Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 33
قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَیَحْزُنُكَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهُمْ لَا یُكَذِّبُوْنَكَ وَ لٰكِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ
قَدْ نَعْلَمُ : بیشک ہم جانتے ہیں اِنَّهٗ : کہ وہ لَيَحْزُنُكَ : آپ کو ضرور رنجیدہ کرتی ہے الَّذِيْ : وہ جو يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں فَاِنَّهُمْ : سو وہ یقینا لَا يُكَذِّبُوْنَكَ : نہیں جھٹلاتے آپ کو وَلٰكِنَّ : اور لیکن (بلکہ) الظّٰلِمِيْنَ : ظالم لوگ بِاٰيٰتِ : آیتوں کو اللّٰهِ : اللہ يَجْحَدُوْنَ : انکار کرتے ہیں
ہم کو معلوم ہے کہ ان (کافروں) کی باتیں تمہیں رنج پہنچاتی ہیں (مگر) یہ تمہاری تکذیب نہیں کرتے بلکہ ظالم خدا کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں
قد نعلم انہ لیحزنک الذی یقولون فانہم لا یکذبونک ولکن الظلمین بایت اللہ یجحدون۔ ہم کو خوب معلوم ہے کہ آپ کو ان کے اقوال مغموم کرتے ہیں سو یہ آپ کو جھوٹا نہیں کہتے بلکہ یہ ظالم اللہ کی کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ (اس جگہ) لفظ قدفعل کی زیادتی اور کثرت کو ظاہر کرنے کیلئے آیا ہے جیسے ولکنہ قد یملک المال نائلہ میں آیا ہے اور اَنَّہٗمیں ضمیر شان ہے (جس کو مرجع کی ضرورت نہیں ہوتی) سدی کا بیان ہے کہ اخنس بن شریق نے ابوجہل بن ہشام سے ملاقات کی اور کہا ابوالحکم محمد ﷺ بن عبداللہ کے متعلق مجھے بتاؤ وہ سچے ہیں یا جھوٹے۔ اس وقت یہاں میرے سوا آپ کی بات سننے والا اور کوئی نہیں ہے۔ ابوجہل نے کہا خدا کی قسم محمد بلاشبہ سچے ہیں لیکن جب قصی کی اولاد کے پاس جھنڈا ‘ حاجیوں کو پانی پلانا ‘ کعبہ کی تولیت ‘ پنچات اور نبوت (دہرا امتیاز) پہنچ گیا تو باقی قریشیوں کے لئے کیا بچا (میں اس لئے محمد کی نبوت کی مخالفت کرتا ہوں) اس پر آیت فانہم لا یکذبونک نازل ہوئی۔ ناجیہ بن کعب کا بیان ہے کہ ابوجہل نے رسول اللہ ﷺ سے کہا ہم آپ ﷺ پر (جھوٹے ہونے کا) شبہ نہیں کرتے اور نہ آپ کو جھوٹا کہتے ہیں بلکہ جو چیز آپ نے پیش کی اس کی تکذیب کرتے ہیں۔ بجائے ضمیر غائب کے الظلمینکا لفظ صراحت کے ساتھ ذکر کرنا۔ دلالت کر رہا ہے کہ انکار کرنے کی وجہ سے وہ لوگ ظالم ہوگئے تھے یا یوں کہا جائے کہ ناحق کوشی چونکہ ان کی عادت تھی اس لئے انہوں نے انکار کردیا تھا اور چونکہ حجود (انکار) کے اندر تکذیب کا مفہوم داخل ہے (اور تکذیب کے بعدب آتی ہے) اس لئے آیات سے پہلے ب کو ذکر کیا۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کی تکذیب حقیقت میں خدا کی تکذیب ہے کیونکہ آپ کی تکذیب وہ نبوت کے اعتبار سے کرتے ہیں (ویسے وہ دوسری باتوں میں آپ کو جھوٹا نہیں جانتے) اور حقیقت میں یہ نبوت دے کر بھیجنے والے کی تکذیب ہے۔
Top