Mazhar-ul-Quran - Al-Hijr : 21
وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآئِنُهٗ١٘ وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ شَيْءٍ : کوئی چیز اِلَّا : مگر عِنْدَنَا : ہمارے پاس خَزَآئِنُهٗ : اس کے خزانے وَمَا : اور نہیں نُنَزِّلُهٗٓ : ہم اس کو اتارتے اِلَّا : مگر بِقَدَرٍ : اندازہ سے مَّعْلُوْمٍ : معلوم۔ مناسب
اور ایسی کوئی چیز نہیں کہ جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں اور ہم اسے نہیں اتارتے مگر ایک اندازہ معین سے
پانی کے خزانے اللہ کے پاس ہے، بارش کی ہر بوند کے ساتھ ایک فرشتہ ہے ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ جتنی چیزیں دنیا میں ہیں ان سب کا خزانہ اللہ کے پاس ہے۔ جب جتنی ضرورت ہوتی ہے اس میں سے ضرورت کے موافق دنیا میں اتاری جاتی ہیں۔ خزائن کے معنی : بارش کا خزانہ ہے اور بقدر معلوم کی تفسیر میں ہے کہ ایک جگہ کم بارش ہوگئی ہے اور دوسری جگہ زیادہ، ایک جگہ بالکل بارش نہیں ہوتی اور دوسری جگہ خوب ہوتی ہے۔ اور بارش کے ایک ایک قطرے کے ساتھ فرشتے مقرر ہوتے ہیں جو اس قطرے کو وہیں گرنے دیتے ہیں جہاں حکم ہوتا ہے۔ اور یہ بات یاد رکھتے ہیں کہ اس قطرے سے کیا کیا پیداوار ہوئی۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ ہوا کو حکم دیتا ہے وہ چلنے لگتی ہے، جو بادلوں کو ادھر سے ادھر لے جاتی ہے اور جس طرح دودھ والے جانوروں کا دودھ دوہا جاتا ہے، اسی طرح بادلوں میں سے مین برسنے لگتا ہے جس سے ندی نالے تالاب بھر جاتے ہیں۔ یہ اسی کی ادنیٰ قدرت اور بندوں پر مہربانی ہے۔ اگر وہ چاہے تو فورا خشک ہوجائے۔ پھر فرمایا سب انتظام دنیا کے قائم تک ہے۔ آخر جس نے دنیا کو پیدا کیا ہے، اسی کے حکم سے ساری دنیا فنا ہوجاوے گی اور دنیا کی چیزوں پر سے لوگوں کا عارضی قبضہ اٹھ کر سب چیزیں اللہ کے قبضہ مٰیں چلی جاویں گی۔ اور ان چیزوں کے برتنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑے ہو کر یہ حساب دینا پڑے گا کہ ان چیزوں کو ان لوگوں نے کیونکر برتا۔
Top