Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 111
وَ قَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى١ؕ تِلْكَ اَمَانِیُّهُمْ١ؕ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَنْ يَدْخُلَ : ہرگز داخل نہ ہوگا الْجَنَّةَ : جنت اِلَّا : سوائے مَنْ کَانَ : جو ہو هُوْدًا : یہودی اَوْ نَصَارٰى : یا نصرانی تِلْکَ ۔ اَمَانِيُّهُمْ : یہ۔ ان کی جھوٹی آرزوئیں قُلْ : کہہ دیں هَاتُوْا : تم لاؤ بُرْهَانَكُمْ : اپنی دلیل اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
اور کہتے ہیں کہ ہرگز نہ داخل ہوگا جنت میں مگر وہ جو یہودی ہو یا نصرانی ہو ، یہ ان کی خواہشات میں اے پیغمبر ﷺ کہہ دیجئے لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو ۔
ربط آیات : اہل کتاب کی خرابیوں کا ذکر ہو رہا ہے ، وہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام سے فضول سوال کرتے تھے ، اور پھر ان سے اختلاف بھی کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو ان کی روش سے منع فرمایا کہ تم یہودیوں والے کام نہ کرنا ، اور ان کے بہکاوے میں آکر دین میں شک نہ کرنے لگنا ، وہ تو چاہتے ہیں کہ اہل ایمان پر کفر کے طرف پلٹ آئیں ، اہل کتاب حاسد ہیں اسی بناء پر وہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور قرآن پاک میں نقص نکالتے ہیں تاکہ مسلمان اپنے دین سے برگشتہ ہوجائیں ، الغرض ! بنی اسرائیل کی یہ خرابیاں (آیت) ” یبنی اسرآء یل اذکروا نعمتی التی “۔ سے لے کر اگلے رکوع میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کی ملت اور خانہ کعبہ کے ذکر تک چلی گئی ہیں ، ساتھ ساتھ اہل ایمان کو ان خرابیوں سے بچنے کی تلقین کی جا رہی ہے ۔ (یہود و نصاری) اہل کتاب میں یہودی اور نصرانی دونوں فرقے پائے جاتے ہیں یہودیوںٗ کی نسبت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف ہے اور اپنے آپ کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور توراۃ کی طرف منسوب کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ نہ ان کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر کامل ایمان ہے اور نہ توراۃ کو اللہ تعالیٰ کی کتاب تسلیم کرتے ہیں ، انہوں نے کتاب اللہ میں تحریف کرکے اس کا حلیہ بگاڑ دیا ، اس بات کا تذکرہ گذشتہ دروس میں آچکا ہے ، آج کل یہودیوں کو صیہونی بھی کہا جاتا ہے ، صہیون ایک پہاڑ کا نام ہے جو بیت المقدس کے قریب واقع ہے اسی نسبت سے انہیں صہیونی کہتے ہیں ۔ نصاری اپنی نسبت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل کی طرف کرتے ہیں ، حضرت مسیح (علیہ السلام) کی بستی کا نام ناصرہ تھا جس کی وجہ سے یہ لوگ نصاری کہلاتے ہیں تاہم مسلمان مفسرین کرام (1) (تفسیر عزیزی فارسی ص 268 پارہ 1 ، تفسیر ابن کثیر ص 103 ، ج 1) کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ایک موقع پر کہا تھا (آیت) ” من انصاری الی اللہ “۔ یعنی اللہ کے راستے میں میری کون مدد کرے گا ، تو حواریوں نے کہا تھا (آیت) ” نحن انصار اللہ “۔ ہم اللہ کے دین کی مدد کرنے والے ہیں لحاظ سے انہیں نصرانی کہا جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ نصرانی نہ تو اللہ تعالیٰ کے پیغمبر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو مانتے ہیں اور نہ انجیل پر ایمان ہے انہوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو عبداللہ (اللہ کا بندہ) کہنے کی بجائے ابن اللہ (اللہ کا بیٹا) کہا بعض تین خداؤں میں انہیں تیسرا کہتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) میں حلول کر گیا تھا سورة مائدہ میں وضاحت موجود ہے (آیت) ” لقد کفر الذین قالوا ان اللہ ھوالمسیح “۔ یعنی وہ لوگ کافر ہوگئے ، جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ہی مسیح ہے جو تینوں میں تیسرا ہے ، وہ قطعی طور پر ملعون ہیں ، آپ کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہنے والے بھی کلمہ کفر ادا کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ تو اولاد سے پاک ہے (آیت) ” سبحنہ و تعلی عما یشرکون “۔ اللہ تعالیٰ ایسی تمام شرکیہ چیزوں سے منزہ ہے ، نصرانیوں نے انجیل کو بھی تحریف کے ذریعے بگاڑ دیا ہے ، اب ایک کی بجائے ایک سو بیس (120) انجیلیں بن چکی ہیں ، عام مشہور چار انجیلیں حنی یوحنا ، متی ، لوقا ، اور مرقس تو بائیبل کے ساتھ منسلک ہیں ، اس کے علاوہ ایک پانچویں انجیل بربناس بھی ہر جگہ دستیاب ہے ۔ اصلا انجیل سریانی زبان میں نازل ہوئی تھی ، مگر نصرانیوں نے اس کے تراجم کر کر کے اصل متن کو بالکل ضائع ہی کردیا ہے ، اس کے الفاظ تک اپنی حالت پر قائم نہیں رہے ۔ (نجات کا دارومدار) الغرض ! یہودونصاری دونوں فرقوں کا یہ عقیدہ اور دعوی تھا کہ (آیت) ” وقالوا لن یدخل الجنۃ الا من کان ھود او نصری “۔ یعنی صرف یہودی اور نصرانی ہی جنت میں جائیں گے باقی سب کے لیے جنت کے دروازے بند ہیں ، وہاں کوئی نہیں جاسکتا ، اور اس پر لطف کی بات یہ ہے کہ ہر دو فرقے آپس میں بھی متفق نہیں تھے ، بلکہ یہودی کہتے تھے کہ جو یہودی ہوگا وہ جنتی ہے اور نصاری کہتے تھے جو ہماری پارٹی کا ممبر ہے ، صرف وہی جنتی ہے ، اس کے علاوہ جنت پر اور کسی کا حق نہیں ہے ، اسی دعوے کے جواب میں اللہ جل شانہ نے فرمایا (آیت) ” تلک امانیھم “۔ یہ ان کی باطل خواہشات ہیں وگرنہ اس دعوے کی حقیقت کچھ بھی نہیں گویا انہوں نے اپنی خواہشات کو عقیدے کا درجہ دے دیا ، پہلے کسی درس میں بیان ہوچکا ہے کہ جب امت کا علم ، عمل کا رشتہ پیغمبر سے کٹ جاتا ہے تو امت کی خواہشات عقیدہ بن جاتی ہیں ، اس سے پہلے یہودیوں کے ایک اور باطل عقیدے کا بھی ذکر آچکا ہے کہ کوئی اسرائیلی دوزخ میں نہیں جائے گا ، اگر بالفرض چلا بھی گیا تو صرف اتنے ایام کے لیے جائے گا ، جتنے دنوں ان کے آباؤواجداد نے بچھڑے کی پوجا کی تھی ، وہاں پر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس باطل عقیدے کو واضح کیا تھا اور پوچھا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کس نبی پر وحی کی تھی کہ اسرائیلی جو چاہیں کرتے پھریں وہ چند دن سے زیادہ دوزخ میں نہیں رہیں گے تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے ۔ اس مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے وہی بات دہرائی ہے نبی کریم ﷺ کو ارشاد ہوتا ہے ” قل “ آپ ان کے دعوے کے جواب میں فرما دیجئے (آیت) ” ھاتوا برھانکم ان کنتم صدقین “۔ اگر تم اس دعوے میں سچے ہو تو کوئی دلیل لاؤ ، برہان دلیل یا سند کو کہتے ہیں ، اس کی جمع براہین آتی ہے اور دلیل بھی ایسی ہونی چاہئے جسے صحیح العقل آدمی تسلیم کرے ، دعوی کسی بھی قسم کا ہو ، جب تک اس کے پیچھے دلیل نہیں ہوگی ، وہ باطل سمجھا جائے گا ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے متعلق کہا (آیت) ” برھان لہ بہ فانما حسابہ عند ربہ “۔ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں پس ان کا حساب ان کے رب کے پاس جا کر ہی ہوگا ایسے لوگوں کے پاس نہ کوئی نقلی دلیل ہوتی ہے اور نہ عقلی دلیل زیادہ سے زیادہ یہ لوگ رواج کو بطور دلیل پیش کریں گے کہ ہمارے آباؤاجداد یوں کرتے رہے ہماری قوم کا یہ رواج تھا ہمارے علاقے والے اس بات کو اپناتے تھے ، برخلاف اس کے توحید کے ہزاروں کروڑوں دلائل آپ کے مشاہدہ کے لیے موجود ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہود ونصاری کا دعوی نجات غلط ہے ، یہ محض مخصوص فرقہ کی بنیاد پر جنت میں نہیں جاسکتے ، نجات کا یہ قانون ہرگز نہیں ہے۔ (اتباع خداوندی) فرمایا ” بلی “ کیوں نہیں یہ حرف ایجاب ہے ، اور یہ اپنے سے پہلی بات کی نفی کرتا ہے پہلے دعوی تھا ، یہودونصاری کے سوا جنت میں کوئی نہیں داخل ہوگا ، فرمایا کیوں نہیں ہوگا ، بلکہ جنت میں داخل ہوگا مگر وہ (آیت) ” من اسلم وجھہہ للہ “۔ جس نے اپنے چہرے کو اللہ تعالیٰ کے تابع کردیا ، ذکر چہرے کا ہے مگر مراد اس سے ذات ہے ، کہ جس شخص نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں دے دیا ، وہ جنت میں ضرور داخل ہوگا ، (آیت) ” وجہہ “۔ کا یہ معنی دوسرے مقام پر بھی ہو آتا ہے جیسے (آیت) ” کل شیء ھالک الا وجھہ “۔ ہر چیز فانی ہے اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا خداوندی ” حی ، قیوم “ ہے وہ دائم ، قائم ، ازلی اور ابدی ہے ، اس کے علاوہ ہر چیز بالفعل فانی ہے فنا ہوچکی ہے یا آئندہ فنا ہوجائے گی ، قائم اور دائم ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے ۔ (آیت) ” من اسلم “ جس نے تابع کردیا اسلام کا معنی منقاد ہوجانا یا تابع ہوجانا ، آگے آرہا ہے ، اللہ تعالیٰنے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) کا فرمایا ، ” اسلم “ یعنی مطیع ہوجاؤ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا ، (آیت) ” اسلمت لرب العلمین “۔ میں ظاہر و باطن طریقے سے اللہ رب العلمین کا فرمانبردار ہوں ، یعنی میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لیے ہر لمحہ تیار ہوں ، چناچہ انہوں نے اپنے وعدے کو سچ کر دکھایا ، اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ، یہاں سے ہجرت کر کے فلسطین چلے جاؤ ، آپ نے تعمیل کی ، اللہ تعالیٰ نے کہا ، خانہ کعبہ تعمیر کرو ، ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا ، حاضر ہوں ، اللہ تعالیٰ نے حکم دیا بیوی بچوں کو وہیں چھوڑ دو ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ایسے ہی کیا گویا انہوں نے (آیت) ” اسلمت لرب العلمین “۔ میں نے جو اقرار کیا تھا اسے حرف بحرف پورا کر دکھایا ۔ (نیک نیتی) فرمایا جنت میں جانے کا معیار یہ ہے (آیت) ” من اسلم “ یعنی جو اللہ تعالیٰ کا مطیع ہوگیا ، مقصد یہ کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی تعمیل میں کمربستہ ہوجائے ، اس کا اعتقاد درست ہوجائے ، اس کی فکر پاک ہوجائے ، اس کا ایمان مکمل ہوجائے جس کا تعلق نیت اور عقیدے سے ہے ایمان کا تعلق چونکہ باطن سے ہے ، اس لیے سب سے پہلے انسان کی باطنی طہارت کی ضرورت ہے اس کے قلب وروح میں اللہ تعالیٰ کی واحدنیت سرایت کر جائے ، نہ اس کی ذات میں کوئی شریک ہے اور نہ اس کی صفات میں کوئی شریک ہے اگر دل کے کسی گوشے میں شرک کا معمولی سا شائبہ بھی موجود ہے تو ایسا شخص موحد نہیں ہو سکتا ، وہ مشرک ہے یا منافق ہے یا شک کرنے والا ہے ، بخاری اور مسلم شریف کی حدیث ہے (1) (مسلم 317 ج 2 ۔ ابن ماجہ 306) حضور ﷺ نے فرمایا ” ان اللہ لا ینظر الی صورکم والوانکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم “۔ یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری شکلوں اور رنگوں کو نہیں دیکھتا ، بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے کسی شخص کے اعمال کا دارومدار اس کی نیت پر ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت) ” فادعوا اللہ مخلصین لہ الدین “۔ اللہ کو پکارو ، خالص اسی کی اطاعت کرنے والے بن جاؤ ، حدیث شریف میں ہے (2) (بخاری ص 2 ، مسلم ص 140۔ ج 1) ” انما الاعمال بالنیات “۔ لہذا اپنے باطن کو درست کرو ، جنت میں داخلے کے لیے یہ اولین شرط ہے ۔ امام رازی (رح) نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا واقعہ بیان کیا ہے (3) (تفسیر کبیر ص 4 ، ج 4) کہتے ہیں کہ ایک ایماندار آدمی بھوک میں مبتلا تھا ، سفر پر جا رہا تھا ، راستے میں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے نظر آئے اس نے کہا کاش میرے پاس ریت کے ان ٹیلوں کے برابر اناج ہوتا تو میں سب بھوکوں میں تقسیم کردیتا ، چونکہ خود اس وقت بھوکا تھا اسے بھوک کی تکلیف محسوس ہوئی تو اس نے دوسروں بھوکوں کو خیال میں لاتے ہوئے یہ بات کی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی بات پسند آئی چناچہ اس وقت کے نبی پر وحی بھیجی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے تیری اس خالص نیت کو قبول کرکے تجھے ریت کے ٹیلوں کے برابر غلہ تقسیم کرنے کا ثواب عطا کردیا ہے ، اللہ تعالیٰ نے تیرا یہ صدقہ قبول کرلیا ہے ، جیسی تمہاری اچھی نیت تھی ہم نے ویسا ہی اچھا اجر عطا کیا ہے ، (اعمال صالحہ) جنت میں داخلے کا جو اصول اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ، اس کا پہلا جزیہ تھا کہ داخلے کا خواہشمند شخص اللہ تعالیٰ کا مطیع ہو ، اس کا دوسرا جزیہ یہ فرمایا (آیت) ” وھو محسن “۔ اور وہ نیکی کرنے والا ہو ، مقصد یہ کہ جنت میں داخلہ کسی فرقہ یا جماعت کی بنیاد پر نہیں ہوگا کہ وہ یہودی ہو یا عیسائی کہلاتا ہو ، بلکہ نجات کا قانون اس مقام پر یہ فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مطیع ہو ، اسکی نیت اور ارادہ درست ہو ، اور اس کا عقیدہ صحیح ہو ، اور پھر دوسرے نمبر وہ اعمال صالحہ کرنے والا ہو ، ایسا شخص یقینا جنت کا حقدار ہوگا اور اس کو نجات حاصل ہوجائے گی ، (فرقہ بندی ذریعہ نجات نہیں ہے) حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں (1) کہ یاد رکھو نجات کا دارومدار کا کساب پر ہے نہ کہ انساب پر ، نسب کے لحاظ سے کوئی کتنے ہی اونچے خاندان سے تعلق رکھتا ہو یا کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو ، وہ نجات حاصل نہیں کرسکتا جب تک اس کا باطنی طور پر ایمان اور عقیدہ درست نہ ہو ، اور ظاہری طور پر اعمال صالحہ نہ انجام دیتا ہوں ، ہمارے ہاں بھی بہت سی فرقہ بندیاں پائی جاتی ہیں ، بعض جاہل یا کم فہم لوگ کسی خاص فرقے یا گروہ کو ہی نجات یافتہ تصور کرتے ہیں ، کہ فلاں مسلک والے جنت میں جائیں گے دوسرے نہیں جائیں گے حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ان میں کتنے لوگ ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ تعصب رکھتے ہیں بعض حنفی ، حنابلہ کے ساتھ یا شافیع ، مال کیوں کے ساتھ عناد رکھتے ہیں ، ان کا عقیدہ یہ کہ صرف ہم ہی جنت کے وارث ہیں دوسرے اس میں داخل نہیں ہو سکتے ، اسی طرح سلوک اور تصوف کے سلسلے ہیں ، جیسے چشتی ، قادری ، سہروردی ، نقشبندی ، وغیرہ ، ان میں سے بھی بعض ایک دوسرے کے خلاف عناد رکھتے ہیں ، اور جنت کو صرف اپنی وراثت سمجھتے ہیں باقی سب لوگوں کو جہنمی خیال کرتے ہیں ، یہ تو محض فروعی اختلافات ہیں بنیادی طور پر چاروں مسالک یا سلسلہ ہائے تصوف میں کوئی اختلاف نہیں ۔ شاہ عبدالعزیز (رح) فرماتے ہیں (1) (تفسیر عزیزی فارسی ص 407 پارہ 1) کہ یہ چیزیں فروعات دین میں سے ہیں ، دین میں ان کی گنجائش موجود ہے ، مگر اس کی بناء پر دوسرے فرقہ یا گروہ کو جہنمی قرار دینا جہالت محض ہے دین میں جتنے مسلک اور جتنے سلوک ہیں سب کا مقصد واحد ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی ، کوئی حنفی ہو یا شافعی ، مالکی ہو یا حنبلی ، ہو یا قادری منزل مقصود تو سب کی ایک ہی ہے ، راستے مختلف ہیں ، طریقہ تعلیم مختلف ہے ، مگر مقصد تو مختلف نہیں ، لہذا اپنے آپ کو جنتی اور دوسرے کو جہنمی کہنا بذات خود گمراہی کی علامت ہے اس میں اور یہود ونصاری کی گمراہی میں کیا فرق رہ گیا ہے ، اس غلط فرقہ بندی نے مسلمانوں کو تباہ کیا ہے ، فروعات میں اختلاف رائے عین فطری امر ہے ، اور اس کی گنجائش ہے ، غور کرنے کی بات ہے کہ دو ڈاکٹر یا حکیم ایک ہی قسم کے مریض کے لیے مختلف دوائیں تجویز کرتے ہیں مگر کوئی نہیں کہتا کہ فلاں ڈاکٹر بیوقوف ہے ، اور فلاں حکیم درست ہے ، انہیں سب درست ہی مانتے ہیں کیونکہ مقصد سب کا ایک ہی ہے یعنی مریض کی صحت یابی مقصود ہے ، دوا کوئی بھی تجویز کی جاسکتی ہے جو اس کے مناسب حال ہو ، لہذا دین کے معاملہ میں ایسا تعصب کیوں اختیار کیا جائے کہ فلاں فرقہ ایسا ہے یا فلاں امام ایسا ہے ، بھائی یہ سب ایک ہی اللہ تعالیٰ کو ماننے والے تو ہیں ، ان کے متعلق کسی گروہ میں تعصب نہیں ہونا چاہئے ۔ اب دیکھئے ملک میں فوجداری قانون رائج ہے ، کسی ملزم کو ایک جج ، سزائے موت دیتا ہے ، تو دوسرا اسی قانون کے مطابق اسے بری کردیتا ہے ، مگر کبھی کسی نے کسی جج کو غلط نہیں کہا کیونکہ قانون میں مختلف فیصلہ جات کی گنجائش موجود ہے ، اسی طرح دین کے قانون کو ماننے والے سارے ہی ہیں خواہ کوئی حنفی ہو یا شافعی ، لہذا ان کے پیروکاروں میں بھی تعصب نہیں آنا چاہئے ، یہ کہنا کہ فلاں فرقے والے اس طرح نماز پڑھتے ہیں ، ان کی نماز نہیں ہوتی یا وہ جہنمی ہیں ، یہ بہت بری بات ہے اور من حیث القوم مسلمانوں کی تباہی کا باعث ہے یہ یہودیت اور نصرانیت ہے ، قرآن پاک نے اس کی مذمت بیان فرمائی ہے ۔ (قانون نجات) الغرض ! فرمایا قانون نجات یہ ہے کہ جو شخص (آیت) ” من اسلم وجھہ للہ وھو محسن “۔ جس نے اپنی ذات کو اللہ تعالیٰ کے تابع بنا لیا ، اور وہ نیک کام کرنے والا ہے ، مجدد صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ جب (آیت) ” امنوا وعملوا الصلحت “۔ کا ذکر آتا ہے تو اس سے مراد بڑی بڑی چار عبادتیں ہیں ، یعنی نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج ، اس کے بعد پانچویں درجے میں جہاد آتا ہے علاوہ ازیں ان کے ساتھ دوسری نیکیاں بھی ہیں اس کو یوں بیان فرمایا (آیت) ” فمن یعمل من الصلحت “۔ جو کوئی بھی نیک کام کرے گا (آیت) ” وھو مومن “۔ بشرطیکہ وہ مومن ہو ، اس کا عقیدہ صحیح ہو ، تو اللہ تعالیٰ اس کے کسی عمل کی ناقدری نہیں فرمائیں گے اپنے ہر کام کا بدلہ وہ پالے گا ، ہاں اگر ایمان ہی مفقود ہے عقیدہ صحیح نہیں ہے ، تو پہاڑوں جتنی بڑی بڑی نیکیاں بھی گردوغبار کی طرح اڑ جائیں گی ، قیامت کے روز کچھ کام نہ آئیں گی ، (آیت) ” لایقدرون مما کسبوا “۔ ان کی کمائی میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا ، ان کی نیکیاں گردوغبار کی طرح اڑ جائیں گی ، گویا کہ وہ راکھ کے ذرات تھے جو آندھی کے آگے بالکل نہ ٹھہر سکے ، دوسرے مقام پر آتا ہے (آیت) ” عاملۃ ناصبۃ “۔ بڑے بڑے عامل ریاضتیں اور محنتیں کرنے والے کام کرکے تھک جانے والے ہوں گے مگر قیامت کے روز (آیت) ” تصلی نار حامیۃ “۔ جہنم میں ڈالے جائیں گے ، وجہ یہ ہے کہ وہ ایمان کی دولت سے محروم تھے ، سب نیکیاں رائیگاں جائیں گی ، بہرحال قانون نجات فرقہ بندی نہیں بلکہ اتباع خداوندی اور اعمال صالحہ ہیں ۔ (اجر عظیم) فرمایا جس نے اپنی ذات کو اللہ تعالیٰ کے تابع کرلیا اور پھر وہ نیکی کرنے والا بن گیا (آیت) ” فلہ اجرہ عند ربہ “۔ پس ایسے شخص کے لیے اپنے رب کے ہاں اجر ہے نیکی کا بدلہ اس کو ضرور ملے گا (آیت) ” ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون “۔ ایسے اشخاص مستقبل میں کسی پریشانی میں مبتلا نہیں ہوں گے نہ ان پر کوئی خوف ہوگا ورنہ وہ غمگین ہوں گے ظاہر ہے کہ دنیا میں انسان ہر وقت پریشان رہتا ہے کم از کم موت کا ڈر تو اسے ہر وقت لگا رہتا ہے گویا موت ہر وقت اس کے پیش نظر ہے ، پھر دولت اور صحت کا خوف مسلط رہتا ہے پتا نہیں یہ دولت ہمارے پاس رہے گی یا نہیں ، پتا نہیں کل کو صحت بھی برقرار رہ سکے گی یا نہیں ، تو اس قسم کے خوف انسان کے ہمیشہ دامن گیر رہتے ہیں مگر جن کا عقیدہ صحیح ہوگا ، جو اعمال اچھے کرنے والے ہوں گے ، وہ ان تمام پریشانیوں سے محفوظ رہیں گے ، انہیں نہ اپنے ماضی پر افسوس ہوگا اور نہ انہیں مستقبل کا کوئی خدشہ ہوگا ، برخلاف اس کے جنہوں نے کوئی کمائی نہیں کی زندگی کی پونجی کو ضائع کردیا ، وہ افسوس کریں گے ، کہ ہم نے کتنی کوتاہی کی ، اللہ تعالیٰ نے مہلت دی تھی ، مگر ہم نے س سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا ، نہ عقیدہ درست کیا اور نہ نیکی کا کوئی کام کیا ، ایمان سے محروم رہے ، ایسے لوگ خوف اور پریشانی میں مبتلا ہوں گے اور اپنے کیے پر ہمیشہ افسوس کرتے رہیں گے ۔
Top