Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 86
وَ لَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهٖ عَلَیْنَا وَكِیْلًاۙ
وَلَئِنْ : اور اگر شِئْنَا : ہم چاہیں لَنَذْهَبَنَّ : تو البتہ ہم لے جائیں بِالَّذِيْٓ : وہ جو کہ اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی کی اِلَيْكَ : تمہاری طرف ثُمَّ : پھر لَا تَجِدُ : تم نہ پاؤ لَكَ : اپنے واسطے بِهٖ : اس کے لیے عَلَيْنَا : ہمارے مقابلہ) پر وَكِيْلًا : کوئی مددگار
ترجمہ اور اگر ہم چاہیں تو لے جائیں (سلب کرلیں) اس چیز کو جو وحی بھیجی ہے ہم نے آپ کی طرف پھر نہ پائیں گے آپ اپنے لیے ہمارے اوپر کوئی دلیل ۔
ربط آیات : گذشتہ درس میں روح کے متعلق سوال اور اس کا جواب تھا ، مشرکین مکہ نے حضور ﷺ سے روح کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں دریافت کیا تھا ، جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کہہ دیں کہ روح میرے پروردگار کے امر سے ایک حقیقت ہے ہے مگر تمہیں تو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے ، اس لیے تم اسے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے ۔ بعض لوگ غرور وتکبر کی وجہ سے کہتے ہیں کہ انسان تمام چیزوں پر حاوی ہے حالانکہ حقیقت اس کے خلاف ہے انسان جتنا کچھ جانتا بھی ہے ، اس میں بھی بعض اوقات اشتباہ پیدا ہوجاتا ہے ، انسان کے دماغ میں کچھ ہوتا ہے جب کہ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے ، اس لیے بعض آثار میں یہ دعا بھی آتی ہے ، ” اللھم ارنا الاشیاء کماھی “ یعنی اے اللہ ہمیں چیزوں کی حقیقت اسی طرح دکھا جس طرح وہ واقع میں ہیں ، انسانی بہت سی چیزوں کی اصلیت سے ناواقف ہیں کیونکہ ان کا علم قلیل ہے ۔ (وحی الہی کی ضرورت) دنیا کا ہر علم ناقص ہے اور اس میں شک وشبہ کی گنجائش ہے صڑف وحی الہی ہی علم کا قطعی ذریعہ ہے جس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں ، بعض اوقات کسی چیز کو سمجھنے میں بھی غلطی ہو سکتی ہے ، اسی لیے امام مجدد (رح) فرماتے ہیں کہ بزرگان دین کو کشف کے ذریعے حقیقت اخذ کرنے یا اسے سمجھنے میں غلطی ہو سکتی ہے ، یا اگر اسے اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو اس کے بیان کرنے میں غلطی کا امکان ہو سکتا ہے اسی لیے آپ فرماتے ہیں کہ کشف کو قطعی چیز تسلیم نہیں کیا جاسکتا ، البتہ وحی الہی ایسی چیز ہے جسے اللہ کا نبی نہ تو اخذ کرنے میں غلطی کرتا ہے نہ سمجھنے میں اور نہ آگے بیان کرنے میں ، وحی علم کا اٹل ذریعہ ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے جس کو قدر کرنی چاہئے ، ۔ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ولئن شئنا لنذھبن بالذی اوحینا الیک “۔ اگر ہم چاہیں تو لے جائیں یا سلب کرلیں اس چیز کو جو ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے (آیت) ” ثم لا تجدلک بہ علینا وکیلا “۔ پھر آپ نہ پائیں گے اپنے لیے ہمارے اوپر کوئی کارساز مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی چیز کو سلب کرلے تو کس کی طاقت ہے کہ اللہ کے ہاں وکالت کرکے واپس لے سکے ؟ (آیت) ” الا رحمۃ من ربک “۔ ہاں ! یہ تیرے پروردگار کی مہربانی ہے کہ وہ اپنی عطا کردہ نعمت کو چھینے گا نہیں یہ خدا تعالیٰ کا فضل عظیم ہے کہ اس نے آپ کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا اور وحی الہی کے ذریعے عظیم الشان کتاب عطا فرمائی ، لہذا اس کی قدر کرنی چاہئے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے ، اگر انسان اس نعمت کی ناقدری کرتے ہوئے اس سے مستفید نہیں ہوگا تو اللہ تعالیٰ اسے واپس بھی لے سکتا ہے لہذا عام لوگوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اگر ہم نے اس وحی الہی کی قدر نہ کی تو پھر صحیح پروگرام اور کہاں سے مل سکے گا ، اللہ نے سورة مرسلات میں اسی بات کا تذکرہ کیا ہے (آیت) ” فبای حدیث بعدہ یؤمنون “۔ قرآن پاک کے بعد اور کون سی کتاب آئیگی جس پر تم ایمان لاؤ گے ؟ مطلب یہ کہ یہی اللہ کی آخری کتاب اور آخری پروگرام ہے ، یہ اس کی رحمت اور مہربانی کا نمونہ ہے ، ا سے اللہ نے شفا اور رحمت سے تعبیر کیا ہے لہذا اس کی حتی المقدور قدر کرنی چاہئے ۔ (قرآن کا اٹھ جانا) امام بغوی (رح) نے حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا لوگو ! قرآن کو سیکھو اور اس پر عمل کرو قبل اس کے کہ اسے اٹھا لیا جائے ، قرب قیامت میں ایک ایسا وقت آئے گا ، جب قرآن حکیم اٹھالیا جائے گا ، اس کی تفسیر میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) فرماتے ہیں کہ قرآن کے اٹھائے جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن کے الفاظ اٹھالیے جائیں گے بلکہ صحیحین کی روایت کے مطابق ” ان اللہ لا یقبض العلم انتزاعا ولکن یقبض العلمائ “۔ یعنی اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں کے سینوں سے نہیں اٹھائے گا بلکہ نیک اور اچھے علماء کو اٹھا لے گا ، جب دین کا صحیح علم رکھنے والے نہیں ہوں گے تو لوگ جاہلوں کو عالم ، مفتی اور قاضی کا درجہ دیں گے ، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ لوگ بغیر علم کے فتوی دیں گے ، خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے اور اس طرح دنیا سے علم کو چھین لیا جائیگا ۔ (ذہاب علم) حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک موقع پر حضور ﷺ نے کوئی بات بیان کی اور پھر فرمایا کہ ایسا اس وقت ہوگا ” حین ذھاب العلم “۔ جب علم چلا جائے گا حضور ﷺ کے ایک صحابی زیاد ابن لبید ؓ نے عرض کیا ، کہ علم کیسے چلا جائیگا جب کہ ہم ان سے قرآن پڑھتے ہیں اور آگے دوسروں کو پڑھاتے ہیں آپ نے فرمایا تیری ماں تجھے گم پائے زیاد میں تو تجھے مدینے کا سمجھدار آدمی سمجھتا تھا مگر تم نے تو بےسمجھی کی بات کی ہے کیا تم یہود ونصاری کا حال نہیں دیکھتے ؟ ان کے پاس کتابیں موجود ہیں مگر وہ ان پر عمل نہیں کرتے ، ایسے علم کا کیا فائدہ ؟ یہی ذہاب علم ہے ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں ” تعلموا العلم “ لوگو ! علم سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ ” تعلموا الفرائض “ فرائض سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھلاؤ ” فیقبض العلم “ کیونکہ علم قبض کرلیا جائے گا اور فتنے برپا ہوں گے جہالت برپا ہوگی حتی کہ دو آدمی ایک فریضہ میں جھگڑا کریں گے مگر ان کو بتلانے والا کوئی نہیں ہوگا آپ نے یہ بھی فرمایا ” انی امرء مقبوض “ میں تمہارے درمیان ہمیشہ نہیں رہوں گا ، بلکہ مجھے بھی اٹھالیا جائے گا ۔ تو قاضی صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ علم چھن جانے کی صورت یہ ہوگی کہ سب سے پہلے لوگوں میں سے علم اٹھا لیا جائے گا ان سے عمل کی توفیق ہی سلب ہو جائیگی جیسا کہ آج کل نظر آرہا ہے علم بہت ہے کتابوں کی لائبریریاں بھری ہوئی ہیں مگر عمل مفقود ہے آپ دیکھ لیں ہر سال سیرت طیبہ پر ہزاروں کتابیں شائع ہوتی ہیں ان پر انعامات بھی تقسیم ہوتے ہیں مگر کروڑوں کی آبادی میں ان کتابوں پر عمل کرنے والے دس آدمی بھی نہیں ملیں گے تو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت کے مطابق سب سے پہلے عمل کی توفیق سلب کرلی جائے گی ، اس کے بعد اچھے اچھے علما اٹھا لیے جائیں گے اور تیسرا مرحلہ قرب قیامت میں پیش آئے گا ، لوگ سو کر اٹھیں گے تو علم کی کوئی بات سینوں میں محفوظ نہیں ہوگی اور کتابوں کے حروف مٹ چکے ہونگے ۔ بہرحال پہلی چیز یہ ہے کہ علم کے مطابق عمل بھی ہو ، جب تک انسانوں کے پاس قرآن پاک موجود ہے ، اس کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس کو قدر کرنی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اگر ہم چاہیں تو وحی کے ذریعے نازل کردہ چیز قرآن کو چھین لیں اور پھر آپ کو ایسا کوئی وکیل بھی نہیں ملے گا ، جو اس نعمت کو واپس دلا سکے ہاں ، یہ تیرے رب کی مہربانی ہے کہ قرآن پاک تمہارے درمیان موجود ہے (آیت) ” ان فضلہ کان علیک کبیرا “۔ بیشک یہ اللہ تعالیٰ کا آپ پر بہت بڑا فضل ہے کہ اس نے یہ سب نعمتیں آپ کی عطا کی ہیں ۔ (صداقت قرآن) اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حقانیت وصداقت پرچیلنج کیا ہے اور اس کا ذکر قرآن میں تین مرتبہ آیا ہے ، پہلا چیلنج اس آیت میں ہے (آیت) ” قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القران لا یاتون بمثلہ “۔ اے پیغمبر ! ﷺ آپ کہہ دیں کہ اگر تمام انسان اور جنات اس بات پر اکھٹے ہوجائیں کہ وہ اس قرآن جیسا کوئی قرآن لے آئیں گے تو وہ نہیں لاسکیں گے اس جیسا (آیت) ” ولو کان بعضھم لبعض ظھیرا “۔ اگر چہ وہ ایک دوسرے کے مدد گار ہی کیوں نہ بن جائیں وہ سب مل کر پوری کوشش کر کے دیکھ لیں ، قرآن پاک کی مثل پیش نہیں کرسکیں گے ۔ یہ تو پورے قرآن کے متعلق چیلنج ہے اس کے بعد اللہ نے دوسرا چیلنج کیا (آیت) ” قل فاتوا بعشر سور مثلہ “۔ (ھود ۔ 13) آپ کہہ دیں کہ قرآن پاک کی سورتوں میں سے اس جیسی دس سورتیں ہی لے آؤ ، جب یہ چیلنج بھی کسی نے قبول نہ کیا تو اللہ نے تیسرا چیلنج کیا کہ اگر تمہیں ہماری نازل کردہ کتاب میں کوئی شک ہے (آیت) ” فاتوا بسورۃ من مثلہ “۔ (البقرہ ، 23) تو اس جیسی ایک سورة ہی بنا کرلے آؤ اگر تم سچے ہو ، تاریخ گواہ ہے کہ چودہ صدیوں سے یہ چیلنج کسی نے قبول نہیں کیا اور نہ ہی کوئی قرآن پاک کی کسی سورة کی مثال پیش کرسکا ہے یہی اس کی حقانیت اور صداقت کی دلیل ہے ۔ (قرآن کے علوم ومعارف) بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قرآن کی مثل لانے کا چیلنج اس کی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے ہے کہ ایسی فصاحت وبلاغت کسی دوسرے کلام میں نہیں پائی جاتی ، تاہم امام ابوبکر جصاص (رح) اور بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ قرآن کا یہ چیلنج نہ صرف فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے ہے بلکہ اس کے علوم ومعارف ، اس کی حکمتیں اور مصلحتیں ، اس کے نظام اور پروگرام ہر اعتبار سے یہ چیلنج قائم ہے ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ سارے انسان بلکہ ساری مخلوق مل کر بھی قرآن کی حکمتوں اور مصلحتوں کی مثال پیش نہیں کرسکتی آپ فرماتے ہیں کہ میں قرآن کی کسی آیت پر غور کرتا ہوں تو مجھے اس کے تحت علوم ومعارف کا وسیع سمندر نظر آتا ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ، یہ اللہ تعالیٰ کی صفت اور اس کا کلام ہے جس طرح اللہ کی ذات بےمثل ہے اسی طرح اس کی صفات بھی بےمثال ہیں ، انسان اللہ تعالیٰ کی صفت قرآن پر کبھی حاوی نہیں ہو سکتا ، بلکہ اس میں جتنا غور وفکر کرے گا ، اس کے علم میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ، اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ دعا سکھلائی ہے (آیت) ” قل رب زدنی علما “۔ (طہ ، 114) اے پروردگار ، میرے علم میں اضافہ فرما ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کا پیش کردہ لائحہ عمل بےمثال ہے دنیا میں جتنے بھی انسانی ہاتھوں سے قوانین ودساتیر بنتے ہیں وہ کچھ عرصہ بعد فیل ہوجاتے ہیں اور انہیں یا تو منسوخ کرنا پڑتا ہے ، یا پھر ان میں ترمیم کی ضرورت پیش آتی ہے ، وقت کے ساتھ ساتھ ایسے قوانین کی خامیاں منظر عام پر آتی رہتی ہیں جن کی بناء پر ان کی تبدیلی لازمی ہوجاتی ہیں ، اس کے برخلاف ہر عیب اور نقص سے پاک اگر کوئی قانون ہے تو وہ صرف اللہ کی کتاب قرآن پاک کے اوراق میں محفوظ ہے ، یہ ایسا پروگرام ہے جس میں قیامت تک کسی تغیر وتبدل کی ضرورت پیش نہیں آئے گی لہذا ہمارا فرض ہے کہ اس کتاب کی قدر دانی کریں ، اس کے احکام کو سمجھیں اور پھر ان پر عمل پیرا ہوجائیں ، ہماری فلاح و کامیابی کا راز اسی بات میں ہے ۔ ّ (قرآن پاک کی مثالیں) فرمایا (آیت) ” ولقد صرفنا للناس فی ھذا لقران من کل مثل “۔ اور البتہ تحقیق ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں پھیر پھیر کر مثالیں بیان کی ہیں حکمت اور عقل کی گہری باتوں کو سمجھانے کے لیے مثالوں کی ضرورت ہوتی ہے اور قرآن پاک نے اپنے علوم ومعارف کے ابلاغ کے لیے یہی طریق کا ر اختیار کیا ہے ، قرآن پاک کی ایک ایک مثال میں سینکڑوں علوم پنہاں ہوتے ہیں ، اسی لیے تو اللہ نے فرمایا ہے (آیت) ” وتلک الامثال نصربھا للناس ، وما یعقلھا الا العلمون “۔ (العنکبوت ، 43) یہ مثالیں ہم بیان کرتے ہیں مگر ان کو اہل علم ہی سمجھ سکتے ہیں ، اللہ نے توحید کی بات مثال کے ذریعے سمجھائی ہے اسی طرح کفر اور شرک کی برائی کو بھی مختلف طریقوں سے سمجھایا ہے قیامت کا وقوع ، محاسبے کا عمل اور حکمت کی باریک باتیں اللہ نے مثالوں کے ذریعے واضح کی ہیں ۔ فرمایا اس کے باوجود (آیت) ” فابی اکثر الناس الا کفورا “۔ پس انکار کیا ہے اکثر لوگوں نے مگر ناشکری ، چاہئے تو یہ تھا کہ لوگ اس اعلی وارفع پروگرام کو فورا قبول کرلیتے مگر ہر دور میں اکثریت ناشکر گزاروں کی ہی رہی ہے آج بھی پوری دنیا میں دیکھ لیں کہ کل آبادی کی کتنی اکثریت کفر اور شرک میں مبتلا ہے اور کتنی برائیوں میں ڈوبی ہوئی ہے ، اور پھر یہ بھی دیکھ لیں کہ نیکی کے راستے پرچلنے والے کتنے لوگ ہیں ، آپ تجزیہ کرکے دیکھ لیں نیکوں کاروں کی تعداد بہت قلیل نظر آئے گی اکثر لوگ قرآن پاک کی حقیقت سے مستفید نہیں ہوتے ۔
Top