Tafseer-e-Mazhari - Al-Waaqia : 79
لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَؕ
لَّا يَمَسُّهٗٓ : نہیں چھوتے اس کو اِلَّا : مگر الْمُطَهَّرُوْنَ : مطہرین۔ پاکیزہ لوگ
اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں
اس کو بجز پاک ہستیوں (یعنی فرشتوں) کے اور کوئی نہیں چھوتا۔ لَا یَمَسُّہٗ : ہ ٗ ضمیر کتاب کی طرف راجع ہے کیونکہ لفظ کتاب ہی قریب ہے یعنی لوح محفوظ کو فرشتے ہی چھوتے ہیں جو جسمانی آلائشوں اور کدورتوں سے پاک ہیں ‘ جسمانی آلائشیں ہی اکثر گناہوں کا باعث ہوتی ہیں۔ یہ تفسیر پسندیدہ نہیں ہے کیونکہ جسمانی کدورتوں سے منقطع ہوجانا موجب فضیلت نہیں ہے ‘ نہ یہ کوئی فضیلت ہے ‘ نہ اس کو پاک ہونا کہا جاسکتا ہے۔ ورنہ انسان پر فرشتوں کی فضیلت لازم آئے گی جو اجماع علماء کے خلاف ہے بلکہ جسمانی کدورتیں ہی تو خالص تجلیات ذاتیہ کی حامل ہیں ‘ اسی لیے نبوت کے لیے انسان کو مخصوص کیا گیا ہے۔ صحیح تفسیر یہ ہے کہ لا یمسہٗ کی ضمیر (لوح محفوظ کی طرف راجع نہیں ہے بلکہ) قرآن کی طرف لوٹ رہی ہے اور نفی بمعنی ممانعت ہے یعنی قرآن کو نہیں چھوتے (مراد یہ کہ قرآن کو نہ چھوئیں) مگر وہی لوگ جو پاک ہوں ‘ بےوضو نہ ہوں اور قرآن یعنی کلام اللہ تو حقیقتاً چھونے کی چیز ہی نہیں ہے ‘ نہ اس کو چھوا جاسکتا ہے اسلئے قرآن سے مراد ہے یہی لکھی ہوئی کتاب جو ہمارے پاس ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ دشمن کے ملک میں قرآن کو لے جانے کی رسول اللہ ﷺ نے ممانعت فرما دی ہے (یعنی اسی مصحف کو جو ہمارے ہاتھوں میں ہے) ۔ (متفق علیہ) حضرت ابن عمر ؓ اس حدیث کے راوی ہیں۔ علماء کا اجماعی قول ہے کہ جُنُب (جس کو غسل کرنا واجب ہے) اور حائضہ اور نفساء اور بےوضو شخص کو قرآن کا چھونا جائز نہیں ہے۔ داؤد ظاہری کا قول اس کے خلاف ہے ‘ انہوں نے حضرت ابو سفیان ؓ کی اس روایت سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہرقل کو ایک خط لکھا جس میں آیت : یٰٓاَھُلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْٓا اِلٰی کَلِمَۃٍ... بھی لکھی ہے اور ظاہر ہے کہ ہرقل کافر تھا اور کافر (بحکم شریعت) نجس ہوتا ہے۔ ہم اسکے جواب میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت اس طور پر نہیں لکھی تھی کہ یہ قرآن کی آیت ہے بلکہ اللہ کے حکم کی تعمیل میں لکھی تھی اس لیے لفظ ” قل “ جو شروع آیت میں ہے ‘ آپ ﷺ نے نہیں لکھا اور اپنی جانب سے اہل کتاب کو خطاب کرتے ہوئے : یٰٓاَھُلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْٓا .... تحریر کیا اگر کلام اللہ ہونے کی حیثیت سے لکھتے تو لفظ ” قُل “ بھی لکھتے اس لفظ کو حذف کردینا جائز نہ ہوتا ‘ جیسا کہ نماز میں یا تلاوت کے وقت یہ آیت پڑھی جاتی ہے تو لفظ ” قل “ ضرور پڑھا جاتا تھا اور رسول اللہ بھی ضرور ہی پڑھتے تھے۔ ہمارے علماء اپنے قول کے استدلال میں حضرت عمرو کی روایت پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل یمن کو لکھ کر بھیجا تھا کہ قرآن کو بجز پاک آدمی کے اور کوئی نہ چھوئے۔ (رواہ الدارقطنی و رواہ الحاکم فی المعرفۃ والبیہقی فی الخلافیات) طبرانی نے حضرت حکیم بن حزام کی روایت سے بیان کیا ہے ‘ حکیم کہتے ہیں مجھے رسول اللہ ﷺ نے یمن کو بھیجا اور فرمایا تو قرآن کو اس حالت میں چھونا جب تو پاک ہو۔ یہ روایت صرف سوید بن حاتم کی سند سے آئی ہے اور سوید ضعیف ہے۔ اس موضوع کی حدیث حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے مرفوع بھی آئی ہے جس کو دارقطنی اور طبرانی نے بیان کیا ہے اور اس کی سند میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ مسئلہ اگر غلاف اور جز دان قرآن سے علیحدہ ہو (یعنی کتاب کے کور کی طرح چسپاں نہ ہو) تو اس کو پکڑ کر قرآن کا چھونا اور اٹھانا امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک جائز ہے۔ امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کہتے ہیں جز دان کو پکڑ کر اٹھانا بھی ناجائز ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے : اِنَّہٗ لِقُرْاٰٰنٌ کَرِیْمٌ : اور دوسری جگہ فرمایا ہے : فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ اور تکریم کا تقاضا ہے کہ غلاف کے ساتھ بھی کوئی بےوضو آدمی اس کو ہاتھ نہ لگائے۔ ہم کہتے ہیں کہ تکریم قرآن چاہتی ہے کہ بےوضو قرآن کو نہ چھوا جائے اور مَس کا اطلاق اسی وقت ہوتا ہے جب بغیر غلاف اور جز دان کے چھوا جائے اور بیچ میں کوئی پردہ اور حجاب نہ ہو۔ تکریم اتنی ہی ہونا چاہیے جو شرع سے ثابت ہو ‘ اس سے زیادہ محض تکلف ہے۔ مسئلہ آستین یا دامن سے قرآن کو پکڑنا ‘ بےوضو آدمی کے لیے مکروہ ہے کیونکہ یہ دونوں ہاتھ کے تابع ہیں۔ جس سکّے پر قرآن کی کوئی سورة لکھی ہو اسکو بغیر ہمیانی یا بٹوے کے چھونا ناجائز ہے کیونکہ جس پر قرآن لکھا جائے وہ مصحف ہوجاتا ہے مسئلہ اس آیت سے بدرجہ اولیٰ دلالتِ نص سے ثابت ہوتا ہے کہ جُنُب کے لیے قرآن پڑھنا جائز نہیں۔ اسی پر اجماع علماء ہے کیونکہ مصحف اس کو کہتے ہیں جس پر وہ نقوش و حروف لکھے ہوئے ہوں جو قرآن کے الفاظ پر دلالت کر رہے ہوں اور جب نقوش اور حروف کو بغیر طہارت کے چھونا ناجائز ہے تو الفاظ قرآن زبان پر لانا (اس شخص کے لیے جو طاہر نہ ہو) بدرجۂ اولیٰ ناجائز ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) :‘ امام شافعی (رح) اور امام احمد (رح) کے نزدیک حائضہ اور نفساء کا حکم جنت کی طرح ہے۔ امام مالک (رح) کے متعلق دو روایتیں آئیں ہیں۔ ایک روایت کے مطابق امام مالک (رح) کا قول یہ ہے کہ تھوڑی مختصر آیات حائضہ اور نفساء پڑھ سکتی ہے ‘ دوسری روایت جو امام مالک (رح) کے بیشتر شاگردوں نے بیان کی ہے یہ ہے کہ جتنا قرآن چاہے پڑھ سکتی ہے۔ داؤد ظاہر کا بھی یہی قول ہے۔ ہم نے جو اوپر دلیل ذکر کی ہے اس کی روشنی میں داؤد وغیرہ کا یہ مسلک غلط ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ کی بھی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نہ حائضہ قرآن کی کوئی چیز (یعنی کوئی آیت) پڑھے نہ جنابت والا۔ (رواہ الدارقطنی والترمذی و ابن ماجہ) اس حدیث کی سند میں ایک راوی اسماعیل بن عیاش ہے ‘ جو ضعیف ہے۔ بعض نے اس کو قوی کہا ہے ‘ اس کی متابعت مغیرہ بن عبدالرحمن اور ابو معشر بن موسیٰ بن عقبہ نے کی ہے۔ ابن جوزی نے مغیرہ کو ضعیف کہا ہے۔ حافظ ابن حجر نے کہا : ابن جوزی سے غلطی ہوئی کہ انہوں نے مغیرہ بن عبدالرحمن کو ضعیف کہا ہے۔ مغیرہ ثقہ تھے۔ ہاں ! مغیرہ کے طریق سند میں عبدالملک بن مسلم راوی ضعیف ہے۔ رہا ابومعشر تو وہ خود بھی ضعیف ہے اور ابو معشر کے طریق سند میں ایک راوی متہم ہے۔ ابومعشر کی روایت کا ایک شاہد ہے جس نے حضرت جابر کی روایت سے حدیث نقل کی ہے۔ دارقطنی نے اس کو مرفوعاً بیان کیا ہے ‘ اس کی روایت میں ایک راوی محمد بن فضل ہے ‘ جو متروک ہے۔ مسئلہ قیاس ظاہر چاہتا ہے کہ بےوضو آدمی کے لیے بھی قرآن پڑھنا ناجائز ہو (ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ بےوضو قرآن کو چھو نہیں سکتا اور جب نقوش و حروف کو چھو نہیں سکتا تو قرآن کے الفاظ کو زبان پر کیسے لاسکتا ہے) لیکن استحسان نے بےوضو کے لیے قرآن کی تلاوت کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ بےوضو ہونے کا اثر منہ کے اندر نہیں پہنچتا ‘ اسی لیے وضو میں کلی کرنا واجب نہیں ہے ‘ ہاں ! جنابت کا اثر منہ کے اندر تک پہنچتا ہے ‘ اس لیے غسل جنابت میں کلی کرنی واجب ہے۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ میں ایک رات اپنی خالہ امّ المؤمنین حضرت میمونہ ؓ کے گھر رہا۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی بی بی تو بستر کے طول میں سوئے اور میں عرض میں سو گیا۔ جب کچھ کم و بیش آدھی رات ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ بیدار ہوگئے اور اٹھ بیٹھے۔ اوّل آپ ﷺ نے چہرۂ مبارک سے نیند کا اثر (ہاتھوں سے) مل کر دور کیا۔ پھر سورة آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں ‘ اس کے بعد کھڑے ہو کر ایک معلّق مشکیزہ (کا دہانہ) کھول کر اس سے وضوء کیا ‘ الخ۔ (متفق علیہ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بغیر وضوء کے تلاوت آیات جائز ہے۔ حضرت علی ؓ بن ابی طالب کی حدیث ہے کہ سوائے جنابت کے رسول اللہ ﷺ کو تلاوت قرآن سے کوئی چیز مانع نہیں ہوتی تھی۔ (رواہ احمد و ابن خزیمہ و اصحاب السنن والحاکم و ابن الجارود و ابن السکن و عبدالحق و البغوی فی شرح السنۃ و صححہ الترمذی) مسئلہ بغوی نے لکھا ہے کہ محمد بن فضل نے کلبی کا قول نقل کیا کہ مطھرون سے مراد ہیں موحد۔ میں کہتا ہوں صوفیہ کی اصطلاح میں موحد اس شخص کو کہتے ہیں جس کا مقصود سوائے اللہ کے اور کوئی نہ ہو۔ حضرت مجدد نے فرمایا : جو تیرا مقصود ہے ‘ وہی تیرا معبود ہے کیونکہ مقصود حاصل کرنے کے لیے آدمی ہر ذلّت ‘ مشقت اور فروتنی کو برداشت کرتا ہے اور تعبد کا یہی معنی ہے (عبادت کہتے ہیں انتہائی فروتنی اور غایت تضرع کو) ۔ (بیضاوی) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تک کسی کی خواہشات اس (دین) کے تابع نہ ہوجائیں جو میں لایا ہوں اس وقت تک وہ مؤمن نہیں ہوسکتا۔ (رواہ النووی فی الاربعین) عکرمہ کا بیان ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ یہودیوں اور عیسائیوں کو قرآن پڑھنے کی اجازت دینے سے منع کرتے تھے۔ فراء نے کہا : آیت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی لذت اسی کو ملے گی جو اس پر ایمان لائے گا۔ اسی کی تائید میں حضرت مجدد نے فرمایا کہ نفس کو فنا کرنے اور بری خصلتوں سے پاک ہوجانے کے بغیر صوفی کو قرآن کی برکات حاصل نہیں ہوتیں۔ فنائے نفس سے پہلے قراءت قرآن کا شمار نیکیوں کے اعمال میں ضرور ہوتا ہے لیکن نفس و نفسانیات کے فناء اور آثار نفس کے بعد درجات قرب کی طرف ترقی قراءت ِ قرآن سے وابستہ ہے۔ اس زندگی میں بھی اور آخرت میں جنت کے اندر داخلہ کے بعد بھی جیسا کہ آیت : وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقَابِلِیْنَ میں آیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : صاحب قرآن سے کہا جاے گا قرآن پڑھ اور چڑھتا چلا جا اور ترتیل کے ساتھ پڑھ جیسا تو دنیا میں پڑھتا تھا ‘ تیرا درجہ اس آخری آیت کے پاس ہوگا جو تو پڑے گا۔ (رواہ الترمذی و احمد و ابوداؤد والنسائی من حدیث عبداللہ بن عمر ؓ
Top