Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 68
وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖ١ؕ وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
وَاِذَا : اور جب رَاَيْتَ : تو دیکھے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو کہ يَخُوْضُوْنَ : جھگڑتے ہیں فِيْٓ : میں اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَاَعْرِضْ : تو کنارا کرلے عَنْهُمْ : ان سے حَتّٰي : یہانتک کہ يَخُوْضُوْا : وہ مشغول ہو فِيْ : میں حَدِيْثٍ : کوئی بات غَيْرِهٖ : اس کے علاوہ وَاِمَّا : اور اگر يُنْسِيَنَّكَ : بھلا دے تجھے الشَّيْطٰنُ : شیطان فَلَا تَقْعُدْ : تو نہ بیٹھ بَعْدَ : بعد الذِّكْرٰي : یاد آنا مَعَ : ساتھ (پاس) الْقَوْمِ : قوم (لوگ) الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بیہودہ بکواس کر رہے ہوں تو ان سے الگ ہوجاؤ یہاں تک کہ اور باتوں میں مصروف ہوجائیں۔ اور اگر (یہ بات) شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے پر ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو
واذا رایت الذین یحوضون فی ایتنا فاعرض عنہم اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیات میں عیب جوئی کر رہے ہوں تو ان سے کنارہ کش ہوجاؤ۔ یعنی ان کے پاس سے اٹھ جاؤ ان کے ساتھ نہ بیٹھو اس آیت کی غرض کفار کے دین اور ان کی ہم نشینی سے الگ رکھنا ہے ترک جہاد مقصود نہیں ہے کہ اس کو (آیت قتال سے) منسوخ قرار دینا پڑے (یعنی اگر اعراض اور تعلق نہ رکھنے کا مفہوم یہ مانا جائے کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو ان سے کچھ تعرض نہ کرو تو لامحالہ ترک قتال کا حکم اس سے مستفاد ہوگا اور پھر آیت قتال سے اس کو منسوخ ماننا پڑے گا) حتی یخوضوا فی حدیث غیرہ اس وقت تک وہ (آیات میں عیب جوئی کو چھوڑ کر) کسی اور بات میں لگ جائیں۔ غیرہ کی ضمیر معنی آیات کی طرف راجع ہے جو (مفرد مذکر ہے اور حقیقت میں) قرآن ہے قریش اپنی مجالس میں بیٹھ کر آیات قرآنی کی تکذیب کرتے ان میں نکتہ چینی کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ (ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کی ممانعت اس آیت میں کی گئی۔ ) وما ینسینک الشیطن فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظلمین اور اگر (یہ حکم ممانعت) شیطان تم کو بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھو۔ بجائے ضمیر غائب کے الظلمینکا لفظ صراحت کے ساتھ لانا بتارہا ہے کہ یہ لوگ بڑی بےجا حرکت کرتے ہیں کہ بجائے تصدیق کے تکذیب اور استہزاء کرتے ہیں۔ بغوی نے لکھا ہے روایت میں آیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا جب آیت مذکورہ نازل ہوئی تو مسلمانوں نے کہا ہم کعبہ میں کس طرح بیٹھیں اور کیونکر طواف کریں مشرک تو وہاں ہمیشہ ہی آیات میں عیب جوئی کرتے رہتے ہیں دوسری روایت میں آیا ہے کہ مسلمانوں نے کہا اگر ہم ان کو یوں ہی چھوڑ دیں تو اور عیب جوئی سے منع نہ کریں تو ہم کو گناہ کا اندیشہ ہے اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top