Mualim-ul-Irfan - Al-Hijr : 45
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍؕ
اِنَّ : بیشک الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار فِيْ : میں جَنّٰتٍ : باغات وَّعُيُوْنٍ : اور چشمے
بیشک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے ۔
(ربط آیات) پہلے اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کی نعمت کا ذکر کیا اور اس سلسلے میں شیطان کے اغواء اور اس کی طرف سے اللہ کے حکم کی سرتابی کا ذکر کیا اس کے نتیجے میں اللہ نے اسے مردود ٹھہرایا ، پھر اس نے مہلت طلب کی تو اللہ نے قیامت تک کے لیے مہلت بھی دے دی شیطان نے قسم اٹھا کر کہا کہ وہ اللہ کے بندوں کو گمراہ کرتا رہے گا ، البتہ مخلص بندوں پر اس کا وار کارگر نہیں ہوسکے گا ، اللہ نے فرمایا یہ اخلاص ہی میرا سیدھا راستہ ہے ، میرے بندوں پر تیرا غلبہ نہیں ہوگا ، البتہ گمراہ لوگ تیری پیروی کرکے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیں گے جو ان کے وعدے کی جگہ ہے ، پھر فرمایا جہنم کے ساتھ دروازے ہیں اور ہر دروازے سے نافرمانوں کا منقسمہ حصہ داخل ہوگا ۔ (متقین کے لیے بہشت) اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے متقین کے لیے بہشت اور وہاں ملنے والے انعامات کا ذکر کیا ہے ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ان المتقین فی جنت وعیون “۔ بیشک متقی لوگ باغات اور چشموں میں ہوں گے ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ متقی وہ لوگ ہیں جو کفر ، شرک ، کبائر فواحش سے بچتے ہیں اور پھر بتدریج مشتبہ اور مشکوک چیزوں اور گناہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی اجتناب کرتے ہیں ، ایسے لوگ کمال درجے کے متقی ہوتے ہیں تو تقوی کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان بدعقیدگی ، کبائر ، کفر ، شرک اور نفاق سے بچ جائے سورة توبہ میں اللہ نے ایمان والوں کی سات صفات بیان کی ہیں جن میں ساتویں صفت ہے (آیت) ” والحفظون لحدود اللہ “ یعنی وہ اللہ کی قائم کردہ حدود کی حفاظت کرتے ہیں اور یہی تقوی ہے ، امام شاہ ولی اللہ (رح) اپنی کتاب ” الطاف القدس “ میں لکھتے ہیں ۔ (1) (الطاف القدس مترجم ص 93) ” تقوی محافظت برحدود شرع است “ یعنی شریعت کی قائم کردہ حدود کی حفاظت کرنے اور ان پر قائم رہنے کا نام تقوی ہے ، تو فرمایا متقی لوگ باغات اور چشموں میں ہوں گے جب وہ وہاں پہنچیں گے تو حکم ہوگا (آیت) ” ادخلوھا بسلم امنین “۔ داخل ہوجاؤ اس بہشت میں سلامتی اور پورے اطمینان کے ساتھ ، یہاں تمہیں ہر قسم کی سلامتی حاصل ہوگی ، دکھ اور تکلیف سے پاک ہو گے ، اور کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوگی ۔ (کدورت سے پاک) اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کے متعلق ایک اور بات بھی بیان فرمائی ہے (آیت) ” ونزعنا ما فی صدورھم من غل “۔ ہم نکال دیں گے جو کچھ ان کے سینوں میں کھوٹ ، کینہ یا وعداوت وغیرہ ہوگی ، کوئی شخص دل میں اس قسم کی بات لے کر جنت میں داخل نہیں ہوگا ، اس مقام میں کدورت کو کوئی دخل نہیں ہوگا ، وہاں ہر ایک کا سینہ صاف ہوگا اور تمام جنتی ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور خوش اخلاقی سے پیش آئیں گے اگر دنیا میں کسی کو کسی دوسرے جنتی کے خلاف شکر رنجی بھی تھی تو وہاں پہنچ کر صفائی ہوچکی ہوگی ، بعض روایات میں آتا ہے کہ پلصراط سے گزر جانے کے بعد لوگوں کو پھر روک دیا جائے گا ، اور کہا جائے گا کہ اگر کسی جنتی نے کسی سے کوئی بدلہ لینا ہے تو ابھی لے لے کیونکہ جنت میں داخلے سے پہلے ہر قسم کا بغض ، عداوت اور دشمنی کو سینوں سے نکال لیا جائے گا ، پھر جنت میں نہ صرف یہ کہ کدورت کو نکال دیا جائے گا بلکہ تمام جنتی ” اخوانا “ ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں کا سا سلوک کریں گے ، اور ان کی حالت یہ ہوگی (آیت) ” علی سرر متقبلین “۔ تختوں پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے ، رحمت کے اس مقام میں نفرت کی بجائے محبت اور دشمنی کی بجائے دوستی ہوگی ، وہاں پر کوئی لغو اور بیہودہ بات نہیں ہوگی اس کے علاوہ (آیت) ” لا یمسھم فیھا نصب “۔ وہاں پر انہیں کوئی تھکاوٹ یا تکلیف نہیں پہنچے گی (آیت) ” وما ھم منھا بمخرجین “۔ اور وہ وہاں سے نکالے بھی نہیں جائیں گے ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جنتیوں سے فرمائیگا کہ یہاں پر تمہیں کوئی بیماری لاحق نہیں ہوگی بلکہ ہمیشہ تندرست اور جوان رہو گے ، دنیا میں ملنے والی ہر نعمت اور آسائش کے متعلق کھٹکا رہتا ہے کہ یہ چھن نہ جائے یا انسان خود اس سے مستفید ہونے کے قابل نہ رہے ، مگر جنت میں جا کر ایسا کوئی خدشہ نہ ہوگا ، وہاں پر نہ تو کوئی نعمت چھن جانے کا خوف ہوگا اور نہ کسی جنتی کے نکالنے جانے کا خطرہ ، بہرحال اللہ تعالیٰ نے جنتیوں کے انعامات کا ذکر کرکے ترہیب کے بعد ترغیب کا ذکر بھی کردیا ، گذشتہ درس میں منکرین کے لیے عذاب کی بات تھی اور اب اللہ کی رحمت کا ذکر بھی ہوگیا ۔ (خوف اور امید) مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ مکی زندگی کے دوران ایک موقع پر حضور ﷺ بیت اللہ شریف کے طرف آرہے تھے کہ جب باب ابی شیبہ کے قریب پہنچے تو وہاں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی ایک جماعت موجود تھی جو کسی بات پر ہنس رہے تھے ، حضور ﷺ نے فرمایا کیا بات ہے کہ میں تمہیں ہنستے ہوئے دیکھ رہا ہوں ، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آگے جہنم بھی ہے حضور ﷺ کی زبان سے یہ بات سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین سخت پریشان ہوگئے پھر جب آپ حطیم میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی (آیت) ” نبی عبادی انی انا الغفور الرحیم “۔ میرے بندوں کو بتلا دو کہ میں بہت بخشش کرنے والا اور مہربان ہوں ، اور ساتھ ساتھ یہ بھی فرما دیں (آیت) ” وان عذابی ھو العذاب الالیم “۔ کہ بیشک میرا عذاب بھی بڑا دردناک عذاب ہے مطلب یہ ہے کہ نہ تو اللہ کی بخشش اور رحمت سے بالکل مایوس ہی ہوجائیں کیونکہ وہ غفور اور رحیم ہے اور نہ ہی بالکل بےفکر ہوجائیں کیونکہ اس کا عذاب بھی بڑا شدید ہے ، مطلب یہ ہے کہ انسان کا ایمان خوف اور امید کے درمیان ہونا چاہئے اسے اللہ کی رحمت کی امید بھی ہو اور اس کی سزا کا خوب بھی ۔ (ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے خوشخبری) اب اللہ تعالیٰ نے اپنی دو شانوں یعنی رحمت اور غضب کو سمجھانے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کا ذکر کیا ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ونبئھم عن ضیف ابرھیم “۔ میرے بندوں کو ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کے متعلق بتلا دیں (آیت) ” اذ دخلوا علیہ فقالو اسلما “۔ جب وہ مہمان ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے تو انہوں نے سلام کیا ، ۔۔۔۔۔۔ اس مقام پر ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف سے سلام کے جواب کا ذکر نہیں ہے ، البتہ سورة الذریت میں ہے (آیت) ” اذ دخلوا علیہ فقالوا سلما قال سلم “۔ یعنی جب فرشتے ابراہیم (علیہ السلام) کے ۔۔۔۔۔ پاس آئے تو انہوں نے سلام کیا ، تو اس کے جواب میں ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی سلام کہا ، آگے یہ بھی آتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) مہمانوں کی خاطر مدارت کے لیے فورا چلے گئے (آیت) ” فجآء بعجل سمین “۔ اور بچھڑا کا تلا ہوا گوشت لے آئے پھر جب دیکھا کہ مہمانوں کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے ہیں ، (آیت) ” قال انا منکم وجلون “۔ تو کہنے لگے میں تم سے خطرہ محسوس کر رہا ہوں ، اس زمانہ میں یہ دستور تھا کہ جس شخص کو نقصان پہنچانا مطلوب ہوتا تھا ، دشمن چور یا ڈاکو اس کا کھانا نہیں کھاتے تھے اسی بنا پر ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی خوف محسوس ہوا تو (آیت) ” قالوا لا تو جل “۔ مہمان کہنے لگے ، خوف نہ کھاؤ (آیت) ” انا نبشرک بغلم علیم “۔ ہم تمہیں علم والے بچے کی خوشخبری دیتے ہیں ، یہ خوشخبری حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے متعلق تھی جو حضرت سارہ کے بطن سے پیدا ہوئے ، اس سے پہلے حضرت ہاجرہ کے بطن سے اسماعیل (علیہ السلام) کی پیدائش کے متعلق سورة الصفت میں ہے (آیت) ” فبشرنہ بغلم حلیم “۔ ہم نے آپ کو بردبار بیٹے کی خوشخبری دی ، آپ کے حلم کا واقعہ تو تاریخ میں موجود ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنے آپ کو قربانی کے لیے پیش کردیا ، بہرحال حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) دونون ہی اللہ کے جلیل القدر نبی تھے بہرحال مہمانوں نے اپنا تعارف خود کرا دیا کہ ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ، وہ اللہ کے فرشتے ہیں اور آپ کو خوشخبری دینے کے لئے آئے ہیں ، مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ان فرشتوں کی تعداد دس تھی جن میں جبرائیل اور میکائیل (علیہما السلام) بھی شامل تھے ۔ (ابراہیم کی حیرانگی) فرشتوں کی زبان سے خوشخبری کی بات سن کر ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا (آیت) ” قال ابشرتمونی علی ان مسنی الکبر “۔ کیا تم مجھے ایسے وقت میں خوشخبری دے رہے ہو ، جب کہ مجھ پر بڑھاپا طاری ہوچکا ہے (آیت) ” فبم تبشرون “۔ تم مجھے کیسی خوشخبری سناتے ہو ، مترجم مفسر قرآن شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ عالم اسباب میں انبیاء بھی اسباب کی بات ہی کرتے ہیں ، آپ کی عمر مبارک سو سال ہوچکی تھی اور بیوی بھی بانجھ تھی تو ان حالات میں بیٹے کی خوشخبری پر ان کی حیرانگی فطری امر تھا تاہم فرشتوں نے کہا (آیت) ” قالو بشرنک بالحق “۔ ہم آپ کو بالکل ٹھیک ٹھیک خوشخبری دے رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا حکم یہی ہے (آیت) ” فلا تکن من القنطین “۔ لہذا آپ ناامیدوں میں سے نہ ہوں ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کے جواب میں ” قال “ فرمایا مایوسی کی کوئی بات نہیں کیونکہ (آیت) ” ومن یقنط من رحمۃ ربہ الا الضالون “ اپنے پروردگار کی رحمت سے ناامید تو گمراہ لوگ ہوتے ہیں ، اللہ کے نبی کبھی مایوس نہیں ہوتے ، مگر ظاہری اسباب کی بنا پر حیرانگی ہوئی ہے کہ اس عمر میں یہ کیسے ممکن ہوگا ۔ عالم اسباب میں رہ کر اسباب پر نگاہ تمام انبیاء (علیہ السلام) کا شیوہ رہا ہے ، جنگ احد کے موقع پر حضور ﷺ اوپر نیچے دو زرہیں پہن کر تشریف لائے جس سے امت کی تعلیم مقصود تھی کہ عالم اسباب میں اسباب ہی اختیار کرنے کا حکم ہے ، اگرچہ فتح وشکست تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے ، ان اسباب کو اختیار کرنے کے باوجود حضور ﷺ کو بڑی تکلیف پہنچی آپ گڑھے میں گر گئے ، سرمبارک اور دانت زخمی ہوگئے ، سورة یوسف میں موجود ہے کہ اللہ نے یعقوب (علیہ السلام) کی زبان سے بھی یہی کہلوایا تھا (آیت) ” انہ لا یایئس من روح اللہ الا القوم الکفرون “۔ اللہ کی رحمت سے تو کافر لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں ، اور بےفکر ہوجانا بھی کفر کی بات ہے ، اصل ایمان بین الخوف والرجاء یعنی خوف اور امید کے درمیان ہے ، اپنے انبیاء کے متعلق بھی اللہ نے یہی فرمایا ہے (آیت) ” یدعوننا خوفا وطمعا “۔ وہ ہمیں خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں ، ۔ (قوم لوط پر عذاب) ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ تو پتہ چل گیا کہ ان کے مہمان اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اور انہوں نے آپ کو اہل علم بیٹے کی خوشخبری بھی دی مگر پھر بھی ان کی آمد کے متعلق آپ مطمئن نہیں تھے آپ کا قلب صافی گواہی دے رہا تھا کہ ان فرشتوں کے آنے کا کوئی اور مقصد بھی ہے ، چناچہ (آیت) ” قال فما خطبکم ایھا المرسلون “۔ کہا اے بھیجے ہوئے لوگو ! تمہارے آنے کا اصل مقصد کیا ہے خطب کا لغوی معنی کام یا حالت ہوتا ہے اور مراد یہ تھی تم کس کام کے لیے آئے ہو ، (آیت) ” قالوا انا ارسلنا الی قوم مجرمین “۔ کہنے لگے ہمیں مجرم قوم کی طرح بھیجا گیا ہے ، تاکہ ان کو ان کے برے عمل کی سزا دی جاسکے اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کی تباہی کا حال تو ذکر نہیں کیا ، البتہ کنایہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کے فرشتے اس بدبخت قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے آئے تھے ، یہاں پر لوط (علیہ السلام) کے گھر والوں کا ذکر ہے کہ آپ کی بیوی کے سوا باقیوں کو عذاب الہی سے بچا لیا جائے گا ، فرمایا ہم مجرم کو سز دینے کے لیے آئے ہیں (آیت) ” الا ال لوط “۔ سوائے لوط (علیہ السلام) کے گھر والوں کے (آیت) ” انا لمنجوھم اجمعین “۔ تحقیق ہم بچانے والے ہیں ان سب کو (آیت) ” الا امراتہ “ سوائے ان کی بیوی کے (آیت) ” قدرنا “ ہم نے اندازہ کرلیا ہے ، ٹھہرا لیا ہے یا ہم جانتے ہیں (آیت) ” انھا لمن الغبرین “۔ کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں ہوگی وہ مجرم قوم کے ساتھ ہی بستی میں رہ جائے گی اور عذاب کا شکار ہوگی جب کہ باقی اہل خانہ آپ کے ساتھ بستی سے نکل جائیں گے اور عذاب الہی سے بچ جائیں گے ، سورة ہود میں تفصیلات موجود ہیں کہ ہم نے لوط (علیہ السلام) سے فرمایا کہ اپنے گھر والوں کو لے کر رات کو بستی سے نکل جائیں اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں ، چناچہ اہل خانہ میں سے آپ کی بیوی ہی نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر اس کا حشر بھی نافرمان قوم کے ساتھ ہی ہوا اللہ نے فرمایا ہم نے ان کی پوری بستی کو الٹ دیا اور اوپر سے پتھروں کی بارش بھی کی جس سے وہ تباہ وبرباد ہوگئے ، یہی مضمون اگلے رکوع میں بھی آ رہا ہے ، سورة تحریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے کافروں کی مثال بیان فرماتے ہوئے نوح (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) کی بیوی کا ذکر کیا ہے کہ وہ دونوں دو صالح بندوں کے گھروں میں تھیں مگر انہوں نے خیانت اور نافرمانی کی تو باقی قوم کے ساتھ ہی جہنم واصل ہوئیں ، اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنی دونوں شانوں یعنی رحمت اور غضب کا اظہار فرمایا ہے ، اللہ نے اپنی رحمت سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو وہ اولاد نصیب فرمائی جس کا عظیم سلسلہ آگے چلا ، یہ اس کی مہربانی کی شان تھی اور ادھر ایک مجرم قوم کو صفحہ ہستی سے ناپید کردیا اور یہ اس کی غضب کی شان ہے ۔
Top