Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 155
وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ١ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ : اور ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں بِشَيْءٍ : کچھ مِّنَ : سے الْخَوْفِ : خوف وَالْجُوْعِ : اور بھوک وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے الْاَمْوَالِ : مال (جمع) وَالْاَنْفُسِ : اور جان (جمع) وَالثَّمَرٰتِ : اور پھل (جمع) وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں آپ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اور البتہ ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ خوف ، بھوک ، مالوں ، جانوں ، اور پھلوں کے گھاٹے سے اور آپ صبر کرنیوالوں کو خوشخبری سنا دیں
گزشتہ سے پیوستہ ترقی کے لئے جن منزلوں کو طے کرنا پڑتا ہے ، اس میں تہذیب اخلاق اور اس کے اصولوں کا ذکر ہو رہا ہے۔ سب سے پہلے اللہ کے ذکر اور شکر کا تذکرہ ہوا اور پھر تیسرے بڑے اصول صبر کا بیان ہے ، چوتھا اصول۔ دعا ہے جس کا ذکرانا للہ وانا الیہ راجعون میں اجمالی طور پر کیا گیا ہے اور اصل دعا اور نماز کا تعلق بھی اسی سلسلے سے ہے۔ صبر کی قوت اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے صبر کا بطور خاص ذکر فرمایا ہے اور اس کی فضیلت بیان ہے ان اللہ مع الصبرین ارشاد ہوا کہ ان کو مردہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں اس کا شعور نہیں۔ یہ صبر کی عظمت سے ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ کے راستے میں موت جیسی بڑی مصیبت کو بھی بخوبی برداشت کرنا ہے۔ تو یقین ہے کہ ایسے شخص کو حیات جاوداں نصیب ہوجاتی ہے اور یہ بڑی راحت والی زندگی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شہید کے لواحقین بھی یہ صدمہ برداشت کرتے ہیں جس کے بدلے میں انہیں زندگی میں عزت حاصل ہوتی ہے اور وہ ترقی کے منازل طے کرتے ہیں۔ گویا تہذیب الاخلاق کے ضمن میں صبر کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ لہٰذا جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق موت جیسی بڑی مصیبت کو برداشت کیا وہ تہذیب الاخلاق کا مالک بن گیا۔ آزمائش مقتضائے ایمان ہے موت جیسی بڑی عصیبت کے تذکرہ کے بعد درس آیات میں اللہ تعالیٰ نے بعض چھوٹی چھوٹی مصیبتوں کا ذکر فرمایا کا ذکر فرمایا کہ ہم ان کے ذریعے بھی تمہیں آزمائیں گے فرمایا ولنبلونکم ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے اور یہ آزمائش مفتضائے ایمان ہے چناچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے مومن لوگ یہ تصور کریں کہ وہ محض کلمہ پڑھ کر بغیر امتحان کے کامیابی حاصل کرلیں گے بلکہ فرمایا ہم ضرور انہیں امتحان سے گذاریں گے۔حضور ﷺ کا بھی ارشاد مبارک ہے۔ یبتلی الرجل بقدر دینہ آدمی کا امتحان اس کے دین کے مرتبہ کے مطابق ہوتا ہے۔ جس قدر اس کا دین مضبوط ہوگا اسی قدر اس کی آزمائش بھی کڑی ہوگی اور اگر دین کمزور ہے تو آزمائش بھی کمزور ہوگی ۔ مگر آزمائش سے خالی کوئی نہیں۔ بہرحال ایمان کا تقاضا ہے کہ آزمائش آئے اب یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر منحصر ہے کہ وہ کسی شخص کی آزمائش کس طریقہ سے کرتا ہے ۔ اس کے مختلف طریقے ہیں ۔ جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے۔ ذرائع آزمائش فرمایا ولنبلونکم بشیء ہم تمہیں کسی نہ کسی چیز سے ضرور آزمائیں گے اور وہ کون سی چیزیں اور کون سے ذرائع ہیں جن سے آزمائش ہوتی ہے۔ خوف فرمایا من الحخوف منجملہ ان ذرائع کے ایک ذریعہ خوف ہے۔ یعنی تم پر خوف طاری کردیں گے۔ جس سے انسان مصیبت میں مبتلا ہوجائے گا۔ خوف بالعموم بیرونی اسباب سے ہوتا ہے ۔ مثلاً کسی بیرونی دشمن کا خوف مسلط کردیں گے۔ جس سے زندگی کا لطف برباد ہوجائے گا۔ اہل مکہ کے متعلق سورة قریش میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے قریش پر اتنا احسان فرمایا کہ ” اطعمھم من جوع وامنھم من خوف یعنی انہیں بھوک سے نجات دلانے کے ساتھ ساتھ انہیں خوف سے بھی مامون رکھا وہ لوگ نہایت امن وامان کی زندگی بسر کرتے تھے۔ بیت اللہ شریف کے متولی ہونے کی بناء پر نہایت با عزت مقام حاصل تھا اور وہ ہر قسم کے بیرونی خطرات سے محفوظ تھے۔ خوف ایک ایسی چیز ہے ۔ جس کی موجودگی میں زندگی کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ جاتا ہے۔ تجارت ، زراعت ، صنعت و حرفت ہر چیز خوف کی زد میں آ کر اپنا مقام کھو بیٹھتی ہے ۔ جنگ کے موقع پر دیکھ لیں۔ دھیان ہر وقت اسی طرف رہتا ہے۔ کہیں گولہ باری کا خطرہ ہے کہیں ہوائی حملہ ہو رہا ہے۔ سائرن بج رہے ہیں۔ لوگ پناہ گاہوں کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ عجیب افراتفری کا عالم ہوتا ہے پوری زندگی معطل ہو کر رہ جاتی ہے ۔ جس سے ملکی معیشت تباہ ہوجاتی ہے۔ زندگی کا سکون ختم ہوجاتا ہے اور لوگ ہر آن نئی مصیبت کے منتظر رہتے ہیں اسی کو فرمایا کہ ہم خوف کے ذریعے تمہاری آزمائش کریں گے۔ بھوک والجوع آزمائش کا دوسرا ذریعہ بھوک ہے۔ انسان زندگی کا انحصار اس کی خوراک پر ہے۔ غذا کا حصول انسان کا طبعی اور فطری حق ہے۔ انسانوں کے علاوہ حیوانات ، کیڑے مکوڑے ، چرند ، پرند ، خشکی اور پانی کے تمام جانداروں کی زندگی خوراک سے وابستہ ہے۔ حتیٰ کہ انبیاء علیہم اسللام جیسی مقدس ترین ہستیوں کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ” وما جعلنھم جسدالایاکلون الطعام “ یعنی ہم نے انبیاء کے جسم بھی ایسے نہیں بنائے جنہیں غذا کی ضرورت نہ ہو۔ بلکہ وہ بھی کھانا کھاتے ہیں۔ ان کو بھی بھوک احساس ہوتا ہے بھوک کی وجہ سے بعض اوقات وہ بھی مضطرب ہوجاتے ہیں۔ غزوہ خندق کے موقع پر خود خاتم النبین ﷺ نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھے۔ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ بھوک کی وجہ سے ہم نے حضور ﷺ کو بےچین ہوتے ہوئے بھی دیکھا بعض اوقات بھوک کا اتنا غلبہ ہوتا کہ سیدھے بیٹھ بھی نہ سکتے بلکہ ٹیک لگانا پڑتی ۔ الغرض چونکہ خوراک ہر ذی جان کے لئے لازمی ہے۔ لہٰذا اس کے بغیر اس کا اضطرار بھی ضرو ری ہے۔ ……… اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بسا اوقات ہم انسان و حیوان کی خوراک روک کر اور اسے بھوک میں مبتلا کر کے اس کی آزمائش کرتے ہیں۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ بھوک دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک اضطراری اور دوسری اختیاری ، پانی اور خوراک کی قلت اضطراری بھوک ہے ، اور اس کا مظاہرہ دنیا میں ہوتا رہتا ہے۔ قحط سالی کی وجہ سے خوراک پیدا ہی نہیں ہوتی یا کوئی بیرونی آفت مثلاً طوفان یا زلزلہ وغیرہ کے ذریعے اس کے ذخائر تباہ ہوجاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے خوراک کا حصول ممکن نہیں رہتا اور لوگ آزمائش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ قریبی زمانہ میں بنگال کا مشہور قحط واقع ہوا۔ آج سے تقریباً 35 سال قبل اس قحط کی وجہ سے نوے لاکھ انسان لقمہ اجل بنے۔ چھوٹے چھوٹے سیلاب تو اکثر ساحلی علاقوں میں آتے رہتے ہیں۔ جس سے سینکڑوں اور ہزاروں جانیں تلف ہوجاتی ہیں۔ یہ اضطراری بھوک ہے اور آزمائش کے لئے وارد ہوتی ہے۔ بھوک کی دوسری صورت اختیاری ہے جیسے اہل ایمان کے لئے ماہ رمضان میں روزوں کی فرضیت مسلمان خود اس بھوک کو اختیار کر کے آزمائش خداوندی پر پورا اترتے ہیں۔ جان و مال کا نقصان فرمایا آزمائش کی تیسری صورت ونقص من الاموال والانفس یعنی مال و جان کا نقصان ہے۔ انسانی معیشت کا دار و مدار انہی دو چیزوں پر ہے۔ انسان مال کے ساتھ کاروبار کرتا ہے۔ تجارت ، حرفت یا زراعت کرتا ہے اور یہ امور انجام دینے کے لئے افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اگر جان یعنی افرادی قوت اور مال یعنی روپیہ پیسہ ، گائے بیل ، بھینس ، اونٹ بکری وغیرہ میں کمی آجائے گی تو انسانی معیشت کو نقصان پہنچے گا۔ لہٰذا یہ بھی آزمائش کا ذریعہ ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم جان و مال میں کمی کر کے بھی لوگوں کا امتحان لیتے ہیں۔ آفات ارضی و سمادی مال و جان میں نقصان کا ذریعہ ہیں۔ بسا اوقات مہلک وبائی امراض مثلاً طاعون ، ہیضہ ، تپ محرقہ وغیرہ انسانی زندگی کے اتلاف کا سبب بنتی ہیں۔ یا پھر زلزلہ ، طوفان اور سیلاب وغیرہ کے ذریعے جانی و مالی نقصان پہنچتا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کا ذریعہ ہیں۔ ثمرات کی کمی آزمائش کا چوتھا ذریعہ فرمایا والتمرات پھل ہیں کہ بعض اوقات پھلوں میں کمی کے ذریعے بھی آزمائش آتی ہے۔ کسی سال فصلوں میں غلہ یا درختوں پر پھل زیادہ آتا ہے ، کسی سال کم آتا ہے اور کسی سال بالکل نہیں آتا۔ غلہ اور پھلوں کی فراوانی یا کمی قبضہ قدرت میں ہے۔ لہٰذا یہ بھی آزمائش کا ایک ذریعہ ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ خوف سے مراد دشمن کا خوف ہے۔ بھوک سے مراد اختیاری بھوک یعنی عبادت ، ریاضت اور روزہ کا حکم ہے اور مال و جان کی کمی سے مراد راس المال کی کمی ہے۔ جس کے ذریعے انسان کام کاج کرتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ پھلوں میں کمی سے مراد انسانی اولاد میں کمی ہے۔ اولاد انسان کا ثمرہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات افزائش نسل انسانی میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ پھل سے مراد درختوں کا پھل بھی ہے اس میں بھی کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ تاہم امام شافعی نے پہلی تاویل کو اختیار کیا ہے۔ یعنی ثمرات میں کمی سے مراد نسل انسانی میں کمی ہے۔ اور اس کی تصدیق حدیث شریف سے بھی ہوتی ہے۔ حضور ﷺ فرماتے کہ جب کسی کا بیٹا فوت ہوجاتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے۔ قبضتم روح ابن عبدی کہ تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کرلی ہے فرشتے عرض کرتے ہیں کہ یا مولا کریم ہم نے تیرے حکم کے مطابق ایسا کیا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اخذتم ثمرۃ قلبہ تم نے اس کے دل کا پھل لے لیا ہے۔ فرشتے عرض کرتے ہیں۔ ہاں ہم نے لے لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ پھر پوچھتے ہیں کہ ایسا کرنے پر میرے بندے نے کیا کہا۔ فرشتے کہتے ہیں کہ بندے نے حمد واسترجع تیری تعریف کی اور انا للہ کہا۔ اس پر اللہ تعالیٰ اس بندے سے راضی ہو کر کہتا ہے کہ اس کے لئے بہشت میں ایک خاص کوٹھی اور ایک جگہ بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد رکھ دو ۔ یہ اس بندہ مومن کا انعام ہے اس سے معلوم ہوا کہ ثمرہ سے مراد اولاد بھی ہے۔ صابروں کے لئے بشارت اللہ تعالیٰ نے ان مختلف قسم کی آزمائشوں کا ذکر فرمایا اور مقصود اس سے یہ ہے کہ ان آزمائشوں میں پورا اترنا یعنی ہر مصیبت پر صبر و شکر کا دامن تھامے رکھنا ہی انسانیت کی معراج ہے جو شخص تکلیف آنے پر اسے برداشت کرتا ہے جزع و فزع یا کوئی خلاف شرع حرکت نہیں کرتا ، صبر کا پورا پورا حق ادا کرتا ہے تو ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وبشر الصبرین ایسے صابر و شاکر لوگوں کو خوشخبری سنا دو کہ فلاح و کامیابی ان کے مقدر میں ہوچکی ہے اور وہ کون لوگ ہیں جنہیں یہ بشارت دی جا رہی ہے۔ الذین اذا اصابتھم مصیبۃ جب ان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے قالوا تو کہتے ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون ہم سب خدا کا مال ہیں اور پھر لوٹ کر اسی کے پاس جانا ہے ۔ مقصد یہ کہ ہم سب اللہ کی مخلوق ہیں ہماری جانیں اور مال اللہ ہی کا دیا ہوا ہے یہ سب اسی کی مہربانی کا مرہون منت ہے اور نہ ہمارا تو کچھ بھی نہیں ہے دوسری جگہ فرمایا ” للہ ما فی السموت وما فی الارض “ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کی عطا کردہ ہے۔ بقول اکبر الہ آبادی ہمارا تو صرف وہم و گمان ہی ہے۔ باقی ہر چیز اللہ کی ہے۔ وہ مالک و مختار ہے اپنی ملکیت میں جب اور جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔ ان للہ ما اعطی ولہ ما اخذرکل شیء عندہ باجل مسمی سب کچھ اسی کا ہے۔ جب چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جب چاہتا ہے اٹھا لیتا ہے زندگی ایک غیر اختیاری چیز ہے وہ جب اور جتنی چاہتا ہے دیتا ہے اور جب چاہتا ہے لے لیتا ہے۔ جسم و جان اور موت وحیات کا مالک تو وہی ہے لہٰذا جب کسی مومن کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ انا للہ کہہ کر اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ یہ مال و دولت اسی کا عطا کردہ ہے ، وہ جب چاہے لے لے۔ لہٰذا وہ کسی قسم کے نقصان پر چیخ و پکار یا واویلا نہیں کرتا ، بلکہ صبر سے کام لیتا ہے اور ایسے یہ صابرین کے لئے اللہ تعالیٰ نے بشارت دی ہے۔ مصیبت کے وقت رونا پیٹنا ، نوحہ کرنا ، بالوں کو نوچنا یا گا لیں پیٹنا ہرگز ایمان کا جزو نہیں ہے حضور ﷺ نے عورتوں سے بیعت لیتے وقت عہد لیا تھا کہ رونا پیٹنا ناجائز ہے ، نوحہ کرنا حرام ہے ، ایسا ہرگز نہ کرنا ، البتہ غم واندوہ سے کسی کے آنسو بہہ نکلیں تو یہ ایک فطری امر ہے اور درست ہے مگر چیخ و پکار کرنا خلاف طبع اور ناجائز ہے۔ اس سے بچنا چاہئے۔ مصیبت کے وقت صبر کرنا اور انا للہ کہ دنیا گویا اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر رضا مندی کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے جو بھی پسند فرمایا ہے میں اس پر راضی ہوں۔ اگر اللہ ہم سے راضی ہوگیا ، تو یہ اجر وثواب کا باعث ہوگا۔ اور وہ ناراض ہوگیا۔ تو ہم یقینا تباہ و برباد ہوجائیں گے کیونکہ لوٹ کر بھی اسی کے پاس جانا ہے اسی کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے اس کے علاوہ اور کوئی مقام نہیں چناچہ صبر کا قانون بتلا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر رضای ہوجانا چاہئے حضرت عبداللہ بن معسود فرماتے ہیں کہ میں آسمان سے گر جائوں ، زمین پر ہلاک ہو جائوں یہ بات میرے لئے اس بات سے بہتر ہے کہ خدا تعالیٰ کے کسی فیصلہ کے متعقل میں یوں کہوں کہ یہ مجھے پسند نہیں۔ بلکہ اللہ کے ہر فیصلے پر رضای ہوجانا چاہئے۔ حدیث شریف میں آتا ہے۔ جو خدا کے فیصلے پر راضی ہوجائے گا ، اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی ہوگا اور جو شخص خدا کے کسی فیصلہ پر ناراض ہوگا ، اللہ تعالیٰ بھی اس سے ناراض ہوجائے گا۔ ظاہر ہے کہ جس شخص سے اللہ ناراض ہوگا ، اس کا حشر کیا ہوگا۔ امام ابوبکر جصاص فرماتے ہیں کہ ان آیات سے واضح ہے کہ رضا بالقضا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے پر راضی ہوجانا چاہئے اور صبر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔ فرماتے ہیں کہ ان آیات سے دو احکام مترشح ہوتے ہیں یعنی فرض اور نفل ۔ اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے پر رضای ہوجانا فرض حکم ہے اور ہر مصیبت پر انا للہ وانا الیہ راجعون کہنا نفلی حکم ہے۔ حضور ﷺ نے یہ دعا سکھائی اللھم اجرنی فی مصیبتی واخلفی خیرامنھا یعنی اے اللہ ! مصیبت میں مجھے اجر عطا فرما اور سا کا مجھے بہتر بدلہ عطا کر۔ یہ ایمان والوں کی نشانی ہے کہ وہ ہر مصیبت پر اس طرح کے کلمات کہ کہ راضی برضا ہوجاتے ہیں تکلیف خواہ چھوٹی ہو یا بڑی ، اس پر صبر کرنا اور کلمات خیر کہنا ایمان کی نشانی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے یا ٹھوک لگ جائے تو اس پر بھی انا للہ پڑھنا چاہئے تاکہ اللہ کی رضا پر راضی ہونے کی سند حاصل ہوجائے۔ صلہ صبر فرمایا صبر کرنے والے اور اللہ کی رضا پر راضی ہونے والے لوگوں کا صلہ یہ ہے اولئک علیھم صلون من ربھم و رحمۃ ایسے ہی لوگ ہیں جن پر رب تعالیٰ کی عنایتیں اور مہربانی ہے مولانا شاہ اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں کہ صلوۃ سے مراد خاص رحمت اور مہربانی ہے اور رحمت سے مراد عام مہربانیاں ہیں۔ شاہ رفیع الدین فرماتے ہیں کہ صلوت سے مراد وہ عنایتیں اور مہربانیاں ہیں جو انسانوں کو انبیاء (علیہم السلام) کی وساطت سے پہنچتی ہیں اور رحمت وہ مہربانی ہے جو انسانوں کو اللہ کے فضل سے پہنچتی ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی کی حکمت کے مطابق صلوۃ جیسی بلند پایہ رحمت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بندے کا اتصال خطیرۃ القدس جیسے بلند پایہ مقدس مقام سے ہوجاتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی تجلی اعظم پڑتی ہے۔ اس طرح گویا اس کا رابطہ خدا تعالیٰ سے قائم ہوجاتا ہے اور اسے بڑی بلندی اور ترقی نصیب ہوتی ہے۔ واولئک ھم المھتدون اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ انہیں یہ مقام اسی لئے حاصل ہوتا ہے کہ وہ صراط مستقیم کے رایہ ہوتے ہیں اور اسی سیدھے راستے پر چل کر اعلیٰ مقام حاصل کرتے ہیں۔
Top