سے ترکوں کی خلافت پر کفر کا فتویٰ لگوایا ، اور انہیں بدنام کیا ۔ انگریز کی چال بازی شخصی طور پر انگریز بڑی با اخلاق قوم ہے۔ آپ ان سے تجارت کریں ، کوئی اور لین دین کا معاملہ ہو ، بڑے اچھے طریقے سے پیش آئیں گے ، اسی لیے انگریز بڑا چال باز ہے ، گزشتہ زمانے میں تجربہ کار لوگوں میں یہ محاورہ مستعمل تھا کہ اگر جرمن ختم ہوجائے ، تو دنیا سے مشینری ختم ہوجائے ، کیونکہ جرمنی لوگ مشینی ذہن کے لوگ ہیں ، انہوں نے بڑی مشینری ایجاد کی ہے۔ حتیٰ کہ سلائی مشین بھی انہی کی ایجاد ہے ، تو یہ محاورہ استعمال کیا جاتا تھا۔ اگر دنیا سے انگریز قوم ختم ہوجائے تو چال بازی ختم ہوجائے ، اس قوم نے بڑی مادی ترقی کی ہے اور بڑے لمبے عرصہ تک دنیا میں حکومت کی ہے۔ اس کا ستارہ چھ سو سال تک بام عروج پر رہا ، امریکہ اور روس تو انگریز کے بچے ہیں ، جس طرح کسی زمانے میں رومیوں کا دنیا میں رعب و داب تھا ، اسی طرح ماضی قریب میں انگریز کو عروج حاصل تھا ، ان میں بڑے بڑے فلاسفر ، سائنس دان انجینئر اور قانون دان پیدا ہوئے ہیں ، تا ہم عیسائی ہونے کے ناطے اسلام کا ہمیشہ دشمن رہا ہے۔ شیخ سعدی (رح) شیخ سعدی (رح) کا زمانہ ساتویں صدی ہجری ہے ، آپ کی گلستان پڑھیے ، معلوم ہوتا ہے کہ انگریز نے شیخ صاحب کو بھی قید کر ڈالا تھا ، آپ کے ساتھ یہودی قیدی تھے ، کہتے ہیں کہ میں خندق کی تعمیر کے سلسلے میں گارہ اٹھا اٹھا کر لا رہا تھا۔ حلب کا کوئی رئیس آپ کا واقف تھا۔ ادھر سے گزرا تو آپ کو پہچان لیا ، پوچھ کیا بات ہے شیخ سعدی (رح) نے کہا کہ میں تو لوگوں سے تنگ آ کر باہر جنگل میں نکل گیا تھا تاکہ یکسوئی سے اللہ اللہ کرسکوں ، مگر شومئی قسمت کہ قید فرنگ میں مبتلا ہوگیا اس رئیس نے انگریز کو فدیہ دے کر شیخ صاحب کو رہائی دلادی۔ شیخ صاحب اپنے زمانے کے بہت بڑے شاعر تھے ، فارسی کی غزل گوئی میں آپ کی مثال نہیں ملتی ، آپ کی کتابیں گلستان اور بوستان بڑی مقبول ہوئیں ۔ یہ ابتدائی جماعتوں کو اسی زمانے سے پڑھائی جا رہی ہیں ، آپ نے پاکیزہ زبان استعمال کر کے نصیحت آموز باتیں کی ہیں ، جن میں مزاج کا رنگ بھی پایا جاتا ہے ، بعض لوگوں نے اس بات پر اعتراض کیا کہ آپ نے کتاب میں ہنسی مذاق کو بھی جگہ دے دی ہے تو آپ نے اس کے جواب میں کہا کہ میں نے اس میں ظرافت اور خوش طبعی کو اس لیے جگہ دی ہے تا کہ لوگ اسے آسانی سے قبول کرلیں ، بعض اوقات کڑوی گولی چین میں بند کر کے کھلانی پڑتی ہے ، تا کہ اس سے مریض کو شفاء ہو ، اسی اصول کے تحت میں نے نصیحت آموز باتیں ہنسی مذاق کے خول میں بند کرکے دی ہیں ، تا کہ یہ لوگوں کے ذہن میں اتر سکیں ۔ گلستان کے بارے میں انگریزوں کا مقولہ ہے کہ یہ کسی ایک شخص کی تحریر معلوم نہیں ہوتی بلکہ یہ کسی کمیٹی یا کمیشن کا کام ہے ، اس میں اتنے تجربات اور نصیحتیں ہیں ، جو ایک آدمی کا کام معلوم نہیں ہوتا ۔ بہر حال شیخ سعدی (رح) کی قید و بند سے واضح ہوتا ہے کہ ساتویں صدی ہجری میں بھی انگریز مسلمانوں کا جانی دشمن تھا ۔ اس زمانے میں مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی سلطنتیں تھیں مگر وہ بام عروج پر تھے۔ فرانس اور برطانیہ تو اس وقت بالکل غیر متمدن تھے انہیں تو کپڑے پہننے کا سلیقہ بھی نہیں آتا تھا۔ پشت پر چمڑا باندھتے تھے ، انگریز اس وقت بالکل پسماندہ تھا ۔ انہیں مسلمانوں کی وجہ سے ترقی نصیب ہوئی ۔ اندلس میں بھی مسلمانوں کا طوطی بولتا تھا ، انگریز تو چودھویں صدی میں جا کر متمدن ہوئے ہیں انہوں نے سائنس میں ترقی کی اور پھر انہیں غلبہ حاصل ہوا ۔ ترک سلطنت اس زمانے میں مسلمانوں کی ترک سلطنت کو بڑا عروج حاصل تھا ترکوں نے چار سو سال تک عیسائی سلطنتوں کے ساتھ ٹکر لی ۔ انگریز ، جرمن ، فرانسیسی ، روسی سب اسلام کے ازلی دشمن تھے۔ ترکوں نے ہر ایک کے ساتھ خوب معرکے سرکیے بڑے بہادر لوگ تھے ۔ حنفی مسلک کے راسخ العقیدہ مسلمان تھے ۔ علم کی طرف سے زیادہ تر تشنہ ہی رہے۔ مگر اسلام کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا ، تا ہم کمال اتاترک جس کا آج کل ڈے منایا جا رہا ہے۔ اس نے اسلام کو نقصان بھی پہنچایا ہے۔ اس نے خلافت کو ختم کردیا جو مسلمانوں کے زوال کا باعث بنا ، مگر اس نے ترکی کو بڑی طاقتوں سے الگ کر کے اسے سازشوں سے بچا لیا ، اس نے عربی زبان کو ملک سے بالکل نکال باہر کیا حتیٰ کہ عربی اذان بھی بندکروا دی ۔ اس نے غلطیاں بھی بہت کی ہیں مگر ترکی حکومت کا زوال عربوں کی وجہ سے آیا ۔ یہ غدار نکلے ، انگریزوں کے ساتھ مل کر ان کے آلہ کار بن گئے۔ اردن کے موجودہ فرمانروا کا داد شریف حسین سید ہونے کے باوجود انگریزوں کا پٹھو تھا ، اس نے ترکوں کو بہت نقصان پہنچایا انگریز نے ان کو وفاداری کی بناء پر چھوٹی چھوٹی ریاستیں دے دیں ۔ ایک کو عراق میں جگہ دے دی ، ایک کو اردن میں ایک پروردہ کو فلسطین میں بٹھا دیا پھر اس نے شاہ مسعود (رح) کے ساتھ ساز باز کی ۔ اس کی پوزیشن بدوئوں والی تھی ، یہ مستقل مزاج رہا ، تاہم انگریز کے ماتحت ہی رہا ۔ اب امریکہ زیر اثر ہے ، اسی کی پالیسی پر گامزن ہے ۔ سپر پاورز جب انگریز زوال پذیر ہوا ، تو امریکہ کو عروج حاصل ہونے لگا ۔ دنیا میں اس کی اجارہ داری قائم ہوگئی ، دوسری طرف روس نے غلبہ حاصل کرلیا ، اب یہ دو طاقتیں دنیا کی متحارب قومتیں ہیں ۔ یہ آپس کی سرد جنگ میں مبتلا ہیں ۔ دنیا کے باقی ممالک دونوں میں سے کسی نہ کسی گروپ میں شامل ہو کر ان کے دست نگر ہیں ۔ اب یہ سپر طاقتیں سازشوں میں مصروف ہیں ۔ ان کی نگاہیں مشرق وسطیٰ اور اسلامی ممالک پر ہیں کہ ان کو کس طرح تقسیم کیا جائے ، امریکہ کا ہر آنے والا صدر سابقہ پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے اسرائیل کی پشت پناہی کرتا ہے اور اسرائیل مشرق وسطیٰ میں ناسور کی صورت اختیار کر گیا ہے ، یہ امریکہ برطانیہ اور فرانس کا مشترکہ پردردہ ہے ، جس کی وساطت سے مسلمانوں کو ذلیل ورسوا کیا جا رہا ہے۔ ہدیہ اور گلستان حضرت مولانا انور شاہ کشمیری (رح) ہمارے اس آخری دور کے بہت بڑے محدث ہوئے ہیں ۔ ان کے متعلق علامہ اقبال (رح) نے کہا تھا کہ آپ ہمارے دور کے جید ترین محدث ہیں جنکی مثال نہیں ملتی ، اللہ تعالیٰ نے ایسا کمال درجے کا حافظہ دیا تھا کہ جب کوئی کتاب ایک دفعہ دیکھ لی تو پوری زندگی یاد رہی ، بھولتے نہیں تھے۔ بخاری شریف پوری کی پوری یاد تھی ، آپ فرمایا کرتے تھے ، کہ اگر کوئی کتاب دنیا سے ناپسند ہوجائے تو میں اسے دوبارہ لکھ سکتا ہوں ، مگر دو کتابیں ایسی ہیں جن کو دوبارہ لکھنے پر ہیں قادر نہیں ہو ، ان میں سے ایک ہدایہ ہے اور دوسری شیخ سعدی (رح) کی گلستان ہے اس کے آٹھ باب ہیں اور تین سو صفحات پر مشتمل ہے ، ہدایہ فقہ کی بلند پایہ کتاب ہے ، صاحب ہدایہ نے اسے اسی مضمون سے مختصر کر کے چار جلدوں میں محفوظ کردیا ہے ، امام محمد (رح) کی جامع صغیر اور ابو الحسن (رح) کی قدوری ہدایہ کی اصل ہیں ، یہ بہت اچھی شرح ہے انسان کا کوئی کام حتمی نہیں ہوتا ، غلطیاں ہوجاتی ہیں ۔ سہو سے پاک تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ بہر حال صاحب ہدایہ نے یہ گراں قدر خدمت انجام دی ہے اور علامہ انور شاہ صاحب کشمیری (رح) نے شیخ سعدی (رح) کی گلستان کو اس کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔ زوال کے اسباب مولانا شیخ الہند (رح) فرمایا کرتے تھے کہ وسیع مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ یر پہنچا ہوں کہ مسلمانوں کے زوال کے دو اسباب ہیں ، قرآن سے دوری اور فرقہ بندی اسی لیے شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) ، ان کے خاندان اور حضرات شیخ الہند (رح) نے قرآن پاک کی تعلیم دینے میں زندگیاں کھپا دیں ۔ مولانا عبید اللہ سندھی (رح) نے حضرت لاہوری (رح) کو قرآن پاک کی تعلیم سے آراستہ کر کے فرمایا تھا ، احمد علی اپنی پوری زندگی قرآن کی تعلیم کے لیے وقف کر دو ، اور پھر آپ نے اس نصیحت پر پورا پورا عمل کیا ۔ ساری عمر لوگوں کو قرآن پاک پڑھاتے رہے ، چالیس برس میں آپ نے پانچ ہزار علماء کو قرآن کی تعلیم دی ۔ آپ دوسری کتابیں عا م طور پر نہیں پڑھاتے تھے ، کبھی کبھی مشکوٰۃ شریف یا حجۃ اللہ البالغہ کا درس دے دیتے تھے۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) نے بھی قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر لکھی ہے اور یہ بھی کمال درجے کا مفصل ترجمہ ہے ، آپ سمجھتے تھے کہ لوگ قرآن سے دور ہوگئے ۔ میں انہیں قریب کرنے کی کوشش میں آپ نے یہ ترجمہ اور تفسیر لکھی۔ فرقہ بندی کی لعنت حضرت شیخ الہند (رح) فرقہ بندی کو بہت بڑی لعنت سمجھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ پارٹی بازی مسلمانوں کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہے اور اگر اسے دور نہ کیا گیا تو مسلمان تباہ ہوجائیں گے ۔ وہ ہمیشہ اتفاق و اتفاق اتحاد کی دعوت دیتے تھے ، انہوں نے علی گڑھ والوں کو قریب کرنے کی کوشش بھی کی ۔ آپ نے مولانا شوکت علی (رح) اور مولانا محمد علی (رح) جوہر کو قریب کیا اور پھر علی گڑھ پارٹی کو ساتھ ملایا تا کہ سب مل کر مسلمان قوم کی خدمت کرسکیں اور اس سلسلہ میں متحدہ پروگرام پر عمل پیرا ہو سکیں ۔ حضرت مولانا محمود حسن ؓ کو شیخ الہند کا خطاب مولانا محمد علی جوہر (رح) نے ہی دیا تھا جسے برصغیر کے تمام لوگوں نے تسلیم کیا ۔ واقعہ بھی یہ ہے کہ مولانا محمود الحسن نہایت نیک ، متدین اور صالح آدمی تھے ، خاموش رہ کر بڑے بڑے کام کرتے تھے۔ ہندوستان میں انگریز کی جڑوں کو انہوں نے ہی کھوکھلا کیا ۔ اپنے شاگردوں اور مریدوں کے ذریعے دور دور تک جانے پہچانے جاتے تھے ، حتیٰ کہ غالب پاشا اور انور شاہ بھی سمجھتے تھے۔ کہ آپ مسلمانوں کے بہت بڑے لیڈر اور ہمدرد ہیں ، ہمیشہ آپ سے رابطہ رکھتے تھے۔ تحریک ریشمی رومال 1915 ء میں ریشمی رومال کی تحریک چلی ، یہ سکیم بھی حضرت شیخ الہندی (رح) کی تھی ، آپ کی کوشش یہ تھی کہ کسی طرح انگریز کو ہندوستان سے نکال باہر کیا جائے ، اس وقت برصغیر کی آبادی چالیس کروڑ تھی ، مگر پانچ چھ لاکھ انگریز حکومت کر رہے تھے کیونکہ طاقت ان کے ہاتھ میں تھی ، مگر مسلمانوں کی غداری کی وجہ سے یہ تحریک بھی کامیاب نہ ہوسکی ، اس کا راز قبل از وقت فاش ہوگیا تھا ، مقصد یہ کہ برصغیر کی آزادی کے سلسلے میں علماء کی جدوجہد تو پرانی ہے۔ اس وقت ہندوئوں کو تو خواب بھی نہیں آیا تھا کہ انگریزوں کو یہاں سے نکالنا ہے اور مسلم لیگ بعد کی پیداوار ہے ، اس زمانے میں اس کی بھی کوئی حیثیت نہیں تھی ، اس میں نواب قسم کے لوگ شامل تھے۔ آخر میں جب لوگ انگریز اور ہندوئوں سے تھک چکے تھے تو مسلمان مسٹر جناح کی قیادت میں یکجا ہوگئے اور بات بن گئی ، ان کی جدوجہد تو صرف پانچ سات سال کی ہے ، جب کہ علمائے کرام کی تحریک حریت ڈیڑھ صدی پر محیط ہے۔ تزکیہ مال بہر حال بات حضرت شیخ الہند (رح) کے ترجمہ قرآن کی ہو رہی تھی ۔ آپ نے سورة بقرہ اور سورة نساء کا حاشیہ بھی لکھا ۔ باقی حاشیہ آپ کے شاگرد و رشید مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) کا ہے ۔ تو مولانا محمود الحسن (رح) نے مختصر الفاظ میں بہت بڑی بات سمجھا دی کہ اس آیت میں طہارت مال کا بیان ہے ، جب کہ اس سے پہلی آیات میں روزہ کا بیان تھا جس سے مقصود لعلکم تتقون یعنی نفس اور جسم کی طہارت تھا۔ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان کا اس وقت تک مکمل تزکیہ نہیں ہو سکتا جب تک اس کا مال بھی پاک نہ ہو ، تو اس آیت زیر درس میں مال کی پاکیزگی کا قانون بیان کیا گیا ہے کہ ایک مسلمان کو حلال اور پاکیزہ مال کھانے اور حلال بیوی سے متمتع ہونے سے صرف روزے کے دوران منع کیا گیا ہے ، مگر حرام سے اسے ہمیشہ کے لیے منع کردیا گیا ہے ، وہ ساری عمر ایسے مال کے کیسے قریب جاسکتا ہے ، یہ تو شرکت کے اصول کے منافی ہے۔ اکل حرام ارشاد ہوتا ہے ولا تاکلوا امرالکم بینکم بالباطل ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے مت کھائو ۔ حضور ﷺ کا ارشاد پاک ہے۔ لا یحل مال امرا الا بطیب نفسہ کسی مسلمان کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں ۔ دوسرے مقام پر بھی آتا ہے ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھائو ۔ الا ان تکون تجارۃ سوائے اس کے کہ تجارت ہو کہ اس طریقے سے منافع کھانا جائز ہے منافع پھر دوسرے کے لیے فائدہ ہی ہوتا ۔ اس کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ مگر ناجائز اور باطل چیز کسی وقت بھی مسلمان کے لیے جائز نہیں ۔ ناجائز مال خواہ چوری کے ذریعے حاصل ہو یا خیانت یا دھوکہ یا رشوت کے ذریعے یہ کسی صورت میں بھی جائز نہیں ۔ رشوت مولانا عبید اللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ رشوت سلطنتوں کو تباہ و برباد کرنے والی لعنت ہے ، اس لعنت سے کوئی بھی محفوظ نہیں امریکہ ہو یا برطانیہ اور آپ کے ملک توصف اول میں ہے۔ اس کے بغیر کوئی جائز کام نہیں کرایا جاسکتا ، آپ رشوت دیے بغیر ریلوے سے سامان نہیں چھڑا سکتے ، اس کے بغیر ڈاک خانے والے بات نہیں سنتے پولیس میں رپٹ نہیں لکھائی جاسکتی ۔ محکمہ اوقاف مقدس محکمہ سمجھاجاتا ہے ، یہ بھی اس لعنت میں گرفتارہوچکا ہے ۔ انسانیت کی دو بڑی دشمن طاقتیں رشوت اور سود ہیں ، اسلام نے ان دونوں چیزوں کو قطعی حرام قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھائو ۔ غاصبانہ قبضہ اکل حرام کی ایک اور صورت غاصبانہ قبضہ بھی ہے ، جیسا کہ پیپلز پارٹی کے زمانہ میں زمین اور کارخانے چھینے گئے پچیس سال میں واجب الادا قیمتیں لگائی گئیں اور اصل مالکوں کو بےدخل کردیا گیا ، اس سے تو بھارت والے اچھے رہے جنہوں نے چھینا بیشک مگر طریقے سے یکدم کسی کی زمین یا کارخانہ چھین لینا ظالمانہ طریقہ ہے اس کا درست طریقہ یہ تھا ، کہ کوئی کمیشن بٹھایا جاتا جو تحقیقات کے بعد فیصلہ کرتا کہ کون سی جائیداد جائز ذرائع سے حاصل کردہ ہے اور کون سی ناجائز ذرائع سے اگر کسی نے ناجائز طریقے سے جاگیر حاصل کر رکھی ہے ، تو پھر وہ معاوضے کا قطعا ً حقدار نہیں ، وہ حق دار کو ملنی چاہئے اور اگر کوئی جائیداد وارثت میں ملی ہے یا جائز ذرائع سے خریدی گئی ہے ، تو پھر اس کا پورا پورا معاوضہ ملنا چاہئے۔ وہ بھی اس صورت میں کہ اسلامی ریاست اس جائیداد کو حاصل کرنا ضروری سمجھتی ہے ، کسی جائیداد پر زبردستی قبضہ ، جواء یا ناجائز بیع کے ذریعے حصول جائیدادک بالکل درست نہیں یہ حرام ہے۔ آگے فرمایا تدلوابھا الی الحکام اور ایسے مال کو حاکموں تک نہ پہنچائو ۔ مقصد یہ کہ کوئی جائیدا د یا کوئی مال ناجائز طریقے سے حاصل کرنے کے لیے حکام وقت کی امداد حاصل نہ کرو ، نہ ان کو رشوت پیش کرو اور نہ ان کے پاس سفارش لیکر جائو ، اب تو حکام کے علاوہ یہ سلسلہ ان کی بیگمات تک وسیع ہوگیا ہے۔ مٹھائی اور فروٹ کی ٹوکریاں پیش کی جاتی ہیں ۔ کپڑے اور زیورات کے تحائف دیے جاتے ہیں ، تا کہ کسی دوسرے کے مال پر غاصبانہ قبضہ کیا جاسکے یہ سب حرام ہے اس سے منع کیا گیا ہے۔ مال حاصل کرنے کے لیے جھوٹا دعویٰ دائر کرنا یا کسی ایسے معاملہ میں جھوٹی گواہی دینا بھی اسی قبیل سے ہے ، اور حرام کھانے کے مترادف ہے ، اسی لیے فرمایا کہ لتاکلوا فریقا من اموال الناس بالا ثم حکام کے پاس اس غرض سے مت جائو کہ لوگوں کا مال غلط طریقے سے کھا جائو ۔ وانتم تعلمون حالانکہ تم جائز اور ناجائز کو اچھے طرح جانتے بھی ہو ، پھر غلط کام کرتے ہو ، یہ قطعاً حرام ہے اس سے بچو۔
Top