Mualim-ul-Irfan - Al-Hijr : 16
وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ زَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَۙ
وَلَقَدْ جَعَلْنَا : اور یقیناً ہم نے بنائے فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّزَيَّنّٰهَا : اور اسے زینت دی لِلنّٰظِرِيْنَ : دیکھنے والوں کے لیے
اور البتہ تحقیق بنائے ہم نے آسمان میں برج اور مزین کیا ہم نے ان کو دیکھنے والوں کے لیے ۔
(ربط آیات) کافر اور مشرک قرآن حکیم کی حقانیت پر شبہ کرتے تھے اور صاحب قرآن کو کہتے تھے کہ تو دیوانہ ہے ، اور اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو ہمارے سامنے فرشتوں کو نازل کر تاکہ وہ تیری اور قرآن پاک کی صداقت کی گواہی اللہ نے مشرکین کے اس اعتراض کے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو حق کے ساتھ اتارتا ہے اور جب اتارتا ہے تو پھر نافرمانوں کو مہلت نہیں ملتی بلکہ ان کا کام تمام کردیا جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کے حق میں گواہی دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کو ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں لہذا حفاظت کے سامان ہم خود پیدا کریں گے ، اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے نشانیاں طلب کرنے کے جواب میں فرمایا ہے کہ تمہارے اردگرد قدرت کی بیشمار نشانیاں بکھری پڑی ہیں ، اگر نیت صاف ہو تو ایمان لانے کے لیے یہی کافی ہیں ، اور اگر ضد اور عناد پر ہی قائم رہنا ہے تو پھر کوئی بھی نشانی کارگر نہیں ہوسکتی ،۔ (آسمانی برج) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ولقد جعلنا فی السمآء بروجا “۔ البتہ تحقیق ہم نے آسمانوں میں برج بنائے ہیں ، پرانی ریاضی اور ماہرین فلکیات بارہ برجوں کا تصور پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چاند اور سورج ہر ماہ جدا جدا برج میں ہوتے ہیں ، ہر برج یامحل کی تاثیر مختلف ہوتی ہے جس سے موسموں کا تغیر وتبدل واقع ہوتا ہے ، بارہ برجوں کا تصور یونانیوں سے آیا ہے انہوں نے یہ تصور ایرانیوں سے اور ایرانیوں نے بائلیوں یعنی آشوریوں سے اخذ کیا تھا تاہم بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ برجوں سے مراد مطلق ستارے یا بڑے بڑے سیارے ہیں ، جہاں سے فرشتے اللہ کے حکم سے نیچے اترتے ہیں ، وہاں پر دروازے بنے ہوئے ہیں جہاں سے فرشتے آتے جاتے ہیں ، اور پھر برجوں ، سیاروں یا ستاروں کو اللہ نے اس طریقے سے تریب دیا ہے (آیت) ” وزینھا للنظرین “۔ کہ دیکھنے والوں کے لیے بڑے پررونق معلوم ہوتے ہیں ، دن کے وقت تو سورج کی حکومت ہوتی ہے اور رات کو چاند روشن ہوتا ہے اور جب چاند بھی موجود نہ ہو تو اس وقت ستارے خوب روشن ہوتے ہیں جن کا منظر بڑا خوش کن ہوتا ہے ، اسی لیے فرمایا کہ ہم نے ستاروں کو دیکھنے والوں کے لیے مزین کردیا ہے ، اندھیری راتوں میں ستاروں کا نظارہ بڑا خوبصورت ہوتا ہے ۔ (شیاطین کے لیے شہاب) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وحفظنھا من کل شیطن رجیم “۔ اور ہم نے آسمانوں کی حفاظت کی شیطان مردود سے ان کو اوپر جانے سے روک دیا گیا ہے (آیت) ” الا من استرق السمع “۔ مگر وہ جو چوری چھپے سن کر بھاگنا چاہتا ہے ، (آیت) ” فاتبعہ شھاب مبین “۔ پھر اس کے پیچھے روشن انگارا آتا ہے ، اسے شہاب ثاقب کہتے ہیں جو کسی ستارے سے ٹوٹ کر شیطان کا پیچھا کرتا ہے ، سائندانوں کی تحقیق کے مطابق اوپر اٹھنے والے بخارات میں حرارت ہوتی ہے ، پھر جب ان میں آگ لگتی ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ٹوٹا ہوا ستارہ ہو اس نظریے کی نفی نہیں کی جاسکتی کیونکہ قرآن پاک نے اس قسم کے امکان کی نفی نہیں کی اور یہ بھی ممکن ہے کہ جس طرح سورج میں ایک بہت بڑا لاوہ ہے جو جلتا رہتا ہے ، روشنی اور حرارت دیتا ہے ، اس طرح ستاروں کے اندر کوئی ایسا مادہ ہو جو پھٹ جاتا ہو اور وہ ٹوٹا ہوا ستارہ نظر آتا ہو ، بہرحال قدیم زمانے سے یہی کچھ مشاہدے میں آرہا ہے اس ضمن میں حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ جنات کی تخلیق سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے تک شیاطین کے لیے آسمان پر جانے میں کوئی خاص رکاوٹ نہیں تھی ، لہذا وہ اوپر جا کر فرشتوں کی کچھ کچھ باتیں سن لیتے ، پھر وہ اسے واپس آکر اپنے چیلوں کاہنوں وغیرہ کے کانوں میں پھونکتے جو اس میں سو جھوٹ ملا کر آگے چلا دیتے ، پھر جب حضور ﷺ کا زمانہ آیا اور قرآن کا نزول شروع ہوا تو شیاطین کے اوپر جانے میں رکاوٹ پیدا ہوگئی ، اب اگر یہ اوپر جانے کی کوشش کرتے ہیں تو اللہ کے فرشتے ان پر شہاب پھینکتے ہیں ، پھر ان شیاطین میں سے کچھ زخمی ہوجاتے ہیں اور بعض ہلا ک ہوتے ہیں ، سورة جن میں ہے کہ جنات نے کہا کہ ہم اوپر جاتے ہیں ، (آیت) ” ملئت حرسا شدیدا وشھبا “۔ تو سخت پہرے لگ جاتے ہیں اور آگے سے شہاب پڑتے ہیں ، بعض جدید ماہرین فلکیات کہتے ہیں کہ اوپر فضا میں کائناتی شعائیں (COSMIC RAYS کا سمک ریز ) ہیں جو ہر اوپر والی چیز کو جلا ڈالتی ہیں اسی لیے فضا میں بھیجی جانے والی خلائی گاڑیوں کی حفاظت کا خصوصی انتظام کرنا پڑتا ہے ، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے شیاطین کو بھگانے کے لیے شہاب مقرر کر رکھے ہیں ، بہرحال یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا یقین آجاتا ہے ، انصاف پسند آدمی ایسے دلائل سے بہت کچھ سمجھ سکتے ہیں ۔ (زمین کے فوائد) یہ تو عالم علوی کا حال تھا ، آگے اللہ نے عالم سفلی کا حال بھی بیان کیا ہے (آیت) ” والارض مددنھا “۔ اور ہم نے زمین کو پھیلا دیا ہے ، اگرچہ زمین بظاہر چپٹی نظر آتی ہے ، مگر حقیقت میں بالکل گیند کی طرح گول ایک بہت بڑا کرہ ہے ، چونکہ اس کا حجم بہت بڑا ہے اس لیے ہر حصے سے پھیلی ہوئی نظر آتی ہے اور اس کی گولائی محسوس نہیں ہوتی ، فرمایا ہم نے زمین کو پھیلا دیا ہے (آیت) ” والقینا فیھا رواسی “۔ اور اس میں بوجھل پہاڑ رکھ دیے ہیں راسیہ جمے ہوئے پہاڑ کو کہتے ہیں ان پہاڑوں کو بھی اللہ نے بےسود نہیں پیدا کیا بلکہ ان کے ساتھ بھی انسانی زندگی کے بہت سے مفادات وابستہ ہیں ، اگر پہاڑ نہ ہوں تو انسان ان سے پیدا ہونے والے ، پھلوں ، جڑی بوٹیوں اور مع دنیات سے محروم ہوجائیں ، تو پہاڑ بھی اللہ نے انسان کی خدمت کے لیے پیدا فرمائے ہیں ۔ فرمایا (آیت) ” وانبتنا فیھا من کل شیء موزون “۔ اور ہم نے اس زمین میں ہر چیز ایک اندازے کے مطابق اگائی ہے ، انسان کمال قدرت کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نباتات کی ہر قسم کو موزوں پیدا فرمایا ہے ، اناج کا دانہ ہو یا ٹہنیاں اور پتے ، چھوٹی سی بیل ہو یا تناور درخت ، ہر چیز میں موزنیت پائی جاتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے ہر اگنے والی چیز میں مختلف قسم کے رنگ ، خوشبو اور تاثیر رکھی ہے جو انسان کی بیشمار ضرورتیں پوری کرتے ہیں ، ان کو دیکھ کر دل ونگاہ خوش ہوجاتے ہیں ، ذرا غور فرمائین کہ جس قسم کا بیج بوئیں گے ، ہزار دفعہ بھی اگائیں تو اسی قسم کا پودا ، درخت اور پھل پیدا ہوں گے اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ، وہی رنگ وہی ذائقہ اور وہی شکل و صورت ہوگی ، مگر حیرت کا مقام ہے کہ اتنے بڑے بڑے نشانات قدرت دیکھ کر بھی لوگ کفر وشرک کو چھوڑ کر اللہ کی وحدانیت کے قائل نہیں ہوتے ، یہ ان کی ناشکر گزاری کی علامت ہے ۔ (معیشت کے سامان) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وجعلنا لکم فیھا معایش “ اور ہم نے تمہارے لیے زمین میں معیشت کے سامان پیدا کیے ہیں ہم نے تمہاری زندگی کے لیے اسباب فراہم کیے ہیں ان اسباب کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ انسان انہیں شمار بھی نہیں کرسکتے ، فرمایا ہم نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور تمہاری روزی کا سامان بھی مہیا کیا ہے ، اور ان کو بھی پیدا کیا ہے (آیت) ” ومن لستم لہ برزقین “۔ جن کی روزی کے ذمہ دار تم نہیں ہو ، اللہ نے تمہاری خدمت کے لیے کتنے غلام اور نوکر چاکر پیدا کیے مگر ان کا روزی رساں بھی میں ہوں تم نہیں ہو ، پھر اللہ ن کتنے چوپائے ، پرندے ، درندے ، مچھلیاں ، کیڑے مکوڑے اور لادتعداد مخلوق پیدا کی ہے اور ان کے لیے معیشت کے سامان بھی خود ہی پیدا کیے ہیں ، اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اللہ نے کسی دوسری مخلوق کی روزی تمہارے ذمے نہیں لگائی ، بلکہ ہر جاندار کا روزی رساں وہ خود ہے ، تو فرمایا یہ باتیں اہل خرد کے لیے بڑے بڑے دلائل ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لے آنا چاہئے ، نہ کہ من مانی نشانیاں طلب کی جائیں اللہ نے تو پہلے ہی بیشمار نشانیاں پھیلا رکھی ہیں جنہیں تم ہر وقت دیکھتے ہو ، مگر ان میں غور وفکر نہیں کرتے ۔ (قدرت کے خزانے) آگے فرمایا (آیت) ” وان من شیء الا عندنا خزآئنہ “۔ اور ایسی کوئی چیز نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں ، اناج کی کوئی قسم لے لیں ، پھولوں اور پھلوں پر نگاہ ڈال لیں ، پانی ، ہوا ، جمادات ، نباتات ، اور مع دنیات کو دیکھ لیں ، ہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم ہی انہیں تقسیم کر رہے ہیں ، انسانی دل و دماغ شکل و صورت ، حسن ، علم اور صحت ہر چیز اللہ تعالیٰ نے اپنے خزانوں سے عطا کر رکھی ہے اور اس کے خزانے اتنے وسیع ہیں کہ ان میں کوئی کمی نہیں آسکتی فرمایا (آیت) ” وما ننزلہ الا بقدر معلوم “۔ ہم یہ تمام نعمتیں ایک معین اندازے کے مطابق نازل فرماتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کی حکمت کو دوسری کوئی مخلوق نہیں سمجھ سکتی ، وہ اپنی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ کے مطابق جہاں جس چیز کی جتنی ضرورت ہوتی ہے اتنی مہیا فرما دیتا ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کسی کی شکل و صورت کیسی بنانی ہے ، کسی کو حسن و جمال اور علم وصحت کتنی دینی ہے ، یہ سب چیزیں اس کے علم وقدرت میں ہیں ، اور وہ اسی کے مطابق انہیں نازل فرماتا ہے ۔
Top