Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 9
وَ لَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰهُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْهِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر جَعَلْنٰهُ : ہم اسے بناتے مَلَكًا : فرشتہ لَّجَعَلْنٰهُ : تو ہم اسے بناتے رَجُلًا : آدمی وَّلَلَبَسْنَا : ہم شبہ ڈالتے عَلَيْهِمْ : ان پر مَّا يَلْبِسُوْنَ : جو وہ شبہ کرتے ہیں
نیز اگر ہم کسی فرشتہ کو بھیجتے تو اسے مرد کی صورت میں بھیجتے اور جو شبہ (اب) کرتے ہیں اسی شبے میں پھر انہیں ڈال دیتے
ولو جعلنہ ملکا اور اگر ہم اس (شاہد) کو فرشتے بناتے یا رسول کو فرشتہ بناتے یعنی اگر فرشتہ کو رسول کا ہمراہی (اور شاہد) بناتے یا یہ مطلب کہ کسی فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجتے۔ کافروں کی درخواست دونوں طرح کی تھی کبھی تو وہ کہتے لو لا انزل الیہ ملک فیکون معہ نذیرا اور کبھی کہتے لو شاء ربنا لا نزل ملائکۃ (اس لئے آیت مذکورہ کا دونوں طرح ترجمہ اور مطلب صحیح ہے) لجعلنہ رجلا تو ہم اس کو مرد بناتے یعنی مرد کی شکل دے کر بھیجتے۔ جیسے حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) حضرت دحیہ کلبی کی شکل میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے آتے تھے بات یہ ہے کہ فرشتوں کو ان کی اصل شکل میں دیکھنا عام بشری قوت سے باہر ہے البتہ بعض مخصوص انبیاء نے قوت قدسیہ کا حامل ہونے کی وجہ سے ملائکہ کو اصلی صورت میں کبھی دیکھا تھا ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پیغمبر خالق و مخلوق کے درمیان ایک برزخی حیثیت رکھتا ہے اس لئے اس میں طرفین سے مناسبت ہوتی ہے خالق کے ساتھ ارتباط رکھنے کی وجہ سے وہ ان تمام فیوض کو قبول کرتا ہے جو عالم بالا سے جاری ہوتے ہیں اور مخلوق کے ساتھ مناسبت رکھنے کی وجہ سے وہ باری تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ فیوض سے مخلوق کو سرفراز کرتا ہے اگر طرفین کے ساتھ مناسبت نہ ہو تو فیضان روحانی کو حاصل کرنا اور مخلوق کو اس سے بہرہ اندوز کرنا ممکن نہیں انبیاء ہوں یا ملائکہ دونوں کا باطنی لگاؤ خالق سے ہوتا ہے ان کا مبدأ تعین ذات باری کا کوئی مخصوص وصف ہوتا ہے باقی مخلوق کا مبدأ تعین کوئی صفت نہیں بلکہ صفت کا پرتو اور عکس ہوتا ہے۔ (1) [ نبوت اور ملکیت کو ایک آئینہ کہا جاسکتا ہے جس کا رخ پورے مقابلہ کے ساتھ نہیں بلکہ کچھ ترچھے طور پر آفتاب الوہیت کی طرف ہوتا ہے اور بغیر کسی وساطت کے آفتاب الوہیت کی کوئی شعاع جلالی یا جمالی اس آئینہ پر پڑتی ہے مبداء تعین ہونے کا یہی معنی ہے۔ پھر آئینہ کا رخ چونکہ ترچھا ہوتا ہے اس لئے آئینہ نبوت و رسالت پر پڑنے والی کوئی شعاع پلٹ کر اس جگہ چمکنے لگتی ہے جہاں براہ راست وہ شعاع کسی آڑ میں ہونے کی وجہ سے نہیں پہنچ سکتی گویا آفتاب الوہیت کی شعاع براہ راست آئینہ پر پڑتی ہے اور آئینہ کو روشن کردیتی ہے پھر آئینہ سے الٹ کر دالان کمرہ یا کسی اور مسقف جگہ پر پہنچتی ہے اور آئینہ نبوت پر پڑنے والی شعاع کے عکس سے وہ اندرونی جگہ بھی چمکنے لگتی ہے یہی معنی ہیں اس قول کے کہ باقی مخلوق کا مبداء تعین صفت کا سایہ ہے۔ (مؤلف)] اس لئے ضروری ہے کہ رسول کو مخلوق سے شکلی (نوعی اور مادی) مناسبت بھی ہو (پس اگر ملائکہ کو انسانوں کے پاس پیام پہنچانے کے لئے بھیجا جاتا تو کم سے کم ان رسولوں کا آدمی کی شکل پر ہونا ضروری تھا اور ایسی حالت میں ان کی شناخت ناممکن تھی معلوم نہیں ہوسکتا تھا کہ واقع میں وہ ملائکہ انسانی نسل کی پیداوار ہیں اور انسانوں سے نوعی اشتراک رکھتے ہیں یا ملائکہ بشکل بشری ہیں اور انسانوں کے بھیس میں آئے ہوئے ہیں) ۔ پیغمبر فرشتوں کو انسانی شکل میں بھیجنا اس لئے بھی ضروری ہوتا کہ انسان ایمان بالغیب کا مکلف ہے اس ماموریت کا تقاضا ہے کہ فرشتوں کو (پیغمبر بنا کر بھیجنے کے باوجود) مشتبہ اور پردہ کے اندر رکھا جائے (تاکہ غیبی حقیقت غائب ہی رہے) اسی لئے آگے فرمایا ہے۔ وللبسنا علیہم ما یلبسون اور ہمارے اس فعل سے ان کے لئے وہی اشکال پیدا ہوتا جو اشکال اب کررہے ہیں یعنی فرشتوں کی حالت کو ہم اشتباہ میں ہی رکھتے لوگوں کو معلوم بھی نہ ہوتا کہ یہ فرشتے ہیں بلکہ وہ یہی کہتے کہ یہ بھی دوسروں کی طرح انسان ہیں جس طرح اب انبیاء کے کھلے معجزات دیکھنے کے بعد بھی رسالت و نبوت میں اشتباہی کیفیت انہوں نے خود اپنے اوپر طاری کر رکھی ہے کافر حضور ﷺ سے استہزاء کرتے تھے جس سے آپ کو دکھ پہنچتا تھا آئندہ آیت آپ کی تسلی کے لئے نازل ہوئی۔
Top