Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 108
یَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَ لَا یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰهِ وَ هُوَ مَعَهُمْ اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰى مِنَ الْقَوْلِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطًا
يَّسْتَخْفُوْنَ : وہ چھپتے (شرماتے) ہیں مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ وَلَا : اور نہیں يَسْتَخْفُوْنَ : چھپتے (شرماتے) مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَھُوَ : حالانکہ وہ مَعَھُمْ : ان کے ساتھ اِذْ يُبَيِّتُوْنَ : جب راتوں کو مشورہ کرتے ہیں وہ مَا لَا : جو نہیں يَرْضٰى : پسند کرتا مِنَ : سے الْقَوْلِ : بات وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں مُحِيْطًا : احاطہ کیے (گھیرے) ہوئے
یہ لوگوں سے تو چھپتے ہیں اور خدا سے نہیں چھپتے حالانکہ جب وہ راتوں کو ایسی باتوں کے مشورے کیا کرتے ہیں جن کو وہ پسند نہیں کرتا ان کے ساتھ ہوا کرتا ہے اور خدا ان کے (تمام) کاموں پر احاطہ کئے ہوئے ہے
یستخفون من الناس (یعنی ابن ابیرق کی قوم والے لوگوں کی شرم اور رسوائی کے خوف کی وجہ سے) لوگوں سے تو چھپاتے ہیں۔ ولا یستخفون من اللہ اور اللہ سے نہیں چھپا سکتے یا یہ مطلب کہ اللہ سے نہیں شرماتے سب سے زیادہ مستحق تو اللہ ہی ہے کہ اس سے شرم کی جائے اور اس کے سامنے رسوا ہونے کا خوف کیا جائے۔ (1) [ ابن حمید اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن مسعود ؓ کا قول موقوفاً نقل کیا ہے کہ جو شخص لوگوں کے سامنے تو نماز پڑھتا ہے اور خلوت میں وہ نماز نہیں پڑھتا تو یہ استہانت ہے۔ وہ اس فعل سے اللہ کی توہین کرتا ہے۔ یہ فرمانے کے بعد حضرت ابن مسعود ؓ نے یہ آیت یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلاَ یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰہِ وَہُوَ مَعَہُمْ تلاوت فرمائی۔] وہو معہم حالانکہ وہ اس وقت ان کے پاس ہوتا ہے یعنی اللہ سے ان کا کوئی راز پوشیدہ نہیں اور سوائے اس کے کوئی چارۂ کار نہیں کہ جو فعل اللہ کو ناپسند اور قابل مواخذہ ہے اس کو ترک کردیا جائے۔ اذ یبیتون ما لا یرضی من القول جب کہ وہ اللہ کی مرضی کے خلاف گفتگو کے متعلق تدبیریں کرتے ہیں۔ یعنی رات کو آپس میں ملاقاتیں کرتے ہیں اور جو باتیں اللہ کو ناپسند ہیں ان کو بناتے اور گھڑتے اور مشورہ میں طے کرتے ہیں۔ تبییت کے معنی کی تشریح آیت بَیَّتَ طائفۃ الخ میں گزر چکی ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ صورت یہ ہوئی تھی کہ طعمہ کی قوم والوں نے آپس میں یہ طے کیا تھا کہ معاملہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا جائے چونکہ طعمہ مسلمان ہے اس لئے حضور ﷺ اس کے قول قسم کا اعتبار کرلیں گے اور یہودی چونکہ کافر ہے اس لئے اس کی بات نہیں سنی جائے گی۔ اللہ نے قوم طعمہ کے اس مشورہ کو پسند نہیں فرمایا۔ وکان اللہ بما یعملون محیطا اور اللہ ان کے سب اعمال کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے یعنی اللہ (ان کے علم وقدرت) سے کوئی چیز نہیں چھوٹ سکتی۔
Top