Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 204
وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قُرِئَ : پڑھا جائے الْقُرْاٰنُ : قرآن فَاسْتَمِعُوْا : تو سنو لَهٗ : اس کے لیے وَاَنْصِتُوْا : اور چپ رہو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
واذا قری القرآن فاستعموا لہ وانصنتو لعلکم ترحمون۔ . اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو اس امید پر کہ تم پر رحمت ہوگی۔ ابو عیاض کے طریق سے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ لوگ نماز میں باتیں کرلیتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ رواہ ابن جریر وا ابن المنذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ وابن مردویہ وابن ابی شیبۃ فی المنصف والبیہقی فی السنن۔ حضرت ابوہریرہ کی دوسری آیت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے آواز اونچی کرنے کے متعلق اس آیت کا نزول ہوا۔ حضرت ابن مسعود ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں مشغول تھے۔ میں نے جا کر سلام کیا آپ نے جواب نہ دیا اس سے پہلے لوگ نماز میں کلام کرلیا کرتے تھے اور اپنے کام کے لئے کہہ دیا کرتے تھے نماز سے فارغ ہو کر حضور ﷺ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور آیت (واذا قرئ القرآن فاستعموا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون) نازل ہوئی۔ رواہ ابن ابی حاتم و ابن مردویہ۔ حضرت عبداللہ بن مغفل کی روایت ہے کہ لوگ نماز میں کلام کرلیا کرتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ‘ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے نماز میں بولنے کی ممانعت فرما دی۔ اخرجہ ابن مردویہ والبیہقی فی السنن۔ قتادہ کی روایت ہے کہ شروع میں جب لوگوں کو نماز کا حکم دیا گیا تو وہ نماز میں بات کرلیا کرتے تھے آدمی آتا لوگ نماز میں مشغول ہوتے تو آنے والا پوچھ لیتا کہ تم کتنی نماز پڑھ چکے پڑھنے والے بتا دیتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور کان لگا کر سننے اور خاموش رہنے کا حکم دے دیا گیا۔ اخرجہ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابوالشیخ وابن جریر والبیہقی۔ ضحاک کا بیان ہے کہ لوگ نماز میں بولا کرتے تھے اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی اخرجہ عبد بن حمید۔ ان تمام روایات سے ثابت ہو رہا ہے کہ نماز میں بات کرنے کی ممانعت کے متعلق اس آیت کا نزول ہوا۔ امام اعظم (رح) : کا قول ہے اور ایک روایت میں امام احمد (رح) : کا بھی یہی قول آیا ہے کہ نماز میں کلام کرنا تھوڑا ہوا یا بہت قصداً ہو یا بھول کر یا سہو سے ہو یا جبراً یا حرمت کلام سے ناواقفیت کی حالت میں بہرحال نماز کو توڑ دیتا ہے ہاں اگر یہ خیال نہ رہے کہ نماز میں مشغول ہوں اور سلام کرلے تو نماز باطل نہیں ہوتی۔ باقی تینوں اماموں کے نزدیک اگر بھول کر نماز میں بات کرلی یا سلام کرلیا یا حرمت کلام سے واقف نہیں ہے اور سلام کلام کرلیا یا بےساختہ منہ سے سلام کلام نکل گیا تو نماز نہیں ٹوٹتی۔ خواہ کلام کتنا ہی طویل ہو۔ امام شافعی (رح) : کا قول صحیح ترین روایت میں یہ آیا ہے کہ بھول کر یا ناواقفیت کی حالت میں اگر طویل کلام کرے گا تو نماز ٹوٹ جائے گی۔ امام مالک (رح) : کا قول ایک روایت میں آیا ہے کہ قصداً ایسا کلام کرنا جس کا تعلق نماز سے نہ ہو مثلاً نابینا کو راستہ سے آگاہ کرنا گمراہ کو راستہ بتانا وغیرہ نماز کو باطل نہیں کرتا۔ ائمہ ثلثہ کے اتفاقی قول کی دلیل حضرت ابوہریرہ ؓ کی مندرجۂ ذیل روایت ہے جو ابن سیرین (رح) کے توسط سے آئی ہے کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے ہم کو مغرب یا عشاء کی نمازوں میں سے کوئی نماز پڑھائی دو رکعتیں پڑھ کر آپ نے سلام پھیر دیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ ﷺ غصہ کی حالت میں ہیں۔ مسجد کے اندر ایک تختہ پڑا ہوا تھا آپ نے اس سے کچھ سہارا لگا لیا دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر انگلیوں کا جال بنا لیا اور دایاں رخسار بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ لیا میں جلد جلد مسجد سے نکل گیا لوگ آپس میں کہنے لگے کیا نماز میں قصر ہوگیا لوگوں میں حضرت ابوبکر ؓ و حضرت عمر ؓ بھی موجود تھے۔ مگر حضور ﷺ کے ڈر سے وہ کچھ بول نہ سکے ایک آدمی اور تھا جس کے ہاتھ کسی قدر لمبے تھے اس لئے اس کو ذوالیدین کہا جاتا تھا اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ : کیا نماز میں قصر ہوگیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا نہ مجھے نسیان ہوا ہے نہ نماز میں قصر ہوا ہے (میں نے پوری نماز پڑھا دی) پھر حضور ﷺ نے (لوگوں سے خطاب کر کے) فرمایا کیا ایسا ہی ہوا ہے جیسا ذوالیدین کہہ رہا ہے صحابہ ؓ نے عرض کیا جی ہاں فوراً حضور ﷺ : آگے بڑھ گئے اور جتنی نماز رہ گئی تھی پوری کی پھر سلام پھیر کر اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کو چلے گئے اور معمولی سجدہ کی طرح یا اس سے لمبا سجدہ کیا پھر سر اٹھایا اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کو چلے گئے اور معمولی سجدہ کی طرح یا اس سے لمبا سجدہ کیا پھر سر اٹھا کر اللہ اکبر کہا پھر سلام پھیر دیا۔ ابن سیرین سے لوگ اکثر پوچھتے تھے تو ابن سیرین جواب دیتے تھے مجھے اطلاع ملی ہے کہ عمران بن حصین نے کہا تھا پھر سلام پھیر دیا (یعنی یہ آخری لفظ ابوہریرہ ؓ کی روایت میں نہیں ہے) رواہ الشیخان فی الصحیحین۔ حضرت عمران بن حصین کی روایت ہے کہ ایک روز عصر کی تین رکعت پڑھ کر حضور ﷺ اندر گھر میں تشریف لے گئے ایک شخص نے جس کا نام خرباق تھا اور اس کے ہاتھ کسی قدر لمبے تھے اٹھ کر حضور ﷺ : کو یاد دہانی کی۔ حضور ﷺ چادر کھینچتے ہوئے باہر تشریف لائے معلوم ہوتا تھا سخت غصہ کی حالت میں ہیں اور فرمایا کیا یہ سچ کہتا ہے صحابہ ؓ نے عرض کیا جی ہاں آپ نے فوراً ایک رکعت پڑھ کر سلام پھیر کر دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا۔ رواہ مسلم۔ اس حدیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ آپ ﷺ نے جس وقت کلام کیا اس وقت آپ کو یقین تھا کہ نماز پوری ہوئی ہے اور آپ نماز کی حالت میں نہیں ہیں اور ذوالیدین کی بھی یہی حالت تھی (ان کو بھی یقین تھا کہ نماز پوری ہوگئی اور اسی حالت میں انہوں نے کلام کیا تھا) کیونکہ منسوخ ہوجانے کا (ان کی نظر میں) امکان تھا اس حدیث کی روایت پر حسب ذیل اعتراضات کئے گئے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ 7 ھ ؁ میں مسلمان ہوئے اور حضرت ذوالیدین کی شہادت بدر کی جنگ 2 ھ ؁ میں ہوئی پھر یہ کہنا کس طرح صحیح ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو نماز پڑھائی۔ (2) حدیث کے الفاظ میں اختلاف ہے کسی میں دو رکعت کسی میں تین رکعت پڑھ کر سلام پھیرنا مذکور ہے۔ (3) اس حدیث میں اس وقت کا واقعہ مذکور ہے جب نماز میں بولنا جائز تھا اسی لئے حضرت ابوبکر ؓ حضرت عمر ؓ اور دوسرے لوگوں نے قصداً کلام کیا۔ حدیث کے اوّل اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ائمہ حدیث کے نزدیک بالاتفاق یہ حدیث صحیح ہے حضرت ذوالشمالین کی شہادت جنگ بدر میں ہوئی تھی حضرت ذوالیدین تو رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی زندہ تھے۔ ذوالیدین کا نام حضرت عمران بن حصین کی روایت میں خرباق آیا ہے اور حضرت ذوالشمالین کا نام عمیر تھا درحقیقت یہ اعتراض زہری کی روایت میں پڑتا ہے جس میں آیا ہے کہ ذوالشمالین کھڑے ہوئے ابو داؤد سجستانی نے لکھا ہے کہ زہری کو نام میں دھوکہ ہوگیا انہوں نے خیال کرلیا کہ ذوالشمالین اور ذوالیدین دونوں ایک شخص کے نام تھے اس لئے روایت میں بجائے ذوالیدین کے انہوں نے ذوالشمالین کہہ دیا۔ دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں کوئی اختلاف نہیں تین رکعت پڑھ کر سلام پھیرنے کی حدیث تو حضرت عمران ؓ بن حصین کی روایت سے آئی ہے جو مسلم کے راوی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث زیادہ صحیح ہے۔ پھر اگر تعداد میں شک بھی ہو تب بھی کوئی ہرج نہیں۔ اہل حدیث کو حدیث تو محفوظ ہے اور بھول کر بات کرنے کا ثبوت موجود ہے۔ رہا کلام کا نماز میں حرام ہوجانا تو زید بن ارقم (جو مدنی تھے) کا قول ہے کہ ہم نماز میں بات کرلیا کرتے تھے یہاں تک کہ آیت (وقوموا اللّٰہ قائمین) نازل ہوئی (اور ہم کو خاموش رہنے کا حکم دے دیا گیا۔ ابو سلیمان خطابی نے لکھا ہے کہ ہجرت سے کچھ مدت کے بعد ہی نماز میں کلام کرنے کی اجازت منسوخ کردی گئی۔ دونوں قولوں پر حضرت ابوہریرہ ؓ کے اسلام سے پہلے یقیناً نماز کے اندر کلام کرنے کی ممانعت ہوگئی تھی باقی حضرت ابوبکر ؓ حضرت عمر ؓ اور دوسرے لوگوں کے کلام کرنے سے استدلال تو اس کا جواب دو طرح سے دیا گیا ہے۔ (1) حماد بن زید نے جو ایوب کی روایت بیان کی ہے اس میں آیا ہے کہ لوگوں نے اشارہ سے ہاں (کہنے) کا اظہار کیا تھا یعنی زبان سے ہاں نہیں کہا تھا لہٰذا جس روایت میں ہاں کہنے کا ذکر آیا ہے اس سے مراد بھی اشارہ سے ہاں کا اظہار کرنا ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ کے سوال کا جواب دینا اس وقت تک منسوخ نہیں ہوا تھا کیونکہ حضرت ابو سعید ؓ بن معلی کا بیان ہے کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا اسی دوران میں رسول اللہ ﷺ نے مجھے آواز دی۔ میں نے جواب نہیں دیا پھر (نماز ختم کرنے کے بعد) جب حاضر خدمت ہوا تو عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں نماز پڑھ رہا تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کیا اللہ نے نہیں فرما دیا ہے۔ (استجیبوا للّٰہ وللرسول اذا دعا کم) ۔ رواہ البخاری۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے اپنے قول کے استدلال میں حضرت معاویہ ؓ بن حکم کی حدیث پیش کی ہے۔ حضرت معاویہ ؓ : کا بیان ہے۔ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ مقتدیوں میں سے کسی کو چھینک آئی میں نے کہا یرحمک اللّٰہ لوگوں نے مجھے گھور کر دیکھا۔ میں نے کہا ہائے ہائے تم کیوں مجھے گھور کر دیکھ رہے ہو لوگوں نے اپنے ہاتھ رانوں پر مارے۔ جب میں نے دیکھا کہ لوگ مجھے خاموش کر رہے ہیں تو میں چپ ہوگیا رسول اللہ ﷺ : نماز پڑھ چکے تو مجھے طلب کیا میرے ماں باپ حضور ﷺ نے پر قربان میں نے نہ آپ سے پہلے ایسا اچھی تعلیم دینے والا معلم دیکھا نہ حضور ﷺ کے بعد آپ ﷺ نے نہ میرے مکا مارا نہ برا کہا نہ ضرب رسید کی بلکہ فرمایا یہ نماز ہے اس میں لوگوں کی کسی طرح کی بات درست نہیں یہ تو صرب تسبیح تکبیر اور قرآن کی قرأت ہے۔ رواہ مسلم۔ حضرت جابر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کلام نماز کو توڑ دیتا ہے وضوء کو نہیں توڑتا۔ رواہ الدارقطنی۔ اوّل حدیث کا جواب یہ ہے کہ یہ تو امام اعظم ؓ کے قول کی تائید میں نہیں بلکہ خلاف جاری ہے اس حدیث میں یہ ذکر نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معاویہ ؓ کو نماز لوٹانے کا حکم دیا بلکہ ان کو نماز کے احکام کی تعلیم دی اور فرمایا بات کرنا درست نہیں نماز میں کلام ممنوع ہے۔ رہی دوسری حدیث تو اس میں ایک راوی ابو شیبہ ہے جس کا نام عبدالرحمن بن اسحاق ہے یحییٰ بن معین نے اس کو ضعیف کہا ہے اور امام احمد نے فرمایا ہے کہ اس کی روایت کچھ نہیں ہے یہ منکر الحدیث ہے اگر یہ منفرد ہو تو اس کی روایت سے استدلال صحیح نہیں ہے۔ ابن حبان کا بھی یہی بیان ہے۔ سعید بن جبیر عطاء اور مجاہد کا بیان ہے کہ آیت اذ قر القرآن کا نزول جمعہ کے خطبہ کے متعلق ہوا امام جمعہ کا خطبہ پڑھ رہا ہو تو خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سیوطی نے اسی قول کو پسند کیا ہے ہم نے خطبہ کے دوران خاموش رہنے کا مسئلہ سورة جمعہ کی تفسیر میں بیان کردیا ہے۔ حضرت عمر ؓ بن عبدالعزیز نے فرمایا ہر واعظ کے وعظ کے وقت خاموش رہنے کا حکم ہے۔ کلبی کا بیان ہے کہ نماز میں جب لوگ جنت اور دوزخ کا تذکرہ سنتے تو چیخ پڑتے تھے۔ یعنی جنت کی دعا اور دوزخ سے پناہ مانگتے تھے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نماز کے اندر امام کے پیچھے آواز سے قرأت نہ کرنے کی حکم اس آیت میں دیا گیا ہے بغوی نے بروایت زید بن اسلم ؓ حضرت ابوہریرہ ؓ : کا بیان نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے (نماز کے اندر) لوگ اونچی آوازیں کرتے یعنی اونچی آواز سے قرأت کرتے تھے تو اسی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت مقداد نے لوگوں کو امام کے ساتھ (نماز پڑھتے وقت) قرأت کرتے سنا تو نماز ختم کرنے کے بعد فرمایا کیا ابھی تم کو اتنی سمجھ بھی نہیں ہوئی کہ جب قرآن پڑھا جائے تو کان لگا کر سنو اور خاموش رہو جیسا کہ اللہ نے تم کو حکم دیا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حسن زہری اور نخعی کا قول بھی یہی ہے کہ اس آیت کا نزول امام کے پیچھے قرأت کرنے کے سلسلہ میں ہوا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ آیت کا نزول جمعہ کے خطبہ کے متعلق ہوا ان کے قول سے حسن و زہری کا قول زیادہ بہتر ہے کیونکہ آیت مکی ہے اور نماز جمعہ کا وجوب مدینہ میں ہوا تھا۔ بیہقی نے لکھا ہے کہ امام احمد نے فرمایا سب لوگوں کا اتفاق ہے کہ اس آیت کا نزول نماز کے متعلق ہوا۔ ہکذا قال ابن ہمام۔ بغوی نے مجاہد کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ : نماز میں قرأت کر رہے تھے کہ ایک انصاری جو ان کو آپ قرأت کرتے سنا اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ ہم نے امام کے پیچھے قرأت کرنے کا مسئلہ سورة مزمل کی آیت فاقرء وا ما تیسر من القرآن کی تفسیر میں مفصل لکھ دیا ہے۔ ابن جریر نے زہری کی روایت نقل کی ہے کہ اس آیت کا نزول ایک انصاری جوان کے حق میں ہوا رسول اللہ ﷺ جب قرأت کر رہے تھے تو وہ بھی اس کی قرأت کر رہا تھا میں کہتا ہوں کہ اس سے مراد نماز سے باہر قرأت کرنا ہے۔ کیونکہ سعید بن منصور کا قول ہے کہ محمد بن کعب نے فرمایا لوگ رسول اللہ ﷺ سے سیکھتے تھے جب حضور ﷺ : کچھ پڑھتے تھے تو لوگ بھی آپ کے ساتھ پڑھتے تھے یہاں تک کہ سورة اعراف میں یہ آیت نازل ہوئی۔ لباب النقول فی اسباب النزول کے مؤلف نے لکھا ہے اس روایت سے بظاہر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ آیت مدنی ہے۔ فصل اگر کوئی شخص نماز سے باہر ہو اور نماز کے اندر یا نماز سے باہر کسی کو قرآن پڑھتے سنے تو کیا کان لگا کر سننا اور خاموش رہنا واجب ہے یہ اختلافی مسئلہ ہے علماء کا اس میں اختلاف ہے۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ عام علماء کے نزدیک صورت مذکورہ میں قرآن کو کان لگا کر سننا مستحب ہے (واجب نہیں) ابن ہمام نے لکھا ہے ہمارے علماء کا کلام دلالت کر رہا ہے کہ اگر قرآن آواز سے پڑھا جا رہا ہو تو کوئی نماز کے اندر ہو یا نماز کے باہر بہرحال کان لگا کر سننا واجب ہے۔ خلاصہ میں لکھا ہے اگر کوئی شخص فقہ کی کوئی تحریر لکھ رہا ہو اور اس کے برابر کوئی شخص قرآن ایسی آواز سے پڑھ رہا ہو کہ لکھنے والے کو کان لگا کر سننا ممکن نہ ہو تو گناہ پڑھنے والے پر ہوگا اسی پر مبنی ہے یہ مسئلہ کہ اگر رات کے وقت چھت پر کوئی شخص چلا کر قرآن پڑھے جب کہ لوگ سو رہے ہوں تو گناہگار ہوگا اس میں کان لگا کر سننے کا وجوب صراحۃً مذکور ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سبب نزول خواہ خاص ہو مگر حکم اسی پر محدود نہ ہوگا الفاظ کے عموم کا اعتبار ہے۔ میں کہتا ہوں حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو بلند آواز سے قرآن اس طرح پڑھتے تھے کہ حجرہ سے باہر والے بھی سن لیتے تھے اور اکثر ہمسائے بھی سنتے تھے رواہ الترمذی والنسائی وابن ماجۃ عن ام ہانی ؓ ۔ حضرت ام ہانی کا بیان ہے کہ میں اپنی چھت پر ہوتی تھی اور رسول اللہ ﷺ کے رات کو قرآن پڑھنے کی آواز سنتی تھی۔ اس حدیث میں لفظ عریش آیا ہے بغوی نے شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ عریش کا معنی ہے چھت ‘ مکہ کے گھروں کو عریش اس لئے کہتے تھے کہ وہ ٹانڈ کی طرح لکڑی کے ستونوں پر نصب کئے جاتے تھے (جن کے اوپر لوگ سوتے لیٹتے بیٹھتے تھے) اور ان کا سائبان ہوجاتا تھا۔ ابو داؤد اور ترمذی نے حضرت ابن عباس ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ گھر کے اندر رسول اللہ : ﷺ کی قرأت اس انداز پر ہوتی تھی کہ حجرہ سے باہر والے سن لیتے تھے اور حضور ﷺ کے گھروں کے اندر بیبیاں موجود ہوتی تھیں اور حضور ﷺ کے نماز میں مشغول ہونے کے وقت بعض بیبیاں سوتی بھی ہوتی تھیں۔ بخاری نے صحیح میں حضرت عائشہ ؓ : کا بیان نقل کیا ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے سوتی ہوتی تھی میرے دونوں پاؤں آپ ﷺ کے قبلہ کی طرف ہوتے تھے جب آپ سجدہ کرتے تو مجھے دبا دیتے میں ٹانگیں سمیٹ لیتی پھر جب آپ سجدہ سے کھڑے ہوجاتے تو میں ٹانگیں پھیلا لیتی اس وقت گھروں میں چراغ نہ ہوتے تھے۔ صحابہ ؓ رات دن بلند آواز سے قرآن پڑھا کرتے تھے اور کوئی مخالفت نہ کرتا تھا۔ مسلم نے حضرت ابو موسیٰ کا قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا مجھے وہ منظر نظر آ رہا ہے کہ رات تم قرآن پڑھ رہے تھے اور میں تمہاری قرأت سن رہا تھا۔ صحیحین میں حضرت ابو موسیٰ ؓ کا بیان منقول ہے آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ میرے ہم سفر اشعری ؓ جب رات کو قرآن پڑھتے تھے تو دوران سفر میں میں ان کی آوازیں پہچان لیتا تھا اور آوازوں سے رات کو ان کی فردوگاہیں بھی پہچان لیتا تھا باوجودیکہ دن میں مجھے معلوم نہ ہوتا تھا کہ رات کو انہوں نے کہاں کہاں پڑاؤ کیا اور یہ حقیقت ہے کہ جب اشعری لوگوں قرآن پڑھتے ہوں گے تو کچھ لوگ لشکر میں سونے کی حالت میں بھی ہوں گے ابن ابی داؤد کی روایت ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب نے مسجد میں کچھ لوگوں کے قرآن پڑھنے کی آوازیں سنیں اور فرمایا ان لوگوں کے لئے بشارت ہو یہ رسول اللہ ﷺ : کو بڑے پیارے تھے۔ یہ تمام احادیث دلالت کر رہی ہیں کہ مصنف خلاصہ کا فتویٰ غلط ہے۔ ابن مردویہ نے ابو اسامہ از سفیان از ابی المقدام ہشام بن زید از معاویہ ؓ بن قرہ کی سند سے بیان کیا ہے کہ معاویہ ؓ نے کہا میں نے صحابہ کرام ؓ میں سے اپنے بعض مشائخ سے (غالباً معاویہ ؓ نے حضرت عبداللہ ؓ بن مغفل کا نام لیا تھا) دریافت کیا کہ جو شخص قرآن سنے کیا اس پر کان لگا کر سننا اور خاموش رہنا واجب ہے انہوں نے جواب دیا کہ آیت (واذا قرء القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا) امام کے پیچھے قرأت کرنے (کی ممانعت) کے لئے نازل ہوئی تھی۔ میں کہتا ہوں کہ اذ قرء القرآن میں القرآن میں الف لام عہد کے لئے ہے جنس کے لئے نہیں ہے اس سے مراد وہ قرآن ہے جو پڑھنے والا تمہارے سنانے کو پڑھ رہا ہو جیسے امام مقتدیوں کو سنانے کے لئے پڑھتا ہے یا خطیب اہل مجلس کو خطاب کرنے کے وقت پڑھتا ہے یا قاری شاگردوں کو سکھانے کے لئے پڑھتا ہے واللہ اعلم۔ فصل اگر پڑھنے والا خود یا امام نماز میں قرأت کے اندر جنت اور دوزخ کا تذکرہ پڑھے تو (جنت میں داخل ہونے کی) دعا نہ مانگنا اور دوزخ میں داخل ہونے سے) پناہ نہ مانگنا واجب ہے دعا اور تعوذ جائز نہیں کلبی کا قول ہم نے اوپر ذکر کردیا ہے ابن ہمام نے لکھا ہے کہ قرآن سننے کے وقت کان لگانے اور خاموش رہنے والے سے اللہ نے رحمت کا وعدہ فرمایا ہے ارشاد فرمایا ہے (فاستمعوا انصتوا لعلکم ترحمون) اور اللہ کا وعدہ غلط نہیں ہوسکتا اور قرآن کی طرف سے غافل ہو کر دعا کرنا اور اس دعا کا قبول ہونا کوئی قطعی یقینی نہیں ہے۔ مسئلہمنفرد آدمی فرض نماز میں قرأت کو چھوڑ کر کسی دعا یا تعوذ میں مشغول نہ ہو ہاں نفل نماز میں اگر تلاوت کے وقت جنت یا دوزخ کا ذکر آئے تو جنت کے لئے دعا کرے اور دوزخ سے پناہ مانگے اور آیت پر غور کرے۔ حضرت حذیفہ ؓ کا بیان ہے میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رات کی (یعنی تہجد کی) نماز پڑھی جب حضور ﷺ : کوئی ایسی آیت پڑھتے جس میں جنت کا ذکر ہوتا تھا تو رک کر اللہ سے جنت کے لئے درخواست کرتے اور اگر ایسی آیت پڑھتے جس میں دوزخ کا ذکر ہوتا تو ٹھہر جاتے اور دوزخ سے محفوظ رہنے کے لئے دعا کرتے۔
Top