Tafseer-e-Mazhari - Al-Furqaan : 40
وَ لَقَدْ اَتَوْا عَلَى الْقَرْیَةِ الَّتِیْۤ اُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ١ؕ اَفَلَمْ یَكُوْنُوْا یَرَوْنَهَا١ۚ بَلْ كَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ نُشُوْرًا
وَلَقَدْ اَتَوْا : اور تحقیق وہ آئے عَلَي : پر الْقَرْيَةِ : بستی الَّتِيْٓ : وہ جس پر اُمْطِرَتْ : برسائی گئی مَطَرَ السَّوْءِ : بری بارش اَفَلَمْ يَكُوْنُوْا : تو کیا وہ نہ تھے يَرَوْنَهَا : اس کو دیکھتے بَلْ : بلکہ كَانُوْا لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے نُشُوْرًا : جی اٹھنا
اور یہ کافر اس بستی پر بھی گزر چکے ہیں جس پر بری طرح کا مینہ برسایا گیا تھا۔ کیا وہ اس کو دیکھتے نہ ہوں گے۔ بلکہ ان کو (مرنے کے بعد) جی اُٹھنے کی امید ہی نہیں تھی۔
ولقد اتوا علی القریۃ التی امطرت مطرا السوء اور بلاشبہ وہ (مکہ والے) اس بستی کی طرف سے گزرے ہیں جن پر بری بارش کردی گئی تھی۔ یعنی بہت سے مکہ کے باشندے ملک شام کو جاتے آتے ہیں اس بستی پر سے گزرے ہیں جس پر بری بارش کی گئی تھی۔ الْقَرْیَۃِسے مراد ہے سدوم کا شہر اور اس سے تعلق رکھنے والی دوسری بستیاں جہاں قوم لوط رہتی تھی اور امرد پرستی جیسی خبیث حرکتوں میں مبتلا تھی۔ اللہ نے ان پر پتھروں کی بارش کرکے تاخت و تاراج کردیا۔ سب اہل مکہ تو نہیں گئے تھے لیکن بعض کے فعل کو (جبکہ دوسرے سب لوگ اس فعل پر راضی ہوں) سب کا فعل کہہ دیا جاتا ہے جیسے آیت فَکَذَّبُوْہُ فَفَقَعُرْوہا میں اونٹنی کو قتل کرنے کی نسبت پوری قوم ثمود کی طرف کی گئی ہے۔ بغوی نے لکھا ہے قوم لوط کی بستیاں پانچ ہیں ‘ اللہ نے ان میں سے چار کو تباہ کردیا اور ایک بستی جو چھوٹی سی بچ گئی تھی اس بستی کے رہنے والے خبیث حرکات میں مبتلا نہ تھے۔ ملک شام کو جاتے ہوئے یہ بستیاں سر راہ پڑتی تھیں۔ افلم یکونوا یرونہا کیا یہ اس بستی کو نہیں دیکھا کرتے۔ یہ استفہام انکاری ہے اور نفی کا انکار ‘ اثبات ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اس بستی کو دیکھا کرتے ہیں۔ پھر اس سے عبرت کیوں حاصل نہیں کرتے۔ بل کانوا لا یرجعون نشورا بلکہ ان کو (دوبارہ جی) اٹھنے کی امید ہی نہیں ہے۔ یعنی ان کے نصیحت پذیر اور نصیحت اندوز ہونے کی یہ وجہ نہیں کہ انہوں نے اس تباہ شدہ بستی کو آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دل نابینا ہیں ‘ دوبارہ جی اٹھنے کی ان کو توقع ہی نہیں ہے ان کو انجام آخرت کی امید ہی نہیں ہے اور مؤمنوں کو ثواب کی امید ہے۔ یا آیت میں رجاء بر لغت تہامہ بمعنئ خوف ہے ‘ یعنی دوبارہ جی اٹھنے کا ان کو کوئی اندیشہ نہیں ہے۔
Top