Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 159
اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍ١ؕ اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے فَرَّقُوْا : تفرقہ ڈالا دِيْنَهُمْ : اپنا دین وَكَانُوْا : اور ہوگئے شِيَعًا : گروہ در گروہ لَّسْتَ : نہیں آپ مِنْهُمْ : ان سے فِيْ شَيْءٍ : کسی چیز میں (کوئی تعلق) اِنَّمَآ : فقط اَمْرُهُمْ : ان کا معاملہ اِلَى اللّٰهِ : اللہ کے حوالے ثُمَّ : پھر يُنَبِّئُهُمْ : وہ جتلا دے گا انہیں بِمَا : وہ جو كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ : کرتے تھے
جن لوگوں نے اپنے دین میں (بہت سے) رستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہو گئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں ان کا کام خدا کے حوالے پھر جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں وہ ان کو (سب) بتائے گا
ان الذین فرقوا دینہم . بلاشبہ جنہوں نے اپنے دین کو جدا جدا کردیا۔ یعنی دین کے بعض حصوں پر ایمان لائے اور بعض کا انکار کردیا یا یہ مطلب کہ مختلف فرقے بن گئے۔ مجاہد ‘ قتادہ اور سدی نے کہا اس سے یہودی اور عیسائی مراد ہیں کچھ لوگ یہودی بن گئے اور کچھ عیسائی حالانکہ دین (سب کا) ایک ہی تھا۔ یہ قول غلط ہے کیونکہ یہودیت کی بناء حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی نبوت و شریعت پر ہے اور نصرانیت کی بناء حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی بعثت پر ہے دونوں کے دینی اصول ایک ہی تھے یعنی حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے دین کے اصول ہی دونوں کے اصول تھے پھر یہودیوں نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی نبوت کا چونکہ انکار کردیا اس لئے اور عیسائیوں نے حضور اکرم ﷺ کی رسالت کو نہیں مانا اس لئے وہ بھی کافر ہوگئے مگر آیت کا مطلب یہ نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ انہوں نے اصلی دین حق کے ساتھ اپنی من پسند چیزوں کو شامل کرلیا خواہ شیطانی اغواء سے یا اپنی نفسانی خواہشات کے دباؤ سے۔ بہرحال دین میں خلط ملط کر کے اپنے اپنے گروہ بنا لئے۔ اس مطلب پر تفریق دین کرنے والوں سے مراد صرف گزشتہ فرقے ہی نہ ہوں گے بلکہ سلف ہوں یا اسلام میں بدعتوں کو شامل کرنے والے سب ہی کو یہ لفظ شامل ہوگا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت پر بھی قدم بقدم وہی واقعات آئیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے یہاں تک کہ اگر بنی اسرائیل میں سے کسی نے اپنی ماں سے علی الاعلان زنا کیا ہے تو میری امت میں بھی کوئی ایسا ہوگا جو یہ فعل کرے گا بنی اسرئیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت کے پھٹ کر تہتر فرقے ہوجائیں گے جن میں سے سوائے ایک کے سب دوزخی ہوں گے صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ وہ کون سا فرقہ ہوگا فرمایا (وہ فرقہ وہ ہوگا جو) اسی طریقہ پر ہوگا جس پر میں اور میرے ساتھی ہیں۔ رواہ الترمذی۔ احمد اور ابو داؤد نے حضرت معاویہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے بہتر (فرقے) دوزخ اور ایک جنت میں جائے گا اور وہ (جنتی فرقہ) جمہور کا ہوگا عنقریب میری امت میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوجائیں گے جن کے اندر نفسانی خواہشات اس طرح نفوذ کریں گی جس طرح کتا اپنے مالک کے ساتھ ہر کوچے اور موڑ میں گھستا پھرتا ہے۔ ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ ابن حبان اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے اور ترمذی و حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے کہ یہودیوں کے اکھتر فرقے ہوگئے جن میں سے ایک کے سوا سب گڑھے (دوز) میں جائیں گے۔ اور عیسائیوں کے بہتّر فرقے ہوگئے جن میں سے ایک کے سوا سب گڑھے (دوزخ) میں جائیں گے اور میری امت پھٹ کر تہتّر فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے ایک کے سوا سب گڑھے (دوزخ) میں جائیں گے۔ بغوی نے حضرت عمر ؓ بن خطاب کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا عائشح ؓ جن لوگوں نے دین کو پارہ پارہ کیا اور گروہ گروہ بن گئے وہ اس امت میں بدعتی ہوا پرست ہیں (یعنی اس امت میں جو بدعتی اور اصحاب الہویٰ ہیں وہ اس آیت کے ذیل میں آتے ہیں) اخرجہ الطبرانی وغیرہ بسند جید۔ طبرانی نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بھی عمدہ سند کے ساتھ ایسی ہی حدیث نقل کی ہے۔ احمد ‘ ابو داؤد ‘ ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت عرباض بن ساریہ ؓ کا بیان نقل کیا ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ نے ہم کو نماز پڑھائی نماز کے بعد ہماری طرف رخ کر کے ایسا بلیغ وعظ فرمایا جس کو سن کر دل ڈر گئے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ارشاد فرمایا تم کو اللہ سے ڈرتے رہنے کی نصیحت کرتا ہوں اور اس بات کی کہ (امیر کی) اطاعت کرنا خواہ وہ حبشی غلام ہی ہو۔ میرے بعد تم میں سے جو شخص زندہ رہے گا وہ (مسلمانوں میں) بڑا اختلاف دیکھے گا مگر تم میرے طریقہ اور ان خلفاء راشدین کے طریقہ پر جو ہدایت کار اور ہدایت یافتہ ہوں گے جمے رہنا اس پر مضبوط گرفت رکھنا اور اس کو دانتوں سے پکڑے رہنا اور نئی باتوں سے بچتے رہنا کیونکہ (دین کے اندر پیدا کی ہوئی) ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ ترمذی اور ابن ماجہ کی روایت میں نماز پڑھانے کا ذکر نہیں ہے باقی حدیث موجود ہے۔ صاحب مصابیح نے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عظمت والے گروہ کی پیروی کرو جو (اس سے) بچھڑ بچھڑ کر دوزخ میں گیا۔ ابن ماجہ نے یہ حدیث حضرت انس کی روایت سے لکھی ہے۔ ترمذی نے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت گمراہی پر جمع نہ ہوگی جمہور پر اللہ کا ہاتھ ہے جو (جمہور سے) بچھڑا وہ بچھڑ کر دوزخ میں گیا۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پگڈنڈیوں سے (یا مختلف گھاٹیوں سے) پرہیز رکھو اور جماعت و جمہور کو اختیار کرو۔ حضرت ابوذر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو بالشت بھر جماعت سے علیحدہ ہوا اس نے اسلام کی رسی اپنے گلے سے نکال دی رواہ احمد و ابو داؤد جماعت سے مراد ہے صحابہ ؓ اور صحابہ ؓ کے پیچھے چلنے والوں کی جماعت۔ اللہ نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی کتاب دے کر مبعوث فرمایا اور کتاب کے ساتھ کچھ اور علم بھی وحی کے ذریعہ سے عنایت کیا لیکن اس وحی کے الفاظ اللہ کے نہ تھے معانی کی تعلیم اللہ کی طرف سے تھی (اور الفاظ حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) کے یا رسول اللہ ﷺ کے تھے۔ ایسی وحی کو غیر متلو یا غیر منطوق وحی کہتے تھے) کتاب کے اندر کچھ عبارت اور کلمات تو محکم تھے جن کی مراد (سمجھنے) میں کوئی شبہ نہ تھا کچھ خفی المراد عبارت بھی تھی کچھ مشکل یا مجمل یا متشابہ آیات تھیں مگر ان سب کے مقصد کی وضاحت اللہ نے اپنے پیغمبر کے لئے کردی خود ہی فرمایا ثم ان علینا بیانہ : پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ ؓ اور صحابہ ؓ نے اپنے شاگردوں کو اس کی تعلیم دی اور اس طرح یہ تعلیم و تعلم کا سلسلہ ہم تک پہنچا لہٰذا اللہ کی کتاب اس کے رسول کی سنت اور صحابہ ؓ وتابعین کے اجماعی اقوال کو ماننا اور ان پر چلنا ہمارے لئے لازم ہے اور جو آیات و احادیث ایسی ہیں جن کی مراد ظاہر نہیں ہے ان کی تشریحی مراد وہی قرار دینا ضروری ہے جو صحابہ ؓ نے اختیار کی ہو۔ جو لوگ پرستارانِ رائے ہیں وہ اپنی رائے اور خواہش کے پیچھے چلتے ہیں قرآن کا جو حصہ ان کی رائے کے مطابق ہوتا ہے اس کو لے لیتے ہیں اور مانتے ہیں اور جس حصہ کا ان کی دانش و رائے سے ٹکراؤ ہوتا ہے اس کا انکار کردیتے ہیں (یعنی اپنی رائے کے مطابق بنانے کے لئے اس کی تاویلیں کرتے اور رسول ﷺ و صحابہ ؓ کی تفسیر سے موڑ دیتے ہیں) چناچہ آخرت میں اللہ کے دیدار کا عذاب قبر کا ‘ وزن اعمال کا ‘ پل صراط اور حساب کا انکار کرتے ہیں اور اللہ کے کلام کو مخلوق کہتے ہیں حالانکہ یہ سب اقوال ایسے ہیں جن کے خلاف کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ ﷺ کی صراحتیں اور صحابہ ؓ کا اجماع موجود ہے انہوں نے دین کو چھوڑ دیا اللہ کی کتاب کو پارہ پارہ کردیا بعض حصہ کو مانا بعض کو نہ مانا ‘ فرقۂ معتزلہ اسی راستہ کا راہی ہے بہت سے معتزلی تو اس کے بھی قائل ہیں کہ اللہ پر وہی کام کرنا واجب ہے جو بندوں کے لئے مفید ہو ‘ یہ لوگ تقدیر کے بھی منکر ہیں اور گناہوں کی مغفرت کو بھی ناممکن کہتے ہیں یہ بھی ان کا قول ہے کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے اللہ (اگرچہ بندہ کا خالق ہے مگر) بندہ کے افعال کا خالق نہیں ہے اسی لئے اس گروہ کو امت اسلامیہ کے مجوسی کہا گیا ہے (مجوسی خیر اور نور کا خالق یزداں کو اور شر و ظلمت کا خالق اہرمن کو قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک ساری کائنات اور تمام انسانوں کا خالق اگرچہ اللہ ہے مگر بندوں کے افعال کے خالق بندے خود ہیں) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے قدریہ (یعنی معتزلہ جو بندہ کو اپنے تمام افعال کا قادر مطلق جانتے ہیں) اس امت کے مجوسی ہیں اگر یہ بیمار ہوجائیں تو ان کی بیمار پرسی نہ کرو مرجائیں تو جنازہ میں شرکت نہ کرو۔ رواہ احمد و ابو داؤد من حدیث ابن عمر ؓ ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت کے دو قسم کے لوگوں (یعنی دو فرقوں) کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں مرجۂ اور قدریہ (مرجۂ فرقہ قائل ہے کہ صرف ایمان ہر قسم کے عذاب سے بچانے کے لئے کافی ہے عمل کی کوئی ضرورت نہیں ‘ ایمان کی موجودگی میں کوئی گناہ ضرر رساں نہیں) رواہ الترمذی۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چھ (طرح کے لوگ) ہیں جن پر میں نے بھی لعنت کی اور اللہ نے بھی اور ہر مقبول الدعا نبی نے بھی۔ اللہ کی کتاب میں بیشی کرنے والا۔ تقدیر خداوندی کا انکار کرنے والا۔ زبردستی لوگوں پر تسلط جمانے والا تاکہ جن لوگوں کو اللہ نے عزت دی ہے ان کو ذلیل کر دے اور جن کو اللہ نے ذلت دی ہے ان کو معزز بنا دے۔ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دینے والا میری عزت (اولاد نسل) کے ساتھ اس عمل کو حلال سمجھنے والا جس کو اللہ نے حرام کردیا ہے اور میرے طریقے کو چھوڑنے والا۔ یہ حدیث رزین نے اپنی کتاب میں اور بیہقی نے المدخل میں ذکر کی ہے۔ میں کہتا ہوں اللہ کی کتاب میں بیشی کرنے والے رافضی ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ پورا قرآن اس موجودہ مصحف سے زائد تھا کچھ حصہ صحابہ ؓ نے اس میں سے نکال دیا ہے۔ آیت انا لحافظون : پر رافضیوں کا ایمان نہیں ہے۔ اور تقدیر خداوندی کے منکر قدریہ فرقہ والے ہیں ( جو انسان کو اپنے افعال کا قدر مطلق جانتے ہیں اور اللہ کو افعال عباد کا خالق نہیں مانتے) اور عترت رسول سے (ممنوعہ) سلوک کو حلال سمجھنے والے خارجی ہیں اور طریقۂ رسول کو چھوڑنے والے تمام بدعتی ہیں جو اپنی رائے پر چلتے ہیں اور قرآن کی آیات متشابہات کی خود ساختہ تاویلیں کرتے ہیں اور سلف صالحین نے ان آیات کی جو تفسیر کی ہے اس کو نہیں مانتے۔ یہ مشبہ اور مجسمہ (اللہ کے اندر مخلوق کی ایسی صفات ماننے والے اور اللہ کا جسم قرار دینے والے) فرقے ہیں اور انہی کی طرح جو دوسرے گروہ ہیں ان کا شمار بھی طریقۂ رسول کے ترک کرنے والوں میں ہے۔ رافضیوں نے تو دین کو ہی چھوڑ دیا ہے کیونکہ دین کا حصول قرآن ‘ حدیث اور اجماع سے ہی ہوتا ہے اور انہوں نے قرآن کو چھوڑ دیا اور جو کچھ بڑھانا چاہا بڑھا دیا۔ انہوں نے سنت رسول کو بھی ترک کردیا یہ سب صحابہ کو کافر اور مرتد کہتے ہیں اور ظاہر ہے آنے والوں کو حدیث کا علم صرف انہی لوگوں کے ذریعہ سے ہوسکتا ہے جنہوں نے خود سن کر نقل کیا ہو اور نقل کرنے والے صحابی ؓ ہی ہوسکتے ہیں اس لئے حدیث کا علم بغیر صحابہ ؓ کے ممکن نہیں اور جب صحابہ ؓ کو کافر مرتد قرار دے دیا تو حدیث کا انکار ہوگیا ‘ انہوں نے اجماع صحابہ ؓ کا بھی انکار کردیا اور خودساختہ احادیث و اقوال کی نسبت حضرت امام جعفر صادق اور حضرت امام محمد باقر اور ان کے اسلاف کرام کی طرف کردی اور چونکہ تواتر سے ثابت ہوگیا کہ ان سچے اماموں کے اقوال آثار صحابہ ؓ کے مطابق ہیں (اور اس مطابقت کی کوئی تاویل بن نہ پڑی) تو تقیہ کی فرضیت کا قول گڑھ لیا (اور کہہ دیا کہ ان سچے اماموں نے تقیہ کرلیا تھا) ان کا ظاہری کلام صحابہ ؓ کی روایات کے مطابق ہے درحقیقت میں انہوں نے تقیہ کیا تھا ہمارے اسلاف کو اماموں نے پوشیدہ طور پر اصل حقیقت سے واقف کردیا تھا اور ہدایت کردی تھی کہ ان اسرار کو ظاہر نہ کرنا ‘ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں احتیاط رکھنا۔ اور یہ بات ناقابل شک ہے کہ جو بات اخفاء اور اسرار کے طور پر کہی جائے اس کی روایت شہرت و تواتر کی حد تک نہیں ہوسکتی۔ اخبار احاد خواہ ان کے راوی کتنے ہی قابل بھروسہ اور ثقہ ہوں پھر بھی ظن کی حد سے آگے نہیں بڑھتیں اور یقین عطا نہیں کرتیں اور یہاں تو راویوں کے ثقہ ہونے کا کوئی احتمال ہی نہیں۔ مشہور دروغ گو شیطان ان اقوال کے راوی ہیں جن کی نسبت ائمہ کرام کی طرف کی گئی ہے جیسے عبداللہ بن سبا منافق یہودی ‘ ہشام بن سالم ‘ ہشام بن حکم ‘ زید بن جہیم الہلالی ‘ شیطان الطاق اور دیک الجن شاعر وغیرہ ہم نے ان کے اور دوسرے رافضی راویوں کے احوال السیف المسلول میں لکھ دیئے ہیں۔ شاید قرآن کا یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ اس نے رافضیوں کی طرف جو اپنے آپ کو شیعہ کہتے ہیں آیت ذیل میں اشارہ کردیا۔ وکانوا شیعا . اور ہوگئے وہ گروہ گروہ ‘ ہر گروہ اپنے خود ساختہ لیڈر کا شیعہ (پیرو متبع) بن گیا۔ حضرت علی ؓ کا بیان ہے کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تیرے اندر عیسیٰ کی (حالت کی) مشابہت ہے عیسیٰ سے یہودیوں نے اتنا بغض کیا کہ ان کی ماں پر بھی تہمت لگائی اور نصاریٰ نے ان سے اتنی محبت کی کہ ان کا اتنا (اونچا) مرتبہ قرار دیا جو ان کے لئے جائز نہ تھا (یعنی خدا کا بیٹا بنا دیا) حضرت علی ؓ نے فرمایا میرے سلسلہ میں دو (قسم کے) آدمی تباہ ہوگئے ایک تو حد سے بڑھ کر محبت کرنے والا جو میرے اندر ایسے (اعلیٰ ) اوصاف مانتا ہے جو میرے اندر نہیں ہیں دوسرا مجھ سے بغض رکھنے والا جس کو میری دشمنی اس امر پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ مجھ پر تہمت تراشی کرتا ہے۔ رواہ احمد۔ حضرت علی ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت کے کچھ لوگ ہوں گے جن کو رافضی کہا جائے گا وہ اسلام کو چھوڑ دیں گے۔ رواہ البیہقی۔ حضرت علی ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عن قریب میرے بعد کچھ لوگ ہوں گے جن کو رافضی کہا جائے گا اگر تم ان کو پالو تو قتل کردینا وہ یقیناً مشرک ہوں گے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ان کی شناخت کیا ہے فرمایا وہ حد سے بڑھ کر تمہارے ایسے اوصاف قرار دیں گے جو تمہارے اندر نہیں ہیں اور سلف پر نکتہ چینی کریں گے رواہ الدارقطنی۔ دارقطنی نے دوسرے طریق روایت سے بھی یہ حدیث بیان کی ہے اس روایت میں اتنا زائد ہے وہ ہماری یعنی ہمارے اہل بیت کی محبت کے مدعی ہوں گے مگر واقع میں وہ ایسے نہیں ہوں گے ان کی شناخت یہ ہوگی کہ وہ ابوبکر ؓ و عمر ؓ کو گالیاں دیں گے اس موضوع کی حدیثیں اور بھی ہیں جن کو السیف المسلول میں ہم نے ذکر کیا ہے۔ لست منہم فی شئی . آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ یعنی اے محمد ﷺ آپ کا ان سے اور ان کا آپ سے کوئی تعلق نہیں۔ لست منہم : کا یہ مطلب عربی محاورہ کے مطابق ہے۔ عرب محاورہ میں کہتے ہیں اگر تو نے ایسا کیا تو تو مجھ سے اور میں تجھ سے نہیں یعنی میرا تیرا کوئی تعلق نہیں۔ میں تجھ سے الگ اور تو مجھ سے الگ۔ انما امر ہم الی اللہ . ان (کی سزا اور بدلے) کا معاملہ اللہ ہی کے ذمہ ہے یعنی حق سے وہ جتنے دور ہوں گے اللہ اتنی ہی ان کو سزا دے گا۔ ثم ینبۂم بما کانوا یفعلون . پھر (قیامت کے دن) اللہ ان کو بتادے گا جو کچھ کرتے تھے یعنی پہلے ان کو دین میں پھوٹ ڈالنے اور بد اعتقاد ہونے کی سزا دی جائے گی پھر بداعمالی اور گناہ ہونے کی۔
Top